دانیال طریر بلو چستان کے ادب میں وہ تناور نام ہے جس کے بغیر بلوچستانی ادب مکمل نہیں کہلایا جا سکتا۔ادب انہیں ورثے میں ملا۔ بڑے بڑے نام ا ور ادبی شخصیات کے ساتھ خونی رشتہ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی الگ پہچان بنائی۔توارث کا یہ قانون ہے کہ وراثتی صلاحیتیں اگلی نسل میں منتقل ضرور ہوتی ہیں لیکن چنداں گھٹ کر ،لیکن دانیال طریر کے ساتھ یہ معا ملہ الٹ نظر آتا ہے۔وہ نہ صرف اپنے ادبی گھرانے کے حقیقی وارث ثابت ہوئے بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے ہی بڑھ گئے۔ اور اس میں ان کے گھرانے کا توارثی حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی شخصیت کے اکتسابی مزاج کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ ادب ان کے خون میں شامل تھا لیکن انھوں نے اپنی سوچ اور فکر سے اس ادب کو مزید نکھار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ دانیال طریر نے جو بھی لکھا وہ نتھرا ہوا ادب ہے۔ قاری تک پہنچتے پہنچتے وہ ادب قطع و برید اور نقد و نظر کے کئی مراحل سے گزر کر آیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانیال طریر کی شاعری اور تنقید دونوں الہامی سے زیادہ اکتسابی نظر آتے ہیں۔ شعر و ادب کا سار امعاملہ دل سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اردو ادب میں چند بڑے نام ایسے ہیں جنہوں نے شاعری کو دماغ عطا کیا اور اگر میں یہ کہوں کہ بلوچستان میں ایسی ایک شخصیت دانیال طریر کی ہے تو یہ بے جانہ نہیں ہوگا۔
وہ ایک بیدار مغز شاعر اور ادیب ہیں۔ اور اردو میں ہمیں ایسے ادیب بہت ہی کم نظر آئیں گے۔ انہوں نے چھوٹی سی عمر میں جس طرح ادب کی ماہیت کو سمجھا اس پر حیرت ہوتی ہے۔
ان کی کتاب "معانی فانی” نظر سے گزری۔ اس کتاب میں مجھے جو ثنویت؍تکونیت نظر آئی وہ شاعر کے موضوعاتی حس، فکری احاطے کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیئت میں فنی تجربات کا احاطہ شامل ہیں۔ "معانی فانی” عصرِ حاضر کے حالات و واقعات کے تناظر میں انسانی بے بسی اور فکری عاجزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شعرا ہمیشہ سے زمانے کے نباض رہے ہیں لیکن جس طرح دانیال طریر نے عصرِ حاضر کے تلخ اور دل دہلادینے والے عوامل کو موضوعِ نظم بنایا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔ اس ذیل میں انہوں نے جو شاہکار نظمیں لکھیں ہیں ان میں "اسطورہ، Dog & ?،الرجی، جیو جنگل، اندھیرا ہے خدا، نظم بازی کے گْر، برائے فروخت، عجائب، تابوت سازکا احتجاج، اک اور اندھا کباڑی، حال استقبال، موج ہے دریا میں، نظام زادہ اورقاشیں شامل ہیں۔ یہ نظمیں بلاشبہ عصری دور کی ناآسودگیوں کانوحہ ہیں جہاں فرد نہ صرف اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے بلکہ ایک ایسی ناواقف و ناآشنا ہ بے حسی کی گھاٹی میں زینہ بہ زینہ اتر رہا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہیں۔ ایسے وحشی دور میں زندگی گزارنافرد پہ کتنا بھاری ہے۔ دانیال طریر نے اس گرانی کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اپنے لفظوں میں بھی عمدگی سے ڈھالا ہے۔ ان کی ایک نظم "برائے فروخت” اس عہد کے تناظر میں لکھی گئی ایک شاہکار نظم ہے جس میں عصرِ حاضر کی بے حسی اور رشتوں کی بے وقعتی پر گہرا طنز ملتا ہے۔
جانے کس زمانے سے
اس زماں میں آئے ہو
یہ جہاں نہیں صاحب
تم دکاں میں آئے ہو
("برائے فروخت”)
بلا شبہ وقت اور زمانے کی بے رحمی نے ہر چیز کی قیمت لگانی شروع کردی ہے اور وقت کے نام نہاد خداؤں نے اس خوبصورت دنیا کو ایک غلیظ دکان سے زیادہ کچھ نہ چھوڑا جہاں جذبات و احساسات، دین و وایمان سے لے کر زندگی اور خوں تک کی قیمت لگتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک نظم "الرجی” انسانی بے مائیگی اور انسان کے اپنے ہم زادوں سے لے کر دوسری مخلوقات تک انسانی ظلم کے خوف کے بڑھتے ہوئے سایوں کے حوالے سے ایک بہترین مثال ہے۔ وہ انسان جو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز تھا، اس کی عظمت گھٹ کر اتنی رہ گئی ہے کہ انسانوں کے ساتھ دوسری مخلوقات بھی اب ان سے ڈر نے لگی ہیں۔
آدم زادکی بو آئی ہے
آدم زاد کی بو سے میرا دم گھٹتا ہے
جلدی بھیجو دیر ہوئی تو خونی وحشی
جاگ اٹھے گا
جاگ اٹھا تو جس جس بستی سے گزرے گا
موت لکھے گا
"الرجی”
اور اب انسانی کاتب نے موت لکھنا شروع کردیا ہے۔ اب یہ کاتب کس قدر خطرناک بن گیا ہے ،دانیال طریر کو اس کا پورا ادراک ہے۔ یہ وہی دماغ ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔ بلاشبہ یہ وقت جذباتی شاعری کا نہیں، گل و بلبل کے ترانے دہرانے کا نہیں۔ ہم جس نازک دور میں جی رہے ہیں اس میں سوچ اور فہم کی بڑی اہمیت ہے اور ایسی فکر جو ہمیں کسی منزل تک پہنچانے کے لیے جرسِ کارواں کا کام کرے، ایسی سوچ کو فروغ دینا اور سرہانا ہمارا فرض ہے۔
"آدھی آتما” سے "معانی فانی” تک کا مرحلہ دانیال طریر نے بڑی مہارت سے طے کیا ہے۔ ان کی نظمیں” اے وحشتِ دل کیا کروں، اْمید کی تردید، ہماری ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہیں، سنگِ بنیاد اور ایک سب آگ ایک سب پانی یہ "آدھی آتما” کا تسلسل ہیں اور ان نظموں میں منیرنیازی اور میراجی کا رنگ ملتا ہے۔ لیکن ان نظموں کے علاوہ دیگر تمام نظمیں بالکل ہی الگ مزاج کی حامل نظر آتی ہیں جو خالصتاً دانیال طریر کا رنگ ہے۔ موضوعاتی اعتبار سے جہاں ان کی شاعری نے فرد سے اجتماع کی طرف سفر کیا ہے۔ سیاسی و سماجی اور اخلاقی موضوعات کے ساتھ ان کے ہاں فلسفۂ جبر و قدر کا موضوع بھی نظر آتا ہے۔ حالانکہ اس موضوع کی کڑیاں فرد کی اس بے حسی اور بے بسی سے جڑی ہوئی ہیں جن کا سامنا آج کے فرد کو ہے۔لیکن شاعر کے نزدیک عصری دباؤ کے ساتھ ساتھ انسان کی ازلی بے بسی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس ذیل میں ان کی نظمیں "کتھار سس”، "آئینے سے مکالمہ”، "جبر کا اختیار”، "ناممکنہ رسائی” اور "میں نفی میں” بہترین نمونہ ہیں۔ ان نظموں میں شاعر نے ایسے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو فکر کے نئے دریچے وا کرتے ہیں۔
سب سے آخر میں میں بات کروں گی ان کے فن پہ اور ہیئت کے ان تجربوں پہ جس کا ذکر مضمون کے ابتدا میں ملتا ہے۔ چونکہ "معانی فانی” میں موضوعات اہم اور متنوع ہیں لہٰذا قاری کا دھیان آسانی سے فنی ہئیتوں کی طرف نہیں جائے گا جو اس کتاب کی خوبصورتی کا جز و لانیفک ہیں۔ یوں تو نظم کی صنف میں ہیئت کے تجربے بہت ہوتے رہے ہیں لیکن مجھے اس کتاب کی ہر نظم نے ضرور چونکا دیا ہے۔ اس پوری کتاب میں شاعر نے اپنے تخیل کی بلند پروازی کے باوجود نظم کی بْنت، وحدت تاثر اور ہئیتوں کا خاص خیال رکھا ہے۔ "معانی فانی” پڑھ کر مجھے مجید امجد کی یاد آگئی جن کے ہاں ہر ہیئت میں نظمیں ملتی ہیں۔ دانیال طریر نے جہاں آزاد نظم کو آزاد اور پابند نظم کو پابند رکھا ہے وہاں انہی پابندیوں اور فنی قدغنوں کے باوجود انہوں نے جدید نظم میں ہیئت کے حوالے سے جو نئے تجربے کیے ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں۔ اس ذیل میں ان کی نظمیں” نظم بازی کے گْر، آئینے سے مکالمہ، ۴/۳ ، عجائب، اشکبار استعارے، ثروت حسین کے لیے، رموزِ اوقاف کی نظم اور کولاژ” بہتریں مثالیں ہیں۔ مجید امجد کی طرح دانیال طریر نے نظم کی تمام مروجہ اور متروکہ اصناف کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے جو قابلِ تحسین ہے۔ ان کی نظمیں پڑھ کربلاشبہ جدت کی مہک آتی ہے۔ انہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر شاعری میں نئے خیالات کے چلن کو فروغ دے کر نظم کے حسن کو دوبالا کردیا ہے۔ جہاں انھوں نے علامتی انداز اپنایا ہے وہاں انہوں نے کہیں کہیں ایسے مصرعے بھی کہہ ڈالے ہیں جو اردو شاعری میں پہلے کہیں نظر نہیں آئے جیسے ان کی نظموں سے چند مثالیں دیکھ لیجیے:
"رات سونگھتی جائے” ("شامہ نامہ”)
"رات کا سونگھنا” یہ ترکیب اردو شاعری میں شاید کہیں پہلے استعمال ہوئی ہو اور اس سونگھنے کے عمل سے نظم کا عنوان ” شامہ نامہ” اخذ کیا گیا جو ایک کمال بخوبی کا متقاضی ہے۔
"پرندے خون کی اْلٹی کریں گے” ("حالِ استقبال”)
"تپ رہی ہیں وہاں ان دنوں سردیاں” ("موج ہے دریا میں”)
"وہ زخم جو خواب کے بدن پر کبھی لگا تھا” ("ابر نا آلودہ موسم میں”)
"روشنی پورے کمرے میں بہنے لگی ہے” (” کولاژ”)
"روشنی کا بہنا” اس کے علاوہ ایک دو نظمیں ایسی ہیں جو اردو نظم میں کلاسیک کا درجہ حاصل کرسکتی ہیں جن میں ایک نظم ہے "پینترہ باز” یہ نظم موضوع اور فن ہر دولحاظ سے ایک شاہکار نظم ہے جس میں شاعر ابتدا میں کہتا ہے:
کھیل
تیرے پاس تو الفاظ ہیں
تو جانتا ہے
حرف سے حرفوں کا میل
بیلنے پر رکھ تخیل کے
نئی اک نظم بیل
"نظم کا بیلنا” ایسی تراکیب آپ کو اردو شاعری میں کہیں نہیں ملے گی۔ اسی نظم میں آگے چل کر کہتے ہیں:
وہ دن جا چکے
جب حرف کی حرمت بھی ہوتی تھی
نئی ہر نظم کی وقعت بھی ہوتی تھی ("پینترہ باز”)
اسی طرح ایک نظم ہے ” عدم تسلسل کی خواہش” جس میں کہا جا رہا ہے کہ :
"سنو! یہ چاپ سنتے ہو
اندھیرا چل رہا ہے”
اندھیرا کا چلنا کیا ہی عمدہ ترکیب ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نظم کی خوبصورت بات اس کا علامتی اوراستفہامیہ انداز ہے۔ اب یہاں اندھیرے سے کیا مراد ہے؟ آگے چل کر شاعر کہتا ہے:
مجھے اِک سانس لینا ہے
جو کہ ایک جینے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے
آگے:
گھٹن میں نظم چلتی ہے
سوال یہ اٹھتا ہے کہ گھٹن میں نظم کیسے چلتی ہے؟ اور یہاں نظم سے مرادصنفِ نظم ہی ہے یا نظم زندگی، ترتیب و آہنگِ زندگی؟ آگے چل کر شاعر نظم کا اختتام کچھ یوں کرتا ہے:
سنو! میں چاپ سنتا ہوں
سماعت چاپ سننا آخر بند کیوں نہیں کرتی
سماعت کیوں نہیں مرتی
شاعر سماعت کو کیوں مارنا چاہتا ہے؟ اس کے لیے سماعت کا عمل اتنا تکلیف دہ کیوں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو شاعر نے جان بوجھ کے قاری کے سامنے رکھے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا قاری محض شاعرانہ حظ نہ اْٹھائے بلکہ اس کی سوچنے کی استعداد پہ بھی اک تازیانہ ہو۔ اس کے علاوہ چند مزید خوبصورت مثالیں بھی موجود ہیں جیسے:
"ہڈیوں میں بھی معنی کے رنگ آگئے ہیں”
("لفظ ازم”)
کوئی سمجھے تو یہ وقت کے شاعر کا سب سے بڑا نوحہ ہے کہ اب جب کہ اسے یہ آگہی مل گئی ہے کہ حرف کی حرمت ختم ہوگئی ہے۔ نظم کی وقعت نہیں رہی پھر بھی وہ حرف
حرف جوڑتا ہے اور نظم لکھتا ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور نظم ” لایعنیت کا انکار” اس کا حوالہ بھی اسی ذیل میں دیا جاسکتا ہے۔
بلاشبہ "معانی فانی” کی نظمیں پڑھ کر یہ احساسِ قوت پکڑ گیا ہے کہ اردو نظم اب بھی زندہ ہے اور اسے دور تلک جانا ہے۔ اور اس میں دانیال طریر کی نظموں کا حصہ کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے