اے جانِ طلسمات کوئی جاگ رہا ہے
آہستہ کرو بات کوئی جاگ رہا ہے

پوروں سے جلاتا ہے ستارے وہ فلک پر
کرتا ہے کرامات کوئی جاگ رہا ہے

کس غم میں اُسے نیند نہ آئی نہ کبھی اونگھ
کیوں ہیں یہ روایات کوئی جاگ رہا ہے

اس درد کی حدت کو ذرا اور بڑھا دے
اے سرد سیاہ رات کوئی جاگ رہا ہے

شیشہ نہ پٹخ شور نہ کرسانی گلی میں
اے رندِ خرابات کوئی جاگ رہا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے