شام کا مشاعرہ بھی بلوچی کا ممتاز سکالر،اے آردادہی کنڈکٹ کررہا تھا۔ سیاحت میں، سربراہ اچھا ہو تو مناظر تو مزیدحسین ہوں گے ہی۔ اور یہاں تو شاعر نہیں شاہِ یار موجود تھے۔ لفظ اورلے کا مالک منیر مومن تھا، قافیہ ردیف سے محبت کرنے والی شہناز نور تھی۔حروف و ہجہ اور زیروزبر کا ہیڈ ماسٹر علی عیسیٰ تھا، شعور و شاعری کو سنگم عطا کرنے والے عمران ثاقب اوربہادر علی گوہر تھے، سحر و شعروحسن و ادائیگی کی ھداوند نوشین قمبرانی تھی، محبت کی خفیہ گیری کو ڈانگ مارنے اور اسے طشت ازکوہِ باثیل کرنے والی بہت اچھی شاعرہ سعدیہ بلوچ تھی،توصیف چین شاعرزبیرمختاراوروحید نورتھے شعر کے فن سے آشنا کے بی فراق، ظہیر ظرف،آصف شفیق، عبداللہ عابد، پھلان عمر، مجیب مجاہد، آصف شفیق ۔۔۔۔۔۔ کتنوں کا نام لوں۔اور کس ترتیب سے لوں کہ فیوڈل ازم کے پروردہ ذہنوں نے شاعروں کو ’’ پہلے اور بعد میں‘‘ پڑھانے کے معاملے کو بھی ’’جنگِ گوخ پروش ‘‘بنا رکھا ہے۔مشاعرے میں ’’ ماما‘‘ کہنے والی میری سٹوڈنٹ ڈاکٹر عظمیٰ قادری بھی موجود تھی۔ وہ تربت میں ہوتی ہے۔ اس لیے کوئٹہ میں ہم بہت عرصے سے اُس کی ’’ فکر میں بہت توانا‘‘ شاعری سننے سے محروم رہے۔کیا غضب کا سنانے کا طرز ہے میری اِس بچی کا!۔ اس کی شاعری سن کر کون ایسا بوڑھا ہوگا جو خود کو متحرک اور توانا سیاسی ورکر محسوس نہیں کرے گا۔
مشاعرے کے چبوترے پر مجھے فضل خالق موجود نہ ملا ۔جوانی بھرپور تھی تو وہ خود کو ’’ پزل ہالک‘‘ لکھتا تھا ۔ اب تو خیر وہ بہت عاقل و جہاندیدہ ہوچکا ہے۔بغیر کسی خاص وجہ کے مجھے ڈاکٹر فضل خالق اچھا لگتا ہے۔
سنگت اکیڈمی کا بس ضیا شفیع ہی اوپر چبوترے تک پہنچ سکا ۔ میں اور جیند خان تومہد اور لحد کے مالک کی طرف سے عاشقی کے اٹوٹ ساتھی ، یعنی شاعری کی صلاحیت سے محروم رکھے گئے تھے۔
اس مشاعرے میں خوبصورت بلوچی اور اردو دونوں زبانیں شامل تھیں۔یہ ایک ’’مہذب ترین مشاعرہ ‘‘اس لیے تھا کہ اس میں ہال کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ وا ہ واہ ، مکرر وغیرہ سب اوپر سٹیج پر شاعر خود آپس میں بانٹ رہے تھے ۔بلوچ معاشرے میں مشاعرہ تو ابھی حال میں در آیا ہے۔ اس لیے واہ واہ اور مکرر اتنا زیادہ مقبول نہیں ہیں۔
جس بات کا دکھ ہوا وہ یہ ہے کہ اس پورے مشاعرے میں ہماری اپنی اصناف میں ایک مصرع تک نہ کہا گیا تھا۔ہم اے آر داد سے تحریری شکایت کررہے ہیں ، کہ وہی ہمارا مستقبل ہے۔ اُسے ہی احیائے نو کرنا ہوگا بلوچی کی اپنی اصناف میں شاعری کرنے کا، شاعری کرانے کا۔ لیلڑی، ڈیہی، دستانغ ، زہیرونک ، لیلی مور ، لیکو۔۔۔۔۔۔ ہم ایک گلستان رکھتے ہیں اصناف کا !!۔
*****
لیاری کی پروین بے شمار انسانی دکھ ( ذاتی، خاندانی، معاشرتی) اپنے سینے میں بھگت اور رکھ کر انسانوں کی بہبو د کے لیے کام کرتی رہتی ہے۔ ایک ہاتھ میں کئی خربوز لیے ہانپ کانپ کام میں جتی رہتی ہے ۔وہ تو خود بھی بہت اچھی بچی ہے، اُس پہ یہ کہ وہ نور محمد شیخ کے لیاری کی ہے ، لعل بخش رند کے لیاری کی ہے۔ بلند قامت انسانوں کے علاقے میں پیدا ہونا ہی بلند توقعات وابستہ کرا دیتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ اس بار نوجوانوں کا ایک ڈرامہ گروپ لیاری سے ساتھ لائی تھی ۔ باصلاحیت نو عمربلوچ ڈرامہ آرٹسٹس۔ عورت کے مسائل و حقوق پہ مبنی اُن کا پیش کردہ ڈرامہ بلوچ معاشرے بالخصوص کراچی کے بلوچ معاشرے کا خوب عکاس تھا۔
*****
اِس بار ہم نے بہت برس بعد بخشی ہو ٹل پھر دیکھا:گوادر، بخشی ہوٹل۔ بخشی ہوٹل ، گوادر۔خود تو ہمارا بل نگوئر کا سرخ و سفید اور گپ شپی وہ دوست اب حیات نہ تھا، مگر اُس کی نشانیاں باقی تھیں۔ اور نشانیوں کوہونہار بیٹے اور داماد جس قدر بھی سنبھال رکھیں، نشانیاں تو نشانیاں رہتی ہیں۔ اب میں دوستوں کی محفل میں بیٹھے اپنے دل کو چھیڑ رہا تھا کہ گوادر کے میلوں میں گوادر کے ’’مری ہر دم یاد کرتے رہیں گے کہ ارے آج مست نہیں ہے ، مست کی شاعری کے ریلے نہیں ہیں‘‘۔ بخشی تم بہت یاد آئے، امیر الدین تم بہت یاد آئے ۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا آپ اچھا لگاکہ میں اپنے یاروں کو بھولا نہ تھا ۔۔۔۔یادیں تو صرف’’ انسان ‘‘کے ساتھ ہوتی ہیں ناں!!
وہیں بخشی ہوٹل میں رات کو دوستوں نے موسیقی کا پروگرام منعقد کرایا،بہت محظوظ ہوئے۔ دوستوں کی طرف سے دوستوں کو بخشا احترام چکھا۔ خلوص میں خالص ، مقدارسخاوت کی ہم پلہ، تناول بہت ہی حسبِ استطاعت ۔ کبھی نواسے پوتے ہنسیں گے کہ ’’اُس‘‘ نے کوئٹہ سے گوادر جاکر جیئند کوڈاچی کے دودھ کا انتظام کرنے کو کہا، جیئند نے ضیاکو ، ضیا نے عابد کو، عابدنے بجار کو، بجار نے گلزار کو ، گلزار نے دکاندار کو ۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دوست سیروں اور کلوگراموں کے حساب سے کچلانگل کررہے تھے اور کچھ بیچارے چھ فیصد والے نیم کڑوے بادام کے محض ایک ہی دانے سے مغز کو پر مغز بناتے جارہے تھے۔کسی کسی نے تو پورا تاکستان گود میں لے رکھا تھا ۔ اُس پلنگ پہ دیکھو ایک دوست بیٹھا غور و فکر میں مصروف ہے ، اِدھر دوسرا مینڈھے پہ مینڈھا خیرات کرتا جارہا ہے، وہاں فلاں کا دست ، اُس کا صفایا کرنے کے بعد اسے جامِ سفال ( ایش ٹرے) بنا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اورترسیل ؟۔ وہ تو جیسے گاؤں کی تقریب میں اجتماع کے لیے رکھے گھڑے پر مسیحائی ہاتھ لگاہو، پورا گاؤں پی جائے، گھڑا کے اندر سیال کی سطح وہیں کی وہیں رہے۔میرا یار جان بلیدی ، پیر سُہری کے دربار کا پاک پوترمجاور بنا مجھ سے ملنے آیا تھا۔ ساتھ میں ایک اور گواہ ،گلاب بلوچ کو لایا تھا۔ شریف آدمی نے احباب کی سنجیدگی اور محنت کے بارے میں سن رکھا تھا ۔اِدھر سرشاعرِشیراز کی ذائقے کی چیز دیکھ کر اُس نے کتنے زور سے کہا ہوگا’’ یہ بھی تو ہمارے جیسے ہیں‘‘۔
تفکر کے نان سٹاپ پراسیس پہ شاہ لطیف کے جوگیوں کا کالا لباس ڈالے رہنے کے بعد جب بحال ہوئے تو بخشی ہوٹل کے لان میں اصغر بلوچ کی موسیقی کا انتظام ہوچکا تھا۔ وہ آر سی ڈی سی سکول میں استاد ہے ۔ گاتا رہا ، سناتا رہا۔ میں نے جب غور سے محفل کا جائزہ لیا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہم بلوچستان میں تھے۔ زُہد و تقوی کے معانی بدل ڈالنے والے خالص بلوچستان میں ۔ الحمد للہ ہم فکری طور پر آلودہ شدہ کوئٹہ میں نہیں ،ابھی تک خالص بلوچ وطن گوادر میں تھے۔ مجھے اپنا بلوچ ہونا اچھا لگا۔
خاصا وقت گزرنے نے، اور خنکی نے ، سمندر کی گود میں بیٹھے ہمارے شعوروجسم کا مطلع صاف کردیا تھا۔ تب پروین کی اطلاع اور ہماری فرمائش نما اجازت سے لیاری کے دو نوجوان، استاد بن کر ساز و زیمل کی محفل پر باقاعدہ چھا گئے۔ ایسا لگاجیسے شانتی نکیتن یہاں آچکا تھا، جیسے شوپین سویرکا نغمہ بجا رہا ہو۔ مجھے ارباب خان کھوسو کے یہ بچے فخر کے سلیمان تخت پر بٹھا چکے تھے۔ یہ دو بچے عادل مراد اور عاصم مراد گارہے تھے او ر،بہرام و گوۂرام نامی دو بچے ہماری خدمت کررہے تھے۔ جیتے رہو۔
اگلے روز ہم کوہِ باثیل پر تھے۔ اُسے ،اور اُس کے ایک پاؤں کے نیچے موجودآبِ حیات، اور دوسرے پیر کے نیچے موجودخاکِ وطن کو خدا حافظ کہنے ۔کوہِ باثیل تو دنیا میں مٹی اور پانی کا بٹوارہ کرتا ہے۔ ایک طرف بلوچستان کی وسیع زمین ہے جو یہاں سے جھنگ و جیکب آباد و چاہ بہار تک پھیلی ہوئی ہے اور دوسری طرف بے انت پانی ہے جو نیل اور سرخ اور کالا پانی سے جا ملتاہے۔ تصویریں، تبصرے، قہقہے۔ ۔۔۔۔۔۔انسان کے بنا نہ سمندر نہ خشکی نہ باثیل نہ گوادر ، نہ ماوند نہ مکہ۔
ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا، سورج کے شہر سے سورج طلوع ہونے کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔۔۔۔ہم نے گوادر کوالوداع کہا۔