تبدیلی آنے میں اتنا وقت کیوں لگتاہے؟ جو تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھکتے نہیں تھے وہ آج خود کیوں تبدیل ہو گئے؟ کیا تبدیلی کے لیے جو راستہ انہوں نے چنا وہ غلط تھا؟ وہ لوگ توقعات پر پورا اترنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟ پھر سوال اٹھتا ہے کیا تبدیلی خود بخود آجاتی ہے یا اس تبدیلی کے لیے خود کو کسی راستے پر ڈالنا پڑتا ہے؟ کیا تبدیلی کے لیے صرف تبدیلی کی راہ دیکھنا کافی ہے؟ ملا کو مسجد میں تبدیلی کا نعرہ لگاتے سنا، سیاستدان کو انقلاب کا نعرہ لگاتے سنا، جج کو منصف ہونے کا دعویدار ہوتے دیکھ لیا۔ میڈیا کو معاشرتی سدھار کی صدا لگاتے دیکھا۔۔۔۔ نعرہ لگانے والے تو توانا ہوتے گئے مگر معاشرے میں تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دکھائی نہیں دیئے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جہاں نئے مسائل نے جنم لیا وہیں معاشرے کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے کئی دعویدار بھی سامنے آئے۔ ہر دعویدار کے پاس اپنا منجن اور اپنا چورن تھا، ایک آیا اور اپنی دکان بڑھا کر چلتا بنا اور اس کی جگہ دوسرا آ گیا۔ ان کے آنے جانے نے ہمیں کئی راستوں کا مسافر بنا دیا، ایسا بھٹکا ہو امسافر جسے شاید ہی کوئی منزل نصیب ہو۔ عوام خود ایک بہت بڑی طاقت تھے مگر مختلف قومیتوں، علاقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ اجتماعی مفادات کو دفنا کر انہیں انفرادی مفادات کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ منافقت، عداوت، بغض اور موقع پرستی کی سیاست رائج ہو گئی۔ پورے ملک میں سینکڑوں سیاسی جماعتیں اگ آئیں۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے مختلف ایجنڈے آزمائے گئے ہر ایک نے اپنے جھنڈے تلے تفریق پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہی وجہ ہے کہ پوری قوم ریوڑوں کی طرح ہانکی جاتی رہی۔ اس نے کبھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی، کبھی جستجو کا جوہر نہیں آزمایا، یہ نہیں جانا کہ کاروان کا رخ کہاں ہے اور ہمارا انجام کیا ہوگا۔ بس ہم چلتے گئے۔
پوری قوم کی مثال اس مجرم کی سی ہے جسے بادشاہ نے پیشکش کی کہ سو کوڑے کھاؤ گے یا سو پیاز۔ مجرم کبھی پیاز کھاتا گیا تو کبھی کوڑے۔ حتیٰ کہ سو کوڑے بھی کھا گیا اور سو کلو پیاز بھی کھا گیا۔
معاشرے میں بہتری کیوں نہیں آتی یا معاشرہ تبدیل ہونے کا نام کیوں نہیں لیتا۔ معاشرتی بے حسی ماپنے کے لیے بہت سی تنظیمیں منظر عام پر آ گئیں۔ شعور و آگاہی پر زور دینے کے لیے پروگرام منعقد کیے جانے لگے۔ یہ پروگرام اتنے بڑھ گئے کہ ان پروگراموں کو سننے کے لیے جب سامع میسر نہیں آئے تو کرسیوں پر پراسرار روحوں کو قابض کیا گیا۔ پھر بولنے کے لیے لمبی تقاریر کرنے والے مقررین کو مدعو کیا گیا۔ روحیں خوب محظوظ ہوئیں۔ مقررین خوب بولتے گئے۔ فوٹو سیشن کا سلسلہ چل نکلا۔تماشے لگتے رہے اور تماشائی بنتے گئے۔چلتے جنازے میں روح پھونکنے کے لیے سیلفیوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔۔۔ بس پھر کیا تھا، پھر سیلفی ہی وقت کا تقاضا بن گئی، شہرت حاصل کرنی ہے تو معروف افراد کے ساتھ سیلفی بنوا کر اس بھیڑ میں شامل ہو جاو۔ معاشرہ سیلفیوں کے سہارے زندہ رہنے کا نیا ڈھنگ سیکھنے لگاہے۔ اب تیری سیلفی میری سیلفی۔ بینا کی سیلفی بخشو کی سیلفی کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ایک مرتبہ پھر معاشرہ مصروف دکھائی دینے لگا۔ جس کے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے اس نے اوورکوٹ کے نوجوان کی مانند بیش قیمت موبائل خرید کر یا لوٹ کر اپنے آپ کو اس دوڑ میں شامل رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔
سماج سدھار کے لیے میڈیا بھی پیچھے نہ رہا۔ عوام کو محظوظ کرنے کے لیے بریکنگ نیوز کا مجرا شروع کیا گیا۔ معاشرہ چیختا رہا چلاتا رہا، خبریں اپنے ہوش و حواس میں یہ کہہ کہہ کر دم توڑ گئیں کہ ہم وجود رکھتی ہیں لیکن کیمرے نے ان کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کیا۔ میڈیا ورکرز کو دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دو کرتے ہوئے دیکھا جبکہ میڈیا مالکان کو شاہ خرچ اور عیاش پرست ہوتے دیکھا۔ معاشرے کو سسکتے ہوئے دیکھا۔ جس کو نہ ملی درد کی دوا اس کی تعزیت کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتے دیکھا۔ سماج کو عجیب ڈھنگوں میں سجتے، سنورتے اور بکھرتے دیکھا۔ میرے الفاظ بس میرے اندر گمشدہ ستاروں کی طرح گردش کرتے رہے۔ خود کو بت بنتے دیکھا۔ سماج کو مرتے دیکھا۔ اس کی لاش اٹھاتے دیکھا۔ جنازے میں شرکاء کو ہنستے اور تبصرے کرتے سنا۔۔۔۔
تبدیلی کا نعرہ سیاستدانوں نے لگایا، افسر شاہی نے لگایا، ملا نے لگایا، سماج کے ٹھیکداروں نے لگایا۔۔۔۔ معاشرہ کیوں نہیں بدلا اور کیوں بدلنے کا نام نہیں لیتا؟
دراصل آج تک تبدیلی کے جو نعرے لگائے گئے اس میں بہت کشش تھی لیکن کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔ عام آدمی نے تبدیلی چاہی تو سیاستدانوں کے روپ میں بھانت بھانت کے رہنما میدان میں آگئے، سماجی ادارے وجود میں آگئے، ٹھیکداری نظام متعارف کرایا گیا، میڈیا بھی آگیا لیکن معاشرہ آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ غریب اپنی بھوک و افلاس کا رونا روتا رہا۔ اور وہ تھے کہ یہ سمجھاتے رہے اور پروگرام پر پروگرام کرتے رہے کہ بھوک کھانے سے نہیں باتوں سے مٹتی ہے۔ بھوکا آدمی اپنی بھوک باتیں سنتے سنتے مٹاتا رہا۔ اور صاحبان ثروت بلندیاں طے کرتے گئے اور منزلیں پاتے گئے۔ قلم اور کاغذ ان کے احسانات کے بوجھ تلے اتنے دب گئے کہ نہ قلم رہا نہ سیاہی رہی اور نہ ہی کاغذ رہا۔۔ پھر انسانوں کی چیخیں فضاؤں میں گونجنے لگیں، منصف میدانوں میں کود گئے، ترازو قائم کیا گیا مگر ترازو کبھی جھک گیا تو کبھی بک گیا۔
آج سماج متزلزل ہوچکا ہے۔ ہر طرف دیوانگی کے آثار ہیں۔ سماج اپنی بساط پر ہی پٹ گیا ہے۔ ہم ہر ایک کو گلے لگاتے ہیں، رونے کی کوشش کرتے ہیں سسکیاں بھرتے ہیں، دم گھٹنے لگتا ہے۔۔۔۔ نہ جانے کب سانس نکل جائے اور ہم لاش بن جائیں۔۔۔ نئی نسلیں اٹھیں گی اس پر بین کرتی ہوئی، تماشے لگاتی ہوئی کیوں کہ اب یہاں مردے کو دفنایا نہیں جاتا اس کے ساتھ سیلفیاں لی جاتی ہیں، پھر نئی راہیں تلاش کی جاتی ہیں اور سمتیں مختلف رہتی ہیں۔ دل تو چاہتا ہے مرنے سے پہلے میں بھی تبدیلی کا نعرہ لگاؤں لیکن رات کافی ہو چکی ہے۔ گہری نیند اور خراٹوں کی آواز سے میرا یہ نعرہ کہیں گم نہ ہوجائے۔