’’دارووا لا، آئی ! دارو
دارو والا ،آئی !دارو
گل گدر اَو بو مادران ‘‘
کو چہ کو چہ بھٹک رہی تھی
ایک آواز ، تھکی ، ٹو ٹی
بو سیدہ کپڑوں میں ڈھانپے
اپنے بجھتے پنجر کو
گہری سرداد اسی لے کر
اپنی مسکی چادر میں
مایو سی کے دریا ؤں سی
چہرے کی جھریاں
بھو کے پیٹ کی چغلی کھاتی
دوبھو ڑھی اکھیا ں
آنسو ں اُن سے چھلک نہ پا ئیں
ایسی منزلِ جاں
بچو ں نے کیا پہنا ہو گا
پیوند اور دھجیاں
سوچتے سوچتے گم ہو جا ئیں
لفظو ں کی کنجیاں
ہر ایک دروازے پہ رکتی ،
تکتی دیر تلک
شاید یہ لے لیں درماں
ہو جیون کچھ آساں
پیہن پھلی ، خرین آدارو
گل گدر یا بو ئے مادران
عہد سے کٹ کر جینے والے فاقہ رنگ یہ جسم
فراٹے بھرتی دنیا میں رہ گئے لنگ یہ جسم
وقت کی ضر بو ں نے کر ڈالا ان کو نیلوں نیل
آج کے دن ہے آنکھ رہی ان کے غم کی زنبیل

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے