وقت نے جب سے جنم لیا ہے
تب ہی سے سب کو لاحق ہے
لمحے گننے کی بیماری
ہر پل بس گھڑیال سواری
دوڑ دھوپ بھاگم بھاگی میں
خود سے نہ ملنے کی فرصت
نہ ہی ٹہراؤ سے سنگت
نہ خاموشی سننے کی مہلت
لفظوں کے اوسان خطا سے
بے چینی ، باتوں میں عجلت
سنجیدہ چہروں پہ طے ہے
موزوں پل ہنسنے کی ساعت
سمے سُوئی نے سب کو دے دی
وقفوں میں جینے کی عادت
جنگل میں جب بھی جا کر مَیں
ٹکڑوں میں یہ بکھری بُدّھی
چُن چُن یکجا کر کے دیکھوں
آدھے پن کی اُنگلی سے پھر
روح کو اک چونٹی دوں سوچوں
وقت سے پہلے کا انساں بھی
کتنا پورا ہوتا ہوگا!