رژنا کے نام
مری آنکھوں نے دیکھے ہیں
وہ دلکش موسموں کے خوشنما منظر
عطا کی نظم کی مانند
کسی انجان سیارے سے میرے شہر کے
سینے پہ اترے تھے۔
میں اُس رومانوی دنیا کی خواب آور
ہواؤں کی نمی،
کیسے تمہیں محسوس کروا پاؤں گی رژنا،
بتاؤنگی تمہیں کیا ؟
کون تھے ہم ، مہر کے بچے؟،
کہاں کی خاک تھے،
کس درد کی تحریک کا حصہ تھے،
کن آنکھوں کا سپنا تھے؟
مرے چہرے پہ اب پرچھائیاں ہیں
ان خلاؤں کی
مکان و لا مکاں کے بیچ جو
اوندھی پڑی ہیں
نیند میں کچھ بڑبڑاتی ہیں۔
تمہارے واسطے
زادِ سفر میں پیش کرتی ہوں
اندھیری رات میں مدھم سی پیلی روشنی،
کچے مکاں میں پھیلتی دیکھو،
یا ’’ سر کلیان‘‘ کے سندھو کو اپنے سامنے پاؤ،
یا چرواہوں کے ’’لیکو‘‘سن کے جب دُھننے لگو سر کو،
یا تمبو میں مزارِ عاشقِ سمو کی تِشنہ خاک پہ بیٹھو،
یا پھر احساس کی جمنا کے بھی اُس پار
ساحر اور امرتا کی نظموں کی
حسیں پگڈنڈیوں پہ تم رکو پل کو
تو پھر چُھو پاؤ گی شاید
ہواؤں کی نمی کو، درد کو ، بے خود خلاؤں کو
سمجھ میں آئے گی منطق
ازل سے بے کراں پھیلی محبت کے سفر میں
شوق سے لٹنے لٹانے کی۔
میں یہ آنکھیں تمہارے نام کرتی ہوں
کہ تم بھی درد کی تحریک کا انمول حصہ ہو۔
زمیں کے رنگ، مہرِ جاویداں
آزادیوں، آبادیوں کی جُہد تم سے ہے۔
مگر پھربھی اجازت ہے تمہیں
انکار کردینا
اٹھانا مت مرے خوابوں کے خستہ بار کو
تم اپنے کاندھوں پر !
مگر یہ یاد رکھنا تم تہی داماں نہیں رژنا
سفر کی گرد بھی اور حسن کا یہ مہرباں
رستہ تمہارا ہے۔
محبت کا عظیم و لازوال و بے پناہ ورثہ
تمہارا ہے۔
(رژنا، نوشین کی بیٹی)