سمے کے سمندر کی سیپی میں سیتا
سلگتے ہوئے خوف کی سرخ چادر میں یوں چھپ رہی ہے
کہ جیسے دشاؤں میں
پاگل ہواؤں میں
راون ہی راون ابھرنے لگے ہوں
دہکنے لگے ہوں ہوس کی انگھیٹی میں انگار بن کر
بھڑکنے لگے ہوں درندوں کی صورت
لپکنے لگے ہوں وہ سیتا کے اس پاک دامن کی جانب
کہ جس پر فقط ایک سجدے کو پانے کی خواہش
کبھی رام کو تھی
مگر آج ڈرتی ہوئی ایک سیتا
سمے کے سمندر کی سیپی میں چھپ کر
کسے سوچتی ہے؟
کسے کھوجتی ہے؟