میرے ہمدم
میرا دل بھی یہ چاہتا ہے
کہ میں بھی
جگنوؤں کی روشنی میں رات کو دیکھوں
صبا کے سنگ لہراؤں ،
خوشبوؤں کے قافلوں کو کھلے دل سے میں اپناؤں
تمھارا نام لکھوں ہاتھ پہ
مخمور ہوجاؤں
نہ رہ پاؤں تمھارے بن
بہت مجبور ہو جاؤں
تمھارا ساتھ پاؤں
اور پھرمغرور ہوجاؤں
تری بانہوں کے حلقے میں کروں آرام
تھکن سے چور ہو جاؤں۔۔
مگر میں کیا کروں یارم
مجھے بھی فیض کا وجداں
سکوں کرنے نہیں دیتا
مجھے بھی عشق کرنا ہے
اور تھوڑا کام بھی جاناں
مجھے بھی تلخئی حالات سے ہارے ہوئے لوگوں کو سننا ہے
اِنہی لوگوں میں جینا ہے
اِنہی لوگوں میں مرنا ہے
تمہیں میٹھے لبوں اور ذائقوں سے شغف ہے جندم
مگر حالات کی کوفہ گری نے
مجھے کڑوا ہی کر ڈالا
نگاہ میٹھی رہی نہ ملاحت کا کوئی بھی رنگ چہرے پر
میرے ہمدم
محبت کے سوا بھی دکھ بہت ہیں میرے سینے میں
تمہیں ہونٹوں کے شیریں لمس کی خواہش ستاتی ہے
اور مجھے لوگوں (جو میرے لوگ ہیں جاناں جوتیرے لوگ ہیں جاناں )
کی زندگی میں رس کو واپس ڈھونڈ نے کی آس کچھ کرنے نہیں دیتی
مجھے بے رنگ لہجوں کو بہت رنگیں کرنا ہے
کہ کھارے پانیوں سے تلخ چہروں
پر حلاوت بن کے چھاناہے
خوشی اور زندگی جو روٹھ بیٹھی تھی کسی لمحے
اسے واپس بلانا ہے
تری آنکھوں میں دنیا ہے
مگر دنیا جو اِن سے ہٹ کے بستی ہے
اسے جینا سکھانا ہے
مرا تم ساتھ دو ہمدم
مرے ہمزاد گر تم ہو
تو دنیا روشنی اور جگنوؤں کا گھر بنا جائیں
محبت کا نیا اک ڈھنگ دنیا کو سکھا جائیں ۔۔۔۔