دوستو رات کے دامن میں سحر ہے کہ نہیں
پوچھتا ہوں یہ سلاسِل کا سفر ہے کہ نہیں
رستہ چپ چاپ سا اور منزلیں بھی نا معلوم
اس کٹھن راستے پہ کوئی خضر ہے کہ نہیں
کارواں تو سبھی ہوئے جاتے ہیں صحرا بُرد
خاک کیا کہتی ہے اس کی بھی خبر ہے کہ نہیں
دوست دشمن ہیں یہاں ایک گروہ کی صورت
منفرد تجھ میں بھی رہنے کا ہنر ہے کہ نہیں
آ ئینے ٹوٹ چکے ہیں اور ہیں طرفین بھی گم
جلوہ گر حسن کی صورت بھی مگر ہے کہ نہیں
میر ی تشکیل سا معدوم ہے چہرہ میرا
تم ہی کہو میرے ماحضر کی خبر ہے کہ نہیں
چھوڑو شکوے گلے اور حسرتیں بھی رہنے دو
بس بتلاؤ کہ آ نکھوں میں بھنور ہے کہ نہیں
ابرو گیسو بھی ۔ لب و رخسار بھی تراشے میں نے
کیا غزل میں انہی باتوں کا ہنر ہے کہ نہیں