اپنے جذبوں کی وہ تصویرمیں واپس لوں گا
اپنے خوابوں کی وہ تعبیر میں واپس لوں گا
اپنے افکار کی جاگیرمیں واپس لوں گا
اپنے الفاظ کی توقیر میں واپس لوں گا
تم نے چھینی ہے جو پابند سلاسل کرکے
اپنی دستارِ جہاں گیر میں واپس لو ں گا
تم نے دی ہے مجھے جس جُرم صداقت کی سزا
اسے ہر جُرم کی تعزیر میں واپس لوں گا
تم نے لوٹے میرے ہونٹوں کو لگا کر تالے
میری نظمیں ۔ میرے تقریر، میں واپس لوں گا
ڈال کر طوق بغاوت کے میری گردن میں
تم نے چھینی ہے جو تحریر میں واپس لوں گا
تم نے رکھا ہے فصیلوں میں چھپا کر جس کو
غاصبو تم سے وہ تنویر میں واپس لوں گا
جس نے ویرانے چمن زارِ وفا میں بدلے
تم سے اُس خون کی تاثیر میں واپس لوں گا
میں نے کل تم کو سنائے تھے جُنوں کے قصے
اپنے فردا کی وہ تفسیرمیں واپس لوں گا
چھین رکھے ہیں جو تم نے میرے لہجے کے …!
وہ کماں تم سے ۔وہ تیر میں واپس لوں گا
میں بھی ضدی ہوں بہت اپنی انّا میں نجمی ؔ ۔!!
اپنی چھینی ہوئی تقدیر میں واپس لوں گا۔!!