بھئی اب تو وہ جو کہتے ہیں نا کہ سر سے پانی گذر گیا،یا حد ہوگئی یا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا،بس ایسی ہی صورتِ حال در آئی تو نیا فرمان بھی اُتر آیا۔صبح صبح سب جاگے تو اک اک فرمان سبھی کے گھر کے صحن میں پڑا تھا۔چونکہ عربی میں تھا لہذاٰعربی جاننے کے لئے مولوی صاحب کی جانب سبھی دوڑے آئے۔
مولوی صاحب خود بھی جائے نماز پر بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھے،عربی کا لکھا ہوا اک پیراگراف اس کے بس کی بات نہ تھی،کیونکہ قرآن بنا ترجمے کے پڑھتے رہے ،داڑھی سفید،آنکھیں کمزور،عقل مفقود ہو چکی تھی،سو یہی فیصلہ ہوا کہ سکول کے عربی کے استاد سے مدد لی جائے ان کا گھر قریب ہی تھا سبھی دوڑے وہاں آئے زیادہ ہلچل نہ ہوتی اگر کسی اک گھر سے فرمان ملتا،مگر یہاں تو جو بھی جاگا صحن میں اک فرمان گرا ہوا ملا،سب پریشان بھی تھے،خیر ماسٹر صاحب کے ہاں آئے تو وہ پھولوں کو پانی دے رہے تھے،وہ روز صبح پانی دے کر سکول جاتے تھے مگر آج اتوار تھا لہذاٰ کیاری سے پُرانے پتے،بیکار جڑی بوٹیاں ،اضافی شاخوں کی تراش خراش بھی کر رہے تھے،اک گروہ کو آتے دیکھ کر پریشان ہوئے اور سوچنے لگے میں نے ہفتہ کو کس بچے کی اُنگلیاں پینسل میں دبا کر مروڑی تھیں ؟یا کس بچے کے پچھواڑے کالا ڈانڈا برسایا تھا،ڈانڈا بھی ہاتھ کی میل سے خاصا ریشمی ہو چکا تھا،اکثر ہاتھ سے ہی پھسل جاتا تھا۔
لیکن گروہ جب ماسٹر صاحب کے قریب آیا تو ان سب کے ہاتھ میں کاغذ دیکھ کر ماسٹر صاحب مسکرا پڑے اور پھر اک دم سنجیدہ ہوگئے اور بولے کیا آپ سب کے گھر یہ فرمان آیا؟سبھی یک زبان ہو کر بولے جی ماسٹر صاحب ،سب کے ہی گھر یہ کاغذ آیا ہے ،کیا یہ فرمان ہے؟ کس کا ہے؟ ماسٹر صاحب بولے تم اور بھی لوگوں کو بُلا لو تو بہتر ہے،میں اسے کسی کی شرارت سمجھ کر چپ تھا،تم سب مسجد کے احاطے میں جمع ہو جاؤ،میں کپڑے تبدیل کر کے وہیں آرہا ہوں ۔گروہ تیزی سے پلٹا اور حیران پریشان سب کو گھر وں سے نکال کر مسجد کے کُھلے میدان کے احاطے میں جمع کرنے لگا اک گھنٹے تک ماسٹر صاحب آگئے،چہرے پر انتہائی فکر کے آثار نمایاں تھے،آتے ہی گویا ہوئے صاحبو! یہ فرمان جانے کس کا ہے مگر اس فرمان کو پڑھنے سے پہلے چند اشعار علامہ اقبال کے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ،جو انہوں نے جوابِ شکوہ میں درج کیے ہیں :
منفعت ایک ہے اس قوم کی،نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی،ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی،اللہ بھی،قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اس کے علاوہ جوابِ شکوہ کا یہ بند بھی سُن لیں ،ماسٹر صاحب پھر علامہ اقبال کے اشعار پڑھنے لگے
شور ہے ہوگئے دُنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصاریٰ،تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں ! جہنیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو،مرزا بھی ہو،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
آخری مصرعہ سُن کر کچھ کے سر شرم سے جھُک گئے کچھ دوسروں کو خار والی نگاہ سے دیکھ کر یہ باور کروانے کی کوشش کرنے لگے کہ دیکھ لو خدا نے تمہارے لیے کہا ہے بے غیرتو! کچھ شرمندگی چھپانے کے لئے ” ہاں ” کے اقرار جیسے سر ہلانے لگے۔ ساتھ ہی بے شک ،بے شک کا ورد کرنے لگے،اور کچھ مزید شرمندگی مٹانے کے لئے آسمان کی جانب مصرعہ بمع بند اُچھالنے کی کوشش کرنے کے لئے آسمان کی جانب دیکھنے لگے،انگڑائی لینے لگے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ بند ان کے لئے نہیں ،بلکہ ساتھ والوں کے لئے کہا گیا ہے ،ہم تو شروع سے امن پسند ہیں ۔ماسٹر صاحب نے پھر کہا کہ آپ کو پتہ ہے علامہ اقبال نے مزید کیا کہا؟میں چند بند پڑھوں گا تاکہ آپ کو فرمان جاری ہونے کا پسِ منظر بھی پتہ چلے۔
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے،نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
مولوی صاحب بلند آواز کہنے لگے کیوں نہیں ،کیوں نہیں ،الحمداللہ مسلمان ہیں ،میں خود اک ماہ میں دوبار قرآن پاک ختم کرتا ہوں ،اس بات پر اک آدمی مولوی صاحب کی بات کاٹ کر بولا،اڑے جاؤ ڑے جھوٹ مت بولو،تم کو آج یہ فرمان لا کر دیا تو تم بولے کہ ہم کو سمجھ نہیں آتا ،تم قرآن عربی کا ترجمہ نہیں کر سکتا،اور بات کرتا ہے ،چاہے تم روز قرآن ختم کرو،کوئی فائدہ نہیں ،اس بات پر مولوی صاحب باریک کُرتے کے گریبان سے باہر نکلنے لگے،ارے کیسی باتیں کرتے ہو،تم خود کو دیکھو تم میں کس قدر مسلمانی رہ گئی ہے؟ مذہب کا کچھ پتہ نہیں ،کلمے آتے نہیں ،اور چلے ہمیں سمجھانے۔۔
ماسٹر صاحب نے بحث مباحثے سے بچنے کے لئے بلند آواز کہا کہ بھئی یہ آخری اشعار سنو اور پھر فرمان کا ترجمہ کرنے لگا ہوں ،سب ہی اک دم خاموش ہوگئے اور ماسٹر صاحب کی جانب دیکھنے لگے۔
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تیری
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تیری
ماسوا! اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تیری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تیری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
سب پر سکوت طاری تھا۔آخری اشعار نے بہت زیادہ اثر کیا۔ماسٹر صاحب خود بھی رو پڑے اور پھر کہنے لگے۔ ان اشعار سے جو اثر ہوا نہیں ہوا اس سے قطعِ نظر یہ فرمان زیادہ تشویش کا باعث ہے اس میں لکھا ہے کہ ۔
” آج کے بعد کوئی ایک زبان کا فرد یا افراد کسی بھی دوسری زبان کے فرد یا افراد سے لین دین کاروبار، حتیٰ کے بات چیت تک نہیں کریں گے۔اس طرح ایک قوم کا فرد دوسرے سے، ایک ذات کا شخص دوسری ذات والے سے ، ایک نسل کا شخص دوسری نسل کے فرد سے ، ایک رنگت کا فرد دوسری رنگت کے فرد سے ایک مذہب کا شخص دوسرے مذہب کے فرد سے ایک فرقے کا فر دوسرے فرقے کے فرد سے مکمل قطعِ تعلق کرے گاحتیٰ کے ایک لفظ بھی آپس میں بولا گیا تو نتائج اچھے نہ ہونگے۔ لین دین، کاروبار سب کچھ ختم۔ خود ضرورت کی اشیا ء بناو ۔ کسی دوسری نسل رنگت زبان قوم ذات فرقہ مذہب کے فرد سے ذرا بھی مدد لی اُسی وقت جان سے جائے گا۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے دوسرے مذاہب قوم، نسل ، رنگت، ذات، فرقہ کی خواتین سے شادی کی وہ فوری طور پر طلاق دیں، کسی نے بھی کوئی چیز کسی بھی قوم ملک ، مذہب ، زبان ، ذات، رنگت ، نسل ، فرقہ، کے افراد کی استعمال کی وہ بھی فوری طور پر ہلاک ہو جائے گا۔ آج کے دو دن بعد اس پر سخت عمل درآمد ضروری ہے اس کے بعد کوئی آرڈر نہیں صرف موت آئے گی۔ ”
سب پر سکتہ طاری ہو گیا۔ کئی لمحے خاموشی کے گذرے پھر جیسے سب ہی کو ہوش آگیا اور دوڑے اپنے اپنے گھروں سے روپیہ پیسہ اٹھانے ، سب نے سب سے پہلے ذخیرہ خوراک کا بندوبست کیا پانی وغیرہ جمع کرنے کی تگ ودود کی ۔
ماسٹر صاحب دل گرفتہ ہو کر گھر آئے اور چارپائی پر لیٹ گئے ان کی بیگم دوسری زبان کی تھی جو بار بار اپنے شوہر کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کے لیے چوری چوری ان کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اور دل ہی دل میں سخت پریشان تھی۔کیوں کہ اسے ماسٹر سے بے انتہا محبت تھی اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہ تھا۔اور ایک بیٹی دونوں کی محبت کی نشانی حیرت سے امی ابا کو دیکھ کر اداس تھی۔ ماسٹر صاحب نے ٹی وی لگایا بر یکینگ نیوز میں پتہ چلا یہ فرمان تمام ملک کے علاوہ تمام دنیاکے ایک ایک گھر میں ملا ہے۔ غیر ممالک کے سربراہ دو دن کے مختصر نوٹس پر ہنگامی اجلاس بلا کر اس پر غور و فکر کر رہے تھے یہ کس کی کارستانی ہے۔ کوئی ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، کس کی چال ہے۔اس کا پس منظر ، وجوہات ، حقائق ، اثراندزی کے خطرات ، اسباب پر غور وفکر کرنے تجزیہ نگار ، ماہرین ، حتیٰ کہ نجومی جوتشی والے بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔
کسی کو کوئی بھی ذرا سا اندازہ نہ ہوسکا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ مگر اپنے ملک سمیت تمام ممالک نے تجارتی سامان کی لین دین بند کردی۔ دوسرے مذاہب، ممالک سے اپنا پنا سامان اٹھا لیا مگر دو دن انتہائی مختصر اور کم تھے سارے دنیامیں بھونچال آیا ہوا تھا۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔
دو دن کے بعد ٹی وی ،ریڈیو کی نشریات اچانک بند ہوگئیں حتیٰ کی کمپوٹر ،نیٹ،موبائل کے سگنل بھی غائب ہوگئے،جو غیر ملک میں پردیسی تھے وہ ہنگامی صورتِ حال میں اپنے اپنے ملکوں میں پہنچ گئے۔
کچھ لوگوں نے غلطی سے اور کچھ نے محض آزمانے کی خاطر غیر مذہب،غیر زبان ،غیر نسل،غیر رنگ،غیر قوم،غیر ذات،غیر فرقے کے لوگوں سے بات چیت کی پہلے ہی جُملے کے بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔اب کسی کو مارنے مرنے پر تُلے رہنے کے بجائے سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔اک قوم جو دوسری قوم کی صدیوں سے دُشمن تھی ،آپس میں گالی گلوچ ،مار دھاڑ،قتل و غارت جیسی حرکات آئے دن کرتی تھی اب تک ایک دوسرے کی جانب دیکھنے سے بھی ڈرتی تھی کی مبادا ہلاکت نہ ہو جائے۔،اک فرقے دوسرے فرقے کے لئے بیانات داغتا تھا وہ سلسلہ بھی بند ہوا،ہر کسی کو اپنے اپنے فرقوں کے اور واردات کا ہوش تک نہ رہا،اپنے اپنے مذہب کے دائرے میں رہ کر عبادت میں مشغول ہوگئے،سکول بند ہو گئے،اسپتال میں کسی دوسری زبان کے ڈاکٹر سے علاج کروانا مشکل ہو گیا،فرمان اس قدر سخت تھا کہ اگر زبان ایک ہے اور ذاتیں مختلف ہیں تب بھی بات چیت بند ہے ،کئی خواتین عدت میں آگیءں ،اپنے اپنے گھروں کی تباہی کے بعد شوہر حضرات پر نفسیاتی دورے پڑنے لگے،اپنے اپنے بچوں کو سختی سے گھروں میں قید کر دیا گیا کیونکہ بچہ تو بچہ ہوتا ہے،اُس کے نزدیک مذہب،ذات ،رنگت ،قومیت،فرقہ ،نسل کے بجائے صرف محبت،چاہت دوست کی اہمیت ہے اور اسی بنیاد پر وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں ۔ہوائی جہاز،ٹرین کے ساتھ ساتھ سب ٹرانسپورٹ ،ذاتی ٹرنسپورٹ بھی بند ہو گئی،اول تو کوئی کہیں آ جا نہیں رہا اور اگر جائے بھی تو پیٹرول،درآمدی اشیاء کے طور پر استعمال کرنے پر موت ہی مل سکتی تھی۔
ماسٹر صاحب بیوی کو طلاق دینے کے بعد چارپائی سے جا لگے،جن لوگوں نے طلاق نہ دی وہ اگلے دن میاں ،بیوی موت کا شکار ہو گئے۔
فرمان میںیہ بھی لکھا تھا کہ کسی دوسری زبان ،قوم ،مذہب ،نسل ،ذات ،فرقے کے فرد کتاب رسالہ حتیٰ کہ کوئی تحریر نہ پڑھی جائے ورنہ انجام موت ہے،جو لوگ مطالعے کے شوقین تھے وہ سخت متوحش ہوئے ،سب کتابیں بیکار ہوگئیں ،انتہا کی بوریت نے بہت سے لوگوں کو بیمار کر دیا،سب اپنے اپنے مذہب کی کتاب تک محدود ہو گئے،وہ مسلمان جو قرآن کو سارا سال ہاتھ نہیں لگاتے تھے باقاعدگی سے قرآن بمع ترجمہ پڑنے لگے ۔جو لوگ غیر ملک میں پھنس گئے آ نہ سکے،اُن کی اشیاء خورد نوش ختم ہوئی،وہ بھی بھوکے پیاسے ختم ہو گئے، جو لوگ دوسرے صوبے یا دوسری زبان کے بیچ میں رہ رہے تھے ان کی زبان خاموش رہ رہ کر تالو سے جا چپکی،کئی ماہرین اپنی اپنی سوچ میں غرق تھے کہ یہ کس نے آرڈر دیا ہے؟لگتا ہے کوئی غیر مرئی مخلوق ہے یا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہے،جو ہم لوگوں کی منحوس قسم کی نفرت دیکھ کر یہ قدم اُٹھا رہا ہے،اللہ تعالیٰ نے تو قرآن پاک کے بعد کسی بھی قسم کی کتاب حتٰی کہ صحیفہ تک نازل نہ کرنے کا وعدہ کیا ،نہ ہی کوئی نبی،رسول بھیجنے کا عندیہ دیا،یہ کون ہے؟ کون ہے جو اس قدر سختی سے یہ پابندی لگا رہا ہے،کسی مذہب کا بندہ ہو سکتا نہیں ،نہ ہی کسی زبان کا،کیونکہ وہ خود بھی مرے گا اگر قطع تعلق کرے گا،پھر اک ہی دن میں سارے ملک کے گھر گھر میں یہ آرڈر کا آجانا ،غیر معمولی بات ہے،اک بندے کا کام نہیں ،پھر؟؟؟؟؟؟؟؟ْ
کئی یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ اچھا ہی ہوا،یہی ہونا تھا ،ہم لوگوں نے منحوسیت بھی تو بہت زیادہ پھیلا دی تھی،ایک دوسرے کو مارنا ہم لوگوں کا مشغلہ بن گیا تھا،فرقہ روایت فسادات ،نسلی فسادات،سیاسی رنجش،مادری زبانوں پر دُشمنی،مذہبی دُشمنی ،قوم کی دُشمنی،سالوں سال بات چیت بند،کوئی ایک بندہ بھی ڈھنگ کی زندگی نہیں گزار رہا تھایہی ہونا تھا،جیسا منہ،ویسا تھپڑ،یہی علاج ہے ہم جیسے ناشکروں کا، باہر ممالک کی بھی تعلیم ایک طرف،نفرت ایک طرف ۔لعنت ہے سب کی تعلیم پر،سوچ پر۔عقل پر۔
موسم گرمیوں کا تھا،اور اس موسم میں گندم کی کاشت نہیں ،فصل کی کٹائی تھی،جس جس کا کھیت تھا اس نے فصل کاٹی اور گودام میں رکھ دی،بیچے تو بیچے کہاں ؟؟
اسی طرح پھل،سبزیاں مارکیٹ تک لانے کی کسی کی ہمت نہ رہی،مزدور ہم زبان نہیں ،ہم قوم نہیں ،سو کون لے کون کھائے،کھیتوں سے سبزیاں ،باغوں سے پھل اُتارنے کی دل چسپی ختم ہو گئی،جانوروں کی عیش ہوگئی،چلتے پھرتے کھا پی رہے ،آپس میں ہنس بول رہے۔پرندے آپس میں چہچہا رہے ،حتیٰ کہ حشرات الارض بھی اک دوسرے کے ساتھ آ جا رہے ،کسی پر پابندی نہیں ،اور پابندی ہو بھی تو کیوں ہو؟یہ کونسے فرقوں ،ذاتوں ،نسلوں ،زبانوں میں بٹے ہوئے ہیں ،یہ کونسا نفرت کرتے ہیں ؟انسان تو انسانیت سے بھی گر گیا ہے ،کارخانے ،ملیں ،فیکٹریاں سب بند ہو گئے،مزدور دوسری نسل یا زبان کے ہیں ،مالک کس طرح کام لے،اور اگر لے بھی تو بجلی ،گیس اپنی پیدا کردہ نہیں ،کارخانے چلے کیسے؟ اگر چل بھی جائے تو جو کپڑا ،دوائی ،خوراک بنائے وہ بیچے کہاں؟خریدے کون ؟لہذاٰ خود پر بڑی ساری لعنت بھیج کر مالکانِ کارخانہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے،اگر کوئی باہر نکل بھی آئے تو پاس سے اگر خونی دُشمن بھی گذرے تو اس کی جانب آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا،کیونکہ ذرا سا خار بازی سے نوبت بات چیت ،گالی گلوچ پر آتی اور اُدھر موت آکر دبوچ لے گی،کسی کو مارنے مرنے،دہشت گردی ،فسادات بم بلاسٹ جیسے مکروہ سوچ والی باتیں اب کسی کے ذہن میں ہی نہیں آرہی،دوسرے کو مارنے کا سوچا تو خود مارے جائیں گے،کیا فائدہ دُشمنی مول لینے کا؟ زندگی انتہائی کم ہو گئی،دل چسپی ختم،سکون ختم۔
جس شخض کا ذرا صحن بڑا تھا وہ خود زمین ہموار کر کے گندم بونے کی کوشش کر رہا تھا،اور کسی کے پاس زمین تو تھی مگر گندم کے بیج کسی دوسری زبان کے فرد سے کیسے لے؟یہ سوال مارے دے رہا تھا،اک زبان کے اگر اکھٹے ہو بھی جائیں اور مل کر کوئی اپنے لیے بنیادی سہولت پیدا کر بھی لیں تو اک زبان کے اندر قومیت،ذاتوں کی تقسیم اور حتیٰ کہ فرقے بندیوں نے مزید تقسیم در تقسیم کیا ہوا تھا،بندہ بات کرے تو کس سے کرے؟؟
اسی دوران آنے والی معمولی اور خطرناک بیماری نے رہے سہے ہوش ہی اُڑا دئیے،ڈاکٹر کون ہے؟کس زبان کا ہے؟اچھا اچھا ہماری زبان کا ہے؟واہ جی واہ مزے ہوگئے،مگر یہ تو فلاں فلاں ذات کا ہے،افوہ ،بھاگو ،دوڑو،بات نہ کرو،ڈاکٹر بھی گونگا بن کر بیٹھا ہے،حیرت سے ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے ،کوئی کسی کا خون کا عطیہ کے طور پر نہیں لے سکتا،یہ وہی مسئلہ ،قوم،نسل،زبان کا،اگر خوش قسمتی سے کوئی ڈاکٹر مریض کی زبان کا قوم ،نسل،فرقہ،ذات کا نکل بھی آئے تو مریض اپنا رونا کم ،ڈاکٹر اور مریض ملکر موجودہ صورتِ حال پر زیادہ روتے،اور بعد میں ڈاکٹر کہتا، جا گھر جا کر مٹی کو دوا سمجھ کر کھا لے بھائی،کیونکہ دوائی تو فلاں فلاں ملک یا کمپنی کی ہے ، کمپنی کا مالک تیری ،میری زبان ،ذات،قوم ،نسل کا نہیں ،اور مریض باقی ماندہ آنسو گھر آتے ہوئے بہاتا اور گھر آکر بے ہوش ہوجاتا۔
اشیاء خورد نوش ختم ہورہی،موت کے سائے منڈ لا رہے۔کہیں چوری کوئی کیسے کرے؟نتیجتاً موت ملتی ہے۔موت تو ویسے بھی آرہی ہے۔
ماسٹر صاحب کے چھوٹے بھائی نے پوچھا ،بھائی ! ہم سب کے پاس کس قدر نفرت تھی،اک دوسرے کے لئے کس قدر حسد،غیبت،کینہ تھا،اب دیکھو سب کو اپنی پڑی ہے،جیسے قیامت آگئی ہو۔ماسٹر صاحب رندھے ہوئے لہجے میں کہنے لگے،ہاں بھائی،تمھاری بات درست ہے۔بات کرنے کو ترس گئے ہیں ،پھر اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ،اس کی ماں کی جدائی مجھے مار ڈالے گی،ہمیں تو ایسی کم بختی نے آگھیرا تھا کہ پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ اس دُشمنی میں جس قدر ہم آگے آگے جا رہے تھے ،قتل و غارت،دنگا فساد،نفسانفسی کے جس کڑے امتحان سے گذر رہے ہیں ،حتیٰ کہ سوئی سے لیکر ہوائی جہاز تک میں ہم غیر مذہب،غیر نسل،غیر قوم و زبان کے لوگ باہمی مدد کے طور پر اک دوسرے کے مدد گار تھے ،کسان کا حق سلب کر کے اسی کی اُگائی ہوئی گندم سے پیٹ بھرتے تھے،غیر مذہب کے منہ پر مرنے کی بد عا دے کر ان ہی کی بنائی ہوئی دوائی سے صحت یاب ہوتے تھے،ثقافت،الگ پہچان کے نام پر ماسوائے نفرت پھیلانے کے اور کچھ نہیں کر رہے تھے،غیر نسل،قوم،و فرقے اور زبان والے سے نفرت کر کے انہی سے تعلیم،ہنر ،نوکری،روزگار کے لئے محتاج تھے۔
اک تو گرمی اُوپر سے بجلی استعمال نہیں کر سکتے جو گھر میں لا کر خوراک بھری،وہ بھی ختم ہو چلی،تنخواہ لیں تو کیسے؟ بنک والا ہم زبان نہیں ،روپے پیسے ہوں تو ان کا فائدہ؟ بازار والا ہم قوم نہیں ،لعنت ہے اس روپے پیسے پر،لعنت ہے ہماری سوچ پر،ذہن پر ،جس نے اس مقام تک ہم کو پہنچایا،بھا ئی چارے ،محبت کا درس سُنتے بھی رہے اور اثر بھی نہیں ہوا،یہ دن بھی دیکھنے تھے،ماسٹر صاحب اُونچا اُونچا بولتے بولتے بُڑ بُڑ انے لگے،اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گئے،میل سے بھرا ہوا قمیص کا کف اس کے نمکین آنسو ہفتہ بھر سے پی پی کر اکڑ گیا تھا،تبھی اب آنسو کو جذب بھی نہیں کر رہا تھا،ماسٹر صاحب صدیوں کے مریض لگ رہے تھے، ان کا بھائی رنجیدہ ہو کر ان کے پاس سے اُٹھ گیا۔
شام تک رحمتِ الٰہی کو جوش آیا اور بادل اُمڈ آئے،سخت گرمی ،تپش نے بے حال کیا ہوا تھا،لوگوں کے چہرے پر اُمید کی خوشی آگئی بوندا باندی تیزی سے ہونے لگی،جس نے مغرب تک دھواں دھارموسلادھار بارش کی شکل اخیتار کر لی،لوگوں نے کیا صحن،کیا چھت،ہر جگہ بارش کے پانی کے لئے دیگچی،پرات،جگ،گلاس،پلیٹ،کٹوری تک لا کر رکھ دی،ساتھ ساتھ خود بھی بارش میں کھڑے ہو گئے،سب مرد وزن ،بچے ہتھلیاں جوڑ جوڑ کر پانی جمع کرنے لگے،نہانے لگے،ہر جگہ جل تھل ہونے لگا،سب سوچنے لگے کے اللہ کے نزدیک سب لوگ برابر ہیں ،کوئی زیادہ یا کم نہیں ،اک ہم ہیں کہ صرف خود کو ہی سوچتے رہے،پرندے چہچہانے لگے،جانور خوشی سے ناچنے لگے،درخت جھوم اُٹھے۔چُپ تھے تو انسان تھے،جو اس ٹھنڈی بارش میں بھی اپنے گرم ،بہتے آنسو سے اللہ کے آگے فریاد کر رہے تھے،ماسٹر صاحب روتے روتے صحن میں گر گئے،ان کی زبان پر اک ہی بات تھی کہ ،یا اللہ،ہم بہت ظالم ہیں تو بہت رحم کرنے والا ہے،رحم فرما،خطا بخش دے،جہاں سے یہ آرڈر آیا ہے اُس کے دل میں رحم ڈال دے،یا اللہ! رحم کر ہم بہت بے خبر ہیں ،کم عقل ہیں ۔مولوی صاحب کی مسجد سے آواز اُبھری :
لا الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین
بس پھر کیا تھا،کیابچہ ،کیا بڑا ،کیا مردو زن ،سبھی کے زبان پر ورد کی صورت یہ آیت کریمہ تھی،اور چہرہ آنسوؤں سے تر تھے۔ماسٹر صاحب زور زور سے آیت کریمہ کا ورد کر رہے تھے کہ انہیں لگا ان کی آواز سے بلند ٹی وی کی آواز ہے جس پر نیوز چل رہی ہے کہ
” حالیہ دہشت گردی کے باعث فلاں قوم و زبان کی جانب سے شڑ ڈاؤن ،اور پہیہ جام کی اپیل،اور حکومت کی جانب سے اگلے تین
روزہ سوگ کا اعلان ” ماسٹر صاحب نے اردگرد دیکھا پہلے تو اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ مبادا آواز سُن کر مجھے موت ہی نہ پڑ جائے،پھر دیکھا بیوی نے کمرے میں ٹھنڈا پانی کا جگ ماسٹر صاحب کے سرہانے رکھتے ہوئے کہا،لو جی! اب پھر تالہ بندی،اُف عید کی شاپنگ کے لئے اگلے تین روز تو گئے،اُوپر سے رمضان بھی آرہاہے، کون جائے رمضان میں شاپنگ کرنے کے لئے۔
بیوی بُڑ بُڑ اتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ماسٹر صاحب حیرت سے بیوی کو اور اس کی باتوں کہ سُن رہے تھے،چلتے ہوئے ٹی و ی کی آواز مزید حیرت میں ڈال رہی تھی،ماسٹر صاحب نے ڈرتے ڈرتے چینل بدلنا شروع کر دئیے ،ہر چینل اک نئی خبر ،اک نیا فساد بتا رہا تھا۔کہیں بم دھماکہ ،کہیں بس جلا دی،کہیں شناخت کے بعد قتل،کہیں ہوائی فاہرنگ،کہیں بد نظمی،تو کوئی چینل مہنگائی کا رونا رو رہا،چوری چکاری،لُوٹ مار،اغواء،غیرت کے نام پر قتل،ہر کوئی پریشان ،غیر محفوظ،
غیر محفوظ ؟؟؟؟؟؟ ماسٹر صاحب کا سوال!اُس خواب میں کم از کم انسانوں کے ہاتھوں موت کا خوف تو نہیں تھا،ہر کسی کو صرف اپنی پڑی تھی،کوئی عزت،دولت،زندگی غیر محفوظ تو نہیں تھی،کچھ دیر بعد ماسٹر صاحب سنبھل گئے،اور سوچنے لگے :
یہ حالیہ زندگی خوف ناک خواب ہے یا وہ خواب؟؟؟جو ابھی دیکھ رہا تھا؟ سوال ہتھوڑے کی طرح ماسٹر صاحب کے دماغ پر برستا رہا،یہ سوال تو اپنی جگہ مکمل سوال تھا ،مگر جواب شاید دُنیا کے کسی انسان کے پاس نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کسی کے بھی پاس نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے