مولانا محمد افضل ذگر مینگل میر یعقوب خان کے گھر عیسے چاہ ، نوشکی میں آج سے نوے سال قبل پیدا ہوا۔ اس زمانے میں اس علاقے میں نہ کوئی دینی مدرسہ تھا اور نہ ہی کوئی سکول ۔ والد اپنے فرزند کو کلی بٹونوشکی لایا۔ اور اسے مولوی فضل حق بلوچ کے ہاں قرآن پاک پڑھنے کے لیے چھوڑدیا ۔مولانا مرحوم نے قرآن پاک اور ابتدائی فارسی کا علم اپنے استاد محترم سے حاصل کیا۔ کیونکہ ہمارے علاقوں میں بڑے مدارس نہیں تھے، اس لیے ابتدائی فارسی کا علم حاصل کرنے کے بعد اس نے مزید حصول علم کے لیے سندھ کا رخ کیا۔ اس دور میں سندھ میں دارلہدیٰ ٹھیٹری جو کہ سکھر اور خیر پور کے درمیان برلبِ سڑک واقع ہے۔ وہاں پہنچا اور داخلہ لیا اور صرف و نحو کی کتابیں وہیں پڑھیں۔ اور خاص طور بعد ازاں کچھ مدت کے بعد ملتان تشریف لے گئے۔ اور خیر المدارس ملتان میں نحو و فقہہ کے علوم حاصل کیے۔
ملتان میں دوران تعلیم ایک متمول زمیندار کے بچو ں کو شام وقت قرآن پاک پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن اس امیر شخص نے مولانا سے کہا کہ آپ ایک بہت ذہین جوان ہیں ۔میں آپ کی کیسے خدمت کروں ؟مولانا مینگل نے جواباً کہا کہ آپ صرف زادِ راہ کی مدد دے کر مجھے برصغیر کی معروف دینی درسگا ہ دارالعلوم دیوبند بھجوادیں۔ اس صاحب دل شخصیت نے آپ کو تمام بندوبست کرکے سہارنپور یوپی دیوبند بھجوایا جہاں طلباء کو داخلہ کا امتحان لے کر داخلہ دیا جاتا تھا۔ آپ انتہائی زیرک انسان تھے۔ داخلہ کے امتحان میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے بعد آپ کو داخلہ ملا۔ آپ نے باقی علوم و فنون یعنی فقہ،تفسیر، حدیث، اصول فقہ ،اصول حدیث تمام درس نظامی کے علوم و فنون کی تکمیل کی اور آخری دورہِ حدیث کی تکمیل کی۔ آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا اعزاز علی و مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی قابل ذکر ہیں۔ دینی مدارس میں مروجہ درس نظامی کے تکمیل و دیوبند کی مشہور درسگاہ سے دستار بندی کے بعد سند فراغت حاصل کی۔
تکمیل علوم کے بعد آپ واپس کافی سالوں کے بعد نوشکی آئے۔ کچھ عرصہ پنے آبائی علاقہ میں رہے۔ آپ عالم دین ہونے کے علاوہ انگریزی استعمار اور ظلم و جبر کے بہت خلاف تھے۔ اس دور میں مولانا عرض محمد دہوار نے مستونگ میں دارالعلوم نصیریہ کی بنیاد رکھی تھی۔ دارالعلوم نصیریہ کو لائق اساتذہ کی ضرورت تھی ۔اس دورمیں مستونگ علم وسیاست کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ آپ مستونگ آئے۔ بحیثیت صدر مدرس دارالعلوم نصیریہ میں مشغول رہے۔ دارالعلوم نصیریہ خان نصیر خان نوری سے منسوب ہے۔
اس دور میں افغانستان اور ایران کے طلبا بھی بلوچستان حصول علم کی غرض سے آتے تھے۔ سینکڑوں علماء نے آپ سے کسب علم حاصل کیا۔ موسم گرما میں سندھ و کچھی کے صاحب دولت لوگ گرمیاں گزارنے مستونگ آتے تھے۔ ان افراد میں مگسی نواب فیملی کے چشم و چراغ برصغیر کے عظیم فارسی شاعر گل محمدزیب نمایاں تھے۔ مولانا محمد افضل مینگل ان کی شاعری اور محفل سے بہت متاثر تھے۔ مولانا اپنی نجی مجالس میں ان کو بہت احترام سے یاد کرتے تھے۔ قابل ذکر رہے کہ مولانا محمد افضل نے اپنے نام کا ایک مہر بنایا تھا ۔ اس مہر کے الفاظ یوں تھے۔
مولانا فضل آن پیغمبران است
دوسرا مصرع اُ ن سے نہیں بن رہا تھا۔ انہوں نے گل محمد زیب کو یہ مصرع سنایا اور کہا دوسرا مصرع نہیں پا رہا۔ گل محمد زیب نے برخستہ دوسرا مصرع کہا۔
محمد افضل آن پیغمبران است
غلام اس نوشکوی درین مینگلان است
گل محمد زیب مگسی نے مولانا کو ترغیب دی کہ آپ تدریس کے عمل کے ساتھ سیاست و شاعری پر بھی توجہ مرکوز کریں۔ مولانا محمد افضل مینگل نے یسین شریف کا براہوئی میں منظوم ترجمہ کیا جس کی عرصہ ہوا راسکو ادبی دیوان نے اشاعت کی ۔
الحاق پاکستان کے مسئلہ پر آغا عبدالکریم خان گورنر مکران تھے ناراض ہوکر مکران سے قلات آئے اور اپنے کافی ساتھیوں کے ہمراہ بہ طرف قندھار افغانستان ر وانہ ہوئے۔ مولانا محمد افضل مینگل ایک بہت بڑے عالم دین اور قوم کادرداس کے دل میں تھا، آغا صاحب کے قافلے میں شریک ہوئے اور یہ قافلہ آخر کار 16مئی1948 کو کردگاپ کے مقام پر رات کے وقت سرحد پار کرکے افغانستان کے حدود میں داخل ہوا ۔ مولانا محمد افضل مینگل سرکردہ زعما میں شمار کیے جاتے ہیں۔اُس وقت کے اہم ترین سیاسی موضوع پر جو فتویٰ جاری ہوا تھا وہ بھی مولانا محمد افضل مینگل کا لکھا ہوا تھا۔
مولانا محمد افضل مینگل کا مدرسہ ایک بہت بڑا مہمان خانہ تھا ۔ اس زمانے کوئٹہ سے خاران ، دالبندین، نوکنڈی اور واشک کے علماء کا قیام اکثر مولانا کے مدرسہ میں ہوا کرتا تھا ۔ تمام مہمانوں کی اپنی حیثیت کے مطابق خاطر مدارت کرتے تھے۔ مولانا محمد افضل کے مدرسہ میں دوران قیام ضلع چاغی و خاران کے جید علماء کرام سے اکثر و بیشتر بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا ۔
حضرت مولانا مرجع خلائق تھے ۔ ہر وقت نوشکی کی اقلیتی برادری کے لوگ مدرسہ میں آپ کی محفل میں شریک رہتے تھے ۔آپ مذہبی عصبیت سے بالا تر تھے۔
آغا عبدالکریم خان کے ساتھ قلات کی آزادی کی جدوجہد میں گرفتار کیے گئے۔جرگہ نے مچھ جیل میں مقدمہ بغاوت کی سماعت کے بعد4 دسمبر1948 کو دیگر رفقاء کرام کے ساتھ مولانا محمد افضل مینگل کو سات سال کی قیدبامشقت اور پانچ سو روپے جرمانہ کی سزا سنادی اور تین سال کے لیے پانچ ہزار روپے کی نیک چلنی کی ضمانت کی بھی سزا دی۔
1955 میں جیل سے رہائی کے بعد مولانا صاحب نوشکی آئے بعد ازاں نوشکی بازار کے جامعہ مسجد کی امامت و خطابت شروع کی۔ آپ اعلیٰ پائے کے خطیب تھے اور دارالعلوم افضل المدارس کی داغ بیل رکھی جو کہ اب تک قائم و دائم ہے ۔ نوشکی ضلع چاغی خاران کے جید علماء کا آج بھی آپ کے شاگردوں میں شمار ہوتا ہے۔آپ بلند پایہ عالم دین ہونے کے علاوہ بہت بڑے صاحب قلم اور شاعر تھے ۔
آخر میں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور 25 فروری 1974میں اس درالافانی سے کوچ کرگئے۔