لوگ اسے پُھرُ پھرا۔۔۔ پھرا کہتے تھے، اس کے منہ پر کہتے تھے۔۔۔ڈٹ کر کہتے تھے۔۔۔ڈرتے ورتے نہیں تھے۔۔۔اس سے کیسا ڈرنا۔جو جھلی ہو،پگلی‘ دیوانی سی ہو اس سے کیسی لجا۔۔۔تو لوگ اسے پھر پھر، پھرا کہتے تھے۔۔۔پورے سرتال کے ساتھ کس کر‘جم کر‘آواز لگا کر۔۔۔ردھم سے۔۔۔ترنم سے۔
نام اس کا فرزانہ تھا لیکن چونکہ عام رواج ہے اور خاصا مشہور اور دل پسند رواج ہے تو اس کے تحت وہ فجی بھی ہوگئی۔۔۔تو یہ فجی تو ہوا عرفی اور معاشرتی نام۔۔۔چلے رواجی بگاڑہی سہی۔۔۔اور پھر پھر۔۔۔پھرا۔۔۔یہ اس کی خصوصیت ،خاصیت۔۔۔مزاجی تہمت۔۔۔ذاتی فارمولا۔۔۔اس کی شخصیت کا حاصل جمع۔
ہنسی کی پہلی قسط ایسے نکلتی جیسے لاہور بھر کے کبوتر’’ پھر‘‘ سے ایک ساتھ اڑے ہوں۔۔۔دوسری قسط ایسے نکلتی (جو پہلی کے ہی عین پیچھے پیچھے چلی آتی)جیسے ان کبوتروں پر بجلی آن گری ہو۔۔۔اور اللہ ضرور ہی معاف کرے تیسری اور لگاتار قسط ایسے نکلتی جیسے لاہور بھر کی بلیوں اور بلوں نے ان کبوتروں پر حملہ کردیا ہو۔
بچے بچے کو معلوم تھا فجی کیسے ہنستی ہے تووہ ہاتھ جوڑ جوڑ کہتے۔
’’باجی جی !بس کردیں پھرپھرانا۔‘‘
اتنا سنتے ہی وہ اور لوٹ پوٹ ہو ہوجاتی ۔ایویں سی بات تھی لیکن کافی سنجیدہ بھی تھی کہ مائیں اسے تاکید کرتیں۔
’’اے فجی مناسورہا ہے۔۔۔ذرا قابو میں رہیو۔‘‘
مطلب ذرا دھیان سے، ہنسنا نہ شروع کردیؤ۔
اماں کو تو یاد کرنے سے بھی یاد نہ آتا کہ یہ بیماری اسے کب لگی۔خوش رہتی تھی نا۔۔۔اور خدا ہی جانے وہ کب سے خوش رہنے لگی تھی۔وہ اتنی انڈ بنڈ (اوٹ پٹانگ)کب سے ہوئی۔کئی سو لوگوں میں بھی اماں اسے ڈانٹ ڈالتی تھیں۔
’’چپ کر جاپگلی۔۔۔دیکھ سارا زمانہ ہنس رہاہے۔‘‘
جواب میں دس بارہ فواروں کا ایک اور بڑا فوارہ نکلتا۔
اماں دوپٹے کا گولہ بنا کر اس کے منہ میں ڈھونس دیتیں،ذرا نہ رحم کھاتیں۔
’’کوئی جن ون تو نہیں۔‘‘اماں کی دُور کی چچی نے پوچھا۔
’’جن ہی ہوتاجان تو چھوٹتی۔‘‘
’’دم وم کراؤ۔۔۔‘‘
’’بہتیرے کروائے۔۔۔‘
’’کملی پگلی لگتی ہے ۔لگتا ہے خاندان سے اس کارشتہ نہیں لینا تمہیں۔‘‘
’’اپنے باپ سے بھی مار کھاتی ہے پر منحوس ماری کی ہنسی ہی قابو میں نہیں،جی جی مذاق اڑاجاتاہے اس کا۔‘‘
اس مکالمے کی نوبت ملتان والی پھوپھو کے بڑے بیٹے کی ڈھولک میں آئی تھی۔۔۔گھر بھر پڑا تھا۔۔۔کھلی یہ بڑی ساری چھت پر ڈھولک بجائی جارہی تھی۔۔۔لڑکیاں خوب چہک پہک رہی تھیں اور اپنی یہ فجی بھی۔۔۔
ایک لڑکی نے چٹکلہ چھوڑا۔
’’بڑے بڑے بیاہے گئے پیارے اللہ جی ہمیں بیاہنے والے کدھر کو گئے۔۔۔آ کے نہیں دے رہے۔‘‘
قہقہوں کے مرغولے آسمان تک اڑے پھر پھس بھی گئے اور فجی۔۔۔
ڈھولکی بجانے والی پڑوس کی لڑکی نے ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ لیا،چٹکلے والی نے گردن موڑ کر دولہا کی بہن کو تاڑا ،آس پڑوس والیوں نے پھوپھی کی طرف دیکھا۔لو بھلا پھوپھی خود فجی کو دیکھ رہی تھیں وہ جو چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اماں نے بڑھ کر گھسیٹ کر اسے اٹھایا اور ساتھ لے کر نیچے چلی گئیں۔پھر ڈھولکی ذرا دیر سے بجی،اس دوران بڑی سرگوشیاں اٹھیں۔
’’کون ہے یہ رضیہ تمہاری؟‘‘
’’لاہور والے چھوٹے ماموں کی بیٹی۔‘‘رضیہ چڑ گئی۔
’’پاگل ہے کیا!‘‘
’’ہم کیا جانیں پہلے تو نہ تھی۔‘‘
’’توبہ ایسے ہنسنا۔۔۔؟‘‘
’’ہماری جانے بلا۔۔۔‘
گانے ،سہرے گائے جانے لگے۔اماں ساری شادی میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔سب طرح طرح کے سوال کرنے لگے ۔لاہور والوں کی تو خیر تھی سب ہی اس کی عادت سے واقف تھے بس یہ دُور دراز کے رشتے دار ہی حیران ہوتے پھر وہ بھی عادی ہوگئے۔
’’جنگلی پگلی پھر پھراتی فجی کے‘
اماں کہتیں
’’یہ بیماری ہوتی ہے۔۔۔ہنسنا تو ہنستے ہی رہنا۔۔۔رونا تو روتے ہی رہنا۔۔۔جیسے ہچکی کہ جان لے کر ہی ٹلے۔۔۔‘
’’یہ ہنسی بھی جان لے گی کیا‘‘چھوٹی عذرا ہنس کر بولی۔
’’توبہ ہے اب تو اللہ نے نسلی بچے بنانے چھوڑ دیے ‘‘
اماں موت کے تذکرے پر ہول گئیں انکی پیاری بچی فجی ہنستی ہے ہنستی ہی رہے جان کیوں جائے اسکی۔
’’خود ہی تو کہا ہے اماں!‘‘
’’ارے جا۔۔۔میں نے کچھ کہا تو کچھ سمجھی ‘‘
’’باجی زندہ رہے گی نا۔۔۔؟‘‘عذرا ٹلنے والی نہیں تھی اب۔
اس کا تو پکا ہے تیرے لئے دعا کرنی پڑے گی‘‘اماں نے جوتی اٹھائی
فجی کی سہیلی کی شادی ہوئی تو وہ روئی وہ روئی جیسے سہیلی بیاہی نہ گئی ہو جل کر مر گئی ہو خدانخواستہ ۔اسکے گھر والوں نے بھی کہا۔
’’اے فجی !اتنے بین نہ ڈال‘‘
اور فجی ’’وہ چلی گئی،مجھے چھوڑ گئی،وہ لے گئے‘‘کہہ کہہ روتی رہی ۔یہی دونوں سہیلیاں چھت پر چڑھ کر ایسے ایسے جناتی قہقہے پھرپھراتیں کہ درو دیوار پھرا اٹھتے۔
خیر ولیمہ ہوا اور دلہن سہیلی گھر آگئی ،پھر قہقہوں کی وہ قسم نکلی کہ بڑے بوڑھے کہہ اٹھے
’’یہ کیا بے غیرتی ہے چپ کراؤ انہیں۔‘‘
انھیں چپ کروانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔
یہ وہی سہیلی تھی جس میں فجی کی پور پور جان تھی ۔نوعمری میں کہا کرتی تھیں ،ایک ہی گھر بیاہ کرجائیں گی،ذرا سالوں بعد پھر یہ بات کسی نے انکے منہ سے نہ سنی، نہ جاننے کی کوشش گوار ا۔
سنت نگر کے پرانی طرز کے گھر تھے۔بہت جگہوں سے ساتھ ملے ہوئے تھے۔چھتیں تو ایک ہی تھیں،کبھی بالکنی پھلانگ کر ،کبھی کھڑکی سے پانچ فٹ لکڑی کا زینہ اتر کر اور کبھی چھت سے چھلانگ لگا کر ایک دوسرے کے آیا جایا کرتیں ۔زیاد ہ تر اپنی فجی۔ایسے کہ چائے چولہے پر رکھی ہے اور اُبال آنے تک وہاں۔۔۔پریشکر ککر لگا ہے۔۔۔سیٹی بولنے تک وہاں۔۔۔ ناشتہ کیا چکر لگائے آئے،شام کا تفصیلی اعلانیہ پھیرا الگ سے ،درمیان کے بہانی حادثاتی پھیرے الگ سے۔۔۔بلکہ اہتما م سے۔۔۔
اماں پہلے تو بہت بڑ بڑائیں ،پھر جب اسی سے فجی نے سینا پرونا سیکھ لیا ۔کئی طرح کی کڑھائیوں کے ٹانکے سیکھ لیے اور طرح طرح کے ڈیزائن کے کپڑے ،چھوٹے بچوں کے تو ہزاروں طرح کے کہ خالہ ،ماموں، اور باقی کے قریبی رشتے داروں کے سارے بچوں نے اسی کے ہاتھوں کے سلے کپڑے پہنے ۔لہنگے،شرارے،فراکیں اس نے بڑی بچیوں کو بھی خوب سی سی کر دیں۔تو پھر یہ اعتراض اٹھ گیا کہ وہ ہر وقت دھنی کے یہاں کیوں گھسی رہتی ہے۔دھنی نے ہی اسے حلیم بنانا سیکھایا۔ہریرہ تک فجی نے اس سے سیکھ لیا۔تو ایسی استاد سہیلی پر جانثاری اماں کو خاص نہ کھلی۔جہاں اس نے فجی کو اتنے سارے گن سکھائے وہاں پھر پھرانا فجی سے سیکھ لیا۔خیر اس فن میں دونوں ہی استا دنکلیں ،مجال تھی کہ ایک بھی مات کھا کر پیچھے رہ جاتی۔ فجی ادھر اپنے خاندان میں مشہور تھی اور دھنی اُدھر اپنے خاندان میں۔
دھنی بیاہی گئی ،پھر بھی فجی وہاں پائی جاتی،چند مہینے گزرے سلیم نے کھڑکی بند کروادی،بالکنی کی طرف یہ بڑے بڑے لکڑی کے تختے لگوا دیے۔چھت کی دیواروں پر تین تین ردے چنائی کروائی اور کانچ لگوا دیا۔فجی خوب ہنسی۔
’’یہ دیواریں ۔۔۔یہ بندشیں۔۔۔یہ دیواریں۔۔۔‘‘
کہتی جاتی ہنستی جاتی،
اماں نے دھما دھم دھمو کے جڑئے۔۔۔
’’اب کیوں ہنس رہی ہے؟؟‘‘
’’بھیا نے بالکنی بند کروادی۔۔۔کھڑکی بھی۔۔۔اور وہ چھت۔۔۔‘‘
’’ہاں تیرے کرتوت دیکھ کر کیا سب۔۔۔‘‘
’’لو اماں اتنی سی بات نہیں سمجھتیں۔۔۔یہ اتنی سی چنائی کس کام کی۔۔۔‘‘وہ پھر دل لگا کر ہنسی۔
اوندھی کھوپڑی!کم ذات ہیں وہ،یاری دوستی تک تو ٹھیک تھا،باقی کا خناس نکال دے، یہ دمدمے (مصنوعی قلعے) بنانے چھوڑ دے۔
’’لو نکال دیا خناس۔۔۔خناس ہی تو نہیں گھسنے دیا دماغ میں۔۔۔دمدمے بنائیں ہمارے دشمن۔ذات صرف اللہ کی انسان کی ذات اس کے اعمال ۔‘‘منہ سے پھرپھرکبوتر اڑے
’’انسان کے اعمال ہونہہ۔‘‘ اماں نے ایسے کہا جیسے کھتا الگ سے منہ میں انڈیل لیا ہو اور اب پان چبانے جا رہی ہوں۔
’’کتنی سمجھ دار ہوں میں اماں۔۔۔اتنی جلدی اتنی اچھی باتیں سیکھ گئی دیری نہ کرو۔۔۔سیکھ لو مجھ سے۔‘‘وہ پھرپھرانے لگی،اماں کیا چپا رہی ہیں ہیں اس کی جانے بلا۔
* * *
بڑے دن گزرے ڈھنگ کا رشتہ ہاتھ آیا نہ کھڑکی چھت کی چنائی میں دراڑ آئی۔
’’یہ تیرے انارکلی کے چکر بہت بڑھ گئے ہیںُ ‘‘ اماں اس پر نظریں گاڑے پوچھ رہی تھیں۔
وہ چھیل چھبیلی بنی مسکرانے لگی جیسے کوئی یاد تازہ ہو گئی۔
’’لے کر بھی کچھ نہیں آتی۔‘‘
’’کوئی کپڑا جوتا پسند آئے تو لاؤں،دوبار توخالہ کیلئے گئی، انکی منی کے جوتے کا ماپ ٹھیک نہیں تھا۔‘‘
’’منا منی کے جوتے بھی تو ہی لاتی ہے اور ماپ بھی تو ہی غلط لاتی ہے فجی میرے قہر سے بچی رہ،ایک بار جو گردن پکڑی تو انارکلی والے ہی تماشا دیکھیں گے۔
’’جو تماشا لگے تو ایسے ہی سہی۔‘‘وہ ہنسی۔چھبیلا پن البتہ جاتا رہا۔
’’تیری اس ہنسی کا گلا تو میں دباؤں گی کسی دن دھیان سے رہیو۔۔۔‘‘
’’ماں ہو کر یہ کرو گی؟؟‘‘
پھر پھراتے کبوتر زمین پر آکر گرنے لگے ،اس کے اندازے سے ایک ایسی ہوک نکلی کہ اماں چپ اسے دیکھے گئیں۔
سنت نگر‘ کرشن نگر سے انار کلی جانا کون سا پہاڑ کھودنا تھا ،یہاں ارادہ کیا وہاں پہنچ گئے ۔تو یہ ارادے روز کئے جاتے ہیں۔دن میں کئی کئی بار کئے جاتے ہیں۔قرب وجوار ہی میں سب آباد تھے۔چھوٹے بڑے ،پانچ ماموں،تین خالائیں،اماں کی خالہ زاد بہنیں،ان بہنوں کے آگے پیچھے کے رشتے دار،ادھر ادھر کے چچا،چچی،رشتے کے نانا ،نانی دادا ،دادی،بہت رشتے دار تھے کہ صبح ملنے نکلوتو اگلی صبح واپس آؤ۔کچھ ایک ہی گلی میں رہتے کچھ ایک ہی بلڈنگ میں اوپر نیچے کچھ آگے پیچھے کی چھوٹی بڑی سڑک پر۔
جب تک دھنی بیاہی نہ گئی تھی تو وہ مشکل سے ان سب رشتے داروں کو اپنی شکل دکھاتی۔دھنی گئی تو وہ ان سب کو سلام کرنے نکلتی اور ایسے نکلتی کہ اماں کو جاکر ڈھونڈ کر اسے لانا پڑتا۔
وہ کسی ایک کے گھر جاتی،اسے سلام کرتی ،ذرا ادھر ادھر جھانکتی،اگلے گھر نکل جاتی۔تین چار جگہ حاضری لگواکر بھاگم بھاگ بڑی سڑک تک آتی بس اسٹاپ سے بس میں بیٹھتی اور آٹھ دس منٹ میں انارکلی پہنچ جاتی۔دوسوڈھائی سوجوتوں کی سیل والے کے پاس پہنچتی،اور آدھے گھنٹے میں واپس آجاتی۔
اماں کو شک ہوتا۔روز ہی ہوتا ،کسی خالہ ،مامی، نانی سے پوچھ لیتیں۔
’’ہاں آئی تھی‘‘خالہ کہتی
’’ارے ہاں نا چائے پی کر گئی برتن بھی دھو گئی پھرنوشاد کے گھر چلی گئی۔‘‘مامی بتاتیں
’’کیا ہوا آپا؟‘‘کوئی ایک پوچھ لیتا
’’ہونا کیا ہے،سلیم غصہ کرتاہے۔‘‘
’’کیوں کرتاہے غصہ۔رشتے داروں کے گھر نہیں آئے گی تو کہاں جائے گی۔پھر بیا ہی جائے گی توکہاں آنے دے گا کوئی۔ سلیم کو نت نئی سوجھتی ہے۔اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا اس چنڈال کو چمن آئس کریم کھلا رہا تھا،کالے منہ والی۔۔۔ہونہہ!‘‘
’’میری تو سنتا ہی نہیں۔‘‘ اماں کو سلیم والی چنڈال کی فکر لگی۔
خیر ایک دن اماں نے اسے انارکلی جا لیا۔سیل میں رکھی جوتیاں پہن پہن کر دیکھ رہی تھی اور ایسے ہنس رہی تھی کہ آس پاس والے تعجب سے اسے دیکھ رہی تھے۔اماں نے کمر پر زور سے چٹکی بھری۔
’’یہ تو خالہ شکیلہ کے گھر کھڑی ہے نا۔۔۔؟‘‘
اس کی ہنسی جیسے تھمی اسے بھی آس پاس والوں نے تعجب سے ہی دیکھا۔
اس نے اماں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ضد تو وہ کر رہی ہیں اگر وہ اسے سیدھے راستے سے چلتا کریں تو وہ الٹے راستے کی طرف نہ جائے۔
’’سلیم تجھے جان سے مار دے گااُس دو پیسے والے کے ساتھ تجھے کبھی نہیں بیاہے گا۔۔۔کباڑیے ہیں وہ ،بھول گئی ،تیرا باپ کتنا ہنستا ہے ان پر۔۔۔‘‘
اس نے وہ قہقہہ بلند کیا کہ اماں شرمندہ سی ہو گئیں ۔اس کے قہقہے میں بڑی وضاحتیں تھیں۔بڑے زہریلے کٹیلے طنز تھے۔
’’اماں مجھے کہتی ہومیرے کرتوت برے ہیں،بھلے مانس انسانوں کو گالی دے رہی ہو۔ان کی حلال کی کمائی پر لعنت بھیج رہی ہوان کے پیشے سے انہیں اوقات دے رہی ہو۔اماں۔۔۔ اب تو مجھے ہنس لینے دو۔‘‘
اماں نے اسے درفٹ کیا۔اس کا گھر سے جانا بند کیا۔جانا ہوتا تو وہ اپنے ساتھ لے کر جاتیں۔
***
چھوٹی عید ،بڑی عید ،شب برات ،عید میلادالنبی،محرم میں سب بڑے گھر(بڑے ماموں)کے گھر اکٹھے ہوتے تھے۔یہ بڑا تین منزلہ گھر تھا ،ایسے موقعوں پر گھر بھر جاتا۔ایسے میلہ لگے گھر میں اماں فجی کو ڈھونڈتی رہتیں،پہلا چوبارہ،دوسرا چوبارہ،تیسرا،کہاں گئی فجی۔۔۔؟؟
’’یہیں کہیں ہوگی۔‘‘کوئی کہہ دیتا۔
وہ کہیں سے نکلتی نظر آجاتی،ہونٹوں میں ہنسی دبائی ہوتی۔
’’کہاں تھی تو؟‘‘
’’یہی تو تھی۔‘‘
’’یہیں کہاں۔۔۔؟؟‘‘
’’وہ ادھر جوپارے میں۔۔۔‘
’’ادھر ادھر کے سب چوبارے دیکھ آئی تھی میں ۔۔۔‘
’’وہیں تو تھی اماں۔۔۔‘‘وہ کہہ کر کھسک جاتی۔
پیاز،لہسن ،ادرک،نمک،مرچ،آلو،دال چاول،کچھ بھی کم پڑ جاتا،وہ فورا حاضر ہوتی۔
’’لاؤ،میں لے آؤں جھٹ بازار سے۔۔۔بس یوں گئی اور یوں آئی ۔یہ بچے تو کچھوے کی چال چلتے جاتے ہیں خالہ جی۔‘‘
’’تندور سے روٹی لگوالاؤں۔۔۔نان لے آؤں۔۔۔ابھی لائی دہی۔۔۔بس آدھ سیرہی نا۔۔۔؟؟اچھا دُودھ بھی لانا ہے؟اور سموسے ۔۔۔اچھا کچھ بھول گئی تو پھر چلی جاؤنگی نا۔ہاں! ارے یہ تو ہے بازار۔یہ قریب ہی، بچوں کی تو جان جاتی ہے نا جاتے،نہیں سلیم کچھ نہیں کہے گا۔اسے بتائے گا کون۔۔۔؟‘‘
’’آپ کے تو دوپٹے بھی پیکو نہیں ہوئے،نہیں نہیں دس منٹ کا تو کام ہے،یہ تو ہے بازار،ابھی کروالاتی ہوں ۔‘‘
’’خالہ زہرا پنوں کے بغیر جوڑا کہاں بنے گا ،ساڑھی پر تو جوڑا ہی بنائیے۔مجھے پتا تھا پنیں نہیں ہیں آپ کے پاس جوڑے کی۔۔۔
نہیں میرے پاس بھی کہاں۔۔۔دس منٹ کی تو بات ہے۔۔۔یوں گئی یوں آئی۔۔۔بس ساڑھی پر تو جوڑا ہی ہو جی‘‘
ادرک ،لہسن،نمک مرچ،آلو ،پیاز،دہی گوشت،انارکلی سے آرہے ہیں۔روٹی نان بھی وہی سے ،دس روپے کا پنوں کا پتا بھی تیس روپے کا کرایہ لگا کر وہیں سے لایا جاتا۔وہ بھاگ کر جاتی،ہانپ کر آتی۔
شادی بیاہ،سالگرہ ،بسم اللہ ،آمین، میلاد ،دسواں چالیسواں ،مرگ،چہلم،جہاں کوئی کمی بیشی ہوتی فجی بھاگ بھاگ انارکلی سے پورا کرتی۔
سنت نگر ،کرشن نگر کے بازار چھوڑ کر وہ انارکلی جاتی۔ منگوانے والے کو خبر بھی نہ ہوتی کہ یہ دوکلو بیسن ،آدھ پاو گڑانار کلی سے آیا ہے،اور یہ چھٹانک بھر سویوں کا ایک چھوٹا پیکٹ ، سیر بھر آلو،آدھرسیر مٹر،دو ٹماٹر، تھوڑا سا دھنیہ،اور منے کی سفید وردی کا ٹوٹا ایک بٹن بھی، ہاں اور منے کے ہی سکول کے کالے جوتوں کے کالے پانچ روپے کے تسمے بھی۔حد تو یہ کہ کپڑوں کے ساتھ کے ہم رنگے دھاگے نلکیاں جو تین تین روپے کی آتیں ۔۔۔اور جن پر کوئی مرن جوگا ہی تیس کا کرایہ لگانے کو تیا ر ہو کر انارکلی جانے کی کرتا۔۔۔کوئی مرن جوگا ہی۔۔۔
’’اللہ اللہ فجی۔‘‘
* * *
ایک دن حقیقت کھلی جب دس روپے کا الاسٹک لینے وہ واپسی پر دھرلی گئی۔
دُور کی نوے سالہ پرنانی نے کہا بیاہ دو اُسی سے قصہ ختم کرو۔
اماں نے دُور کی نانی کوقریب سے گھورا ’’تمہاری طرح ابھی سٹھیائے نہیں۔۔۔‘‘
’’تو اور کسے کہتے ہیں سٹھیانامسلمان بچہ ہے،کماتا کھاتاہے بس بیاہ دو۔‘‘
’’ہونہہ بیاہ دو۔۔۔چولہے آگ نہ گھڑے پانی۔‘‘
’’اے بی بی پریت نہ جانے جات کجات۔‘‘ اتنا سمجھ لو پانی کو پانی ہی رہنے دو آگ نہ بناؤ۔یا وہ جل جائے گی یا تمہیں جلا مارے گی۔میرے سرکی چاندی دیکھو اور میری زبان سے نکلا سمجھو۔‘‘
’’اپنی چاندی اور زبان اپنے ہی پاس رکھو نانی۔‘‘
’’اے فجی بات سن سیدھی ہو جا ورنہ اپنی جان سے جائے گی۔‘‘
اماں آتے ہی اسے سنانے لگیں وہ طوطوں کے پاس کھڑی سیٹی مار مار کر انہیں بہلا رہی تھی۔
’’خاندان میں رہنا ہے مجھے کباڑیوں کے لئے کوئی راضی نہیں ہوگا۔‘‘
’’میں راضی ہوں ۔‘‘کہہ کر اس نے پھر سیٹی ماری طوطے بھی جواب میں مارنے لگے۔
’’اپنے باپ کے ہاتھوں سے بچ بھی گئی تو تیرے چاچے مامے نہیں چھوڑیں گے تجھے ۔غیر ذات کیلئے مان بھی جائیں تو ان کی اوقات دیکھی ہے تو نے۔انکے گھروں کے پتیلے چاٹتے چاٹتے تو تو انکے پیندوں سے ہی جالگی۔کباڑیوں نے کباڑخانے کی چیزیں دے دے کر تجھے خرید لیا ۔وہ ہاتھ پیر ٹوٹی پلاسٹک کی گڑ یاں اور پیتل تانبے کے توے چمٹے کو اس گھر میں نہ گھسا،کوئی ایک آدھ مرے گا۔
وہ سیٹی بجانا بھول گئی۔
دھنی کے ساتھ بچپن سے کھیلتی آئی تھی رات کو اسکا ابا پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلے صحن میں الٹ دیتا اور پھر سب مل کر پیتل ،لوہا ،پلاسٹک ،گتا ،کاغذ الگ الگ کرتے ۔وہ کتنی ہی چیزیں اٹھا لیتی،کبھی پلاسٹک کی ٹوٹی پھوٹی ٹرین،کبھی زنگ لگے چھری کانٹے،کبھی گڈا گڑیا،کبھی تصویروں سے اٹی کتابیں۔چاچے نے کبھی اس کا ہاتھ نہیں پکڑا تھا،چیز سو کی ہوتی یا روپے کی وہ پلٹ کر نہیں دیکھتا تھاکہ اس نے کیا اٹھایا لیا۔
ہاں انہی چیزوں نے اسے خرید لیا ۔اماں کیسے سمجھتیں کہ کس نے کیسے اسے خریدلیا۔بھلا یہ انسان اتنی جلدی بکنے پر تھوڑی آتاہے۔کوئی چمتکا ر ہوتاہے تو ہی بکتا ہے نا۔ورنہ تخت وتاج پر بھی نہیں بکتا۔’’ڈولی نہ کہار،بی بی بیٹھی ہیں تیار۔‘‘اماں بڑبڑاتیں ہوئی ساتھ والوں کی منڈیر کو گھورنے لگیں کہ زلزلہ آئے اور بس انہی منحوسوں کا گھر زمین میں دھنسا جائے۔
منڈیر پرکوے بیٹھے کائیں کائیں کررہے تھے۔ان پر نظر پڑتے ہی وہ ایسے ہنسی کہ ذرا دیر بعد اماں کو ڈر ہوا کہ وہ صدمے سے پاگل ہوگئی ہے۔
’’ہائے میری بچی مرجائیں منحوس مارے ساتھ والے۔‘‘
’’اماں ان کوؤں کو دیکھ ،دیکھ ذرا ۔۔۔ارے دونوں ہی کالے ہیں۔۔۔نجانے کیا ذات ہے انکی۔۔۔پر دونوں ہی کائیں کائیں کرتے ہیں۔۔۔سن سن اماں ایک سی کائیں کائیں کررہے ہیں۔۔۔میں بہری ہوں شاید۔۔۔اندھی بھی ہوئی لگتی ہوں ۔۔۔یہ دو تو ایک ہی نہیں۔۔۔‘‘
’’سجن ہم تو ایک ہیں دیکھت کے ہیں دو‘‘
من کو من سے تول لے دومن کدی نہ ہو۔‘‘
اماں نے ایک زور دار چانٹاجڑا’’ جانور ہیں وہ کمبخت۔‘‘
’’جانور ہی بھلے ہیں اماں پھر۔‘‘ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’جانور ہی بھلے پھرجو یہ جانوروں کے رتبے پر نہ ہوتے تو جنت صرف ان ہی پر واجب ہوتی۔‘‘
’’کافر ہی ہوئی ہے کم بخت!جانوروں کو جنت میں لے جارہی ہے۔‘‘
’’انسانوں نے تو ارادے ہی بدل لیے ہیں تو۔۔۔کوئی تو جائے پھر۔۔۔کوئی تو جائے۔۔۔‘‘
سلیم کہیں آ گے پیچھے کھڑا سن رہا تھا،۔اس بار اس نے اس کی چٹیا ہی پکڑلی اوروہ مار ماری کہ سب ہی ماموں چاچے اکھٹے ہو گئے ۔ اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔منہ سر کا الگ عالم تھا۔
’’تم کوئی رشتہ کیوں نہیں ڈھونڈتیں۔‘‘ماموں بھڑکے۔۔۔
’’پچاس تو دیکھ چکی اب تک۔‘‘
’’تم سے تو نہیں ہو گا پھر یہ۔۔۔کل میں چھٹی کر رہا ہوں میرے ساتھ چلنا۔۔۔رات سے دن نہ کرو اور قصہ ختم کرو۔خبردار سلیم!جو تو نے دوبارہ میری فجی کو ہاتھ لگایا۔۔۔بچی ہے سمجھ جائے گی۔۔۔نادان ہے ورنہ تو اس جمشید کے منہ پر تھوکے بھی نہ۔‘‘
سلیم نے بچی کو تو ہاتھ نہ لگایا لیکن بچے کو نہ چھوڑا۔دو دُوست لے جا کر انارکلی میں وہ تماشا لگایا کہ دوکانداروں کو پولیس بلوانی پڑی۔اور دُور تک وہ رش لگا جیسے تعزیہ نکل رہا ہو۔تین دن بعد ماموں سلیم کو تھانے سے لے کر آئے ۔ ان تین دنوں میں خاندان والے چیل کوے بنے فجی کی بوٹی بوٹی نوچتے رہے ۔
جمشید کی اماں آئی
’’ تو ہمیں بہت پیاری ہے لیکن جمشید سے زیادہ نہیں۔یہ رشتہ نہیں ہو گا، خون خرابہ ضرور ہو گا‘‘
جمشید کی اماں کے ہاتھ جڑئے ہو ئے تھے، جب وہ جا رہی تھیں وہ تب بھی جڑئے ہوئے تھے، جیسے وہ کسی قسم کے پابند ہوں۔
جمشید کو زبردستی کراچی بھجوایا کسی جاننے والے کے یہاں۔ خود وہ دوسرا گھر ڈھونڈنے لگے۔ اماں ابا کے آگے پھر سے ہاتھ جوڑ گئے۔
’’ آپ کی بچی، آپ اس کے مائی باپ، ہم کون ہیں۔‘‘
کرشن نگر کے سنار کے سامنے ان کی کیا حیثیت بھلا۔۔۔بچہ بچہ۔۔۔بندہ بندہ اسے سنار سے شادی کے فوائد گنوا رہا تھا۔اس کی نادانی اسے سمجھا رہا تھا۔ اسے پاگل نادان کہہ گیا تھا۔
اسے چپ لگی تو پھر نہ ٹوٹی ۔ بچے اسے فجی باجی پھر پھر کہنے کے لیے ترس گئے۔
’’ہو جائے گی ٹھیک‘‘ چھوٹی خالہ نے کہا
’’آج رو رہی ہے کل ہنسے گی۔‘‘ تائی بولیں
’’بیاہ کے بعد سب ٹھیک ہو جا تا ہے آپا!سونے میں پیلی رہے گی۔۔۔‘‘
سلیم تک نے چاہا، مجنونانہ ہی سہی وہ ہنسے تو۔
ماموں نے کہا’’ خبردار جو کسی نے اب اسے پھر پھر کہا۔۔۔اس کے سسرالیوں تک یہ نام نہ جائے۔‘‘
ایسے ہی جھڑک رہے تھے ، بڑوں چھوٹوں کو۔یہ نوبت تو فجی آنے ہی نہیں دے رہی تھی کہ اسے پھر سے پھر پھر کہا جائے۔
وہ تو مٹی کی وہ ہانڈی بنتی جا رہی تھی جسے سونے چاندی سے بھر کرزمین میں دبا دیا جاتا ہے۔۔۔اور پھر۔۔۔اور پھر دبانے والا بھول جاتا ہے کہ ہانڈی کہاں دبائی تھی
ہائے یہ لڑکیاں۔۔۔ہائے یہ ہانڈیاں۔۔۔
کچھ زمین کے اوپر لا کر بھول جاتے ہیں۔۔۔کچھ زمین میں دبا کر۔۔۔یہ بھول جانا ان کے نصیب میں بار بار آتا ہے۔۔۔ضرور آتا ہے۔
ڈھائی مرلے کا گھر دھنی ہورئے بیچ گئے۔۔۔
اماں نے کہا فکر متی کر۔دھنی کو ضرور بلا ؤں گی تیری شادی میں،تیری مہندی ابٹن وہی کرے گی ۔اسے گھر میں بلا کر رکھوں گی۔دے دلا کر بھیجوں گی۔۔۔تیری سہیلی ہے وہ۔۔۔فکر متی کر۔۔۔وہ ضرور آئے گی۔۔۔جانتی ہوں تیری جان ہے اس میں۔‘‘
ماموں نے خاص حیدر آباد آرڈر دے کر کانچ کی چوڑیوں پر ’’فرازنہ جمیل‘‘ لکھوایا۔ اور پھر اسے لا کر سیٹ دکھایا۔ چھوٹی خالہ نے ایک جاننے والے سے دکن سے ساڑھیاں اور چاندی کی پازیپیں منگوائیں۔سلیم پشاور با ڑے سے آدھا جہیز خرید کر لایا۔ خاص کر شاہی قالین۔۔۔ شیر چیتوں کے کمبل۔۔۔
اماں نے عذرا کے حصے کا رکھا زیور بھی اسے ہی دے دیا۔۔۔عذرا تو بڑے ماموں کے بیٹے سے بیاہی جائے گی۔ کچھ نہ بھی دیا تو خیرہے۔ سب بس فجی کو ہی دے دیا جائے۔
سب فجی کو ہی دیا جانے لگا،۔سب نے سامان لا لا کربڑے کمرے میں رکھنا شروع کر دیا۔اس سے چند سال چھوٹی لڑکیوں کے منہ میں پانی آرہا تھا
’’ فجی کے لیے اتنا کچھ۔۔۔سب کچھ ہی فجی کے لیے۔۔۔کیوں جی؟؟‘‘
ٍ خالہ، مامیاں، نانیاںآتیں، ایک ایک چیز کی مدح سرائی کرتیں۔ یہ ایسا ہے یہ ویسا ہے ۔۔۔برتن دیکھتیں۔۔۔کپڑئے ٹٹولتیں
’’یہ نکال دو آپا۔۔۔یہ نہیں جچے گا ان کے خاندان میں۔‘‘کسی نہ کسی چیز کو اُٹھا کر کہا جاتا
ٍ ’’ دولہا کی بہن کے لیے دو کڑئے سونے کے ضرور ہی ہوں۔‘‘
’’ یہ مردانہ شالیں۔۔۔کہاں سے منگوائیں۔۔۔ذرا اچھی وا لی منگوالیتے۔۔۔سلیم سے کہو نا ایک چکر اور لگا لے باڑے کا۔‘‘
اس کے جہیز کی دھوم پڑی خاندان بھر میں۔مجال ہے جو کمی رہنے دی گئی ہو۔۔۔سب جتے ہوئے تھے، ہزار ہزار بار چیزیں پرکھتے تھے،رات رات بھر سوچتے تھے۔ان کو بازارسے اور کیا کیا لانا ہے، کیسا لانا ہے، کس بازار کو جانا ہے۔۔۔کس راستے سے جانا ہے۔۔۔پیسہ ہی ہے نا ، لگ جانے دو،بچی کی ناک بن جائے گی۔کوئی بات نہ کرجائے، آج ماں باپ، مامے ، چاچے زندہ ہیں، دے رہے ہیں۔ کل کو نہ رہیں تو کون دے گا۔۔۔دے دیا جائے سب۔۔۔قارون کے خزانے کی چابیاں مل جائیں تو وہ بھی خوشی سے۔۔۔پدے دل نہیں تھے ان کے ، جو تھا سب دینے کو تیا ر تھے۔
تاریخ رکھی گئی۔ اماں اس کا ہاتھ کھینچ کر بڑے دونوں کمروں میں لے گئیں جس میں آئے دن خاندان بھر کا مجمع لگا ہی رہتا تھا۔ سامان کھول کھول کر رکھا تھا کہ فجی دیکھ لے۔۔۔دیکھ کے خوش ہولے۔۔۔خوشی سے خوش قسمت جان لے خود کو۔۔۔وہ ایک ٹک سامان کو دیکھے گئی۔۔۔
’’ اتنا پیار کرتی ہو اماں مجھ سے۔‘‘بہت دیر گزری پھر فجی نے پوچھا
اماں جواب توضرور دیتیں ، اس کے انداز پر سلگ اٹھی تھیں، اور چپ رہیں۔ پندرہ دن بعد نکا ح تھا اس کا۔۔۔بارا ت آنی تھی۔۔۔ولہا سنگ چلے جانا تھا اسے۔۔۔تو چپ ہی رہیں اماں۔۔۔
***
’’پانچ لاکھ سکہ رائج الوقت قبول ہے ؟؟‘‘
آواز نکاح خواں کی تھی پھر بھی کسی داروغہ سے مستعار لی لگتی تھی۔فجی نے پہلی بار نظریں اٹھا کر کمرے میں موجود ایک ایک شخص کو دیکھا۔رجسٹر اس کی گود میں رکھا تھا۔
’’ یہ کیا ڈھونگ ہے۔۔۔‘‘اسے ہنسی آئی، وہ انکاری رہی پھر بھی اس سے پوچھا جا رہا ہے، یہ نوبت آئی ہی کیوں۔
قبو ل ہے ‘‘ نکاخ خواں کو پھر سے پوچھنا پڑا۔
ذرا پیچھے کھڑے ماموں گڑبڑا سے گئے۔۔۔یہ بے وقت کی ہنسی۔۔۔کمرے میں مو جود پندرہ بیس عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بڑی مامی نے بڑھ کر کمرے کا دروازہ بند کیا۔ کوئی سسرالی عورت ہی اندر نہ آجائے۔
فرزانہ بنت شبیر احمد۔۔۔!‘‘نکاح خواں پھر سے دہرانے لگے
فجی نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور پھر پھرانے لگی۔۔۔
فرزانہ۔۔۔! ماموں گرجے۔
جی ماموں ۔۔۔! اس کی آنکھوں کا کاجل پھیل رہا تھا بس سارا پھیل جانے کوتھا
نکاح خواں سراٹھائے ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔
’’دستخط کرو بچے۔۔۔جلدی کرو۔۔۔‘‘
’’اچھا ماموں جی ،جیسی آپکی مرضی،اچھا اماں جی،اباجی،خالہ جان،اچھا جی ٹھیک ہے تایا جان،جی اچھا۔۔۔‘‘پھرپھرانے کے شوق میں مبتلا، اور شہر زنداں سے فرار کی طرف راغب، فجی نے خاندان بھر کے بڑوں کو سلام پیش کیا۔
’’فرزانہ ۔۔۔‘ماموں پھر دبی دبی آواز میں گرجے ۔مامی نے بڑھ کر ماموں کے شانے پر ہاتھ کا دباؤ ڈالا۔ فجی کے دائیں بائیں بیٹھی چھوٹی خالہ اور منجھلی مامی نے کمر اور شانوں پر ہاتھ سے زور سے تھپکی دی، یوں جیسے یہ یقین حاصل کرنا چاہتی ہوں کہ وہ ایک دلہن کے پہلو میں ہی بیٹھی ہیں اور دلہنیں اپنے بڑوں کو ایسے سلام کہا ں پیش کیا کرتی ہیں۔
’’ایسے نہیں گھبراتے فرزانہ۔‘‘زہراخالہ بولیں۔
’’ہاں جی خالہ جی ٹھیک کہتی ہیں۔‘‘ہنسی کا فوارہ یوں نکلا جیسے زوال سے پہلے عروج کو کمال ہوتا ہے۔
’’آپ بھی کہیے نا مولوی صاحب ج۔۔۔‘‘اس نے پھر پھراتے وجود کو آزاد کرواتے ہوئے کہا۔
’’فرزانہ بنتِ۔۔۔‘‘ مولوی صاحب گھبرا سے گئے تھے
’’بعوض ماں باپ کی عزت و خوشی مجھے قبول ہے۔۔۔‘‘
اس نے ایسی آواز میں کہا جو آواز آج سے کسی نے پہلے اس کے حلق سے نکلتی نہیں سنی تھی۔ ذرا کونے میں کھڑی اماں کانپ گئیں۔بیک وقت سب نے جیسے شیش ناگ دیکھ لیا۔یہ کیسی پھنکار تھی جو فجی کے حلق سے نکلی تھی۔۔۔اللہ اللہ فجی۔۔۔
’’بعوض خاندان کی عزت ،غیرت مجھے قبول ہے ۔‘‘انداز اور آواز پہلی سی ہی تھی۔
ٍ ’’بعوض سونا چاندی ،ذات برادری ،نام۔‘‘
ماموں نے اس کی گود میں سے رجسٹر گھسیٹا۔اور مولوی صاحب کو لے کر جھٹ باہر نکلے۔
اس نے ایک ہاتھ سے گھونگھٹ کا ایک پلو اُٹھا کر سب کو ایک آنکھ سے دیکھا پھر دونوں ہاتھوں سے گھونگھٹ کو الٹ دیا جیسے قسمت کے تھا ل کو سر پر سجا تو لیا ہو اور اسے ایک بار ٹھوکر مارنے کی حسرت بھی پوری کر لی ہو۔
کاجل پھیلی آنکھیں کمرے میں موجود ایک ایک آنکھ سے جا ملیں۔
ٍ ’’میں ہنس لوں اماں جی۔‘‘
اماں جو اس کے نکاح کے بعد رونا چاہتی تھیں ششدر کھڑی اس کے انداز پر ساکت ہوگئیں۔
’’اجازت ہوتو میں ہنس لوں۔‘‘اس نے مشترکہ سب سے پوچھا۔
اسے ہاں کہنے کی ہمت کون کرتا۔۔۔اسے ناں کہنے کا خیال کسی کو نہ آیا۔۔۔
پھروہ ایسے پھرپھرائی جیسے لاہور بھرکے کبوتر ایک ساتھ اڑے ہوں اور ایک دم ہی بالکل فورا ہی ان پھرپھراتے کبوتروں پر بجلی آن گری۔۔۔خالہ،مامی،چاچی،سب نے ایک دوسرے سے نظریں چرائیں۔
اس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔دیکھو وہ ہنس رہی تھی۔۔۔کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا۔
عذرا کانپ سی گئی۔اماں کی طرف دیکھا۔۔۔
’’اماں؟‘‘ اتنا ہی کہہ سکی،اتنا ہی پوچھ سکی
اسکی آواز کمرے سے باہر جارہی تھی۔۔۔لیکن وہ اس پنڈال تک نہیں جاسکتی تھی جہاں اس کے خاندان کے بڑے،اس کے باراتی اور اس کا دولہا بیٹھا تھا۔وہ وہاں تک بھی نہیں جاسکتی تھی جہاں کوئی معاشرتی خواندہ بیٹھا لکیر یں اور خانے کھینچ کھینچ لوگوں کو اوپر اور نیچے رکھ رہا تھا۔ وہی خواندہ جو عزت وشرافت کو سب سے نچلا خانہ بھی نہیں دیتا ۔۔۔ہاں ہاں وہی خواندہ ہاں ٹھیک وہی جو ذات ومرتبے کو۔۔۔ہاں ٹھیک وہی۔۔۔
وہ اس خواندہ پر ہنس رہی تھی۔۔۔نہیں۔۔۔
وہ خاندان بھرپر ہنس رہی تھی۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔
وہ قبول کرچکی ہے ۔۔۔بس وہ اس لیے ہنس رہی ہے۔۔۔
خالہ زہرا نے اپنی آٹھ سالہ بچی کو خود میں بھنچ لیا ۔۔۔کیوں؟؟جانے کیوں۔۔۔وہ ایسا کرگئیں۔۔۔بس ۔
’’فجی ۔۔۔!‘‘اماں کی لرزتی آواز اس تک آئی لیکن وہ سن نہ سکی۔
ٍ ہر ایک کے ساتھ اس کی پھرپھراہٹ لپٹ گئی۔
ٍ اور پھر۔۔۔پھُراڑاکر جانیوالے سب ہی پرندے جلے پروں کے ساتھ اس دھرتی پر آگرے جواب اوسر ہوچکی تھی۔اوسرکردی گئی تھی۔
ٍٍ ’’اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں رہی کہ پھر کسی پر فجی کے منہ میں دوپٹا ٹھونس کر اس کی ہنسی کا گلا گھونٹنے کی نوبت نہیں آئی۔‘‘