پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین پرنسپل: گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج کوٹ سلطان ،لیہ

ناول کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم ’’جزو‘‘اُس میں بیان کیا گیا ’’فلسفہ حیات‘‘بھی ہوتا ہے ۔ اِس تناظر میں قراۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین کے ناول ایک خاص فلسفے کے عکاس ہیں ۔(1) جس طرح یورپ میں ’’بلیک اور وائٹ ‘‘کے تضاد کو موضوع بنا کر کئی ناول تخلیق ہوئے اور ان میں سے کچھ کو نوبل انعام بھی ملا، اسی طرح ’’پاک وہند ‘‘میں ہجرت کے موضوعات پر ایک عظیم فِکشن تخلیق ہوا ہے ،مگر قراۃالعین حیدر اور عبداللہ حسین نے ہجرت اور تقسیم ہند کے تناظر میں ہندوستان کی مٹتی تہذیب اور نئے دور کے آغاز کے موضوع پر لازوال ناول لکھے ہیں ۔ قراۃ العین حیدر نے ’’اودھ‘‘کے پس منظر میں تہذیب کے نوحے لکھے اور اپنی مٹتی تہذیب کو کہانی کے روپ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی ۔تہذیب کے لحاظ سے اس دور کی نسل دو رنگی فضاؤں کی اولاد تھی ۔اس سلسلے میں بطور خاص ’’آگ کا دریا ‘‘قابل ذکر ہے ،اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی تاریخی ناول ہے حالانکہ یہ بات نہیں ،اس کا اہم کردار مسلسل وجود کے مقصد کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ یہی تلاش تو انسان ،فرقہ اور ساتھ ہی سماج کے ایک حصے کی شکل میں زمانے سے کرتا چلا آرہا ہے ،یعنی اپنی تکلیفوں ،امیدوں ،خواہشوں اور کامیابیوں کے درمیان سے اپنے آپ کو اور ماحول کو برابر ابھارتا رہا ہے ۔(2)
قراۃ العین حیدر ،ہندوستان کی الجھی اور ٹیڑھی تاریخ کو چار ادوار میں منقسم کرتی ہیں :
1۔ چوتھی صدی قبل مسیح ۔
2۔ پندرھویں صدی کا نصف اول اور سولہویں صدی کا نصف آخر
3۔اٹھارھویں صدی کا اواخر اور انیسویں صدی کا بیشتر حصہ
-4 عہد جدید ۔
چوتھی صدی (ق۔م)میں ہونے والی نئی فکری تحریک کی شکل میں بدھ ازم نے ملک کی قدیم روایتی روش کو نیا موڑ دیا ، سولہویں صدی کے اولین میں لودھی حکومت اپنے اختتام کو پہنچی اور شمالی ہند میں مغلیہ عہد کا آغاز ہوا۔ اس عہد میں بہت پہلے ہی عربوں کے ساتھ تہذیب کاایک نیا دھار ا ملک میں آچکا تھا اورہندوستانی تہذیب کے عظیم تہذیبی دریا کے گلے میں باہیں ڈال چکی تھی اور مختلف فنون کی دستکار یوں ،ہندوستانی کلاسیکی موسیقی، لباس ،کھانا پینا اور بنگالی سمیت جدید ہندوستانی زبانوں کی شکل میں یہی تہذیب ہمیں ورثے میں ملی ہے ،جس کے ہم وارث ہیں۔ جس طرح آٹھ سو سالہ گپت سلطنت کے زوال اور ہندو مذہب کے منتشر ہونے کی وجہ سے شمالی حملہ آوروں کے حملے کامیاب ہوئے تھے،اُسی طرح اب مغل حکومت کے تار تار ہونے اور یہاں کے معاشرے کے تالاب کے بندھے ہوئے پانی کی حالت میں پہنچ جانے کی وجہ سے ہم تیز طرار اہلِ یورپ کی چالوں کا شکار ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اٹھارویں صدی ہندوستان کے لیے ایک سرخ اور کالی آندھی ثابت ہوئی اور انگریز نے ملک کی تہذیب و ثقافت کے پورے نظام کو تہہ و بالا کردیا۔یہ سلسلہ انیسویں صدی کے نصف آخر تک برابر چلتا رہا اور وہ عہد جدید آگیا جس میں عظیم ہندوستان پہلے دو حصوں میں اور پھر تین حصوں (سقوط ڈھاکہ)میں منقسم ہوگیا ۔ (3)
’’آگ کا دریا ‘‘اسی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوا ہے اس میں ’’ وقت‘‘ ایک علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے جو دریا کی مانند مسلسل بہہ رہا ہے، اس ناول میں ’’وقت‘‘ ایک جابر اور اندھی قوت کی صورت سامنے آیا ہے ، جس کے سامنے انسان بے بس ، بے وقعت اور ہر اعتبار سے شکست خوردہ ہے۔ یہ ’’وقت ‘‘ ہی ہے جس نے سیکڑوں برسوں کی تہذیب کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور ہندوستان ایک وفا دار کتے کی طرح اس کے تلوے چاٹتا رہا۔ مذکورہ چار ادوار نے ہندوستان کے تہذیبی سلسلوں کو ایک فطری اندازسے ایک ہی لڑی میں پروے رکھا، بدھ ازم، ہندوستان میں مشترک قدر ایک ’’ نمانتا‘‘ اور صوفیانہ طرز احساس ہے جس نے ہندوستان کو ایک توانا تہذیب میں جوڑے رکھا ۔یہاں پر ایک مستحکم اور مضبوط معاشرہ تھا، اس کے لوگ شریف ، باوضع اور ان کی خوشیاں غمیاں یکساں تھیں ، ان کے رہن سہن اور تمدن کے سازو سامان مشترک تھے ،حتی کہ ان کے ناموں میں بھی مماثلتیں موجود تھیں۔ فن تعمیر اور عبادت گاہوں کے درودیوار اور ادب آداب ایک دوسرے سے خاصی حد تک ملتے جلتے تھے روحانی زندگیوں میں ’’ تصوف ‘‘ ایک مضبوط حوالے کے طور پر موجود تھا ۔
اس شانت اور ٹھہری ہوئی تہذیب میں جو نہی اہل یورپ کا عمل دخل شروع ہوا تو ہندوستانی تہذیب کی باطنی بنیادیں ہلنے لگیں، مغل بادشاہ تعیش کے بادشاہ تھے ، وہ روح عصر کو سمجھ نہ سکے اور سفید چمڑی والوں کی چالوں سے بے خبر شعرو ادب اور موسیقی پر سر ہی دھنتے رہے اور صدیوں کو محیط تہذیب اور طرز ریاست آہستہ آہستہ فرسودہ اور ماضی کا حوالہ بننے لگی ۔ ایک طر ف جمود زدہ ماحول تھا تو دوسری طرف تیز طرار ، فعال اور تازہ دم یورپی سیاسی چالیں اور معیشت و تجارت کے نئے نویلے فلسفے ، انہوں نے سترہویں صدی کے نصف آخر سے 1857ء تک خود کو ہر جگہ غالب کر دیا اور بالعموم تمام ہندوستانی ایک عجیب طرح کے مخمصے کا شکار ہو گئے ،جن کی ذہنی حالت کی ترجمانی غالب ؔ کے اس شعر سے ہو جاتی ہے:
’’ایمان ‘‘مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے’’ کفر‘‘
’’کعبہ ‘‘میرے پیچھے ہے۔’’ کلیسا ‘‘مرے آگے (5)
ان ذہنی کیفیات کے تضاد کو سمجھنے کے لیے ہندوستان میں قائم ہونے والے ادارے ’’ دیو بند‘‘ دارالعلوم ،علی گڑھ کالج، اودھ پنج (اخبار )، اکبر الہٰ آبادی کی شاعری،سرسیداحمد خان اور اس کے قریبی لوگوں کی تحریریں ،کتب اوردیگر تخلیقات کو سمجھنا بھی ضروری ہے ،ایک عجیب کشمکش تھی۔دراصل یہ ایک مخمصہ تھاجو تہذیب کی وفات پر رونماہوا کرتا ہے ،ایک افراتفری تھی، میدان حشر کے مصداق ۔تمام سوچنے والے اذہان اپنے طور پر اپنا اپنا فلسفہ بیان کررہے تھے، کچھ یورپی تہذیب اور جدید علوم کے داعی تھے تو کچھ اپنے ماضی کے مجاور بنے بیٹھے تھے۔وہ دور ایک ’’عصر بے چہرہ‘‘کی صورت اپنا آپ دکھا رہا تھا ۔قراۃ العین حیدر ،عبداللہ حسین اور خدیجہ مستور اور پھر بعد میں انتظار حسین نے اسی ’’عصربے چہرہ ‘‘کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں ‘‘بھی اسی ٹوٹتی پھوٹتی ،مٹتی ،بگڑتی اور منتشر ہوتی تہذیب کے خاتمے پر نمودار ہونے والی کہانی ہے ۔ (6)
ناول کا عنوان ’’اداس نسلیں ‘‘معنی خیز ہے ۔ایک تو وہ نسل ہے جو 1947 ء کے وقت برِ صغیر میں زندہ تھی ،اس کے سامنے ماضی اپنے تمام حوالوں کے ساتھ موجود تھا ۔پر امن، شانت اور مل جل کر زندہ رہنے کی خواہش لیے تمام رشتے تاریخ کا حصہ تھے تو دوسری طرف آنے والا کل ایک بڑے شناختی بحران کا پتا دے رہا تھا۔دوسری نسل یا آنے والی نسلیں وہ تھیں جو 1947 ء کے بعد بطور خاص پاکستان میں پیدا ہوئیں،ان سے ان کا ماضی اور ماضی سے جڑی ساری تاریخ اور ریت روایت؛ ریاست کی پالیسیوں کے بموجب چھین لی گئیں اور ان کی جُڑت اپنی دھرتی کی بجائے عقیدے کی غلط تشریح کے ساتھ جوڑ دی گئی، جس سے ان کا مستقبل ہی دھندلایا گیا اور وہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارنے لگیں ۔ آج ہم جس پاکستان میں زندہ ہیں اور اس میں جن گھمبیر بحرانوں کا ہمیں سامنا ہے ان میں تہذیبی بحران کے ساتھ شناختی بحران بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔جس نے ماضی ،حال اور مستقبل میں عدم توازن پیدا کررکھا ہے اور اسی عدم توازن کی وجہ سے ہمارے ہاں ایک ایک کرکے تمام روحانی قدریں معدوم ہوئی جاتی ہیں اور ہم عجیب طرح کی ’’ابنارمل‘‘زندگیاں گزارنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اس پس منظر میں ’’اداس نسلیں ‘‘کے مرکزی کردار کے ساتھ ایک راہ چلتے بڈھے کا مکالمہ دیکھئے:
’’اِ س سے پہلے آئیڈیلز تھے اور آوارگی تھی۔ اگر میں تفصیل سے بیان کروں تو تم کہو گے کہ وہ آوارہ گردی کی زندگی تھی۔ مگر نہیں ،وہ محض آوارگی تھی ۔یہ مجھے بہت بعد میں پتا چلا ۔۔۔۔۔آئیڈیل ۔۔۔۔اصل اور صحیح آئیڈیل تو مکمل نارمل حالات میں بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہمارے پاس نہ آئیڈیل تھے نہ سیاست ، صرف بگڑی ہوئی زندگیاں تھیں اور زہریلے دماغ، جس کا نتیجہ اس بگڑی ہوئی تاریخ میں ظاہر ہوا ہے ، یہ سب۔۔۔۔۔اس نے چاروں طرف ہاتھ پھیلایا ،تم تو دیکھ ہی رہے ہو۔ یہ تاریخ کی کون سی شکل ہے ؟یہ وہ نسل ہے جو ایک ملک کی تاریخ میں عرصے کے بعد پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔جس کا کوئی گھر نہیں ہوتا ،کوئی خیالات کوئی نصب العین نہیں ہوتا۔ جو پیدائش کے دن سے اداس ہوتی ہے اور ادھر سے ادھر سفر کرتی رہتی ہے ۔ہم ہندوستان کی اس بدقسمت نسل کے بیٹے ہیں ۔‘‘ (7)
چند اور سطر یں دیکھئے جن میں علامتی انداز میں گمنامی اور اندھیر مستقبل کے بارے میں کیا کیا کہا گیا ہے :
’’ہم یہ ثابت کردیں گے کہ ہم اپنے مُردوں کی حرمت کے پاسبان ہیں ۔ آج ہمارے اس گمنام بھائی کو، جس کا نام بھی بعض ضرورتوں کے تحت ہمیں خود ہی ایجاد کرنا پڑا ، وہ عظیم الشان جنازہ میسر ہوا ہے جو دنیا میں بڑے بڑے آدمیوں کو نہیں ملتا ۔ دس ہزار۔۔۔۔۔۔۔دس ہزار مومن ۔۔۔۔۔۔۔ تقریر کے دوران اور تقریر کے بعد تک لوگ ٹولیوں میں جنازے کے پاس سے گزرتے رہے ۔ ان میں سے ہر ایک حتی الوسع اس اجنبی انسان کا مردہ چہرہ دیکھنے کا خواہشمند تھا جو محض مرکر یکلخت ان سب کے لیے دردمندی ، خداترسی اور مستقبل کے خوف کی عظیم علامت بن گیا تھا ۔ چند ادھیڑ عمر کسان عورتیں اونچی آواز میں بین کرنے لگیں ۔ ان پر آج پہلی بار موت کی عالمگیر حیثیت کا انکشاف ہوا تھا اور غیر شعوری طور پر انھوں نے محسوس کیا تھا کہ اس انسان کی موت ان سب کی موت تھی کہ مستقبل کے اندھیرے کی مشترکہ موت میں وہ سب شامل تھے ۔‘‘ (8)
مستقبل کا اندھیرا ،حال کی غیر یقینی اور غیر واضح تصویر اور ماضی کا آہستہ آہستہ گھپ تاریکی میں معدوم ہوتے جانا ،یہی اداس نسلوں کی اداس کتھا ہے ۔ عبداللہ حسین نے 1857 ء کے بعد تشکیل پانے والے ذہن اور تاریخ کو 1947 ء کے منطقے تک کامیابی سے پہنچایا ہے ۔ ان سوبرسوں میں تیار ہونے والی اشرافیہ کسی نہ کسی حادثے کی پیداوار تھی، اس لیے وہ ’’سوڈو ‘‘رویوں کی حامل تھی۔ صدیوں کے عمل سے تیار ہونے والی تہذیب کو یورپی ڈائنامیٹ سے چند ہی دہائیوں میں نیست ونابود کردیا گیا اوروہ شناخت جو یہاں کے لوگوں کے لیے باعث صد افتخار تھی، صرف داستانوں کا بیانیہ بن کر رہ گئی ۔
انسان مایوس اور ابنارمل اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے لاشعور میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زمانے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں اورنہ ہی کوئی پرسان حال ہے۔عبداللہ حسین نے اسی فلسفہ کو تقسیم ہند کے تناظر میں بیان کیا ہے کہ جب انسانوں سے ان کا ماضی اور حال چھین لیا جائے تو ان کے پاس صرف سلگتی ہوئی زندگیاں اورجلتی ہوئی سوچیں رہ جاتی ہیں ، ہم ایسی ہی قوم کی اداس نسل ہیں ،جن کی تاریخ ریاستی پالیسیوں کے تابع ہے اور حال اور مستقبل اسی ’’طے شدہ تاریخ‘‘ کے زیر اثر اپنا چہرہ واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
مآخذ
1۔ مزمل حسین ڈاکٹر ، قراۃ العین حیدراور عبداللہ حسین کا تقابلی مطالعہ ،مشمولہ مضمون، روزنامہ جنگ ،ملتان (ادبی ایڈیشن) 21 فروری 2008 ء ۔
2۔ شہزاد منظر ، پاکستان میں اردو ناول کے پچاس سال ،مشمولہ مضمون ،عبارت ،ڈاکٹر نوازش علی ،معاونین (مرتبین )(راولپنڈی ،ص299 ء)1997 ء ۔
3۔ عبارت ،ایضاً ، ص 299 ۔
4۔ مزمل حسین ،ڈاکٹر ،قراۃ العین حیدرا ور عبداللہ حسین کا تقابلی مطالعہ ۔
5۔ غالب اسد اللہ خان ، دیوان غالب ،(لاہور :مکتبہ جمال ،ص 351 )2010 ۔
6۔ منور بلوچ ،اداس نسلیں اور تہذیب ،مشمولہ مضمون ، روزنامہ خبریں ،ملتان 8 اپریل 2014 ء ۔
7۔ عبداللہ حسین ،اداس نسلیں ،(لاہور :سنگ میل،ص 506-07 )2004 ۔
8۔اداس نسلیں ،ص 504-05 ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے