سابق ریاست قلات کے شاہی گھرانے کے چشم و چراغ ، بلوچستان کی نامور علمی و ادبی شخصیت آغا نصیر خان کو اس سال نو اکتوبر کو ہم سے جدا ہوئے دو سال بیت گئے ۔
وُ ہ سابق والئی قلات میر احمد یار خان کے بھانجے اور داماد تھے ۔ اُنہوں نے علمی و ادبی موضوعات پر تقریباََ 21 کتب مختلف زبانوں میں تحریر کر کے نہ صرف احمد زئی خاندان کا نام مزید روشن کیا بلکہ بلوچستان کی تاریخ و ثقافت کو دنیا بھر متعارف اور روشناس کرایا ۔
بلوچستان کے معروف موُرخ و محقق ، دانشور اور ماہر لسانیات آغا میر نصیر خان کی تحقیق وتخلیق سے متعلق کاوشیں قابلِ قدر ہیں ان کی تصانیف بلوچی اور براہوئی کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں میں ہیں ۔
1935 ء میں سنڈیمن ہائی سکول کوئٹہ سے میٹرک تک ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور ایف سی کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے ۔ 1941 ء میں ایف سی کالج لاہور سے بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریاست قلات کے مختلف منصب پر فائز رہے ۔ 1947ء میں ریاست قلات کے وزیر دربار مقرر ہوئے ۔ اور 1947ء سے 58 19ء یعنی دس سال تک اس منصب پر فائز رہے ۔ بحیثیت ماہر تعلیم اور منتظم آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ، بلوچستان کو صوبائی حیثیت ملنے کے بعد 1972ء میں ٹیکسٹ بک بورڈ بلوچستان کے پہلے چیئرمین کے طور پر آپ کا انتخاب کیا گیا ۔
1976ء میں بلوچستان انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا اس طرح بلوچستان میں تعلیمی معیار کی بہتری اور صوبے میں تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں ۔ اس طرح آپ نے بحیثیت ماہر تعلیم اور اعلیٰ منتظم اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
آپ کو بلوچی اور براہوی کے علاوہ فارسی ، پشتو ، اردو اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ بلوچی اور براہوی زبانوں کے ادب کی ترقی کے لئے اُن کی کوششیں اور خدمات نا قابل بیاں اور ناقابل فراموش ہیں ۔ اُنہوں نے دونوں مذکورہ زبانوں کی گرائمر اردو اور انگریزی میں تحریر فرما کر موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے ان زبانوں کے سیکھنے اور سمجھنے کی راہیں کھول دیں ۔
آپ کی تصانیف میں ’’تاریخ بلوچ اور بلوچستان ‘‘ مستند اور قابل ذکر ہے ۔ یہ تصانیف آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ اسے بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے شائع کیا ۔ یہ کتاب بلوچستان میں دیگر طبع شدہ تورایخ میں ایک منفرد اور مستند حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں اُن قدیم واقعات پر بھی تحقیق کی گئی ہے جو دیگر مؤرخین سے پوشیدہ رہے ۔ اِس منفرد تاریخی کتاب کے علاوہ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ جو بلوچی زبان و ادب کے فروغ کا اہم اور سب سے بڑا اشاعتی ادارہ ہے نے اُن کی کئی کتب کو زیور اشاعت سے مزین کیا جن میں سے کفر و اسلام ء جنگ ، بلوچی زبان و ادب ءِ تاریخ ، بلوچی کارگونگ ، بلوچی لوزوراھند ، بلوچی کردی بول چال ، ذال بول و نوکری ۔ کشارکاری ، نامداریں مردم قابلِ ذکر ہیں ۔ وُہ نامور دانشور اور منفرد مؤرخ و محقق خیال کئے جاتے تھے ۔ آغا نصیر خان کو 1972ء سے 2000ء تک بلوچی اکیڈمی کی مجلس عاملہ کارکن رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔1990ء سے 2001ء تک وُہ بلوچستان یونیورسٹی میں بطور ریسرچ سکالر علمی و ادبی فرائض انجام دیتے رہے ۔
وُہ 1938 ء میں سابق والئی قلات منیر احمد یار خان کی گرفتاری کے بعد اپنے گھر میں چار سال تک نظر بند بھی رہے ۔ وُہ ہمہ وقت اور تادم مرگ تحقیق و تخلیق میں مشغول رہے۔ وُہ بلوچستان کے نامور فرزند مرحوم عبدالرحمان کرد کے ماہنامہ نوائے بولان کے سرپرست بھی رہے ۔ برادرم سعید کرد کی ہمیشہ ’’ دامے درہمے اور سحنے ‘‘ معاونت فرماتے رہے۔ وقتاََ فوقتاََ ان کے تحقیقی مضامین ’’نوائے بولان ‘‘ میں شائع ہوتے رہتے تھے ۔
وُہ انتہائی منکسر اور بردباد شخصیت کے مالک تھے ۔ مجھے قلات پبلشرز کوئٹہ میں ان سے ملاقات کا شرف کئی مرتبہ میسر آیا۔ زمانہ طالب علمی میں اپنے والد محترم عبدالرحمان غور کے ہمراہ مرحوم سینٹر زمرد حسین صاحب کے ہاں جانے کے اکثر مواقع میسر آتے رہتے تھے ۔ زمرد صاحب زندہ دل اور نامور علمی اور سیاسی شخصیت تھے ۔ اُن کا دفتر بلوچستان کی نامورشخصیات سے بھرا رہتا تھا ۔ ہر قسم کے موضوعات زیرِ ِ بحث آتے تھے۔ محفل زمرد صاحب کے قہقہوں سے گونجتی رہتی تھی ۔ میر گل خان نصیر ، شہزاد ہ عبدالکریم بلوچ اور میر نصیر خان تو اکثر وہاں موجود ہوتے ، میر نصیر خان ہر لحاظ سے ایک قد آور شخصیت کے مالک تھے ۔
9 اکتوبر 2013کو ان کی رحلت سے بلوچستان بھر کے قبائلی اور علمی و ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گیا۔ وُہ دوستوں کے ساتھ اکثر مجلس اور محفلیں سجاتے تھے اور اُنہیں اپنے زریں خیالات اور معلومات سے بہرہ مند کرتے رہتے تھے ،
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
شاید تمہیں میر سے صحبت نہیں رہی
گلِ نورُستہ اُن کی قبر کی نگہبانی کرے ، رحمتِ خداوند اُس پر ہمیشہ سایہ فگن رہے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو۔