دنیا نے آج تک سماجی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کی جتنی شاندار چھلانگیں لگائیں اکتوبر انقلاب اُن میں سے ایک بہت ہی ممتاز اور نمایاں پھلانگ ہے۔تقریباً ایک صدی قبل،1917 میں روس کے ملک میں وہاں کے عوام نے ایک بہت طویل ، قولنجی اور خونی جدوجہد کے بعد بالآخراپنے ملک سے بادشاہت ختم کردی ۔ اسے ختم کرکے روسی عوام نے اپنے ضمیر کی توقیر بحال کردی اور سماجی ترقی کی طرف جانے والی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور کردی۔بادشاہت تو رعیت کے انسان ہونے کی تردید و توہین ہوتی ہے ۔یک نفری حاکمیت درندگی ہے۔ یک نفری عقلمندی قوموں کی تباہی ہے اور یک نفری ہیروگیری سماج کی عمومی موت کا اعلان ہے۔(بادشاہ ، ہیرو، اورنجات دھندہ کسی بھی قوم کے لیے فخر نہیں شرم کی علامت ہوتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ آدم کی ہر اولاد ہیرو بھی ہے اور نجات دہندہ بھی!!)۔
روس گویا پورے براعظم یورپ میں آخری ، لحیم شہیم اور پلید بادشاہت تھی۔ وہاں سے نجات سمجھو پورے یورپ کی یک فردی حاکمیت سے نجات تھی۔ یوں اُس براعظم نے روس کے عوام کی بے پناہ قربانیوں سے یک فردی آخری حکمرانی بھی سے نجات حاصل کرلی۔ مگر بقیہ دنیا بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک جہاں صنعتی معاشرہ موجود نہیں ہے ، ابھی تک اُس صورتحال میں گردن گردن ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہاں تو ابھی تک جہاں پناہ بھی ایک ہے،سائیں اور بھوتاربھی ایک فرد ہے، واجہ اور آقا بھی ایک فرد ہے ۔ اورحکمران خانوادہ بھی ایک ہے۔ وہ ہی عقل مند ہے، وہی دور بین، وہی بہادر، وہی ماہر اور وہی کرامت کے چشموں کا سرچشمہ ہے ۔ باقی لوگ محض رعیت ہیں۔کیڑے مکوڑے، ’’ ساہ دار‘‘ ، دلت ، کمی کمین۔۔۔۔۔۔اُسی کے قصیدے گاؤ، اسی کی شان میں سیمیناریں کراؤ ، اور پیسے خلعتیں کماؤ ۔ ٹیکس دو، جرمانے بھرو، قیدیں کاٹو، غدار اور رواج دشمن قرار پاؤ۔ ۔۔۔۔۔۔کیسی اندھیر ہے؟۔
اِس یک فردی حکمرانی کا نام کسی ملک میں بادشاہ ہے، کسی میں شیخ ہے، کسی میں مَلَک ہے۔ کہیں یہ فیلڈ مارشل ہے،کسی ملک میں یہ امام اور خلیفہ ہے،یا پھر جمہوریت کے نام پہ ایک شخص قدم بڑھاتا جاتا ہے اور بقیہ عوام ’’ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے گلہ پھاڑ نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔غریب ممالک میں یہ فردِ واحد جب مر جاتاہے تو اس کی اولاد، اُس کے تخت پر بیٹھتی ہے ۔پھر اس کی اولاد، اور پھر اُس کی اولاد ۔۔۔۔۔۔ہماری سرداری ، اور ہماری حکمرانی یک نفری ہیں اور موروثی ہیں۔
اسی طرح ان ملکوں کے اندر جاگیردار، یا قبائلی سردار اپنے اپنے قبیلے اورعلاقے کا واحد عاقل و لائق و بہادر آدمی ہے جو سارے علاقے پر حاکمی کرتا ہے ۔ وہی پارلیمنٹ کا ممبر بنتا ہے ، وزیر گزیر وہی بنتا ہے ۔حتیٰ کہ سیاسی پارٹیوں کا سربراہ بھی وہی ہوتا ہے۔ اور اپوزیشن لیڈری بھی اُسی کی ہوتی ہے۔سیاہ کا مالک بھی ایک فرد اور سفید کا فیصلہ کرنے والا بھی وہی ایک شخص۔ باقی اشرف المخلوقات بس بھیڑیں ہیں اُسی چرواہے کی ۔ جہاں چاہے ہانک آئے۔ جسے چاہے بیچ ڈالے۔
مگر، ساتھ میں یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے باشعور اور ایماندار لوگ اِس جاگیردارانہ طرز کے مخالف ہیں۔ ہر شخص میرو سلطان و سردار و معتبر و ٹکری سے بیزار ہے، اس دائرے سے باہر نکلنا چاہتا ہے، مکڑی کے اس جال کو نا بود کرنا چاہتا ہے۔ معاملہ محض ’’کس طرح ‘‘اور ’’کس سے ‘‘بدلنے کا ہے۔متبادل کیا ہو!۔
روس کے عظیم اکتوبر انقلاب کی سالگرہ مناتے ہوئے ہم جانتے ہیں کہ تیسری دنیا پر کپٹلزم کے اطلاق کے بارے میں بہت سارے خیالات تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ یورپ کا کپٹلزم اپنے ہاں تین قوتوں یعنی جاگیردار، چرچ اور بادشاہ کے خلاف خون خون ہوکر لڑتا رہا۔ اپنے عوام کو ساتھ لے کر وہ اِن تین ابلیسی طاقتوں کو بالآخر شکست دے بیٹھا۔ یعنی وہاں یورپ میں کپٹلزم سماج کو ساتھ لے کر ایک خونیں جنگ کے بعدجاگیرداریت کو توڑنے میں کامیاب ہواتھا، تبھی وہ اس سے اگلی اور ترقی یافتہ سیڑھی چڑھ پایا ۔ یعنی اُس نے وہاں جاگیردار ، پادری اور بادشاہ کے نظام کو ختم کردیا۔ یعنی وڈیروں خانوں چودھریوں سے جاگیریں چھین کر بے زمینوں میں بانٹ دیں،چرچ کے قوانین کا خاتمہ کرکے انسانی حقوق اور وسیع شہری آزادیوں کے قوانین جاری کردیے، اور بادشاہ کو پھانسی چڑھا کر الیکشن اور پارلیمنٹ قائم کردی۔
مگر اِس کپٹلزم نے تیسری دنیا میں یہ کام نہیں کیا ۔ اس لیے کہ اُس نے یہاں موجود ومروج کو بالکل ہاتھ نہ لگایا ۔ اور اوپر اوپر سے نازل ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہاں کپٹلزم بجائے اس کے کہ ایک متحرک قوت کے بطور سماج کو اتھل پتھل کردیتا ،اُس نے الٹا ہمارے سماجی عوامل کو ٹھہراؤ میں مبتلا کردیا۔ حتیٰ کہ جس سرمایہ داری کو روزگار مہیا کرنے والا گردانا گیا تھا، وہ روز بروز اپنی یہ صلاحیت کھوتی جارہی ہے ۔کراچی، فیصل آباد، لاہور، گجرانوالہ میں بڑے پیمانے کی صنعت سے نہ تو ہمارے سرقبیلوی پیداواری رشتو ں کو زک پہنچی اور نہ ہمارے جاگیرداری نظام کوخراش آئی۔ اس بدبخت نے تو الٹا نقصان ہی پہنچایا۔معاشی اور سماجی نقصان تو اپنی جگہ، اس نے تو یہاں کے اِن حاکم طبقات کے دست و بازو کا کام دیا۔
پھر، ایک اور لومڑی گیری ہم سے ہوئی ۔ عالمی سرمایہ داری نے ہمارے خطے میں ایسی ہوائی اور اوٹ پٹانگ جنگوں میں لاکھوں انسان مروادیے جو بنیادی اور مخاصم تو کیایہاں کے تضادات ہی نہ تھے ۔ یہ پورا منطقہ باہم ایسے الجھ کر رہ گیا جس طرح کہ تنگ درے میں بڑی بڑی شاخوں والی لکڑی سے لدے اونٹ باہم الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ نہ آگے جانے کو راہ نہ پیچھے مڑنے کو راستہ۔ سنٹرل ایشیا سے لے کر جنوبی ایشیا تک ، اور افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطی تک اس بے بنیاد، بے فائدہ اور بے نتیجہ خونریز خانہ جنگی میں جھونک دیے گئے ہیں۔
چنانچہ ہمارے جیسے ممالک میں ’’ یک نفری حکمرانی‘‘ سے نجات کا روسی فارمولا عوام الناس کی رسائی سے بہت دُور،ا ور مدہم کردیا گیا۔انسان اور انسانیت کی معمولی علامتیں تک نشانہ پہ ہیں۔ نجات کی کوئی روزن کوئی دریچہ وا نہیں ملتی۔ عالمی کپٹلزم نے محض معاشی طور پر ہی ترقی نہ کی بلکہ اس نے دنیا بھر میں اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے بھی بہت سے جدید اور تکنیکی طور پر ناقابلِ عبور حصار قائم کردیے۔فردِ واحد کی یہ حکمرانی صرف دفاعی طور پر مضبوط نہیں بلکہ اسے آئین،اور قوانین کے بے شمار فولادی ہیلمٹ اور چوغے پہنادیے گئے ہیں۔ اُس کی خدمت میں بہت ترقی یافتہ ملکی و بین الاقوامی میڈیاموجود ہے، امیر اور وسائل سے بھری سیاسی پارٹیاں اور اُس کی پوری مشنری موجود ہے ، گیت اور ترانے لکھنے والے دانشوروں کی ایک رجمنٹ ہے جو ایک دوسرے کی جگہ لیتی جاتی ہے ۔ اِن گیتوں ترانوں کے گویے کوڑی کے مول دستہ بستہ حاضر ہیں، اور اُن نغموں ترانوں پر ناچنے دھمکنے کے لیے گھیر گھیر کر مواقع اور لوگ حاضر باش کیے جاتے ہیں۔ اس سب پر طرہ یہ کہ بین الاقوامی معتبر اور سند یافتہ ادارے اِس اقتدار کی حفاظت کرتے ہیں۔ یعنی اب تیسری دنیا میں یک نفری حکمرانی کو درپیش خطرات کو بھانپنے کے لیے اُس کے سننے سو نگھنے دیکھنے محسوس کرنے اور اپنا بچاؤ کرنے کے ذرائع بہت ہی ترقی یافتہ ہیں۔
سفاکی اور فسطائیت کے اس پیچیدہ ، صف در صف ،اورحصار درحصار قلعہ میں بندا قتدار کے نرخرے تک رسائی اور عوام کی بہبود اور جمہوریت کی راہ نکالنا اتنی ہی بڑی اورپیچیدہ مشینری کا تقاضا کرتا ہے۔ یک نفری، یا یک خانواد ہی تسلط سے نجات اب بہت بڑی ہنر کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ کم از کم یہ کسی فردِ واحد ، عقلِ کل، یا ایک چھوٹے سے گروہ کا کام نہیں ہے ۔عوام کا انبوہ اور اجتماع کی ہی یہ کام کرسکتی ہے۔
جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے، جو ابھی امید لگائی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بین الاقوامی حمایت یافتہ فاشزم سے نجات کے لیے اِس وقت جو اولین اور واحد راہ میسر ہے وہ عوام کی تنظیم کاری ہے۔ عوا م کی تنظیم یک نفری حکمرانی کی موت کی پہلی ہچکی ہوتی ہے ۔ہم قبائلی تنظیم کو چھوڑ کر عوام کی کوئی بھی تنظیم بنا سکتے ہیں۔ کھیلوں کے کلب تک کو اہمیت دینی ہوگی، ادبی تنظیمیں بنائی جاسکتی ہیں ،پیشے کی بنیاد پر ٹریڈ یونین یا ایسوسی ایشنیں منظم کی جاسکتی ہیں ، چھوٹی چھوٹی سماجی خرابیاں دور کرنے کی تنظیمیں بھی کھڑی کی جاسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔، اور اِن سب سے اعلیٰ اور ارفع تنظیم یعنی ،سیاسی جماعت بھی قائم اورمنظم کی جاسکتی ہے۔
دیکھیے، جہاں جہاں جو جو تنظیم بھی بن سکے، بنائیے۔ چوری میں نہیں، چھپ کے نہیں، تجسس میں لپٹے ہوئے نہیں بلکہ عام اچھے اور شریف انسانوں کی طرح ایسا کیجئے۔شرمائے وہ، جو انسان دشمن کام کررہا ہو، عوام کے خلاف جا رہا ہو۔ چور وہ ہے جو عوام کو جاہل اور نااہل سمجھ کر اُس پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہو۔ چور اور خفیہ گیری وہ کرے جو کمیشن ، کک بیک، رشوت اور وطن فروشی کرتا ہو۔ انسان کی بھلائی کے کام تو دن کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ رائے عامہ آج کے دور میں کھسر پھسروں سے ہموار نہیں کی جاسکتی۔ انسانوں کو اُن کی قسمت پر چھوڑ دینا غیر انسانی بات ہے۔ انسان اکٹھے نہ ہوں تو اُن پر بھوت حکمرانی کرتے ہیں۔ اشتراک اور اتفاق کی برکت کو پہچان لیجئے۔ منظم ہوجائیے ، اپنی تنظیم کی ہمہ وقت جمہوریت سے آبیاری کرتے رہیے۔آپ کی یہی تنظیمیں ، تو و ہ قوت اور جذبہ تعمیر کریں گی جو اپنے معروض کے وقت یک فردی حکمرانی کو بھسم کردیں گی۔۔۔۔۔۔ اور کبھی کبھی توجب معروض لیت و لعل سے کام لے تو یہی تنظیمیں خود معروض کو گلے سے پکڑ کر اُسے اِس تبدیلی کا موافق بنا دیں گی۔
مگر پہلا اور کم سے کم کام، لوگوں کی تنظیم سازی ہے۔ اور اس سلسلے میں سب سے اعلیٰ اور ارفع تنظیم ’’ سیاسی پارٹی‘‘ ہوتی ہے۔ایسی سیاسی پارٹی جو عالمی سرمایہ داری نظام کو خوب سمجھے، اور طبقاتی ، صنفی اور قومی تضادات کی موجودگی کی بنیاد پر اپنی جمہوری تنظیم کرے۔ روزمرہ کے عوامی مسائل کو سامنے رکھے اور عوامی حمایت سے اپنی سرگرمیاں ( بشمول انتخابات میں حصہ لینے کے ) جاری و ساری رکھے۔
ایڈیٹوریل بورڈ کے فیصلے
ماہنامہ سنگت کا اگلے ماہ یعنی دسمبرکا شمارہ اُس کا 216 واں شمارہ ہوگا۔ یعنی اُس کے انیسویں سال کا پہلا پرچہ ۔یوں یہ اپنی مسلسل اور لگاتارماہانہ اشاعت کے اٹھارہ سال مکمل کرچکاہے۔
اس اگلے سال کے لیے رسالے کی منصوبہ بندی اور وسائل و مسائل پر غور کرنے،26 اکتوبرکوماہتاک’’ سنگت‘‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ منعقد ہوئی۔ ایڈیٹر شاہ محمد نے صدارت کی۔ اس میٹنگ میں جاوید اختر، سرور آغا، جیئند خان جمالدینی، ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں اور شاہ محمد مری نے شرکت کی ۔عابد میر اور وحید زہیر زندگی میں پہلی بار حاضر نہ ہوسکے۔
پچھلی میٹنگ کی کاروائی کی منظوری دینے کے بعد ایجنڈے پر نکتہ بہ نکتہ بحث ہوئی۔
-1اگلے سال سے ماہنامہ کے صفحے اور مضامین بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔یہ اب پنجاہ و شش کے بجائے چونسٹھ صفحوں کا ہوا کرے گا۔
-2 یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اب سے اس رسالے میں انگلش زبان کا باقاعدہ سیکشن ہوا کرے گا ۔
-3چونکہ اس کے قاری تعداد میں بڑھ چکے ہیں اور یہ دنیا کے پہلے کی بہ نسبت زیادہ علاقوں میں ہارڈ اور سافٹ صورت میں پڑھاجاتاہے، اس لیے ظاہر ہے کہ اس میں تنوع اور گونا گونیت بھی زیادہ ہوگی۔ اور قارئین کی بڑھتی ہوئی تعداد، اور اُن کی پسند نا پسند اس کے معیار پر بھی مثبت انداز میں اثر ڈالے گی۔اس سلسلے میں اس میں چھپنے والے مواد کے معیار، عمومی دلچسپی، عوامی فائدہ مندی اور سائنسی حقائق پہ مبنی ہونے کی ضرورت پہ زور دیا گیا ۔ اور اس بارے میں متعدد اقدام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
-4 محترمہ فرخندہ جمالدینی کو ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
-5اگلے شمارے سے اس کی قیمت30 سے بڑھا کر 50 روپے اور سالانہ فیس600 روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
-6اس کی اعزازی کاپیاں بھیجنا بند کی جائیں گی۔
ٹائٹل: عزیز جان مینگل کی پینٹنگ جن کی پہلی برسی 6نومبر کو ہے۔
نیں ہرف تینا جونے گرّد مس چِک
امیتادے نوا ایتہ نیکہ ٹِک