” It takes so many years To learn that one is dead”
(I.S Eliot, The  Family Runion)
80 کی دہائی میں جب میں بی اے کا طالب علم تھا ۔ تو میں پروگریسو اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں طالب علموں کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا اور ریلوے ٹریڈ یونین میں پرولتاریہ سیاست میں بھی باعمل تھا۔ طالب علموں کے اجلاس، مزدوروں کے اجلاس اور سٹڈی سرکل وغیرہ کی سرگرمیاں میری زندگی کا حصہ تھیں۔ مارکسی فلسفہ، مارکسی ادب اور تنقید ایسے موضوعات پر میں نے اسی دوران تحریر و تسوید کا کام انگریزی اور اردو میں کرنا شروع کردیا تھا۔ میری شاعری ہفت روزہ عوامی ’’ جمہوریت‘‘ لاہور کے پرچوں میں بھی کبھی کبھار شائع ہوجاتی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب ملک پرفوجی استبدادی حکومت مسلط تھی اور جمہوری قوم پرست اور ترقی پسند بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور گروہ اپنے انداز میں اور اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت ضیائی فوجی مطلق العنان حکومت کے خلاف سرگرمِ عمل تھیں اور عالمی سیاست میں سرمایہ دار اور اشتراکی بلاکوں کے درمیان سردِ جنگ اپنے عروج پر تھی۔ افغان ثور انقلاب کی کامیابی اور استحکام کے لیے پوری دنیا کی اشتراکی ترقی پسند قوتیں، اسے ناکام اور رَد کرنے والی رجعت پسند عالمی سرمایہ داری اور اس کے اتحادی ممالک، جماعتوں اور گروہوں کے خلاف صف آرا تھیں۔
اسی دوران میری ملاقات ڈاکٹر خدائیداد سے، ٹریڈ یونین رہنما عبداللہ جان اور محمد امین کے توسط سے اس کے گھرواقع ارباب کرم روڈ پر میں ہوئی۔ اور یہ ملاقات ایک نظریاتی رشت�ۂ جاودان میں تبدیل ہوگئی ۔اس سے پہلے لاہور میں مجھے محترم دوست ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا تھا کہ ’’اگر تمہاری دوستی ڈاکٹر خدائیداد اور پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی سے ہوجائے تو تمہارا ذوقِ مطالعہ بہت زیادہ پروان چڑھے گا کیوں کہ ان کے پاس ترقی پسند مارکسی ادب پر کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ‘‘۔
اس کے بعد تقریباً ہر روز میری ملاقات ڈاکٹر خدائیداد سے اس کے گھر پر ہوتی تھی، اس سے میں کتابیں مستعار لیتا اور مطالعہ کرنے کے بعد اسے لوٹا دیتا۔ ڈاکٹر خدائے داد لٹ خانہ کے بنیادی ارکان میں سے ایک تھا۔لٹ خانہ جو بلوچستان کی ترقی پسند نظریاتی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت اور سنگ میل کا حامل ہے ، جس سے آزات جمالدینی، عبداللہ جمالدینی، پروفیسر نادر قمبرانڑیں ، میر عبدالرحمن کرد، کمال خان شیرانڑیں اور کئی دیگر ترقی پسند سیاسی رہنما، دانشور، شاعر اور ادیب وابستہ رہے ہیں جن کے افکار اور عملی جدوجہد سے بلوچستان بھر میں روشن فکر نظریاتی معمولات اور اُن کی جاودانی اقدار و روایات کا فروغ ہوا۔ اور لٹ خانہ ہی سے بلوچستان کی تمام ترقی پسند، قوم پرست اور جمہوریت و آزادی خواہی کی تحریکوں نے جنم لیا، اور اسی پلیٹ فارم پر پروان چڑھیں ۔
ڈاکٹر خدائے داد کے گھر میں جمعے کے روز ( اس وقت ہفتہ وار تعطیل اسی دن ہی ہوا کرتی تھی) دانشور، ٹریڈ یونین رہنما، سیاست دان ، شاعر اور ادیب جمع ہوتے تھے اور ادب، سائنس ، سیاست، سماجیات، لسانیات اور جمالیات پر خوب بحث و تمحیص ہوتی تھی۔ اس وقت سوویت یونین جو تمام مظلوموں، غریبوں، مزدوروں ا ور استحصال زدہ طبقات کا نجات دہندہ متصور ہوتا تھا، نظریاتی آدرش تھا۔ہم لوگ وہاں کے لٹریچر کو شب و روز ایک کرکے پڑھتے تھے اور سوویت یونین کے سیاسی و سماجی حالات میں گہری دلچسپی لیتے تھے ۔اسی دوران میں نے روسی کلاسیکی ادب سے جدید ادب تک تمام شعراء و ادبا کا مطالعہ کیا اور ان پر ڈاکٹر خدائیداد سے تبادلۂ خیال بھی کیا کرتا تھا۔
ڈاکٹر خدائیداد کی ادب دوستی اور ادبی فکر و نظریہ ترقی پسند انہ تھے۔ اس نے ہمیشہ ادب کو سماجی تشکیل میں ایک نظریاتی و ادراکی معمول کے طور پر دیکھا اور ادب و سماجی تشکیل کے مابین جدلیاتی تعامل کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ اس نے پشتو ادب کوترقی پسند اقدار و روایات سے مربوط کیا۔ اس نے ادب اور سماجیات کے مختلف موضوعات پر مضامین تحریر کیے، جن میں اسی بات پر زور دیا۔ اور اس نے ہمیشہ ادب کے اثرات کو انسانوں پر انقلاب آفریں قرار دیا اس کے نزدیک ادب و فن محض تفریحی نہیں تھے بلکہ مختلف الوظیفہ تھے، جن میں ادب و فن کا انقلابی وظیفہ سرفہرست تھا۔
ڈاکٹر خدائیداد نے ’’سُچا پشتو‘‘ کے عنوان سے کتابچہ تحریر کیا جس میں اس کا یہی انقلابی نظریۂ ادب کا ر فرما ہے ۔ یہ کتاب پشتو ادب کے ارتقاء کو سمجھنے میں ہی مددنہیں دیتی ہے بلکہ ڈاکٹر خدائیداد کے نظریات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ اس نے اردو میں بھی بے شمار تنقیدی مضامین تحریر کیے جو اسی نظریے کے تحت لکھے گئے ہیں۔ اس نے عالمی ادب کے شہکاروں کے بھی پشتو زبان میں تراجم کیے جن میں یونانی ڈرامے ، شیکسپیئر کے ڈرامے اور ورڈز ورتھ کی نظمیں وغیرہ شامل ہیں اور بعض پشتو زبان کے ادبی شہکاروں کو بھی اردو اور انگریزی زبانوں میں منتقل کیا۔
اس نے اپنی ساری زندگی پشتو ڈرامے کے نشو و ارتقا کے لیے وقف کردی۔ اس کی ڈرامہ نگاری بریخت اور چیخوف کے ڈرامائی فن و نظریات پر مبنی تھی۔ اس کے پشتو ڈراموں کے کردار نچلے طبقات کے کردار ہیں اور یہی اس کے ڈراموں کے ہیرو ز بھی ہیں جو بلوچستانی سماجی تشکیل میں پیدا ہوئے، اور پروان چڑھے ہیں۔ اس کے ڈراموں میں استحصالی طبقات سے سخت نفرت اور استحصال زدہ طبقات سے اس کی گہری ہمدردی ، محبت اور خلوص ، اسے ایک لازوال ڈرامہ نگار بناتے ہیں۔ اس نے ریڈیو میں ان ڈراموں کو پیش کیا۔کیوں کہ وہ ریڈیو سے وابستہ تھا۔
ڈاکٹر خدائیداد ہمیشہ مارکسیت کے فلسفے سے وابستہ رہا اور اس کی عالمگیریت میں اس کا پختہ یقین رہا۔ جب 1991 میں سوویت یونین تحلیل ہوا تو عالمی سرمایہ داری کے حاشیہ برداروں نے اس واقعے کو مارکسیت کی نا کامی سے تعبیر کیا اور ہمارے ہاں بڑے بڑے مارکسی رہنما اور دانشور اس بات کے قائل ہوگئے ۔ لیکن ڈاکٹر خدائیداد اور اس کے ساتھیوں نے اس غلط زہریلے پروپیگنڈے کا جواب دیا اور اس نقطۂ نظر کی ترویج کی کہ مارکسیت ناکام نہیں ہوا ہے بلکہ وہ انسان کا روشن مستقبل ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے رسالے ماہناموں ’’ نوکیں دور‘‘ کوئٹہ اور جو بعد میں ماہنامہ ’’ سنگت‘‘ میں اسی یقین کا اظہار کیا۔
بعد ازاں90 کی دہائی میں جب پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی فالج کی بیماری سے سخت علیل ہوگیا تو ڈاکٹر خدائے داد کے گھر میں اتوار ( اس وقت ہفتہ وار تعطیل اسی روز ہونے لگی) جمع ہونے والے احباب پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کے گھر جامعہ بلوچستان کالونی میں اس کی تیمارداری کرنے جاتے اور وہیں پر محفل جمتی۔ پھر جب پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی اپنی موجودہ رہائش گاہ سریاب روڈ کوئٹہ منتقل ہوا ، تو وہیں محفل جمنے لگی اور ڈاکٹر خدائیداد ان محفلوں میں شمعِ محفل ہوا کرتا تھا۔
ڈاکٹر خدائیداد کے پاس اس کے گھر میں ہر زبان کے ادیب، شاعر، صحافی اور دانشور آتے جاتے تھے وہ اُن سے ان کی ذہنی سطح ، ذوق اور قابلیت کے مطابق گفتگو کرتا تھا اور اپنے مہمانوں کی تواضع مزیدار گرما گرمی کا فی سے کرتا تھا اس کے ہاتھ کی تیار کردہ کافی میں ایک عجیب سا کیف و سرور ہوتا تھا ۔
ڈاکٹر خدائیداد نے اُس وقت چشمِ خرد کھولی جب برصغیر میں برطانوی سامراج کے خلاف تحریک آزادی اپنے نکتۂ عروج پر تھی اور بالشویک انقلاب 1917 دو عظیم جنگوں، اور دیگر ایسے عالمی واقعات نے برصغیر میں پرولتاریہ تحریک، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے لیے راہ ہموار کردی تھی۔ بلوچستان میں بھی برطانوی استعمار کے خلاف ’’ انجمنِ وطن‘‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی وجود میں آئی۔ برطانوی نو آبادیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ پرولتاریہ طبقہ اور تعلیم عام ہونے سے متوسط طبقہ بھی وجود میں آچکے تھے اور بلوچستان لیبر فیڈریشن بھی پرولتاری جدوجہد کا آغاز کرچکی تھی۔لٹ خانہ ان تمام طبقاتی، قومی، سماجی ، سیاسی ، ثقافتی اور آزادی خواہی کی تحریکوں اور نظریات کا مرکز رہا ہے جس سے ڈاکٹر خدائیداد کی صد پہلو شخصیت مربوط تھی۔
ڈاکٹر خدائیدادکی تحریروں سے چند اقتباس ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں، جن سے اس کے افکار کو سمجھا جاسکتا ہے:
وہ اپنے ایک مضمون ’’ آس نراس‘‘ میں افغان ثور انقلاب کی تائید میں1917 کے بالشویک انقلاب اور بھگت سنگھ کی پھانسی سے لے کر افغان ثور انقلاب تک مختلف تاریخی واقعات کو بیان کرتا ہے اس سلسلے میں وہ تحریر کرتا ہے:
’’ یہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا خیال تھا کہ یہ انقلاب غیر متعین ، نا مناسب اور غلط وقت پر لایا گیا اور اس کا جواب کامریڈ لینن پہلے ہی اپنے سادہ اور مختصر الفاظ میں دے چکے ہیں کہ انقلاب کا وقت کس نے مقرر کیا ہے ؟۔ انقلاب کا تو مطلب اچانک تبدیلی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے استحکام کے لیے بھرپور، انتھک اور سرفروشانہ جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔(1)
وہ اپنے ایک اور مضمون بہ عنوان ’’ بلوچستان میں محنت کشوں کی تحریک کا آغاز‘‘ میں بلوچستان لیبر فیڈریشن کے بانی صدر کا مریڈ قاضی داد محمد کی پرولتاری جدوجہد، شخصیت اور افکار کو اجاگر کرتا ہے، جسے تاریخ میں نظر انداز اور فراموش کردیاگیا ہے اس سلسلے میں وہ تحریر کرتا ہے :
’’ تحریک آزادی کے رہنماؤں میں سے قاضی داد محمد کو آج کے لوگ تقریباً بھلا چکے ہیں ۔ یہاں کے محنت کشوں کی انجمنوں کے کچھ کارکن کبھی کبھی ان کا کام یاد کرلیتے ہیں مگر قاضی صاحب نے جن مشکلات میں محنت کشوں کی ترقی پسند تحریک کی ابتداء کی تھی وہ حالات زیادہ تر وقت کے اندھیروں میں اوجھل ہوچکے ہیں‘‘۔(2)
ڈاکٹر خدائیداد اپنے ایک مضمون’’ براہوئی زبان، ثقافت و تہذیب ‘‘ میں براہوئی زبان کو بلوچستان کی ما قبل تاریخی تہذیب سے مربوط کرتے ہوئے اس کی قدامت کو اجاگر کرتا ہے اس سلسلے میں وہ تحریر کرتا ہے :
’’ ہم جب اپنے ماضی کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں اور تاریخی شواہد اور آثار پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی قدامت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس زبان کی مخصوص ساخت کی بنیاد پر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پانچ ہزار سے بھی پہلے کی ایک عظیم تہذیب و تمدن جو موہنجودڑو اور ہڑپہ تہذیب کے نام سے محققین اور بڑے تاریخ دانوں کی تحقیقات اور توجہ کا کافی مدت سے مرکز بنی ہوئی ہے ۔ جب اپنے پرکشش دوران میں علم و فن اور اعلیٰ تمدن کی روشنی مشرق، مغرب اور شمال کے اطراف میں موجودہ تہذیبوں تک اپنی روشنی پھیلارہی تھی اور ان تہذیبوں سے خود بھی روشنی حاصل کررہی تھی اور اِن بڑی تہذیبوں کے ساتھ رابطہ مستحکم کرکے علم و حکمت اور فنون کے تبادلے کررہی تھی تو آج ہمارے خراسان کے اس خطے میں بھی مہر گڑھ، کوئٹہ کی میان غنڈی، سمنگلی، کچلاک اور قلعہ عبداللہ کی سپیلہ غنڈی میں ایسے آثار اور شواہد ملتے ہیں اور ملے ہیں جو اسی تہذیب کی پوری نشان دہی کررہے ہیں۔ ان آثار میں سب سے نمایاں براہوئی زبان ہے جو اپنی پوری آب و تاب اور شکل وصورت میں زندہ ہے۔ ثقافت کے تمام نقش اپنی بنیادی شکل میں موجود ہیں، وہی فنون اور دستکاریاں موجود ہیں۔ اس لیے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ قدیم زمانے کی اس تہذیب میں جو زبانیں بولی جاتی تھیں ان میں براہوئی بھی شامل تھی‘‘۔(3)
ڈاکٹر خدائیداد اپنے ایک مضمون ’’کاشتکاری‘‘ میں قبائلیت کو ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے تحریر کرتا ہے:
’’ قبائلیت کی لعنت ہر قسم کی ترقی اور ارتقاء کے راستے میں بہت بڑی اور سخت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ زرعی ترقی پانی کے وسائل بڑھانے اور جدید سائنسی مشینی طریقوں کے بغیر نا ممکن ہے‘‘۔(4)
ڈاکٹر خدائیداد ایک بلند پایہ مارکسی دانشور، انقلابی رہنما، اور عظیم ادیب تھا ، اس نے مارکسی نظرئیے کو اختیار کیا، اسی کے تحت عملی جدوجہد کی اور تادمِ مرگ اس پر ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ قائم رہا ۔ وہ جسمانی طور پر آج ہمارے درمیان نہیں ہے مگر اس کا نظریہ وعمل ہمیشہ زندہ رہے گا۔

حوالہ جات
-1 ڈاکٹر خدائیداد،’’آس نراس‘‘ ماہنامہ ’’ نوکیں دور‘‘ کوئٹہ، جلد نمبر31 شمارہ نمبر4، اپریل1994 صفحہ نمبر22,23
-2ڈاکٹر خدائیداد، ’’ بلوچستان میں محنت کشوں کی تحریک کا آغاز‘‘، ماہنامہ ’’ نوکیں دور‘‘ کوئٹہ، جلد نمبر31، شمارہ نمبر4، اپریل1994 صفحہ نمبر22
-3ڈاکٹر خدائیداد، ’’ براہوئی زبان، ثقافت و تہذیب‘‘ ماہنامہ ’’ نوکیں دَور‘‘ کوئٹہ، جلد نمبر32، شمارہ نمبر9,10۔ ستمبر1994 صفحہ نمبر85
-4ڈاکٹر خدائیداد، ’’کاشتکاری‘‘، ماہنامہ ’’ نوکیں دور‘‘ کوئٹہ، جلد نمبر33،شمارہ نمبر7، جولائی1995 صفحہ نمبر34۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے