بلوچستان میں زبان و ادب کی بہبود اورترقی کے لیے بے شمار ادبی لسانی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔بکھری ہوئی، الگ تھلگ اور بغیر کسی باضابطہ آپسی ربط و روابط کے۔
ہم گذشتہ پچاس برس کے شاہد ہیں کہ یہاں کبھی ایک ایسی ادبی تنظیم موجود نہیں رہی جسے بلوچستان بھر میں اپنی تنظیمی موجودگی کا دعویٰ ہو۔ یا اس کی سوچ کے لوگ متشکل اور منظم انداز میں دوسرے علاقوں میں موجود ہوں۔ سرکاراور سردار کے دربار میں،سرکاری سرداری اخبارات ،اور سرکاری اداروں وغیرہ میں مذکو ر و مشہور تنظیمیں صرف کوئٹہ شہر تک محدود تھیں۔ اور دور دراز اضلاع میں ان کا کوئی وجود، کوئی تنظیم کاری نہ تھی۔
اِس وقت بھی بلوچستان میں(سنگت اکیڈمی کے بشمول) کوئی ایسی تنظیم موجودنہیں ہے جس کی شاخیں اور کمیٹیاں بلوچستان کے ہر علاقے میں پائی جاتی ہوں۔ ایک برصغیر جتنے بڑے علاقے میں پھیلے ہونے، اور سڑک وریل اور ایک مشترک تجارتی منڈی نہ ہونے کے سبب رائٹروں، ادیبوں اور شاعروں کی ایک واحد تنظیم بننا اُس وقت بھی ممکن نہ تھا۔اورٹھوس اور بھرپور شواہد کی روشنی میں ہمارا تجزیہ ہے کہ اگلے پچاس برس میں بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہاں ابھی تک زبان و ادب کی ترویج کی دعوے دار کوئی ایسی زندہ اور سرگرم تنظیم موجود نہیں ہے جو’’ سٹیٹس کو‘‘ کے لیے کام کر رہی ہو ،یا ادب کو زندگانی سے جوڑنے سے انکار کرتی ہو۔گوکہ ہماری حالیہ تاریخ میں اس طرح کی بہت سی تنظیمیں بنتی رہیں جو ادب کو زندگانی کے امور سے الگ کرکے ’’ ادب برائے ادب‘‘ کے نظریے کو فروغ دیتی ہوں ، مگربلوچ عمومی سیاسی علمی ادبی فضا انہیں گھسیٹ گھسیٹ کر ادب برائے زندگی ( ادب بمع سیاست) کی طرف لاتی رہی ہے۔
یہ درست ہے کہ ہم ابھی تک ماضی کے ادبی ورثے کو ڈھونڈنے، جمع کرنے اور شائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کا ادیب ماضی پرستی میں دھنسا ہوا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے معروض میں چودھویں صدی کی دیو مالا یا رزمیہ شاعری کو تخلیق کرنا ممکن نہیں۔ ماضی کا ہمارا ادب اس لیے بہت اہم ہے کہ یہ ہم سب کو جمالیاتی تسکین دیتا ہے۔یہ اُس آرٹ کی سادہ مگر صحت مند اور عام تصور کی عکاسی کرتا ہے جو انسانوں کی ترقی کے ابتدائی مراحل کی خاصیت تھی۔ وہ ’’ فطری سچائی‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے ۔ جس میں سب کے لیے ایک کشش موجود تھی۔ اس لیے اُس ادب کو جمع کرنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنانے کی کاوش فطری بھی ہے اور اشرف المخلوقاتی بھی۔مگر سب جانتے ہیں کہ اس کی پرستش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے مضبوط فرش پن جم کر کھڑا ہوا جا سکتا ہے نئے عہد کے چیلنجوں کا سامنا کرنے ۔
ثانوی نوعیت کے بے شمار تضادات ہیں جن کی وجہ سے ہماری ساری ادبی تنظیمیں ہم خیال نہیں ہیں ۔ اور ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔ بلوچستان میں بولی جانے والی بے شمار زبانوں اور لہجوں پر مشتمل ایک بہت ہی وسیع خطے میں ایک ،یا ایک جیسی تنظیمیں نا ممکن ہیں۔ پھر ہماری زبان کے کچھ علاقے ایسے ہیں جو ترقی یافتہ صنعتی معاشرے ہیں، کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں بد ترین جاگیرداریت مسلط ہے۔ اور بقیہ علاقے ایسے ہیں جہاں ہم ابھی تک سرقبیلوی نظام اور فیوڈلزم کے سنگم والے سماج میں زندگی گزاررہے ہیں۔
یہ بھی ہے کہ اکا دکا تنظیمیں آرٹ اور ادب کو صرف اُن کے اپنے اندرونی ارتقائی قوانین کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں ، جبکہ کچھ دوسری اکثریت کی تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ آرٹ کے جوہر، ابتدا، ترویج اور سماجی کردار کو صرف سماجی نظام کے مجموعی تجزیے سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی آرٹ سماجی شعور کی ایک شکل ہے اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجوہات کو انسان کے سماجی وجود میں تلاش کرنا چاہیے۔
چنانچہ جو ادبی تخلیقات ہورہی ہیں وہ قریب قریب سب کا سب خیر اور بھلائی کا ادب ہے۔اُس میں کوئی ذہنی عیاشی والی بات نہیں ہے ، کوئی ہوائی اور ہوائی جہازی والے معاملے نہیں ہیں۔سب کچھ جو چھپ رہا ہے اور جو چھپ نہیں پارہا ہے وہ انسانی زندگی سے وابستہ شعر و ادب ہے۔لہٰذا مجموعی طور پر ہماری ساری ادبی تنظیموں کے بیچ کوئی بنیادی ، متصادم تضادات موجود نہیں ہیں۔
ایک مربوط و منظم ادبی صورت کی اہمیت تو ہر دم رہتی ہے۔اَن گھڑے اور پالش نہ شدہ نئے نئے تصورات پر باتیں کرنے، تخلیق شدہ نگارشات پہ بحث مباحثہ کرنے، اور انسانی فلاح کے حوالے سے ایک پراثر اور ہم آہنگ تخلیقی ادبی ثقافتی فضا کے قیام کے لیے ادبی تخلیق کاروں کا ایک دوسرے سے مربوط رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
تو حل کیا ہے؟۔
اس کا حل دو شاخہ ہے۔
1۔ جہاں کوئی ادبی علمی اور لسانی تنظیم موجود نہیں ہے وہاں ایسی تنظیم کے قیام کی کوشش کی جائے۔اور جہاں جہاں ایسی تنظیم موجودہو،وہاں اس تنظیم کو فکری اور تنظیمی طور پر مضبوط تر کیے رکھنا ہے۔اس کی ادبی تنقیدی نشستوں کاتسلسل سے انعقاد ہو، اس کے منشور کے مطابق مسلسل جمہوری انتخابات منعقد ہوتے رہیں۔ اور منتخب اداروں کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے رہیں۔
-2 جہاں جہاں اور جس جس نام سے جوبھی تنظیم کام کررہی ہو اُس کو تسلیم کیا جائے، اُس کے ساتھ قریبی جمہوری تعلقات بڑھائے جائیں۔اُس کی تخلیقات پڑھی جائیں، اس کے اجتماعات میں حصہ لیا جائے، اور اس کی بڑھوتری اور ارتقا میں ( مداخلت کیے بغیر) اُس کی مدد دی جائے۔ جس میں باضابطہ ادبی فکری نشستوں کا تسلسل سے انعقاد لازمی ہو۔ مشاعرے مباحثے منعقد ہوں۔ سکالرز کے لیکچرز، تقاریر رکھے جائیں ۔
ہم جب بھی ادبی تنظیموں کی بات کرتے ہیں تو ہم اصل میں مڈل کلاس کی تنظیم کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ مڈل کلاس کی طبقاتی مستقل مزاجی ہر وقت ٹھوکروں میں ہوتی ہے۔ اور یہ ہر وقت بالادست طبقات میں جا ملنے کو بے قرار رہتی ہے۔ مگر جب نچلے محکوم طبقے کی کسی جدوجہد یا مضبوطی کو دیکھتی ہے تو لپک کر اس کی طرفدار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ شاعر کا تصور ہمارے خطے میں ایک انا پرست کے بطور مشہور کردیا گیا ہے ۔’’ مشاعر میں کس نمبر پر پڑھوایا گیا ‘‘ کے اوپر تا عمر کے مناقشے کھڑے ہوتے ہیں۔’’ میں پیدا ہی اگلی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے ہوا ہوں‘‘۔ جیسے فیوڈل رویوں کو مشہور کراکر شاعر و ادیب کو شخصیت پرستی اور نرگسیت کا مجسم نمونہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے اُن کی تنظیمیں ہمیشہ شخصیات کے ٹکراؤ کی زد میں آکر بالآخر بجھ جاتی رہی ہیں۔ ایک مشہور شدہ یا نام نکالا ہوا شخص اپنا حلقہ بنا کر اُسے تنظیم کا درجہ دیتا ہے۔ یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنظیم چلتے چلتے یک نفری گروہ کا حلقہ بن جاتا ہے۔اوپر سے وہ شخص فیوڈل ذہنیت میں آلودہ بھی ہو تو یہ تنظیم اور تنظیم سازی کے لیے زہر بن جاتی ہے۔
دلچسپ یہ ہے کہ اگر وہ نام نہاد ’’ قد آور شخص‘‘ خود ایسا نہ بھی کرے تو تنظیم سازی کے مخالفین یہی الزام اور افواہ پھیلا پھیلا کر اُسے پیرو مرشد ثابت کرتے ہیں۔ اور کچھ ہی عرصے میں پوری تنظیم پرسنلٹی کلٹ کی چیچک میں مبتلا ہوکر فوت ہوجاتی ہے۔
صرف یہ نہیں بلکہ اس ’’ ون مین تنظیم‘‘ کو سرکار سردار کے لیے ہائی جیک کرنا بھی بہت ہی آسان ہوجاتا ہے۔ اُس کے مرکزی کردار کو کسی بھی حوالے سے ہانک کر دربار تک رسائی دلادو، ساری تنظیم ( اور کئی بار تو بہت ساری تنظیمیں) بالائی طبقات کی نظر نہ آنے والی کاسہ لیسی میں جُت جاتی ہے۔
ظاہر ہے اِن رویوں کے لیے نا قابلِ مصالحت، ان تھک اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور یہ کام تنظیم کے اپنے ادارے بھی کرسکتے ہیں اور انفرادی ممبربھی ۔ یاد رہے کہ بلوچستان سطح کی ایک ادبی تنظیم اُس وقت تک بن ہی نہیں سکتی جب تک آپ تنظیم کے اصل کاموں کی بجائے تنظیم کے ڈھانچے کی پرستش کرتے رہیں گے۔ بہت اہمیت کے باوجود ادبی تنظیم کا ڈھانچہ دوسرے درجے کی اہمیت کا ہوتا ہے۔تنظیم کا اصل کام باقاعدگی سے ادبی تنقیدی نشستوں کے انعقاد کا ہوتا ہے۔ تسلسل کے ساتھ شعری دیوان منعقد کرنا ہوتا ہے، لکھنے لکھانے کی ترغیب ہوتا ہے، نئی نئی کتب اور مضامین کی اشاعت میں آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے اور مطالعے و مباحث کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔
چنانچہ ہم باہمی مفاہمت اور رفیقانہ تعلقات کا جمہوری کام جاری و ساری رکھ سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ جلد بازی نہ ہو ، خود پسندی و خود غرضی نہ ہو۔ قبضہ گیریت نہ ہو،ہر جگہ ’’اپنی‘‘ شاخیں کھولنے کی تو سیع پسند ی والا جنون نہ ہو، اور ایک دوسرے کے تنظیمی معاملات میں مداخلت والی فسطائیت نہ ہو۔ باہمی احترام کا بہت خیال رکھا جائے، اور بلا وجہ اور ہمہ وقت کا ’’ اعتراض خان ‘‘ نہ بنا جائے۔ ایک دوسرے کی بڑھوتری اور ارتقا میں رفیقانہ مدد اور حمایت کی جائے۔اور مستقبل بعید میں ایک تنظیم تک پہنچنے کے لیے دو طرفہ یا کئی طرفہ ڈھیلے ڈھالے اتحاد بنا کر چلا جائے۔
ہم یہ کرسکتے ہیں۔