میں داستان میں ہوں ایسے داستاں کے بغیر
کہیں زمین ہو جِس طرح آسماں کے بغیر

ہمارے خواب میں کیوں چل پڑا ہے تُو اس پر
جو راستہ ہے ترے پاؤں کے نِشاں کے بغیر

مُجھے پتا ہے کہیں کا نہ مجھ کو چھوڑے گا
مگر میں رہ بھی سکوں گا نہ راز داں کے بغیر

ہمارا شاخ سے گرنا بہت ضروری ہے
کہ جا سکیں گے کہیں بھی نہ ہم خزاں کے بغیر

ہوا بھی بیچ دے بَس میں اگر ہو مُفلس کے
جولے کے چل پڑا ناؤ کو بادباں کے بغیر

میں حشر تک تمہیں حیرت میں ڈال رکھوں گا
کہ میں یقین کے سوا ہوں نہ ہُوں گماں کے بغیر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے