اپنے شوہر ٹالسٹائی کے بارے کیا کہتی ہے
اپنے ماسکو میں قیام کے دوران میں یاسنا یا پولیانہ جانے کی بڑی خواہش مند تھی۔ٹالسٹائی کا وہ گھرجہاں وہ پیدا ہوا۔جہاں اُس نے اپنے ادبی شہ پاروں کی تخلیق کی تھی۔پر جیسے وہاں حاضری دینی میری قسمت میں نہ تھی۔
اُس دن اپنے ہوٹل کے سامنے ریسٹورنٹ میں ناشتہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا تھا کیفے کی ورونیکا اور داشا پڑھی لکھی ہی نہ تھیں ادبی ذوق کی حامل بھی تھیں۔جب وہ پنیر پراٹھا اور بھاپ اڑاتی چائے ہمارے سامنے رکھ رہی تھیں۔میں نے اُن سے ٹالسٹائی کے شاہکار ناولوں کی بابت پوچھا تھا کہ وہ انہوں نے پڑھے ہیں۔ورونیکا نے اثبات میں سر ہلایا۔ساتھ ہی داشا کی طرف ہاتھ پھیلایا جو کاؤنٹر پر کھڑی ہمیں مسکراتے ہوئے دیکھتی تھی اور بولی۔
’’دراصل یہ صوفیہ ٹالسٹائی کو پڑھے بیٹھی ہے اور میں ٹالسٹائی کو۔چلو اگر شام میں ایک نشست ہوجائے تو لطف آئے گا۔آج شام ہم دونوں فارغ ہیں۔یہیں چبوترے پر بیٹھ کر باتیں ہوں گی۔‘‘
شام بہت خوبصورت تھی۔یارڈ کے موتی بکھیرتے فوارے کی سنگی دیواروں پر بیٹھتے ہوئے ہم نے کونے والی دوکان سے کِسی اجنبی زبان میں گائے گیت کے بول فضا میں بکھرتے سُنے تھے۔درمیانی عمر کی خوبصورت ورونیکا اُن بولوں پر جھومتے زیر لب گنگناتے چبوترے پربیٹھی اور ساتھ ہی اُس نے مجھ سے سوال کرڈالا تھا کہ میں نے کون کون سے ناول پڑھے ہیں اور کس نے زیادہ متاثر کیا ہے؟
پڑھے تو میں نے دونوں تھے اور دونوں میرے پاس بھی ہیں۔وار اینڈ پیس روسیوں کی نپولین بونا پارٹ کے خلاف عظیم جدوجہد کی شاندار کہانی ہے۔مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اینا کرینیناکی بات ہی اور ہے۔یہ اُسکا دوسرا ناول تھا۔اینا کرینینا کے کچھ حصّے میں روس کی ترکی کے ساتھ جنگ کا بھی ذکر ہوا۔تاہم یہ سچائی کی حقیقت نگاری اور جذبوں کی انتہاؤں کو چھوتا ایسا دلکش ناول ہے جس نے اپنے وقت اور عہدکے بہترین لکھاریوں سے خود کو منوایا ۔نقادوں کی رائے ہے۔
This is less a work of art than a piece of life, but what it loses in art it gains in reality.
اُس کے سارے کردار تو جیسے چھم چھم کرتے میری آنکھوں کے سامنے آگئے تھے۔اینا کرینینا کے چہرے پر پھیلی متانت اور خوبصورتی کی گھمبیرتا اس کے احساسات کی داخلی کشمکش ،روح کی افسردگی ،ورونسکی کے اندر بھرا ہوا جوش و جذبہ،جوانی کا حُسن اور جنون ایک شادی شدہ عورت سے انتہا درجے کا عشق، دلیر مگر اندر سے خوف زدہ بھی ۔ورونسکی کے کردار کے اِن پہلوؤں کی عکاسی کس درجہ خوبصورت تھی۔
لیوین بھی انتہا درجے کا متاثر کن کردار ہے جو اُنیسویں صدی کی آخری نصف صدی کے روسی معاشرے پر اثر انداز ہوتے مختلف رجحانات جن میں تعلیم ،خواتین کے حقوق ،سیاسی نظریات،کسانوں کا معاشرے میں کردار جیسے موضوعات پر بے باکانہ اظہار لیوین کی شخصیت کو دل کش بناتے تھے۔
دراصل جب لکھنے والا اپنے زمانے کی معاشرتی خرابیوں کو موضوع بناتا ہے تو جاذبیت بڑھ جاتی ہے۔اس ناول نے روسی معاشرے میں پھیلے ہوئے منافقانہ رویوں ، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی عادتوں، حسد،بغض سے بھرے جذبوں ،خاندانوں میں شادی بیاہ کے مسائل ،سوسائٹی میں نفسانی خواہشات کے بے ڈھنگے اور بے ڈھبے اظہار،اخلاقی اقدار کی کمی،شہری زندگی کے طرز معاشرت میں دیہی زندگی اور زرعی مسائل کا دخول سب ایسے موضوع تھے کہ جو اُس وقت کی سوسائٹی میں رچے ہوئے تھے۔ جنہیں لکھتے ہوئے ٹالسٹائی ان کی اخلاقی نقطہ نظر یا بطور نشان دہی کے کِسی وضاحت کے چکر میں ہرگز نہیں پڑا بلکہ وہ اپنے موضوع اور خیالات کو روسی زندگی کے وسیع پینوراما میں پھیلاتے ہوئے چلا جاتا ہے اور وہ جو پیغام دینا چاہتا ہے وہ بھی عیاں ہوجاتاہے۔
ورونیکا نے میری باتوں سے حظ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’دراصل تو سارا کمال ہی مصنف کا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ اُس کی ناول نگاری نے روسی سوسائٹی کی سبھی پرتوں کو جن میں وہ خود رہ رہا تھا تہہ در تہہ کھول کر اپنے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
اب کوساکز The Cossacksکو ہی دیکھیں۔یہ ناول بھی بنیادی طور پر ٹالسٹائی کے تجربات پر ہی مبنی ہے۔جب وہ کاکیشیا کے علاقوں میں رہا۔
میں محسوس کررہی تھی کہ دل کش خدوخال والی دوشاکیلئے اب خاموشی سے اُسے مزید سُننا بہت مشکل ہورہا تھا۔اُس نے لب کھول لیے تھے۔
’’بلاشبہ بطور لکھاری وہ روسی ادب کا دیو ہے۔اُس نے شاہکار تخلیقات دنیا کو دیں۔مگربطور شوہر ایک بیوی کی نظر میں وہ کیسا انسان ہے؟ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے‘‘۔
’’یہ کس قدر ستم کی بات ہے کہ وہ آدمی جس کا دماغ عجیب و غریب سے مذہبی خیالات سے بھرا ہے۔وہ جو روسی ارسٹوکریسی عورتوں کے بارے میں ایک رائے رکھتا ہے اور وہ رائے بڑی منفی قسم کی ہے کہ وہ اچھے کردار کی مالک نہیں۔اور یہ کہ اُسے شادی ہی نہیں کرنی ‘‘۔
’’اب ہوتا کیا ہے۔شادی ماسکو میں ہوتی ہے۔ 1862 میں ماسکو کے ایک ڈاکٹر اینڈریو کی تیسری بیٹی صوفیہ بہرز Behrs سے چونتیس سال کا آدمی عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تحریری خط کے ذریعے اُسے بتاتا ہے کہ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ شادی کے فوراً بعد اُسے اپنی ڈائریاں دیتا ہے جن میں اُس کے عشق کی داستانیں ہوتی ہیں۔ ان ڈائریوں میں اس کے جنسی تعلقات کی بھی تفصیلات ہیں۔زرعی کسان غلام جنہیں سرف کہتے ہیں کی ایک خوبرو عورت سے جنسی تعلقات اور ایک بچے کا باپ ہونے کی نوید اپنی تحریر کے ذریعے اُس کی آنکھوں سے گزار کر دل کو گھائل کرتا ہے‘‘۔
’’ذرا اپنے آپ کو اس کی جگہ رکھ کر تصور کریں کہ امنگوں اور آرزو ں سے بھری ایک دلکش لڑکی اپنی آنکھوں میں خواب سجائے یہ سب پڑھتے ہوئے کتنی دل برداشتہ ہوئی ہوگی۔ زمانہ بھی تقریباً سوا ڈیڑھ صدی پیچھے کا ہے جب روسی عورت اتنی آزاد بھی نہ تھی جتنی آج ہے۔پر حقیقت یہ ہے کہ آج کی ماڈرن عورت کو بھی اگر ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بھی صوفیہ ٹالسٹائی کی طرح روتی اور کرلاتی ہے‘‘۔
ورونیکا کھلکھلا کر ہنسی اس کے دانت گو سفید موتیوں جیسے نہ تھے مگر خفیف سی درزوں کے ساتھ ایک تناسب سے جڑے خوبصورت لگتے تھے۔
’’ من و عین یہی سین ٹالسٹائی اینا کرینینا میں دہراتا ہے۔جب چونتیس سالہ Constantinاپنی انیس سالہ منگیتر کیٹی کو ڈائریاں دیتے ہوئے کہتا ہے۔
’’انہیں پڑھ لینا میرے ماضی سے واقف ہوجاؤ گی۔‘‘
اب دونوں میں ہلکی پھلکی سی نوک جھونک کا منظر پیداہوگیا تھا۔
’’ ایک نوخیز دلہن کے جذبات کا ذرا سوچو تو یہ کتنا سفاکانہ پہلو تھا کیا تم اِسے سراہو گی ۔‘‘داشا نے قدرے روٹھے پن سے ورونیکا کو گھورا اور بولی۔ اپنی ڈائری میں کیسے یاس بھرے انداز میں لکھتی ہے۔
’’مجھے تو یوں محسوس ہوا تھاجیسے میرے اوپر کوئی بم پھٹا ہو۔ایک خوف میری رگوں میں سرایت کرنے لگاتھا کہ وہ کہیں دوبارہ اس کے پاس نہ چلاجائے‘‘۔
شادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی وہ لکھتی ہے۔
’’شادی جو جوانی کے خوبصورت اور محبت بھرے رومانس سے شروع ہوئی تھی۔اس میں کچھ خوشی بھرے لمحے بھی آئے۔مگر ان کی مدت کتنی تھوڑی تھی۔جھگڑے بہت جلد شروع ہوگئے تھے‘‘۔
’’وہ بہت سرد مہری کا سلوک کرتا تھا۔گھرسے نکلتا تو گھنٹوں واپس آنے کا نام نہ لیتا۔میں صبح ،دوپہر اور شاموں میں اکیلی ہوتی۔مجھے محسوس ہوتا میں اس کے بچے کی نرس ہوں،گھر میں رکھے فرنیچر کا ایک ٹکڑا ہوں۔ سٹور میں پڑے سامان کا ایک حصّہ ہوں۔میں بے حدناکارہ اور کوئی فالتو چیز ہوں۔میں کتنی تنہا ہوں‘‘۔داشا کی آواز بھرّا سی گئی تھی۔
وہ مزید اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہے ’’میں ہمہ وقت حاملہ ہی رہتی تھی۔زندگی کتنی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔میں اکثر اپنے دل کو ٹٹولتی اور خود سے پوچھتی ہوں۔میں کیا چاہتی ہوں؟اور جو جواب آتا ہے وہ مجھے خوف زدہ کردیتا ہے۔میرا اندر رنگ رلیوں سے بھری زندگی کا متمنی ہے۔میں سمارٹ رہنا چاہتی ہوں۔لوگوں سے سُننا چاہتی ہوں کہ تم کتنی خوبصورت ہو۔پھرجیسے میں جھلّا جاتی ہو ں اور کہتی ہوں کہ مجھے کیا ہوتا جارہا ہے؟‘‘
ورونیکا کچھ بولنا چاہتی تھی۔داشا نے اسے بھانپ لیا تھا۔اُسے ٹوکتے ہوئے بولی۔’’عورت کے نقطہ ء نظر سے اِن جملوں میں چھپا درد دیکھو‘‘۔
اس کی یاداشتوں کو لکھتے ہوئے میں ایک جملہ پڑھتی ہوں۔دنیا میں محبت قسم کی کوئی چیز نہیں۔یہ صرف جسمانی ضرورت ہے۔جنسی تعلقات کیلئے ساتھی کی ضرورت بس۔اگر میں یہ چیزیں شادی سے پہلے کہیں پڑھ لیتی تو کبھی اس سے شادی نہ کرتی۔‘‘
’’میں اپنے شوہر کے لڑیری کام میں کتنی بڑی معاون تھی۔ اُس کا شاید اُسے احسا س ہی نہیں تھا۔” وار اینڈ پیس” کو میں نے دوتین بار نہیں سات بار لکھا۔یہ نہیں کہ اس کا کوئی حصّہ جس میں کہیں ترمیم یا کوئی اضافہ ہوا ہو۔بلکہ اول سے آخر تک لکھا۔اس کی تمام تر سفاکیوں کے باوجود، اُس کے رُلا دینے والے رویوں سے دل برداشتہ جہاں وہ مجھے مجبورکرتا کہ میں ہر بچے کو اپنا دودھ پلاؤں۔ اس کیلئے سبزی کا سالن بھی خود بناؤں کیونکہ وہ ویجیٹرین تھا۔کام کے بوجھ نے مجھے بیمار کرڈالا تھا۔کمرکا دردمستقل رہنے لگا تھا۔نکسیر اکثر پھوٹی رہتی۔اور دانتوں کی تکالیف آئے دن مجھے رُلاتی۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ان تکالیف کی شدت اس وقت بہت کم ہوجاتی ہے جب میں اُس کا لکھا ہوا پڑھتی اور اُسے لکھتی۔سچ تو یہ تھا کہ مجھے کوئی بھی چیز اتنی متاثر نہیں کرتی تھی جتنے اس کے خیالات اور اس کی ذہانت ۔الفاظ جیسے کھلونوں کی طرح اُس کے ہاتھوں میں کھیلتے اور خیالات کسی آسمانی پھوار کی طرح اُس کے دماغ سے برستے‘‘۔
بہت سالوں بعدصوفیہ کی ایک اور تحریر ہماری آنکھوں کو بھگوتی ہے۔درمیانی عمر کی وہ عورت ابھی بھی بہت پرکشش تھی۔ڈھیروں بچوں کے باوجود اِس عورت نے اپنی ذات کو خود اذیت پرستی میں مبتلاکرلیا تھا۔گندی اور بے ہودہ کتابیں ڈُھونڈڈھونڈکرلاتی اور انہیں پڑھتی۔گھنٹوں پیانو بجاتی رہتی۔ٹھنڈے پانیوں میں دیر تک پیراکی کرتی اور نوجوان کمپوزر سرگئی تانیرSergei Taneerسے گپ شپ کرتی۔
قدرتی بات تھی ٹالسٹائی کو شدید حسد محسوس ہوا تھا۔اُس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا’’میں خود کشی کرلوں گا اگر تم باز نہ آئیں۔‘‘ اور اُسے نہ چاہنے کے باوجود اپنی اُن تمام سرگرمیوں کوختم کرنا پڑا جن سے وہ مسرت کشید کرنے لگی تھی۔کاش اُسے نسائی نفسیات کی ذرہ سی بھی سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ یقیناًمیرے اندر پھیلے درد اور یاس بھرے جذبات کو سمجھتا۔
میں تو اپنے گھر میں ہی مہاجر ہوگئی تھی‘‘۔
ہم سب قدرے اُداس اور ملول سی فضا میں سانس لیتے تھے۔داشا پھر صوفیہ کا روپ دھارے بولتی چلی جارہی تھی۔
’’ میں کھانا کھانے ، سونے اور خاموش رہنے میں تو خودمختار تھی پر کسی ایسے کو پیار کرنے میں جس میں میری رضا اور خوشی شامل ہو آزاد نہیں تھی۔کبھی کِسی محفل میں جب لوگ یہ کہتے تم کتنی خوش قسمت عورت ہو۔تمہارا شوہر جینئس ہے۔کیا تم خوش اور شکر گزار نہیں ہو؟میرا اندرکبھی کبھی میرے چہرے پر رقم ہو جاتا تب میں حیرت بھرے جملے بھی سُنتی ۔
’’تم کتنی ناشکری عورت ہو۔‘‘
یہ ناشکری عورت اس کی سکریڑی تھی،پروف ریڈر،ایڈیٹر،ہاؤس کیپر،اس کی ایجنٹ اس کے سٹیٹ معاملات کی نگران،اُس کے تیرہ بچوں کو پیدا کرنے والی ماں اور ایک نرس۔
’’سچ تو یہ ہے کہ میں نے چالیس سال تک ایک جنےئس کی خدمت کی۔اپنی کتنی خواہشوں کا گلا گھونٹا اور اس نے کیا کیا؟وہ اپنی پرسکون ،آرام دہ اور پرامن گھریلو زندگی کو 82سال کی عمر میں چھوڑ کر بھاگ نکلا۔اور جب صوفیہ اپنی ساٹھویں 60 کو مناتے ہوئے کہ جو عین اس دن تھی جب اُسے پروپوز کیا گیا تھا وہ خود سے پوچھتی ہے کہ اُس نے اٹھارہ سالہ لڑکی کے ساتھ کیا کیا۔جس نے اپنی ساری زندگی اُسے دے دی۔اپنی محبت ،اپنا اعتماد سبھی کچھ اسکے قدموں میں نچھاور کردیا اور میں نے کیا حاصل کیا۔اذیتیں،سرد مہری ،ظلم‘‘۔
’’زندگی کی آخری دو دہائیوں میں اُس نے ایک اور مصیبت اپنے گلے میں ڈال لی تھی۔ایک کامیاب ناول نگار ہونے اور بے حد شہرت پانے کے باوجود وہ روحانیت کے جھنجھٹ میں پڑگیا اور اکثر بہت ڈپرس رہنے لگا۔” زندگی کیا ہے” اس کا مفہوم واضح کرنے کیلئے وہ آرتھوڈوکس گرجوں میں جانے لگا۔اس کا یقین پختہ ہوگیا کہ یہ سب خرابیوں کے اڈے ہیں۔اس نے اپنے خیالات اور عقائد کو لکھنا شروع کیا اور 1883 میں The Meditator چھپی اور ساتھ ہی اُس نے گورو کی سی حیثیت اختیار کرلی تھی۔اُس کے مداحوں کے تانتے تو پہلے ہی تھے اب عقیدت مندوں اور پیروکاروں کی قطاریں لگ گئیں۔اس نئے مشغلے کی دیکھ بھال کا بوجھ بھی صوفیہ کو ہی اٹھانا پڑا۔
انہی دنوں میں وہ لکھتی ہے ۔’’میں خود سے پوچھتی ہوں کیا میں نے اپنے شوہر کو خوش نہیں کیا ۔کبھی کبھی میرا جی اُسے قتل کرنے کو چاہتا ہے۔کبھی میں اپنے آپ کو قتل کرنے کا سوچتی ہوں‘‘۔
اس کی ایک اور بڑی ہی افسردہ تحریر دل کو ملول کرتی ہے۔
’’بالشویک انقلاب دروازوں پر دستک دے رہاہے۔قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہونے جیسی سرگوشیوں نے واضح صورت اختیار کرلی ہے۔تاریخ ہر چیز کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھی۔میری آنکھیں دیکھتی ہیں۔ہمارے گھوڑے،خیچر ،بیل مزارعے سب طولا کی ہائی وے پر بھاگے چلے جارہے ہیں۔میری ہر وہ چیز لٹتی جارہی ہے جس سے مجھے پیار تھا۔جن کے ساتھ میرا وقت گزراجو میرے خوشی اور یاس کے دنوں کے ساتھی تھے‘‘۔
موت بھی عجیب ڈرامائی انداز میں ہوئی۔
نمونےئے کا پرانا مریض تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ و اشتعال ،بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا۔خودکشی کرنے کی خواہش بھی اکثر اندر سر اٹھاتی تھی۔
ٹالسٹائی کا ایک بااعتماد پیروکار ولددی میرchertkovسابق فوجی افسر ایک بڑا بیوروکریٹ اس کے ادبی معاملات کو ڈیل بھی کرتا تھا۔صوفیہ کی آنکھوں میں تنکے کی طرح کھٹکتا تھا۔اس کے خیال میں وہ شیطان تھا۔اُسے دونوں کے درمیان جنسی تعلقات کا بھی شبہ تھا۔
7نومبر کی سرد ہڈیوں میں گودا جماتی رات تھی۔جب بیاسی 82سال کی عمر میں اُس نے ڈرامائی فیصلہ کیا۔اُس نے اُس عورت کو جو اس کے ہر دکھ درد میں اس کی ساتھی تھی کو بتانے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی کہ اس کے دل میں کیا ہے؟آدھی رات کو اُس نے کسی کو بتائے بغیر اپنا آرام دہ گھر، اپنی اسٹیٹ چھوڑی۔چھتیس گھنٹے کے سفر کے بعد وہ شرمارڈینوSharmardinoپہنچا۔یہاں اس کی بہن ماریا رہتی تھی۔یہیں کوئی ہٹ کرائے پر لے کر وہ بقیہ زندگی گزارنے کا متمنی تھا۔لیکن اُسے وہاں ٹکنا نصیب نہ ہوا۔اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ کاکیشیا جانے کیلئے گاڑی میں سوار ہو۔اس کی کمزور صحت اسے برداشت نہ کرسکی۔Astaporoایک بہت چھوٹے سے دور افتادہ سٹیشن پر اسٹیشن ماسڑ نے اُس کیلئے اپنے گھر کے دروازے کھولے۔یہ بیس نومبر تھا اور وقت ساڑھے چھ کا جب اُس نے دنیاکو الوداع کہا۔
اور میری آنکھیں گیلی تھیں۔داشا کی آنکھیں گیلی تھیں۔