فلسفہ تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے مصنوعی معاشروں میں بغیرکلمہ پڑھے فوت ہوجاتا ہے ۔ ہم خواہ شخصیت پرستی کو مار دینے کی زندگی بھر ریاضت کا کشٹ کرلیں، مگر یہ بد بخت برائی ہمارے ویلیو سسٹم کا حصہ ہی رہتی ہے۔
مگر، دانشوروں کی شخصیت پرستی تو بہت خطرناک ہوتی ہے۔ ملتان کے مرکزِ علم یعنی بہاؤ الدین ذکریایونیورسٹی کی ایک شخصیت البتہ سخت جدوجہد میں مصروف ہے کہ اُس کے شاگرد اور ہم کار اُس کی عزت تو کریں مگر اُسے پیر، استادوں کا استاد، اور پرستش کا پتھر نہ بنائیں۔جو شخص اتنی بڑی یونیورسٹی میں31 سال تک پڑھا تا رہا ہو تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے کتنے شاگرد ہوں گے۔
اس شخصیت کا نام پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد ہے ۔ نوکری میں مصروف تھا تو کیا کیا کام کرتا رہا، اب تو ریٹائری کی نعمت بھی اُسے حاصل ہوگئی ہے ۔ لہٰذا ایک فون مار دیا اُس نے کہ’’ آؤ ملتا ن میں ’’ سموکی شادی‘‘ کا میلہ منعقد کرتے ہیں۔ ایک صدی پرانے پریم چند کا احیائے نوکر لیتے ہیں اور ایمانوں کو تازہ کردینے والا ایک updatedخطبہ مینو فیکچر کراتے ہیں۔ اُسے سنتے ہیں اور اگلی ایک صدی اُسے ورد کرواتے ہیں‘‘۔
ہم عالم خانوں فاضل خانوں کی اُن ’’ پھرتیوں‘‘ ڈانو اڈولیوں اور اٹھکیلیوں سے ہمیشہ سے ڈسے چلے آرہے ہیں جو وہ طبقاتی انقلاب کے نام پر کرتے چلے آئے ہیں، مگر ’’جُزوی طورپر ‘‘ سچے اِس آدمی کی بات پہ فوراً ہاں کردی ۔ ہم ’’ پسماندہ‘‘ سماجوں کے لوگ ایک بڑی بیماری کا شکار ہیں:’’ جس پہ اعتماد کیا، اُس سے کوئی تفصیل نہ پوچھی‘‘ کی بیماری۔ حالانکہ میں خود کو ہزار بار وصیت کرتا رہا ہوں کہ جب تک کسی پروگرام کی بھرپور تفصیل معلوم نہ کرو اُس میں مت جاؤ ۔ مگر بھلا میں نے زندگی بھر اپنی کوئی نصیحت نہیں مانی ۔ اور عمل نہ کرنے کی جو جسمانی اور ذہنی اذیتیں جھیلنی پڑتی ہیں وہ ہم نے بار بار جھیلیں۔یہاں بھی میں نے کوئی تفصیل نہ پوچھی۔۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک وہاں جاکر خبر ہوئی کہ اِس صدی کا ’’ پریم چند‘‘ بیمار ہوگیا۔ لہٰذا اب ’’آؤ ایک سیمینار کرتے ہیں‘‘۔
ایک واہیات قسم کی مہا تما بدھی ہم میں یہ پائی جاتی ہے کہ نیک ترین کام میں دیدہ نادیدہ، تراشیدہ نا تراشیدہ، اراضی و سما وی جس قدر ممکن ہو تکالیف اکٹھی کرکے خود پہ نافذ کی جائیں۔ چنانچہ ہم نے جہاز پہ نہ جانے کا فیصلہ کیا ( اس فیصلے میں یہ حقیقت بھی شامل تھی کہ ملتان کوئٹہ براہِ راست کوئی فلائیٹ موجود نہیں اور لاہور کے بعد پھر سڑک کا سفر کرنا تھا۔ یہ بھی ،کہ دو تین دوسرے ساتھی بھی ساتھ جانے تھے اس لیے اُن سے الگ، جہاز پہ جانا بورژوا گیری لگی )۔
اگلا کوہ شکن فیصلہ ہم نے یہ کیا کہ کار موٹر کی بجائے بس میں جائیں گے، نیکی جو زیادہ کمانی ہے۔ بیٹوں بھتیجوں کے احتجاج اور متبادلات کو مسترد کرتے ہوئے ہم ڈی کلاسیت کی خبط زدہ روح بن چکے تھے ۔
پھر جیسا کہ ایسے سفروں میں ہوتا ہے اچانک معلوم ہوا کہ ساتھ جانے والے ہمارے ایک ساتھی کو ’’ بہت ضروری‘‘ کام درپیش ہوا ۔ دوسرے نے مالی معاملات کی یکسر دگرگونیت کی شکایت کردی۔گویا اگر وہ یہ سفر کرے گاتو یورپ میں یونان کا معاشی بحران خود کو دوہرائے گا۔ ہمارا تیسرا یارآخری وقت تک تیار تھا مگر اچانک اُس کی تیاری کا گلا بھی اہم ضروری کام نے گھونٹ دیا ۔ اب صرف جیئند خان ہمارا ہم سفر تھا اس لیے میں نے اگلی صبح کے لیے حق حلال کے پیسوں سے بس کی چار ہزار دو سو روپے کی دو ٹکٹیں خریدلیں۔
مگر رات کو گیارہ بجے تک میرا یہ فیصلہ ویٹو ہوچکا تھا۔ بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن گھر میں کوئی ویٹوکرنے والا خرد مند بزرگ موجود ہو۔ میرے بڑے بھائی نے ’’ بچگانہ ‘‘ قرار دے کر کم از کم اپنی گاڑی پہ جانے کا کہا۔ اَدھ رات ہوگئی تھی اور ٹکٹیں دور جئیندخان کی جیب میں تھیں اوربس نے صبح سویرے روانہ ہونا تھا لہٰذا وہ حلال کے چار ہزار دو سو روپے حرام ہوگئے اور ہم میری کار موٹر پر عازمِ سفر ہوگئے۔
وہاں ایک بک سٹال لگانے کے لیے کتابوں کی ایک بڑی پیٹی گاڑی میں رکھ دی تھی۔
ہم بلوچستان کے طویل ترین درہ بولان کے ہر موڑ پر انگریزوں سے سر کی بازی لگانے والے اپنے آباؤ اجداد کی نشانیاں ایمان کا حصہ بناتے جارہے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ ٹھنڈ سے گرم ہوتے موسم میں سے گزرتے ہوئے ہم نے بالآخرمست توکلی کی سنت کی پیروی کی۔ سڑک پراپنے ساتھ رواں دواں کو نجوں کو آگے بڑھنے دیا اور خود ’’ سیوی تا ہراں‘‘ ( سبی رک گئے)۔وہاں اپنے بھائی حمید جان کے پاس سَستائے (بلکہ سُستائے)دو گھنٹے تک۔ دوپہر کا کھاناکھایا اورپھر روانہ سورج طلو ع ہونے کی جانب۔
گھوڑی پہ ایڑ لگانے نہ لگانے اور کھڈے دریا احتیاط سے عبور کرنے کو حمید جان نے اپنا ڈرائیور ساتھ کردیاتھا۔ جئیند خان ہمارا تنظیمی سربراہ تھا لہٰذا اگلی سیٹ اُس کا استحقاق ٹھہرا۔ اور میں اپنے فکروں منظر بینیوں کے ساتھ پچھلی سیٹ پر۔ ہم سبی سے نکلے اور انسانوں کی غربت، بے بسی اور غلامی کی حد تک مظلومیت کے ذمے دار فیوڈلزم کو کوستے کوستے خان گڑھ پہنچے۔
جیکب آباد کا اصلی نام خان گڑھ ہے۔ ہمیں ’’ خان‘‘کی بادشاہت کے قے آور تصور کے باوجود یہ نام اچھا لگتا ہے۔مگر خان گڑھ اپنے ساتھ جو تاریخی پس منظر رکھتا ہے وہ ہماری ایک برادر قوم کو اچھا نہیں لگتا ۔ اسی لیے تو بلوچ پہلے سے مظلوم اس قوم کی مزید دل آزاری سے بچنے کی خاطرزور زور سے خان گڑھ کبھی بھی نہیں کہتا۔ ہم کتنے ’’ کھلے تضادات‘‘ سے نباہ کرتے آرہے ہیں !!)۔
جیکب آباد کو بائی پاس سے عبور کرتے ہوئے ہم بائیں جانب سے اِس پہ حملہ آور ہوئے۔ ارے حملہ آور کیا ہونا تھا ہم تو حاجتمند تھے، دیداروں کے بھکاری!، یار کور جھانے منانے والے پجاری۔ ہم شام پونے پانچ بجے اِس محبوب کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے، پہلوان فقیر کا۔اس لیے کہ وہ بہت عرصے سے کہہ رہا تھا:
بیابیا مئیں دلبر زہیربیثغاں
اش تئی دوست درداں فقیر بیثغاں
( آجا آجا تیرے لیے ادا س ہو گیا ہوں
اے دوست تیرے فراق کے دردوں سے فقیر بن چکا ہوں)۔
ہم اپنے اس محبوب شاعر کے پیر پکڑنے حاضر ہوئے ، بس یہی کافی ہے اُسے خراجِ ادب پیش کرنے کو۔ دعا اور حاجت مانگنا تو ہمارا، اُس کا، اور ہم دونوں کے خدا کے بیچ پرائیویٹ معاملہ تھا۔
اس علاقے میں پہلوان فقیر کے بہت ہی بڑے عقیدت مند مگر ایک بڑے دانشور اور سوالات پوچھنے والے مفکر ،راجا ڈومبکی کو ہم پہلے فون کرچکے تھے۔ دور کے مسافروں کو یار کی درائی (وقتِ مقررہ) پر پہنچنا ہوتا ہے بصورتِ دیگر ’’ ہمل‘‘ کی محبوبہ بہت برا بھلا کہتی ہے ۔ لہٰذا ہم نے فلاسفر کے دربار کو سلام کیا، اُس کے مقبرے کی دانش بھری جالی کو بوسہ دیا اور راجا کی چائے خدمت کی پیشکش نہ مانتے ہوئے منزل کی جانب روانہ ہوئے( ارے یار، منزل ونزل کچھ نہیں ہوتی ۔ سارے منازل سرائے ہوتے ہوتے ہیں۔ سستا لو اور آگے بڑھو۔ حتیٰ کہ سوشلزم بھی انسانیت کی ایک منزل نہیں محض ایک رات کا سرائے ہے )۔
کچھ کوشش کرتا رہا کہ جئیند خان کو پہلوان فقیر کے بارے میں بتا سکوں کہ یہ سندھی اردو سرائیکی اور بلوچی کا ایک بڑا فلاسفر شاعر ہو گزرا ہے۔ ڈومبکی بلوچ ہے اور اس پورے علاقے میں ایک ولی اور درویش کے بطور مشہور ہے۔ اس پر میلے لگتے ہیں اور خلق خدا اکٹھے ہوتی ہے، اپنے جھگڑے تنازعات کے فیصلے کرواتی ہے ، اپنا مال مویشی بیچتی خریدتی ہے، اپنے بیماروں کا علاج کرواتی ہے ، موسیقی اور کلام سنتی ہے اورر،روحانی فیض حاصل کرتی ہے ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ مجھے فرسودہ خیالات والا سمجھنے کی بجائے آہستہ آہستہ مجھے اپنے گروہ کا سمجھنے پر آمادہ ہورہا تھا۔( سائنس عقیدہ بن جائے تو بندے کوخودکش بمبار بننے سے کوئی نہیں روک سکتا)۔
میں اس دوران ملتان کے اپنے میزبان کو اپنے سفر کے سٹیشنز کی اطلاع دیتا جارہا تھا۔ جب میں نے کشمور پہنچنے کا ٹیکسٹ کیا توحیران کن طور پر اس کا جواب تھا :
’’ویلکم ٹو سرائیکی وسیب‘‘۔
میں نے لاحول ولا قوۃ صرف اس لیے نہیں پڑھا کہ سُچے خالص مزاریوں زرکانڑیوں کے علاقے کو اس نے ’’ سرائیکی وسیب‘‘ میں ڈال دیا تھا،اس لیے کہ مجھے اندازہ ہے کہ بلوچ کے سر کو ابھی اس طرح کی بہت سی دیگوں میں پکنا ہے۔ میں نے تو لاحول و لا قوت اس لیے پڑھا کہ ایسے بڑے الفاظ واصطلاحات اُس بنیادی ،مخاصم ، متصادم اور ناقابلِ حل تضاد کو ابر آلود کرکے چھپا دیتے ہیں جسے ہم جاگیرداری نظام کہتے ہیں۔ ایک ایسا خطہ جسے بنیادی طور پر فیوڈلوں اور بے زمین کسانوں کے بیچ رزمگاہ ہونا چاہیے اُسے ناموں اصطلاحوں میں ڈال کر اُس اصل لڑائی سے ہٹا دیا جاتا ہے ۔ مجھے پتہ ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، ایسا نہیں ہوگا۔ مگر چونکہ یہ ہتھکنڈہ بلوچ پر مکمل طور پر کامیاب رہا ہے اس لیے سانپ کاٹا ہوا آدمی بل کھائی رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ایسا ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جو شخص فیوڈل ازم کا سب سے بڑا مخالف رہا ہو اُسی کو اِس طبقاتی جنگ کو سرد کردینے کا آلہِ کار بنایا جائے ۔
جب مہر و مروت کا پیکر میاں اقبال ملتان سے میلوں دور مظفر گڑہ تک آپ کو لینے آئے تو بھلا آپ رہائش اُس کے پاس نہیں تو اور کہاں رکھیں گے۔ سو ہم اپنے بیٹے انجینئر مہر اللہ اور اپنے وفا کے دریا دوست میاں اقبال کے بیچ اُس یُدھ کا حصہ نہیں بنے جو ہماری رہائش کی جگہ کے موضوع پہ اُن کے درمیان چھڑچکا تھا۔فرزندمہر اللہ کودوست کی وفا کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور یوں ہم نے اقبال جان کے پاس ملتان سے پانچ چھ میل کے فاصلے پر اڈہ لاڑ میں بستر ڈل دیے۔ اِدھر ہی تو ہمارے دین و ایمان کا ایک اور ساتھی ملک محمد علی بھارا اپنی بزرگ سنی کی اخلاقی و روحانی دھمکیاں دینے موجود تھا۔ لہٰذا بابو شورش کے بقول
From China to Korea
here lies my boria
ہم نے سفر کا رخت وہیں ڈال دیا اور خالص وفا اور بے لوثی کا ذائقہ چکھتے رہے ۔ لیڈرجئیند خان حیران و متاثر کہ اُس کا خیال تھا کہ دوستی، وفا اور مہمان نوازی محض اُسی کے خطے کی خصوصیات ہیں۔
صبح اِس انتظار میں رہے کہ منتظمین ہماری خیر خیریت پوچھیں گے ڈاکٹر روبینہ ترین ہمارا حال پوچھیں گی، یا ڈاکٹر عقیلہ جاوید۔ وہ نہیں تو قاضی عابد یا ڈاکٹر محمد آصف اور حماد رسول میں سے کوئی ایسا کرے گا۔مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس لیے کہ انوار احمد سب کچھ خود دیکھ رہا تھا۔ اور وہ تو ہمیں اِس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ ہم سے کوئی تکلفات رکھے۔ چنانچہ اس کا بہت ہی اطمینان بھرا، اعتماد چھلکاتا ہوا ٹیکسٹ آیا: ’’نزد ٹویوٹا موٹرز،شالیمار کالونی ، گھر نمبر23‘‘۔میٹرو زدہ اور شہباز شریف گزیدہ ملتان میں ہم پہلے ٹویوٹا موٹرز ڈھونڈتے رہے۔ پورا شہر کھدا ہوا تھا اس لیے بڑی سڑکیں سروس روڈز سے آنکھ مچولیاں کررہی تھیں۔ شارٹ کٹ نے لمبے روٹ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا ہوا تھا اور گالیاں بد دعائیں حکمرانوں کے گلے کا ہار بنی ہوئی تھیں۔ ہم نے ٹویوٹا موٹرز تلاش کیا تو سمجھو کولمبس بن گئے۔ مگر جمال خان لیغاری ( اول) کو بخار، بیزاری اور مرگ کے خدشات میں لدے پھندے ابھی چوٹی کے درخت دیکھنے تھے۔ ہمیں ابھی شالیمار کالونی ڈھونڈنی تھی:شالیمار کالونی، گھر نمبر23 ۔انقلاب گردیاں آج ہمیں ملتان کی گلیوں میں گرد آلود کررہی تھیں۔ شالیمار کالونی کا سراغ لگانے میں کچھ اور وقت لگا ، جس کے بعد23نمبر کا گھر ڈھونڈتے رہے:
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
ہر اک راہ گزر سے پوچھیں جو پتہ تھا اپنے گھر کا
ارے یہ تو ڈاکٹر انوار احمد کا اپنا گھر تھا۔ سلیقے سے بنا ہوا ۔ مگرماچس خواہ کتنی خوبصورت ہو آپ اس میں چالیس کی بجائے ڈیڑھ سو تیلیاں ڈال دیں تو اس کی صورت کیا بنے گی۔؟ یہی حالت انوار کے اِس گھر کی تھی۔جب اندر آئے تو اِس کی چھوٹی سی بیٹھک میں تقریباً40مندوب موجود تھے۔
بغیر وقت ضائع کیے کاروائی شروع ہوئی۔ شمسی صاحب کنڈکٹ کرتے رہے ۔ میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ سرائیکی خطے کے روشن فکر ادیبوں کی تنظیم کاری جلسے کی صدارت میں کررہا تھا۔ہم باہر سے تین آدمی آئے ہوئے تھے: بلوچستان سے جئیند خان اورشاہ محمد، اور کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد ۔لہٰذا جعفر صاحب کو مہمانِ خصوصی بنایا گیا۔
ایجنڈے میں دو باتیں اہم تھیں: تنظیم کا نام ، اور تنظیم کے انتخابات ۔ بحث مباحثہ کے بعد اُس کا نام پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن ہوا۔ ساتھ میں لفظ ’’ سرائیکی وسیب‘‘ ڈال کر گویا اُس کی خودمختاری اجاگر کی گئی تھی۔ کچھ فاصلہ رکھنا چاہتے ہیں یہ لوگ پہلے سے اِسی نام سے بنی تنظیم کے ساتھ۔
الیکشن کی رپورٹ یہ ہے کہ متفقہ طور پر جناب انوار احمد کوتنظیم کا صدر منتخب کیا گیا اور پروفیسر راشدہ قاضی کو جنرل سیکریٹری ۔ ممتاز ڈاہر نائب صدر بنا ۔
ظاہر ہے اگلوں نے صدارت مجھے اللہ کے واسطے تو نہیں دی تھی ۔ یہ ادیب لوگ تو اپنا معاوضہ نقد اور فوری مانگتے ہیں۔ چنانچہ ایک عدد تقریر کرنی پڑی مجھے ۔ مگر تقریر چھوڑ دیں پہلے مولانا آزاد سے منسوب یہ فقرہ پڑھیں:’’سانپ اور بچھو ایک سوراخ میں جمع ہوجائیں گے لیکن علمائے دنیا پرست ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے‘‘۔
ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ علما خواہ مولانا آزاد کے ہوں یا مولانا انوار احمد کے ، علما تو ہوتے ہی دنیا پرست ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور آج یہاں ا علانیہ دنیا پرست علما اکٹھے تھے، ایسے دنیا پرست جو دراصل انسان دوست ہیں۔ انسان دوستوں کا اکٹھے ہوجانا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ارے سانپ اور بچھو تو ازل سے اپنے عمل و اہداف میں اکٹھے تھے، اور وہ اپنے خاتمے تک اکٹھے رہیں گے۔خوشی تو دنیا پرست علما کے اکٹھے ہونے پر ہوتی ہے ۔میں نے صدارتی تقریر میں اس انسانی اکٹھ کی صدارت کی خوشی بتائی، دانشوروں کی صدارت، جنوبی پنجاب کے دانشوروں کی صدارت، سرائیکی ادیبوں دانشوروں کے اکٹھ کی صدارت کو اپنے لیے فخر کی بات قرار دیا۔ میں نے نئی قیادت کو مبارکباد دی اور مل کر کام کرنے کا عزم کیا۔
ایک ریڈرز کلب کے قیام کی ہماری خواہش کو ’’ ہاں ہاں، کرلیں گے‘‘ کہہ کر منتخب صدر صاحب نے سِکپ کردیا۔ شاید اُس کے ذہن میں کوئی زیادہ منظم صورت موجود ہو۔ سنگت رسالے کی فروخت و سرکولیشن کے لیے نمائندگان نامزد کرنے کی ہماری خواہش بھی میٹنگ میں پوری نہ ہوسکی۔اسی طرح ہماری اِن دونوں تنظیموں یعنی سنگت اکیڈمی اور پروگریسو رائٹرز سرائیکی وسیب کے بیچ ہمکاری کے امکانات و موضوعات مخصوص کرنے کی ہماری خواہش بھی نامعلوم مستقبل کے سراب میں داخل دفتر ہوئی۔
میرا لیڈر جیئند خان بہت دلچسپی اور انہماک سے ساری کاروائی سن رہا تھا۔
ہم سب شرکا نے یہیں زمین پہ بیٹھے بیٹھے کھانا کھالیا اور پھر ہمیں بتایا گیا کہ بس پریس کلب پہنچو۔ وہاں بھی کوئی جلسہ ،تقریب یا پریس کانفرنس ٹائپ کی چیز منعقد ہوگی۔
ہم وہاں گئے تو سو ڈیڑھ سو کا مجمع موجود تھا۔ چونکہ یہ اکٹھ مزدوروں کا تھا اور یوں ہمارے ذائقے کا تھا اس لیے ہم سب یہاں کھل کر ، اور اچھابولے۔ سٹیج پہ صلاح الدین حیدر تھا ، ڈاکٹر انوار تھا،۔۔۔۔۔۔
جلسہ ختم ہوا تو ہمارے دیرینہ دوست حیدر عباس گردیزی ہم سب کو ہانک کر اپنے خوبصورت بنگلے میں لے گیا۔ جہاں ایک زبردست دانشور انہ محفل سج گئی۔ یہ ہمارے ذائقے کا آدمی اس لیے ہے کہ انہونی کو ہونی بنانے میں جُتا ہوا ہے۔ مثلاً وہ ایک عرصے سے ترقی پسندی اور پیپلز پارٹی کو اکٹھے رکھنے میں لگا ہواہے۔ شیر اور بکری کی مثال اس لیے نہیں دوں گا کہ شیر تو عطاء الحق قاسمی کی پارٹی کا نشان بن چکا ہے۔ گردیزی نے ادب و دانش کو کسی نہ کسی طور اپنی خوشبو بنائے رکھا ہے۔اس کا والد فیوڈل اور پیر خانے کا فرد ہوتے ہوئے بھی زبردست طور پر اس ادارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ ڈاکٹر انواراحمد اپنی کتاب ’’ یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ ‘‘ میں ایک پورا باب اُس کے بارے میں لکھ چکا ہے۔ یہاں اس محفل میں بھی اُسی کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔۔۔۔۔۔ ہمیں حیدر عباس اچھا لگتا ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ اُسے بھی میں اچھا لگتا ہوں۔
رات انجینئر مہر اللہ مری کے مہمان ٹھہرے اور اگلی صبح ذکریا یونیورسٹی میں۔ یہ یونیورسٹی بقول وہاں کے ڈاکٹر لیاقت علی کے : ’’دم توڑتے مکالمے اور آخری سانسیں لیتی روشن خیالی اور برداشت کلچر کا آخری مورچہ‘‘ ہے ۔ اُس میں اس یک روزہ سیمینار کی پہلی نشست تھی۔ ظاہر ہے کہ یونیورسٹی میں یہ پہلی نشست مہمانِ خصوصی ، صدر، خطبہ ، رکھ رکھاؤ، باہمی شاباشی اور تھوری تھوڑی مصنوعیت کی ہونی تھی۔ پڑھا لکھا اور، انوار احمد کو گرّوکہنے والاوہاں کا وائس چانسلراس نشست کا صدر تھا جس کا نام بہت مشکل سا تھا۔ بس مجھے اتنا پتہ ہے کہ خواجہ اُس نام کے ساتھ آتا تھا۔ پھر مہمانِ خصوصی قسم کا اعزاز گجرات یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلراور کام کرنے والے محنتی ڈاکٹر نظام الدین کو دیا گیا تھا۔
ہم اصغر ندیم سید سے بہت گرمجوش گلے ملے۔ یہ آدمی ہم کو فی سبیل للہ اچھا لگتا ہے۔ بقول کشور وہ ’’ سبطِ حسن کا دلارا اور فیض صاحب کا چہیتا رہ چکا ہے‘‘۔ ہمیں یاد ہے جب وہ آنجہانی ہوتے ہوتے بچا تھا تو ہسپتال میں اُس کے پاس ہمارے کتنے اچھے دوست موجود تھے جو ہمیں اس کی خیریت سے دم بہ دم آگاہ کرتے جارہے تھے۔ آج زندہ سلامت دیکھا تو جیسے آنکھوں کو ٹھنڈک ملی۔ دانش پہ حملے ہر وقت یونہی ناکام ہوتے رہیں، شالا۔قاضی عابد نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ ( قاضی کی ڈاکٹر صاحب،۔۔۔۔۔۔صاحب، اور۔۔۔۔۔۔ صاحب سے کوئٹہ میں مشاعروں وغیرہ میں جان پہچان ہوگئی تھی )۔قاضی عابد ہے تو اچھا آدمی ۔ مگرہم جب بھی ملتے ہیں تو جرمنی کے ڈاکٹر عنایت بلوچ کو مشترکہ ٹاپک بنا لیتے ہیں ۔ پتہ نہیں کیوں ، ہم ملتے ہیں تو موضوع دور بھاگتے ہیں؟۔
ڈاکٹر روبینہ ترین بقول بلوچوں کے ’’ میر‘‘ ہونے کی جستجو میں ’’ پیر‘‘ ہوچکی ہیں۔ ایک عمر میں پہنچ کر ہم پروفیسری اور والدینیت کو اس قدر خط ملط کرتے ہیں کہ خود ہماری طرح طالب علم بھی اِن دو رشتوں میں کنفیوز ہوکر رہ جاتے ہیں۔اس نے استقبالیہ ٹائپ کا ایک جنرل سٹور پیش کردیا۔ اپنے ادارے اور محکمے کی ساری آرکیالوجی، ہسٹری اور پروفائل بیان کردی۔
اردو ڈیپارٹمنٹ ، سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہیاں کرتے رہنے اور اِس قبیل والے دوسرے ڈیپارٹمنٹس پر مشتمل متحدہ محاذ کی ’’ ڈین‘‘ بنے رہنے ، اور سب سے بڑھ کر ایک مقبول و محنتی سینئر استاد کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحبہ نے مہمانوں کو خیر مقدم کہا۔
پروفیسر جعفر احمد نے کلیدی مقالہ پڑھا۔ نرم آدمی ہے، نرمسار باتیں ہیں، دلیلوں کے ساتھ ، شائستگی کے ساتھ۔ مقالہ ہم نے مانگا ، اُس نے دیا نہیں تو ہم اُسے سنگت میں کس طرح شائع کریں۔
پنجابی زبان کے معروف شاعر اور ریسرچ کے پاکستان میں سمجھو سب سے بڑے کھڑپیچ احمد سلیم نے ڈاکٹرحمیرا اشفاق کی مدد سے 1936 سے آج تک کیPWA کی تاریخ کی سلائیڈ گیری کی ۔ ظاہر ہے اس میں بلوچستان کا تذکرہ نہ ہوگا، پختونخواہ کا بھی نہیں۔ حتیٰ کہ سندھ کا بھی نہیں۔ اور سچ پوچھیے تو پنجاب کابھی نہیں۔ ’’اووودھر ‘‘دوردراز کے چار پانچ مشاہیر کی سمجھو سوانح عمری کو PWAمیں ڈھال دیا گیا تھا۔(حمیرا بعد میں بتارہی تھی کہ وہ مگسی ہے۔ یوسف عزیز سے خود کو وابستہ کہہ کر اس کا حسین چہرہ اور روشن ہوجاتا ۔ علم اُسے ہالہ کیے ہوا تھا ۔ ارے لوگو! بلوچوں میں عورتیں بھی پی ایچ ڈی ہیں، اُس سے آگے ایک ڈگری ہوتی ہے : پوسٹ ڈاک۔ وہ ڈگری بھی اِس مگسی محترم خاتون کے پاس تھی۔
اصغر ندیم سید ’’ میڈیا‘‘ پر بولا، تحریری نہیں تقریری ۔ اس کی بات تحریری ہو یاتقریری اثر رکھتی ہے ۔ ہمارے یار نجیب جمال کو ابھی ابھی کوئی ستارہ یا کوئی اور نام کا ایوارڈ ملا تھا۔ و ہ اُسی کے بوجھ تلے تھا۔ اتنا بھاری کہ بس !!۔یارو، عجیب ایوارڈ ہیں یہ جن کی مبارکباد دینے پر ایوارڈ یافتہ شرما جاتا ہے ۔( ارے،دو شیزگی میں نہیں)۔
نجیب جمال ہمیں بغیر کسی اسباب و علل کے اچھا لگتا ہے ۔ میں بادشاہ ہوتا تو بہاولپورکا نام نجیب پور رکھ لیتا۔ کتنے اہل شاگردوں کو اس نے مکمل انسان بنا ڈالا۔
پھر فلاں بولا، اور فلاں بولا اور فلاں بولا۔ہم بھی وہاں سٹیج پہ موجود تھے ۔ مگر بولے نہیں کہ’’ اُنہی ‘‘کی تقریروں میں گھڑی ساڑھے گیارہ کے ہند سے پر آن کر فوت ہوچکی تھی۔وقفہ چائے ’’جواب چائے‘‘کا،اور، بسکٹ کا،سگریٹ کا، تعارفی کارڈز کے تبادلے کا، سیلفی کا ۔۔۔۔۔۔
’’صدر‘‘ اور ’’خصوصی ‘‘اپنی دیگر خصوصی گیریاں کرنے ریوالونگ چیروں اور ایرکنڈیشنوں سے لیس شہر کی دوسری عمارتوں میں چلے گئے۔ ہال کی پلیٹ کے اوپر کی چربی روغن چھٹ چکی تھی اورعام انسانوں پہ مشتمل سکالروں کا اگلا سیشن شروع ہوگیا۔
اگلا سیشن بھی اسی موضوع کا تسلسل تھا۔ سکالرز جو سب کے سب انوار احمد کے شاگرد پروفیسر تھے، آتے گئے، بولتے گئے۔ کسی کا مقالہ جعفر اچکزئی کے بقول چوڑا تھا، کسی کا طویل۔ دلیلیں تھیں، مثالیں تھیں، سوالات تھے، نظیریں تھیں۔ مزہ آیا۔
انتظامیہ کی ہڑا دھڑی میں فوری ردو بدل کے نتیجے میں، اور میرے اپنے تکلفات اور دوسروں کی سہولت کے خیال، کی بدتمیز عادت کی بدولت میرا مقالہ رہ گیا تھا۔ ہم اپنا مقالہ دے مارنے کے لیے تولتے ہی رہ گئے۔ کسی نے بلایا ہی نہیں اور یوں سیشن ہی ختم ہوا۔
اور اچانک دوسرا سیشن شروع کردیا گیا ۔چونکہ ہمیں فون پر بس ملتان آنے کا کہا گیا تھا اور ہمیں اِس سیشن کے بارے میں معلوم ہی نہ تھا جس کے موضوع ہی کے لیے میں شُودر تھا۔: موضوع تھا ’’ترقی پسند فکر: سندھی ، سرائیکی، بلوچی، پنجابی، پشتو اور فارسی زبانوں کا ادب، عصری تناظر میں ‘‘۔یہ جو ’’ عصری تناظر والا بلوچی ترقی پسند ادب ‘‘ ہے ناں، یہ تو چہرے مسخ کروادیتا ہے۔میں سمجھ گیا، یہ سٹیج سجایا ہی گیا ہے میری نکسیر پھوڑنے کو۔میں خبردار ہوگیا۔ میں اب تک ایڑی چوٹی کا سارا زور لگا کر گھربچالایا تھا اب اُسے بقول مست ’’بدعادت عورتوں ‘‘ کی خاطر لبِ دریا نہیں لے جانا چاہتا تھا۔میں پاگل تو نہیں کہ ’’ ہم عصر‘‘ بلوچستان پر بولتا۔
احمد سلیم نے پنجابی ادب اور موجودہ عصربیان کرنی تھی، عبیداللہ جان عابد نے پشتو کا بتانا تھا ، حفیظ خان نے سرائیکی،سلیم مظہرنے فارسی میں ۔۔۔۔۔۔ اور مجھے بلوچی زبان اور صلیب کے بیچ ٹنگنا تھا۔ میں نے حاظرین و سامعین کی سہولت کے لیے کم، مگر جان کی امان کی غرض سے زیادہ ، اعلان کردیا کہ میرا مقالہ محض تین سطروں کا ہوگا۔ اور وہ تین سطریں یہ تھیں:
1۔ ’’میں صبح سے اب تک آپ کے مقالوں کو سن کر بہت مطمئن ہوا ۔
2۔ ’’آپ ہی کی طرح ‘‘بلوچی میں بھی ’’ہم عصر ‘‘تناظر میں بہت خوبصورت ادب ’’ چھپ‘‘ رہا ہے ۔
3۔ ’’ آپ ہی کی طرح وہاں بھی شرط یہ ہے کہ ’’وہ ہم عصری‘‘، بلوچستان کی جغرافیائی سرحدوں سے باہر کی ہو‘‘۔
الحمد للّہ کوئی کچھ بھی نہیں سمجھا۔ ( کس کافر کو انہیں کچھ سمجھانے کی خواہش تھی؟۔ اِس خاص معاملے پر میں مکمل اُمیوں کے اندر صدا بہ صحرا بننا چاہتا بھی نہیں تھا!! ۔اور اگر وہ سمجھ جاتے بھی تو اُن کا کیا بگڑتا، ایک آدھ تالی اور بعدمیں چائے پر’’ واہ واہ کمال کردیا‘‘ کہہ کر جلیبیاں کھانے گھروں کو چلے جاتے،بھٹہ تو ہمارا بیٹھنا تھا )۔
آخری سٹیج برداری’’اعلان نامہ‘‘ پڑھنے کے لیے ہوئی۔کانفرنس کا اعلان نامہ۔ اس کے بعد شرکاء میں ، شیلڈ تقسیم ہوئے۔۔۔۔۔۔ اور یوں یہ کانفرنس اختتام کو آئی۔
ہمیں اپنے بکسٹال کی عاقبت کا پتہ نہ چل سکا کہ درمیان میں انوار نے سٹیج پہ اعلان کیا کہ بلوچستان کا سٹال50 فیصد کی بجائے30 فیصد پہ کتابیں بیچ رہا ہے۔ آخر میں ہمیں بتایا گیا کہ ساری کتابیں بک گئیں۔ آؤ میں تمہیں بزدار کاشتکاروں کی سو فیصد سچی کہانی سنا تا ہوں:کوہِ سلیمان پر کاشتکاری کیا ہوگی؟۔ پہاڑ میں ذرا سا ہموار ٹکڑا دیکھا، اُسے کاشت کیا۔ اور جب گندم پک گئی تو انہوں نے بیل جوت کر اُس پر گاہ کرنی شروع کردی۔ ایک شہری آدمی کا گزر ہوا تو اُس نے ٹریکٹر یا تھریشر سے ایسا کرنے کی راہ دکھلائی ۔ کاشتکاروں نے اس کا فائدہ پوچھا تو شہری نے کہا کہ جلدی سے یہ کام نمٹ سکے گا اور بہت سارا وقت بچ جائے گا۔ تو کاشتکاروں نے استفسار کیا، ’’ اچھا تو جو وقت بچ جائے گاہم اس کا کیا کریں گے۔ ارے بھئی ہم تو میسر بے شمار وقت کو گزارنے یہی کچھ کررہے ہیں‘‘۔ساری کتابیں بک چکیں۔ہمیں مزد نہیں آیا ۔( میرا خیال ہے یہ بھی انوار احمد کی حرکت تھی ۔ جو کتابیں بچ گئیں وہ انہیں بعد میں بیچ ڈالے گا۔ ہمیں تکلیف نہ دینے کی وہ شخص کیا کیا جدتیں ایجادیں کرتا پھرتا ہے !!)۔
ہمارے پاس وقت، بالکل نہ تھا۔ دو ہی دِن رکھے تھے ہم نے روشن فکری کے آکسیجن سلینڈر سے اپنا حصہ لینے کو۔چنانچہ ہم ہر کام بھاگم بھاگ میں کررہے تھے۔ اسی بھاگم بھاگ میں ہم بیکن بکس گئے۔ اچھے بزرگ ہیں اس کے مالک ۔وہی کتاب خوانی اور بک شاپ بینی کی نچلی ترین سطح تک گراوٹ کا رونا دھونا۔ نئی نسل کی اس جانب توجہ مبذول کرنے کے لیے تجاویز پرساری بحث ۔ اس بک شاپ کے محنتی منیجر ،جبارصاحب عمدہ شخص ہے۔وہ سنگت فروشی کی یقین دلاتاہے۔ سنگت کتابیں بھی رکھنے کو ’’ہاں ‘‘کہتا ہے۔ ظاہر ہے25، 30 فیصد پر تو نہیں ناں!۔
یوں رات پڑ گئی اور ہم لاڑ کسان راہنما کے گھرپہنچے۔ کھانا کھایا ، مہر اللہ نے رندوں کی زندہ محفل دیکھی اور زندگی بھر یہ شغل نہ کرنے کا چاکری عہد کرکے دو بجے رات واپس ملتان چلا گیا۔اگلی صبح سویرے میزبانوں کو سوتا چھوڑ کر کونج خراسان کو روانہ ہوگئے۔
ہم نے غازی گھاٹ کا پختہ اور جاذبِ نظر طویل پل پار کیا جہاں ایک زمانے میں ہم دریا کے اِس سرے سے دوسرے سرے تک ساتھ ساتھ لگی سینکڑوں کشتیوں کو سڑک کے بطور استعمال کرتے تھے اور بس انہیں کشتیوں کے پل پر چلتی تھی۔آگے ڈیرہ غازی خان تھا۔ یہ شہر اب ہمیں رکنے نہیں دیتا اس لیے کہ یہاں کچھ جادو ہے۔ ہم اِس شہر میں اپنے صغیر ثواب و گناہ کے کبیر ہونے تک کی یادیں لیے ڈوبتے دل کے ساتھ بھاگ پڑے۔ ہاتھ ہوا میں بلند کیے خوابیدہ شہر کی خوابیدہ روح کو سلام کرنے ۔مگر ہمارا خالی ہاتھ کار موٹر کی چھت سے ٹکرا کر کربے مرام ہماری اپنی گود میں گر گیا۔
دن خوب خوب چڑھ گیا تو ہم سخی سرور کے دربار کو سلام کرنے اپنی جوتیاں اتار رہے تھے۔ مست کی طرح اپنی سمو کی بے رخی کے خلاف فریاد پیش کرنے نہیں اس لیے کہ ہم جیسے دنیاوی لوگ سمو جیسی نعمت کی نگہداشت کے اہل ہی نہیں ہوتے ۔ سمو کو دل و دماغ میں پالنے کے لیے پنگھوڑا بھی بہت نفیس اور خالص چاہیے ہوتا ہے۔ کپٹلزم کے سب سے بڑے مبلغ ہتھیار موبائل فون نے ماقبل سرمایہ داری محبت کا ہر بھرم اورحجاب حقیر الفاظ و جذبات کی ایندھن سے خاکستر کردیا۔ارے ہم تو بالاچ گورگیژ بھی نہ ہو پائے جس نے مقصد کی یکسوئی میں اس دربار کو اپنی داڑھی سے جھاڑو دیے رکھا تھا۔ مگر ہم اور جیئند خان اتنے اچھے تو بہر حال ہیں کہ کم از کم اپنی بدنصیبی کا احساس تو رکھتے ہیں۔ وگرنہ لاکھوں لوگ تو ۔۔۔۔۔۔
مست اور بالاچ کی سنت کی پیروی میں ہم نے اس زیارت گاہ کی جھالریں جُھلائیں۔
ہم پھر روانہ کہ منزل ابھی نہیں آئی تھی۔ منزل تو بلوچستان ہے ناں!! ۔ اور ہم اب تک بلوچستان کے شراب بھرے کٹورے کے کنارے پہ تھے۔جئیند خان نے نیم غنودگی میں کوہِ سلیمان دیکھا۔ سسی سوتی رہ گئی اور محبوب جیسے خوبصورت نظارے گزرتے گئے۔ ہم بیواٹ، رکھنڑی، راڑاشم، کنگری سے ہوتے ہوئے اپنی گاڑی کو ایک ٹرک کے پچھواڑے سے آلودہ کرکے ، اور چاروں ٹائر بدلوانے کا جرمانہ لیے بالآخرلورالائی پہنچے۔
لورالائی پہنچ کر انوار احمد کو یہ ایس ایم ایس کیا:
’’صبح7بجے روزانہ ہوئے 5بجے شام لورالائی پہنچے، مزید4 گھنٹے کی ڈرائیور کرنی ہے۔یہ ہم تم کتنے بڑے فاصلوں کو bridgeکرنے نکلے ہیں!!‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے