بڑے سے گھر کے لمبے کھلے برآمدے میں زاہدہ چارپائی پر لیٹی چھت پر لٹکے پنکھے کو گھومتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ پنکھا جوں جوں تیز ہوتا گیا ‘اس کی نظریں بھی اسی تیزی سے پنکھے کے پروں کے ساتھ گھومنے لگیں۔ لیکن اس کا دماغ یوں لگتا تھا کہ پتھرا گیا ہے ‘ وہ کہیں ایک ہی جگہ ایک نکتے پر اٹک گیا ہے۔۔۔۔۔۔کہاں؟۔۔۔۔۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
’’میں چوڑیاں پہن کر پازیب چھنکاتی، جب بارش میں بھیگوں گی ،وہ اسے بچکانہ حرکت قرار دیتے ہوئے آرام سے بیٹھنے کی تلقین کرے گا ماں۔۔۔میں خوب صورت کپڑے پہن کر ، سنگھار کر کے تعریف کی منتظر رہوں گی تو وہ کھانستے ہوئے دوا کا تقاضا کیا کرے گا۔۔۔۔۔۔‘‘
زاہدہ کو اپنے کانوں میں اپنے ہی الفاظ کی بازگشت سنائی دی ۔۔۔۔۔۔
’’ زمین آسمان کا فرق ہوگا ماں ہماری سوچ میں‘ کیوں کہ زمین آسمان کا فرق ہے ہماری عمر میں۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے سمجھائیں بھائی کو۔۔۔۔۔۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سمیٹنے میں جب وہ میرا ساتھ نہیں دے سکے گا اور مجھے زبردستی اس کی راہ پراس کے ہم راہ ہونا پڑے گا تومیں تو ٹوٹ جاؤں گی۔۔۔۔۔۔ میں بکھر جاؤں گی ماں۔۔۔ بھائی کو منع کرو میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرے ۔۔۔۔۔۔ !‘‘ اور ماں چپ چاپ آنسو بہاتی رہی۔
اچانک بڑے حاجی صاحب کی آواز ساتھ والے کمرے سے آئی ۔زاہدہ اپنے بھاری بھرکم جسم کو سنبھالتے ہوئے اندر کو لپکی ۔حاجی صاحب پچھلے پندرہ سال سے بستر پر تھے ۔ان کا بستر گیلا ہو گیاتھا۔ زاہدہ نے جلدی سے بستر اور ان کے کپڑے بدلوائے ۔ انھیں آرام سے لیٹنے میں مدد کی اور باہر آکر واپس چارپائی پر لیٹ گئی۔
عید کا دن تھا ۔ اتنے بڑے کنبے کی ساری بہووئیں اپنے بچوں سمیت میکے گئی تھیں اور زاہدہ ہمیشہ کی طرح سائیں سائیں کرتی اتنی بڑی حویلی میں اکیلے رہ کر بڑے حاجی صاحب کی خدمت کے لیے رکی تھی۔۔۔ اور اب تو یہ معمول بن گیا تھا کہ کچھ بھی ہو جاتا‘زاہدہ کو گھر پر ہی رہنا تھا کیوں کہ’ حاجی منزل‘ میں کوئی فرد بھی ذمہ داری کے خوف سے اس بات کے لیے تیار نہ تھاکہ زاہدہ ایک دن کے لیے بھی گھر سے کہیں جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سال سے زاہدہ نے اپنے میکے کا دروازہ تک نہیں دیکھا۔
بڑے حاجی صاحب ‘حاجی رحمت اللہ کی عمر لگ بھگ ساٹھ سال تھی‘ جب اس کی پہلی بیوی فوت ہوئی۔ کچھ ہی عرصے بعد حاجی صاحب کو دوسری شادی کی خواہش ہوئی۔ بیٹوں کو اعتراض بھی ہوا کہ انھیں اپنی جائداد میں نیا وارث نہیں چاہیے تھالیکن ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔حاجی کی شامیر سے کہیں ملاقات ہو گئی اسے تو دوستی مضبوط کرنے کا سنہری موقع مل گیا۔ لہٰذا اپنی تیس سالہ جوان بہن زاہدہ کا نکاح باسٹھ سال کے حاجی رحمت اللہ سے کر دیا ۔زاہدہ بھائی کی دوستی کی بھینٹ چڑھ گئی ۔عورت ایک دفعہ پھر قربان ہو گئی۔ زاہدہ کی تو دنیا ہی اندھیر ہو گئی‘ جب اسے پتہ چلا کہ اس کی شادی ایک بوڑھے سے ہو رہی ہے۔ اس پرتو آسمان ٹوٹ پڑا جب اسے خبر ہوئی کہ اس کا دولہا باسٹھ سال کا ہے۔
’’ میں اپنے ارمانوں کو یوں لٹتے کیسے دیکھ پاؤں گی۔۔۔۔۔۔ ! میں کیسے یہ زندگی اپنے سے دگنی عمر کے انسان کے ساتھ گزاروں گی۔۔۔ !‘‘ وہ تڑپتی ۔’’یا اللہ! میں کیسے اپنی جوانی، اپنا حسن، اپنے خواب ایک بوڑھے کے نام کر دوں۔۔۔ !!‘‘
وہ تڑپتی رہی ، روتی رہی ۔۔۔لیکن کچھ نہ ہوا۔۔۔۔۔۔ اس کے خوابوں ،اس کے ارمانوں کا جنازہ نکل گیا۔۔۔ اس کے خواب‘ اس کی آنکھوں میں، اس کی روح میں چبھنے لگے اور۔۔۔۔۔۔یہ چبھن پھر ساری زندگی اس کے ساتھ رہی ‘ اسے چبھتی رہی‘تکلیف دیتی رہی۔
شادی کے شروع کے چند سال حاجی صاحب کی صحت بہتر تھی ‘پھر اس کے بعد ایک نا سمجھ میں آنے والی بیماری سے وہ بستر سے لگ گئے۔ کچھ عمر کا تقاضا ، کم زوری کہ پھر حاجی صاحب نہ اٹھ سکے ۔یہاں تک کہ بول و بزار بھی بستر پر کرنے لگے۔ قدرت کی ستم ظریفی کہ زاہدہ کو اولاد جیسی نعمت سے بھی محروم رکھا۔ ایک اَن پڑھ ماحول، حاجی صاحب کی بیماری ، اولاد سے محرومی ، زاہدہ کے جذبات مرتے چلے گئے اوروہ آہستہ آہستہ برف کاایک تودہ بنتی چلی گئی۔
شروع میں جب کبھی میکے سے فون آتااور پوچھاجاتا کیسی ہو ؟تو زاہدہ کہتی ؛’’ایسے ہی جیسے بہت سارے نابیناؤں میں چلتی جا رہی ہوں۔۔۔‘‘اور میں یہ سن کر سوچ میں پڑ جاتی کیا یہ بھی ویسی ہی تکلیف ہوتی ہوگی کہ جیسے ایک نابینا ‘بیناؤں کے بیچ زندگی گزارتا ہے تو اس کی تکلیف کی شدت بھی اسی نابینا جیسی ہوتی ہوگی اور تب میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ہاں اگر اسے نابیناؤں کی راہ پرچلنے پر مجبور کیا جائے تواس سے بڑھ کر اورکیا تکلیف ہوتی ہوگی‘ کیوں کہ کبوتر تو کبوتر ہی کے ساتھ پرواز کرے گا‘ با ز کے ساتھ کبھی نہیں۔
چکی کی آواز سن کر زاہدہ ہمیشہ بے چین ہو جایا کرتی تھی۔ ڈھلتی دوپہر، چکی کی ٓاواز ، پنکھے کی کھرڑ کھرڑ کے ساتھ مل کر خوف ناک ماحول پیدا کر رہے تھے۔ زاہدہ بے چین سی ہو بیٹھی۔
بیٹھک سے لوگوں کی باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔زکوٰۃ کا مہینہ تھا اور حاجی منزل سے توہر سال لاکھوں میں زکوٰۃ نکلتی۔پورے مہینے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ہر ایک اپنے حصے کی زکوٰۃ وصولنے حاجی منزل چلا آتا۔
زاہدہ کی حالت آج صبح ہی سے عجیب سی تھی ۔آنسو اس کی آنکھوں میں امنڈ امنڈ آتے ۔دن رات وہ بڑے حاجی صاحب کے گرد منڈلاتی رہتی۔ ابھی انھوں نے کھانا کھاناہے، ابھی دوا کا وقت ہے، ابھی بستر گیلا ہو گیا،آج ان کو بخار ہو گیا، اور اس پر اگر کہیں تھوڑی دیر ہو جاتی تو حاجی صاحب کی بہوؤں اور پوتوں کی بیویوں کے کوسنے شروع ہو جاتے کہ شادی کا شوق تھا توکرتی رہے خدمت۔۔۔
اور ایسے میں زاہدہ سوچنے لگتی ؛’’ مجھے شوق تھا شادی کا؟ مجھے؟؟ کیا میں سفید بالوں والی اولاد کے باپ سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔؟؟!!کیا میں خود سے دگنی عمر کے آدمی سے شادی کی خواہاں تھی۔۔۔؟کیا میں پرانی دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے خودکو ایک ناختم ہونے والی اذیت کی سولی پر ٹانگنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔؟کیا میری زندگی کا فیصلہ کرتے وقت مجھ سے کسی نے پوچھا تھا۔۔۔؟؟‘‘
سوچتے سوچتے زاہدہ کی حالت بگڑ جاتی ۔
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک جھڑی لگ جاتی، آہیں اس کے سینے میں ٹوٹنے لگتیں۔
حاجی ابنِ حاجی اس سال ماشا اللہ ساتواں حج ادا کر کے کل ہی پہنچے تھے ۔مبارک باددینے والوں کا تانتاسارا دن بندھا رہتا تھا ۔اس وقت بھی چند خواتین مبارک باددینے آئیں۔
’’بہت اچھے بہت نیک لوگ ہیں آپ کے گھر والے۔۔۔‘‘ ایک خاتون بولی۔
’’جی! ‘‘ زاہدہ اسی قدر کہہ پائی۔
’’نیک بھی ہیں اور پیسے والے بھی، آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کا نصیب ان کے ساتھ جڑا۔‘‘ دوسری بولی۔
زاہدہ نے بڑی مشکل سے اپنی آہوں پر قابو پاتے ہوئے کہا،’’ اگر لوگ بہت نیک ہوں، عبادت گزار ہوں، اس سے میری ذات پر کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘
خواتین نے حیرت سے زاہدہ کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہیں۔
کچھ دیر بعد‘زاہدہ ایک عجیب سی خاموشی کے بعد کہنے لگی۔۔۔’’اگر لوگوں کے سونے کے ٹرک بھی چلتے ہوں ، سونے کا گھر بھی ہو تو اس سے میری زندگی میں کیا فرق آئے گا۔۔۔ کیا فرق آ گیا۔۔۔۔۔۔ میں تو سونے کے پنجر ے میں ہوں۔۔۔!‘‘
سب خاموش ہوگئے۔ ایک عجیب سا سکوت پورے گھر پر طاری ہو گیا۔ زاہدہ آنکھوں میں آنسو لیے خاموشی سے فرش کو گھورتی رہی۔ زاہدہ کو بیس برس ہو چلے تھے اس گھر میں آئے ہوئے۔ اب تو اس کے ہاں بھی بڑھاپا دہلیز پار کر چکا تھا لیکن لگتا تھا اب اس کی برداشت دم توڑتی جا رہی تھی۔
کچھ دیر کے بعد ایک بڑی عمر کی خاتون کہنے لگی،’’ خفا مت ہو زاہدہ جو خدمت تم اپنے شوہر کی کر رہی ہو‘ یہ بہت بڑے ثواب کا کام ہے ‘یہ سب رائیگاں نہیں جائے گا۔ اللہ اس کا بہت بڑا صلہ، بہت اجردے گا۔‘‘
’’لیکن میں نے تو اتنے بڑے ثواب کا نہیں سوچا تھا۔۔۔ مجھے اتنا بڑا ثواب لے کر کیا کرنا ہے۔۔۔ اللہ تعالی کچھ ثواب دوسروں کو بھی دے نا‘ یہ سب لوگ ثواب کیوں حاصل نہیں کر لیتے۔۔۔مجھے ثواب نہیں چاہیے۔۔۔ مجھے زندگی چاہیے۔۔۔مجھے بھی سانس لینے اور جینے دیا جائے۔۔۔مجھے صلہ نہیں چاہیے۔۔۔!مجھے زندگی چاہیے۔۔۔کیا میں اس دنیا میں صرف ثواب حاصل کرنے آئی ہوں۔۔۔۔۔۔؟؟‘‘ زاہدہ ہذیانی کیفیت میں چیخنے لگی۔
خواتین گھبرا گئیں کہ زاہدہ کیا ہو گیا۔۔۔’’ ہوش کرو۔۔۔ ہوش کرو‘ زاہدہ بی بی‘‘۔
’’نہیں چاہیے مجھے ثواب۔۔۔۔۔۔ ! نہیں چاہیے مجھے اجر۔۔۔۔۔۔!!! میں جینا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔ !مجھے زندگی چاہیے ۔۔۔۔۔۔ !! گھٹن محسوس ہو رہی ہے مجھے یہاں۔۔۔۔۔۔ ! ہٹو ۔۔۔! ہٹو ۔۔۔ !! ہوا آنے دو۔۔۔ ! مجھے سانس لینے دو۔۔۔۔۔۔!!‘‘
زاہدہ بخار میں تپتی ہوئی بے ہوش ہو گئی ۔ایک خاتون بھاگتی ہوئی بیٹھک گئی۔
ڈاکٹر کو بلایا گیا ۔
چار گھنٹے گزر گئے۔زاہدہ ہوش میں نہیں آرہی تھی۔۔۔ چھ گھنٹے گزر گئے۔۔۔
مغرب کی اذان شروع ہو گئی۔
حاجی منزل ایک جان لیواسکوت میں ڈوبا ہوا تھا۔
اچانک ڈاکٹر نے جھکے سر اور لٹکتی گردن کے ساتھ انکشاف کیا ۔۔۔ ’’زاہدہ بی بی زندگی کی قید سے آزاد ہوچکی ہے۔۔۔!!!‘‘
ایک ہلکے سکوت کے بعد‘پیچھے سے حاجی رحمت اللہ کے بڑے بیٹے حاجی نعمت اللہ کی آواز آئی؛
’’قالو انا للہ۔۔۔۔۔۔جو اللہ کو منظور۔۔۔‘‘
پھر ایک دم اس نے مڑ کر ملازمین کو آواز دی اور کفن دفن کے انتظامات کا حکم دینے کے بعد کہا،’’بہت بڑی خیرات کا انتظام ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔ ہماری ماں ایک نیک خاتون تھی۔۔۔ اس نے آخری سانس تک دل و جان سے ہمارے والد کی خدمت کی۔‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے