بے کسی اور بے بسی کا وہ زمانہ یاد ہے
دے کے لوری بھوکے بچوں کو سلانا یاد ہے
اک پھٹی بنیان تھی اور اک پجامہ پیراہن
ہمکو اپنی مفلسی کا وہ زمانہ یاد ہے
دشمنوں کے طنزیہ وہ قہقہے بھی یاد ہیں
دوستوں کا زیرِ لب وہ مسکرانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں وہ پانی لانے کے لیے
مجھ کو میلوں دور تک وہ آنا جانایاد ہے
یاد ہے اب تک مجھے روٹی پکانے کے لیے
لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلانا یاد ہے
سردیوں کی بارشوں میں کانپتے بچے میرے
اُن کو گیلے بستروں میں ہی لِٹا نا یاد ہے
ٹین کی چھت پر اُتر کر رقص کرتی بارشیں
آندھیوں کا کھڑکیوں سے گھر میں آنا یاد ہے
گھر جسے میں نے کہا اُس کے کرائے کے لیے
گھر کے مالک کا مجھے باتیں سنانا یاد ہے
اب خدا کا شکر ہے کہ نجمی اپنے گھر میں ہوں
اب بھی مجھ کو اپنا گزرا وہ زمانہ یاد ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے