پہلاقیدی ’’ ہاں تنہائی زہرہے ، ایک قاتل ہے وہ قاتل جسے مقتول کی کوئی پرواہ نہیں ، لیکن لوگ کب سمجھتے ہیں ۔ پہلے میں بھی نہیں سمجھتا تھاکہ پہلے اس کی میری ایسی ملاقات نہیں رہی تھی، وہ جوانی جسے میں اب ایک خواب سمجھتا ہوں اور وہ دن جواتنی تیزی سے گزرے کہ میں کچھ یاد بھی کروں تو بھی ذرا بھی حقیت کا گماں نہیں ہوتا ، شاید تم بور ہوگئے ہواتنی لمبی تمہید سن کر ، لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔تنہائی نے مجھے فلسفی بنا دیاہے۔
تمہیں اب اس بیرک میں میرے ساتھ رہناہے تو میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے بارے معلوم ہوناچاہیے۔۔۔
کیا تم میری کہانی سنو گے؟؟؟‘‘
پہلے قیدی نے سوالیہ نظروں سے دوسرے قیدی کو دیکھا جو کہ آج ہی اس بیرک میں آیا تھا۔
نئے قیدی نے پرانے قیدی کو پاگل سمجھا اور ایک نظراسے دیکھ کرزمین کو گھورنے لگ گیا۔
پہلا قیدی پھر گویا ہوا۔
’’اچھا ، یعنی تم میری کہانی سننا چاہتے ہو‘‘۔۔۔۔۔۔
’’تو میرے دوست کہانی سات سال پرانی ہے‘‘۔
جی ہاں اس جیل میں آئے مجھے ساتواں سال ہے سات سال اس کمرے میں رہتے رہتے میں نے ہر بات جو سوچی جاسکتی تھی سوچ ڈالی ہے اور اب تو یوں ہے کہ میرے پاس سوچنے کو بھی کچھ نہیں ہے۔ ایک قیدی آخر کتنا سوچے ،؟ ہاں ، ہاں تم ضرور کہو گے کہ سوچ کی بھلا حد تھوڑی ہے جتنا مرضی سوچو ، جو مرضی سوچو۔۔ لیکن یقین جانو ، انسان پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں سوچ سکتا یا یوں کہیں کہ وہ سوچنا ہی نہیں چاہتا۔
اوہ میں شاید پھر کہانی سے ہٹ رہاہوں ۔
میں مجرم نہیں ہوں۔
ہاں یقین تو نہیں آئے گا کہ مجرم نہیں ہوں آپ کہیں گے کہ مجرم نہیں ہوں تو یہاں جیل میں کیا کررہاہوں ، لیکن میرا یقین کرو میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں اپنی صفائی میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں آپ کو یقین آئے سو آئے نہ آئے تو میں کچھ کر نہیں سکتا کہ ضروری نہیں کہ دنیا آپ کی ہر بات سے اتفاق کرے ۔۔۔ اورسچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں کہ جس ہر سارے انسان متفق ہوں ۔‘‘
’’قابل افسوس‘‘ ۔۔۔ دوسرے قیدی نے نظر اٹھائے بغیر کہا۔
’’ ہاں قابل افسوس لیکن یہ سچ ہے۔۔۔ سات سال میں اب یہ حالت ہے کہ میں سوچتا ہوں تو گماں ہوتا ہے کہ میں شاید کبھی بھی آزاد نہیں رہا۔۔۔۔ اگر ان سات سالوں کو بھی میری زندگی کے بقیہ تیس سالوں میں جمع کیاجائے جو کہ میں نہیں کرتاتو میری عمر اب سینتیس برس ہے جب کہ میں تیس سال میں مرگیا تھا وہ اس لیے کہ مجھے اب زندگی اس طرح نہیں محسوس ہوتی جو تیس سال میں محسوس کرتا رہاہوں۔
آزادی کے دنوں میں ، میں آزاد طبع اور آزاد خیال انسان تھا۔ ادھر یار دوست بیٹھے ہیں تو آدھی رات تک گپیں ہانک رہے ہیں اور پھر یہ تاریک کمرہ جس کے درو دیوار مجھے اب زبانی یاد ہوچکے ہیں ۔ ایک ایک اینٹ گن چکا ہوں ۔ پہلے پہل ایک مدت تک میں اپنے ماضی کو یاد کرکے آہیں بھرتا رہا پھر آہستہ آہستہ آہیں ختم ہوئیں تو کمرے کے دوردیوار پر غور کیاکہ اب یہاں ایک عمر گزارنی تھی ۔
’’ چھت کی اینٹیں تک گن چکا ہوں ‘‘ پہلے قیدی نے بیرک کی چھت کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ ایک عرصے تک میری یہ مصروفیت رہی ہے۔۔۔ ایک ہی کام تھا ، بس اینٹیں گنتے رہو۔۔ سو اینٹیں گنتا رہا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں مجرم نہیں ہوں ۔ میں نے گریجویشن کررکھا ہے۔ بی اے کرنے کے بعد ہی مجھے محکمہ ڈاک میں نوکری مل گئی ، نوکری ملے دوسرا سال تھا جب میری شادی ہوگئی ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے تو پھر جیل میں کیسے آیا ہوں۔‘‘
دوسرے قیدی نے کوئی جواب نہ دیا
’’ ہاں سنیے ۔۔۔۔
شادی کے دو سال بعد میرا بیٹاپیدا ہوا گویا کہ رونق بھی ہوگئی ۔۔۔۔۔ اور پھر جب اس نے چلنا سیکھا۔۔۔۔ میں کتنا خوش ہوتا تھا اسے چلتا دیکھ کر۔ میں وہ خوشی شاید لفظوں میں بیاں نہ کرسکو ں ۔ کبھی کبھی لفظ ہار جاتے ہیں ، اور جذبات کی جیت ہوتی ہے۔۔۔
کہانی اس دن شروع ہوتی ہے جب ایک دن میرا بچہ ، میرا پیارا بچہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور اس کا پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر آن گرا۔
ہم اُسے اسپتال لے کر گئے ڈاکٹروں نے بہت سارے ٹیسٹ کیے اور ٹانگ کا آپریشن کرنے کا کہا۔۔۔۔۔اور جب تک روپے کا انتظام نہیں ہوجاتاڈاکٹراپنا فرض ادا کرنے سے قاصر تھے ۔۔۔۔جی آپ کہیں گے کہ ڈاکٹر انسانیت کے خادم ہیں ۔ جی بہتر لیکن بڑے مجبور خادم ہیں ۔
مجھے ایک خطیر رقم درکار تھی ۔۔۔ پہلی بار ۔ ہاں پہلی بار مجھے لگا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں کہ جس کے پاس کوئی جائیداد نہیں اور جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا خیال نہیں آیا تھا یا شاید میں نے اس طرح غور نہیں کیا یا یوں کہیں کہ کبھی ایسے حالات سر پر نہیں پڑے تھے۔
میں بھاگم بھاگ تمام قریبی رشتہ داروں کے پاس گیاتو اس دن مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایسے بھی قریبی نہیں ہیں کہ جیسا میں سمجھتا رہاہوں ۔سارے بہت مجبور لوگ تھے۔
بیوی کے زیور بھی اتنے ہی تھے کہ ان سے آدھی رقم کا بندوبست ہوا، ایک سائیکل تھی وہ بھی بیچ دی۔ گھر میں اس سے بڑھ کرکوئی قیمتی سامان نہیں تھاکہ جس سے بقیہ رقم کا انتظام ہوسکے، بینک سے قرضہ لینے کے لیئے بھی کسی چیز کو بطور ضمانت رکھوانا پڑرہاتھا اور ادھر تو یہ حال تھا کہ سائیکل تک پاس نہیں رہی تھی کہ اسے بطورضمانت رکھوادوں۔۔۔۔
پھر میں نے فیصلہ کرلیا۔۔۔۔
اور اس فیصلے پر عمل درآمدکے لیے آدھی رات کو چودھریوں کی حویلی کی دیوار پھلانگ کر اندر کودپڑا۔۔۔۔
گناہ اور وہ بھی پہلا گناہ۔۔۔اف توبہ۔۔۔دل یوں دھڑک رہاتھا کہ گویا ابھی کے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔ٹانگیں کانپ رہی تھیں ، اور ضمیر الگ جھگڑا کررہا تھا کہ ’’دیکھ خادم حسین ، دیکھ خادم حسین ، تو ایک شریف آدمی ہے اور شریف آدمی یوں آدھی رات کو لوگوں کی دیواریں نہیں پھلانگا کرتے ‘‘
میں نے سوچا یہیں سے واپس چلاجاوں کہ میں ایک شریف آدمی تھا۔
دیوار پر واپسی کے لیے ہاتھ بلند کیے تھے کہ میرا بیٹا میرا ہاتھ تھام کر ’’ ابا ، ابا چلانے لگا۔۔۔میرے بچے نے میرے پاوں پکڑ لیے ، ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔
نہیں ، نہیں میں واپس نہیں جاسکتا تھامجھے صبح تک ہرحال میں پیسے چاہیے تھے اور اتنے سے پیسوں سے چودھریوں کی دولت میں کونسی کمی آجانی تھی۔۔ سارا گاوں کہتا تھا کہ چودھریوں نے بڑا حرام کما رکھا ہے ۔۔۔
سو میں حویلی میں جانے کے لیے مڑا۔ اندھیرا کافی ذیادہ تھامیں سرچ لائٹ ساتھ لایا تھاجو ابھی تک بجھارکھی تھی۔۔۔۔سوچا اس سے کام لیا جائے۔
میں نے ڈرتے ڈرتے سرچ لائٹ جلائی ۔۔۔
سامنے چودھریوں کا کتا کھڑاتھا جو لائٹ کے جلتے ہی بھونکنے لگا ، میں ڈر کے واپسی کے لیے بھاگا لیکن کتے نے میری ٹانگ پر اس زور سے کاٹا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعدبھی کبھی کبھی برسات کے دنوں میں مجھے وہ درد پھر ٹانگ میں محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔
مرکزی دروازے پر بیٹھا چوکیدار چلایا۔۔۔’’ کون ہے ، کون ہے‘‘ پہلے قیدی نے باآواز بلند دو بار کہا۔
’’ اور عین اسی لمحے اوپر حویلی کی دوسری منزل سے فائرکی آواز آئی ۔۔۔میں جو درد کے مارے مراجارہا تھا ، ابھی اٹھا ہی تھا کہ چوکیدار نے آن دبوچا۔۔۔
ایک خاموشی کا وقفہ۔۔۔۔
دوسرے قیدی نے نظر اٹھا کر دیکھا اور کہا’’ پھر؟؟؟‘‘
’’نہیں کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔ پولیس کو بلوا لیا گیاتھا کہ کسی نے چودھری صاحب کو گولی ماردی تھی اور ملزم واپسی پر بھاگتے ہوئے کتے کے حملے سے زخمی ہوگیا تھا
اور وہیں کئی گواہ بھی آ گئے تھے کہ جنہوں نے مجھے گولی چلاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔ مجھے اس دن معلوم ہوا کہ قانون اندھا کیوں ہے‘‘
تمام گواہوں کی موجودگی میں عدالت نے مجھے دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی‘‘
دوسرا قیدی پریشانی میں گویا ہوا ۔ ’’ ختم؟؟؟؟‘‘
نہیں ۔۔۔۔کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی ۔۔
چودھری صاحب کو فورا اسپتال پہنچایا گیااور ڈاکٹروں کی انتھک محنت رنگ لائی اور ان کی جان بچی۔ عین اسی اسپتال میں ، جہاں چودھری صاحب کا علاج ہوا اسی اسپتال میں عین اسی دن ایک بچہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔۔۔۔
اور اس کے بعد سے میں یہاں ہوں۔۔۔۔
دوست ، تم سن رہے ہو نا؟؟؟
اور خاموشی سسکیوں میں ڈھل گئی تھی۔۔۔
تم سن رہے ہو کیا؟؟؟؟‘‘
’’چپ کرو سالے ، ہر روز نئی کہانی سنا رہے ہوتے ہو ،‘‘ بیرک سے باہر کھڑا حوالدار شوکت چلایا۔
’’ پچھلے سات سال سے ، میں کوئی پچیس مختلف کہانیاں سن چکا ہوں ۔کبھی موبائل چرا کر آرہا ہے تو کبھی کسی کی گاڑی چوری کا الزام اس پر لگ گیا ہے‘‘
شوکت صاحب ۔۔دیکھیں ‘‘ پہلاقیدی منمنایا۔
چپ کر جھوٹا ۔ آدمی‘‘
نہیں میں جھوٹا نہیں ہوں
تو یہ جو ہر روز نئی کہانیاں سنا رہے ہوتے ہو یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے؟
’ ’ وہ تو میں خود پر کوئی الزام ڈھونڈرہاہوتاہوں‘‘
نیا قیدی حیرانی سے کبھی خادم حسین کو دیکھتا تو کبھی حوالدار شوکت کو۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے