میں نے ایم اے کیا تو میری ایک سگی خالہ نے اسی خوشی میں مجھے ایک موبائل فون تحفہ میں دے دیا۔ میں آج تک ایسا موبائل فون خود نہیں خرید سکا تھا۔ اس میں دو دو کیمرے تھے۔ ایک سامنے اور دوسرا پیچھے ۔۔۔انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر تھی۔ میں ابھی اس میں انٹرنیٹ چلانے والے نظام اور اس کے مندرجات کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اس میں ٹی وی کی سہولت بھی تھی۔ اگر کیبل کے تار کے نیچے کھڑے ہوکر اس کا انٹینا باہر نکالتا تو بآسانی پچیس سے تیس ٹی وی چینل میسر ہوتے۔یہ اتنا بڑھیا تھا کہ اس میں ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈرامے بھی محفوظ کر سکتا تھا۔
میں نے گھر میں پڑے بڑے ٹیلی ویژن کے بجائے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے فضول کھیل کرکٹ کے میچ بھی اسی موبائل فون پر دیکھے تھے۔ اوہ۔۔۔ میں ایک بات تو بتانا بھول ہی گیا۔ اس میں ریڈیو بھی تھا۔ اگر کوئی بندہ خصوصاً بندی فون کر رہی ہے تو اس کی آواز بھی ریکارڈ کی جا سکتی تھی۔
میرا چھوٹا بھائی بھی اس سے کھیل لیا کرتا تھا۔ میں رات کو فون اپنے سرہانے کے نیچے رکھ کر سوتا مگر وہ چپکے سے آتا اور فون اٹھا کر چلا جاتا۔ پھر وہ اس کے ساتھ کیا کیا کرتا، کچھ پتا نہیں۔ وہ اسے فون کی طرح نہیں بلکہ کھلونے کی طرح استعمال کرتا۔ اس کے پاس اپنا تھا مگر میرے موبائل فون سے تو یوں چپکنے کی کوشش کرتا جیسے میٹھے سے مکھی ۔۔۔
میں نے اس پر جو پہلا کام کیا ، وہ تھا مریم کو فون کرنا۔۔۔پھر اسے برقی پیغام بھیجا۔ میں اس کی آواز ریکارڈ کرتا اور تنہائی میں بار بار سنتا۔اس کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کر کے مریم کی تصاویر منتقل کر دیتا ۔۔۔اور تو اور اسی کی تصویر موبائل فون کی چھوٹی سی سکرین پر سجا رکھی تھی۔ مریم کو بھی یہ بہت پسند آیا تھا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ رکھ لو لیکن وہ نہیں مانی۔ وہ عجب لڑکی تھی۔ بس جی کیا بتاؤں کہ اس موبائل فون سے کیا کیا دل بستگی تھی۔
ان دنوں میں شملہ پہاڑی کے قریب نیا نیا نوکری پر لگا تھاجو بڑی عجیب تھی۔ ساری رات کام کرتا اور صبح سے سہ پہر تک سوتا رہتا تھا۔ رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے ہر وقت تھکاوٹ اور نیند کی کمی محسوس ہوتی رہتی تھی۔ یہاں تنخواہ کا حال بتانے کے لائق نہیں لیکن بتانا بھی ضرور ہے کہ تنخواہ تھوڑی سی تھی اور ملنے میں بڑی دیری کرتی تھی۔
ایک دفعہ ہفتے کی رات کو دفتر سے گھر جا رہا تھا کہ گڑھی شاہو کا پل چڑھنے سے پہلے ایک درخت کے سائے میں کھڑے چھ فٹ سے نکلتے قد والے شخص نے ہاتھ دے کر مجھے روک لیا اور ڈرا دینے والے انداز میں پوچھا۔
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے حوصلہ کرکے پوچھا لیکن اس نے درشت آواز میں کہا، ’’جتنا پوچھا ہے۔ اتنا بتاؤ۔‘‘
اس کی بھاری آواز نے میرے سر پر کوئی دو من سے زیادہ وزن ڈال دیا اور میں فوراً سمجھ گیا کہ معاملہ سنگین ہے۔ اس لیے بڑے آرام سے بولا۔
’’ گھر جا رہا ہوں۔‘‘
’’گھر جا کر کیا کرو گے؟‘‘وہ تفتیشی لگنے لگا۔
میں نے بے زاری سے کہا:’’گھر جا کر کھانا کھاؤں گا اور پھر سو جاؤں گا۔ ‘‘
’’میں نے بھی کھانا کھانا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’تو ٹھیک ہے۔ تم بھی جا کر کھانا کھاؤ، اور میں بھی جاتا ہوں۔‘‘ میں نے لہجے میں شائستگی لاتے ہوئے کہا تو وہ بولا۔
’’نہیں۔ تم تو نہیں جاسکتے۔ کیا تم ہسپتال جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہسپتال نہیں جانا چاہتا تو پہلے پوچھ رہا ہوں۔‘‘ میں لاشعوری طور پر مؤدب ہو گیا اور بعد میں مجھے خود پر حیرانی ہوتی رہی کہ اس وقت مجھے ہوا کیا تھا لیکن معاملہ ہی کچھ ایسا تھا۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ اب کچھ لے دے کر جان چھوٹے گی ورنہ کم سے کم چوٹ آ سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ جان جا سکتی ہے۔ اس کا بات چیت کا اندازالجھا دینے والا تھا اور اس نے الجھن دور کرنے کیلئے صاف صاف پوچھا۔
’’اچھا تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں؟‘‘
’’ایک سو۔۔۔‘‘ وہ بات کاٹ کر بولا، ’’نکال کر دکھاؤ۔‘‘ اور میں نے نکال کر دکھا دیے جو پورے ایک سو چالیس روپے تھے۔ اس نے سو روپے کا نوٹ پکڑ لیا اورباقی مجھے رکھنے کے لئے کہا جس پر میں دل ہی دل میں مسکرایا کہ کیا سخاوت ہے۔ بعد میں جب کسی کو یہ بات بتائی ، اس نے قہقہے ضرور لگائے۔ اس نے بھی ایک مسکراہٹ میری نذر کرتے ہوئے پوچھا۔
’’اچھا ۔۔۔ تمہارے پاس موبائل فون کونسا ہے؟‘‘
میرا دل ایک مرتبہ زور سے دھڑکا گو یہ سوال غیرمتوقع نہیں تھا۔ ان دنوں چوری تو کیا ، راہزنی بھی عام تھی جو اب تک ہے۔ دن ہو یا رات، ڈاکوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ بھی کیا کرتے، حالات ہی ایسے تھے۔ پڑوسی ملک عرصہ دراز سے طاقتور ملکوں کے لئے اپنی مہارتوں کی مشق گاہ بنا ہوا تھا جس کے واضح اثرات یہاں پڑ رہے تھے اور ایک پوری نسل ایسی تیار ہو چکی تھی جو صرف بندوق چلانا جانتی ہے ۔ اس کے سوا وہ کیا کر سکتی ہے؟ اسے کچھ اور سکھایا ہی نہیں گیا تو وہ کیا کرے؟ جنہوں نے کچھ اور سیکھا ہے، انہیں کرنے کے لئے جگہ نہیں دی جاتی۔
امن و امان عنقا تھا تو کاروبار اور روزگار کہاں بچ پاتے۔ اس کے علاوہ افسر شاہی ہو کہ نوکری شاہی یا پھر قانون ساز اداروں میں بیٹھے چغد، سب اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف رہتے تھے ، اب تک ہیں اور وہ تب تک رہیں گے جب تک وہ آگے بڑھ کر بند نہیں باندھتے جوبھکاری بننے پر مجبور ہوتے ہیں، اپنا آپ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بیچ دیتے ہیں کیونکہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا حالانکہ راستہ سامنے ہوتا ہے۔ یہ نظر کیوں نہیں آتا؟ اور اگر آتا ہے تو اس پر چلا کیوں نہیں جاتا؟ یہ ایک گتھی ہے۔
ایسے الجھے حالات میں ہر کوئی محتاط رہتا ہے۔ میں بھی اپنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بندوبست کر کے نکلتا تھا اور اس دن بھی میں نے موبائل فون بنیان کے اندر رکھا ہوا تھا۔ یہ میرا احساس تحفظ کا بڑا کامیاب نسخہ تھا، جس دن تنخواہ ملتی، میں وہ بھی اسی طرح بنیان کے اندر چھپا لیتاچونکہ بنیان پتلون کے اندر تک گئی ہوتی ہے اور اوپر سے پیٹی نے پتلون کو اچھی طرح کسا ہوتا ہے۔ یوں بنیان کے اندر ہر چیز محفوظ رہتی ہے اور دیکھنے والے کو بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے میں نے موبائل فون کے سوال پر ڈھٹائی سے جھوٹ بولا۔
’’میرے پاس موبائل فون نہیں ہے۔‘‘
’’نکلا تو میرا۔۔۔؟‘‘ اس کے اعتماد پر مجھے شبہ ہوا کہ کہیں کسی نے اسے بتا تو نہیں دیا۔ میں ’’ہاں‘‘ اور ’’ناں‘‘ کی کشمکش میں پڑ گیا، میری کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا لیکن وہ سمجھ گیا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ پتلون میں اڑسے پستول پر رکھا جسے شرٹ کے نیچے چھپایا گیا تھا اور مجھے حکم دیا۔
’’نکال کر دکھاؤ۔‘‘ میں نے چپ چاپ حکم کی تعمیل کی تو وہ خوشی سے بولا۔
’’واہ! دو کیمرے والا۔۔۔ اس میں تو ٹی وی بھی چلتا ہے۔‘‘ اس نے موبائل فون ہاتھ میں پکڑتے ہی کہا تومیں حیران ہو گیا کہ اس نے اچھی طرح دیکھے بغیر ہی کیسے یہ سب کہہ دیا۔ اسے اصل چیز مل گئی تھی لہٰذا میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’سمیں تمہارے کسی کام کے نہیں۔ میں لے لوں؟‘‘
’’ہاں، ٹھیک ہے، جلدی۔‘ ‘ اس نے فون واپس مجھے پکڑا دیا۔ میں نے جلدی جلدی سمیں نکالیں اور موبائل فون بچانے کی کوشش کی۔
’’یار ہم غریبوں کو لوٹنے کا کیا فائدہ، امیروں کی گردن پر ہاتھ ڈالو تو کچھ ملے بھی۔‘‘
’’ہاں، ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن یہ ایک مسئلہ ہے۔ اب تم جاؤ۔‘‘
’’کیا فون واپس نہیں مل سکتا؟‘‘میں نے منت کی تو اس نے سر دائیں بائیں ہلا دیا۔ اسی وقت ایک ٹرک بڑی تیزی کے ساتھ آ رہا تھا جس سے میں لاعلم تھا اور وہ مجھے روند سکتا تھا لیکن اس نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ایک طرف کیا اور بولا۔
’’ان سے بچ کر رہو۔ کوئی لاش بھی نہیں اٹھاتا۔‘‘
’’اچھا۔ تو میں جاؤں؟‘‘‘ میں یہ سوال پہلے بھی پوچھ چکا تھا۔
’’ہاں۔ جاؤ۔ لیکن پہلے یہ بتاؤ آ کہاں سے رہے ہو۔‘‘ اس کے چہرے پر پھر بدن میں سنسنی کی لہر دوڑا دینے والی وہی پراسرار مگر مانوس مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’دفتر سے۔۔۔‘‘
’’کون سا دفتر؟ کہاں ہے یہ دفتر؟‘‘ اس نے قدرے دھیمے انداز میں پوچھا جیسے بات بڑھانے کے چکر میں ہو۔ ایک تو میں اس کے لوٹنے کے انداز سے حیران تھا اور دوسرا اس کے ڈیل ڈول سے پریشان تھا حتیٰ کہ میں یہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ وہ کون ہے؟ کام وہ لٹیروں والا کر رہا تھا لیکن لٹیرا لگتا نہیں تھا البتہ خطرناک ضرور معلوم دے رہا تھا۔اس لیے میں پہلے ہی اچھے بچوں کی طرح جواب دے رہا تھا۔
’’یہ اخبار کا دفتر ہے۔ ‘‘
’’اچھا۔ تو تم کیا کرتے ہو؟‘‘
’’سب ایڈیٹر ہوں۔‘‘
’’کتنا پڑھے ہو؟‘‘ اس کے اس سوال نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا کہ یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔ روپے لئے۔۔۔ موبائل فون لیا ۔۔۔ اب جاؤ ۔جان چھوڑو۔ زخم کیوں ہرے کر رہے ہو۔۔۔ لیکن وہ جانے والا نہیں تھا۔ مجھے سوچ میں مبتلا پا کر اس نے سوال دہرایا تو میں بیزاری سے بولا۔
’’ایم اے کیا ہے ، اردو زبان و ادب میں۔۔۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ انگریزی میں کرتے تو اچھا ہوتا۔‘‘ اس نے میرا تمسخر ایسے اڑانے کی کوشش کی جیسے مصروف سڑک پر روک کر نہیں کھڑابلکہ کھوکھے پر بیٹھا میرے ساتھ چائے پی رہا ہو۔
’’انگریزی میں بھی کیا ہے ۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ تو پھر سائیکل پر کیا کر رہے ہو؟‘‘اس نے پہلی بار حیرانی سے پوچھاتو میرے چہرے پر طنز سے بھرپور مسکراہٹ پھیل گئی جو میں نے اس کی طرف اچھال دی۔
’’تم کتنا پڑھے ہو؟‘‘
’’میں نے بھی ایم اے کیا ہے۔‘‘
’’کس مضمون میں؟‘‘
’’انگریزی ۔۔۔ ۔۔۔‘‘ میرے قہقہے نے اس کی بات کاٹ دی اور وہ جھنجھلا گیا۔ اس نے دوبارہ کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن میری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ پھر وہ بھی قہقہے لگانے لگا اور جب دونوں کی آنکھیں زیادہ ہنسنے سے نم ہوئیں تو ہم خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔ اس نے اپنی بغل والی جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل فون اور سو روپے کا نوٹ نکالا، فون مجھے پکڑا دیا اور کچھ سوچ کر نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈال کر مجھے فوری چلے جانے کے لئے کہا۔ میں نے چند سیکنڈ اس کے دھندلے نظر آنے والے چہرے کو دیکھا اورسائیکل پر بیٹھ کر اپنی راہ ہو لیا۔ میں خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے