یو نا نی دیو تا ، یو نانی د یو ما لا کا ہمارے حقا ئق سے مو ازنہ کر رہا تھا اور بڑی حد تک حو اس با ختہ ہو رہا تھا ۔ یو نانی دیو تا نے کہا ،’’ حقا ئق اور دیو ما لا ؤں میں بڑا فر ق ہے ۔لیکن ،تمہا رے حقا ئق نے یو نا نی دیو ما لا ؤں کے دانت کھٹے کر دیے ہیں ‘‘۔
میں نے کہا ،’’ ہمارے ہا ں ایسے ایسے بہر و پیے اژ دہے ہیں کہ یو نا نی دیو تا ؤ ں کو ان کی دیو مالا ؤں کے سا تھ زند ہ ڈکا ر جا ئیں ‘‘۔
یو نا نی دیو تا نے جو اباً کہا ،’’ اب صر ف ایک دیو مالا رہ گئی ہے جو تمہیں نہیں سُنا ئی ‘‘۔ ’’بتا ؤ : میں نے کہا ، اس دیو مالا کے مقا بلہ میں بیا ن کر نے کے لئے ہمارے پا س بھی کو ئی منا سب سچا ئی ضر ور مو جو د ہوگی ‘‘۔
’’ با لکل نا ممکن ‘‘۔ یو نا نی دیو تا نے کہا ،’’ اس دیو ما لا ئی کتھاکے مقا بلہ میں بیا ن کر نے کے لئے آپ کے پا س کو ئی بھی حقیقت نہیں ہو گی ‘‘۔
’’دیو تا ! تم سنا ؤ تو سہی ‘‘۔ میں نے کہا ، ’’تمہا ری آخری دیو مالائی کتھا بھی ہماری حقیقت کے آگے ما ت کھا جا ئے گی ‘‘۔
یو نانی دیو تا میر ی طر ف دیکھ کر ہنسا ۔ اس نے کتھا سنا نی شروع کی ،’’ یو نا ن میں فینکس نا می ایک پر ند ہ ہو ا کر تا تھا،نہیں پکھی سے بڑا اور زیادہ خو بصورت۔ کسی با ت پر یو نا نی دیو تا فینکس سے نا راض ہو گئے ۔انہوں نے اسے مسلسل عذاب بھگتنے کی سزا اور بد دعا دی ۔ پھر ہو ا یہ کہ جب کبھی فینکس پر ند ہ اڑتا ،دوران پر واز اسے آ گ پکڑ لیتی اور وہ پلک جھپکتے ہی راکھ کا ڈھیر بن جا تا ۔ بد دعا کے مطا بق فینکس اپنی راکھ سے دوبا رہ جنم لیتا ، نیا جنم لے کر اڑتا اور اڑان کی آ واز کے سا تھ ہی آ گ میں گھر جا تا اور راکھ بن جا تا ، پھر اپنی راکھ سے دوبا رہ جنم لیتا اور دلکش پنکھ پھیلا کر اڑنے لگتا ۔ اڑتے ہی آ گ کے نر غے میں آ جا تا اور خا ک بن جا تا ۔ وہ اپنے پر وں کی آواز سے جل کر راکھ بن جا تا اور راکھ سے دوبا رہ جنم لے کر اڑتا اور اڑتے ہی راکھ بن جا نے کا عذا ب فینکس کے لیے صد یوں تک چلتا آیا ‘‘۔
یو نا نی دیو تا نے دیو ما لا ئی کتھا سنا نے کے بعد فخر کے سا تھ میر ی طر ف دیکھا ۔
اس نے میرے ہو نٹو ں پر مسکر اہٹ دیکھ کر پو چھا ’’کیوں ؟ ہنستے کیو ں ہو ؟ جو اب دو‘‘۔
میں نے کہا ۔’’جو اب دینے کی بجا ئے میں تمہیں وہ منظر دکھا ؤں گا،جس کے سا منے تمہیں فینکس کی کتھا ہیچ نظر آئے گی ‘‘۔
اور پھر میں نے اسے وہ منظر دکھا یا ۔
ایک نو جو ان کے ہا تھ پا ؤ ں زنجیر وں میں جکڑے ہو ئے اور زنجیریں بر گدکے تنے سے بند ھی ہو ئی تھیں ۔ نو جو ان کا منہ سِیا ہو ا تھا، اس کے کا نو ں پر پٹیا ں باند ھ دی گئی تھیں۔ اس کی دونو ں آنکھیںٍ نکا ل دی گئی تھیں جن سے لہو ٹپک رہا تھا ۔نو جو ان کی آنکھو ں سے ٹپکتے لہو نے جب دھر تی کو چھو لیا تو اس کی بے نو ر آنکھو ں میں نو ر لو ٹ آیا اور وہ حال سے مستقبل میں دیکھنے کے لا ئق ہو گیا ۔تب اچا نک،بر گد کے تنے کے عقب سے ایک کو تا ہ قد قہقہے لگا تا نکل آ یا اور اُ س نے خنجر کی نو ک سے نو جو ان کی آنکھیں نکا ل دیں اور پھر بر گدکے عقب میں چھپ گیا۔ نو جوان کی آنکھوں سے خون بہنے لگا۔ بہتے خو ن نے جب دھرتی کو چوم لیا ، تب نو جو ان کی بے نور آنکھوں میں نو ر لو ٹ آیا اور وہ پھر حال سے مستقبل میں دیکھنے کے لا ئق ہو گیا ۔تب اچا نک وہی بو نا قہقہے لگا تا بر گد کے عقب سے نکل آیا اور خنجر کی نو ک سے نو جو ان کی آنکھیں نکال کر پھر تنے کے پیچھے چھپ گیا ۔
یو نا نی دیو تا بڑی دیر تک تعجب ،حیر انی اور خو ف کے سا تھ یہ منظر دیکھتا رہا ۔ اس نے دہشت کے ما رے پو چھا ’’یہ نو جو ان کو ن ہے اور اس کا جر م کیا ہے ؟‘‘ْ
میں نے کہا ، ’’یہ نوجو ان دھرتی ما ں کا بیٹا ہے ۔اسے اپنی ما ں کے ساتھ پیا ر ہے یہی پیا ر اس کا جر م ہے ‘‘۔
’’اور وہ پستہ قا مت ؟‘‘
’’کو تا ہ قد کے ہا تھ میں زما م وقت ہے ‘‘۔
میر ا جو اب سُن کر یونانی دیو تا نے اپنا سر جھکا لیا اور یو نا ن لو ٹ گیا ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے