جیل میں کئی سال سے قید کی سزا جھیلتے ہوئے اُنہوں نے اپنی زندگی کا تیسرا حصہ گزار لیا تھا۔ جس دن اُن تینوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی تو اُن میں زندہ رہ جانے کی تھوڑی بہت ہمت بھی ختم ہو گئی تھی۔ اُن کے وارثوں نے اپنی اپنی ہمت اور کوشش سے بہت دوڑ دھوپ کی۔ مقتول کے وارثوں کے آگے ہر طرح کی منت سماجت کر دیکھی جب یہ بھی کارگر ثابت نہ ہوئی تو اپنے اپنے حصے کی اراضی دینے کی بھی حامی بھر لی تھی۔ مقتول کے وارثوں نے ان کی ہر پیش کش کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ آخر اُن کے پاس ایک اور پیش کش کا موقع تھا انہوں نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے رشتے دینے کے عِوض معافی مانگنے کا آخری کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کی مگر انہیں ناکامی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
فیکا، علیا اور رحموں تینوں قتل کے الگ الگ مقدمات میں جوانی کے جوبن پر بندی خانے آئے تھے۔ پر اپنے اپنے حصے کی سزا جھیلتے ہوئے انہیں کبھی کبھی ایسے لگتا جیسے یہ زندگی اُن کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ اُن کی زندگیوں میں ہر طلوع ہونے والا نیا دن اُن کے لیے الگ دُکھ اور پریشانی لے کر آتا۔ کبھی اُنہیں اپنے اپنے گھر والوں کی طرف سے کوئی بری خبر مل جاتی کہ اُن کی وجہ سے اُن کی بہنوں کے رشتے نہیں ہو رہے ہیں۔ یا اُن کی وجہ سے لوگ اُن کے دوسرے بہن بھائیوں کو قاتل کے بہن بھائی کہہ کر بلاتے تو اُن کی علاقے میں لڑائی ہوتی رہتی۔ اوپر سے جیل حکام کے ناروا سلوک سے تنگ آ کر وہ دوہرے عذاب میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ جیل حکام بتاتے تھے کہ جب یہ تینوں جیل میں آئے تھے۔ سارا سارا دن روتے ہی رہتے تھے۔ نہ اِن کو کھانے پینے کا ہوش تھا نہ سونے کا۔۔۔لیکن اب یہ کتنے عرصے جیتے جاگتے بُت بن گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فیکے نے محلے کی ایک جوان لڑکی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر للکارا تھا۔ اُس کی بھڑک سُن کر لڑکی فیکے کے پاؤں میں گر گئی تھی اور ہاتھ باندھتے ہوئے فیکے کو اُس کی بہن کا واسطہ دیتے ہوئے التجا کرنے لگی۔۔۔ بھائی فیکیا۔۔۔ یہ بندہ مجھے بھگا کر لے جانا چاہتا تھا اگر آپ موقعے پر نہ آتے تو ساری زندگی کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی۔ یہ سُن کر فیکے کی غیرت نے جوش مارا اور اُس نے اُس نوجوان سے لڑنا شروع کر دیا۔ ہاتھوں پائی ہوتے ہوئے نوجوان نے اپنی شلوار میں چھپایا ہوا خنجر نکالا تو فیکا یہ دیکھ کر باز کی طرح تیزی سے اُس پر جھپٹا اور آگے بڑھ کر خنجر اُس سے چھین کر اُسے وہیں پر ہی خون سے نہلا دیا۔ نوجوان کے خون جیسی فیکے کی سُرخ آنکھیں اب اُس لڑکی کو اِدھر اُدھر ڈھونڈ رہی تھیں لیکن لڑکی وہاں سے کب کی فرار ہو چکی تھی۔ فیکے پر مقدمہ چلا اور آخر اُس کو سزائے موت ہو گئی۔
اِسی طرح علیے نے ایک کالی سیاہ رات میں اپنے گاؤں کے ایک گھر میں اچانک ڈکیتی کی واردات کا شور سُن کر اپنی بہادری کا ثبوت دیا تھا۔ خدا بخش کے گھر کی طرف سے رونے پیٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ آن واحد میں اُس کے گھر کے باہر اکٹھے ہو گئے تھے۔ خدا بخش کی بیوی کی دل سوز چیخیں دل میں کانٹوں کی طرح پیوست ہو رہی تھیں۔ اس کی چیخ و پکار سُن کر ہر کسی کا دل کانپ اُٹھا تھا۔ لوگ ’’پکڑو، پکڑو‘‘ کرتے ایک ہی جگہ پر کھڑے سب کچھ سن رہے تھے۔ اتنی دیر میں لوگوں نے علیے کو بندوق کندھوں پر اُٹھائے اِدھر ہی آتا دیکھا تو خوشی سے اُن کے چہرے کھِل اُٹھے اور لوگوں نے ایک دوسرے کو کہنا شروع کر دیا۔ لے بھئی اب شیر آ گیا ہے۔ اب ڈاکوؤں کا کچھ نہیں بچے گا۔ لوگوں کے ہجوم کو کاٹتا ہوا وہ آگے بڑھا تو دروازے کو پورے زور سے دھکا دیا تو اُس کے اندر داخل ہوتے ہی اُس کے ساتھ ہی سارا ہجوم پانی کے ریلے کی طرح اندر چلا گیا۔ شور بڑھتا جا رہا تھا۔ اوئے کاکو۔۔۔تم چھت پر چڑھ جاؤ۔۔۔سلیمیا۔۔۔تم ڈانگ پکڑ کر دیوار کی منڈیر پر بیٹھ جاؤ۔۔۔سارے جوان گھر کو اپنے گھیراؤ میں لے لو۔ دیکھیں کوئی چڑیا بھی پر نہ مارے۔ عورتیں گلی میں کھڑی سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ اتنی دیر میں ایک زور دار ٹھاہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی تو پچھلی طرف بھاگتے ہوئے ایک انجانے نوجوان کے پیچھے فائر لگا تو وہ وہیں پر ہی گِر کر تڑپنے لگا۔ ہجوم کی آوازوں میں ایک بار پھر جوش آیا۔ ’’اوئے علیے نے ڈاکو مار دیا ہے ‘‘۔۔۔میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ تاجاں نے شیر پیدا کیا ہے۔ یہ فائر علیے نے ہی مارا ہے۔ پورے گاؤں میں اُس جیسا کوئی بہادر نہیں۔ ایک لال بالوں والی بُڑھیا نے کھانستے ہوئے کہا۔ لوگ ایک دوسرے سے آگے بھاگنے لگے۔ جب روشنی میں خون میں لت پت گِرے نوجوان کو دیکھا تو وہ نمبردار چودھری وریام کا بیٹا نذیر تھا۔ وہ بھی ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لیے ہجوم سے آگے آگے بھاگ رہا تھا اتنے عرصے میں جو لوگ ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لیے آگے آگے تھے۔ اُن میں سے کسی نے اُونچی آواز میں کہا ۔۔۔’’اوئے علیا۔۔۔دیکھتا کیا ہے۔ اب فائر کھول دو ‘‘ڈاکو تو وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے لیکن فائر نذیر کی کمر پر لگ گیا۔ تائے فضل دین نے نذیر کی کھلی آنکھوں کو بند کرتے ہوئے بڑے دُکھ سے کہا ’’اوہو بھئی بڑا بُرا ہوا ہے ڈاکو تو بچ گیا لیکن نذیر پر ناحق فائر لگ گیا ‘‘۔
دن کی روشنی پھیلتے ہی سارے گاؤں کے چودھریوں نے صلاح مشورے کرنے شروع کر دئیے کہ علیا کی عادتیں بہت بگڑی ہوئی ہیں۔ اُس کی گردن میں سریا آ گیا ہے۔ اُسے چھوٹے بڑے کی تمیز ہی نہیں ہے۔ اِسے قابو کرنے کا اِس سے بڑا اور کوئی موقع نہیں ہو سکتا۔ چودھریوں نے بڑی غوروخوض کے بعد پرچہ علیے پر کروا دیا کہ اُس نے اپنی پرانی رنجش کا بدلہ لیا ہے۔ مقدمہ چلا ساری شہادتیں علیے کے خلاف گئیں۔ آخر اُسے سزائے موت سنا دی گئی۔ ایک لمبے عرصہ تک مقدمہ چلنے کی وجہ سے اُس کے گھر غربت و افلاس نے ڈیرے جما لیے۔ اِسی عرصہ میں اُس کی بوڑھی ماں اُس کے سر پر سہرا سجانے کا خواب لیے منوں مٹی کے نیچے جا سوئی۔ اُس کے بوڑھے باپ کی آنکھیں ساون بھادوں کی جھڑیوں کی طرح مسلسل رونے سے اپنی روشنی کھو بیٹھی تھیں۔ اب وہ اور اُس کی لاٹھی ایک ہو گئیں تھی۔
اِسی طرح ایک اور قیدی جب نیا نیا جیل خانے میں آیا تو سارے قیدی اُسے رحم دین کہہ کر بُلاتے تھے۔ آہستہ آہستہ رحم دین بھی دوسرے قیدیوں کی طرح ہوتا چلا گیا۔ جب پہلی بار ایک سنتری نے اُسے رحموں کہہ کے بلایا تھا تو اُسے ایسے لگا تھا کہ جیسے پگھلتا ہوا سیسہ اُس کے کانوں میں اُتر گیا ہو۔ اُس کا بال بال تڑپ اُٹھا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کا سب سے سمجھ دار اور ہوش مند انسان تھا جسے اُس کی ایمانداری اور انصاف پسندی کی وجہ سے ظالم کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہونے کے جرم میں زندگی سے محروم ہونا پڑا تھا۔
جب چودھری سخاوت اپنی جھوٹی انا اور عزت کی وجہ سے اپنے اکلوتے بیٹے کے جرم کے آگے مضبوط دیوار بن کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اُسے کبھی بھی اِس بات پر شرم نہیں آئی تھی جب اُس کے بیٹے نے اپنے گاؤں کے ایک گھر میں دھکے سے داخل ہو کر ایک جوان لڑکی کی عزت سے کھیلنا چاہا۔ نکی کی التجائیں اور منت سماجت بھی اُس کے شرابی جسم کو نہ پگھلا سکے تھے۔ نکی نے بڑا شور مچایا تھا۔ خدا رسول کے واسطے دئیے تھے۔ اُس نے زور زور سے چیخیں ماریں لیکن اُس کی چیخوں کا زور سمندر کی چیخیں مارتی خاموشی میں اُتر گیا۔ اتنی دیر میں باہر سے کسی کے آنے کی سرسراہٹ ہوئی تو طاری نے نکی کے باپ کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اُسے اُسی وقت گولی مار کر ٹھنڈا کر دیا تھا۔ وہ اپنی عزت کے لٹنے اور باپ کی انہونی موت کے بعد گریہ زاری کر رہی تھی کہ طاری نے سگریٹ کا لمبا کش لیتے ہوئے غصے سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھئی نکیے عرصے سے لگی ہماری پیاس تو بجھ گئی ہے اور تم کیا چاہتی ہو۔ نکی کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا۔ طاری سگریٹ کا لمبا کش بھر کر اَدھ سگریٹ کو اپنے کھُسے سے مسلتے ہوئے کہنے لگا اب تجھے بھی کبھی کوئی دُکھ نہیں ہو گا۔ تجھے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تجھے بھی تیرے باپ کے پاس لمحوں میں پہنچا دیتا ہوں۔ اُس نے آخری بار بڑی حسرت بھری نظروں سے نکی کے جسم کو دل بھر کر دیکھا تو پھر ایک ہی فائر سے نکی کو اُس کے باپ کے پاس پہنچا دیا۔
سارے گاؤں میں اس طرح خاموشی چھا گئی جیسے ہر کسی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ لوگ جہاں بھی اکٹھے ہوتے ایک دوسرے کواشاروں اور سرگوشیوں میں کہتے کہ بہت بُرا ہوا ہے۔ یہ گاؤں اب شریف اور بھلے مانس لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا لیکن ہر کوئی کھل کر چودھری سخاوت کے بیٹے کے خلاف بات کرنے سے ڈرتا تھا ۔
گاؤں میں کئی روز پولیس آتی رہی لیکن کسی بندے نے بھی آگے بڑھ کر اس قتل کی گواہی دینے کی جرأت نہ کی۔ رحم دین جو کہ مرنے والوں کی چیخیں سُن کر موقع پر پہنچ گیا تھا اور اس واقع کا عینی شاہد تھا۔ شش و پنج میں مبتلا رہا کہ میں گواہی دوں یا نہ دوں۔ کبھی وہ سوچتا کہ زندگی تو صرف ایک بار ہی ملتی ہے کیوں نہ آگے بڑھ کر اِس قتل کے راز سے پردہ اُٹھا دوں۔ کئی بار اُسے ایسے لگتا جیسے مرنے والوں کی چیخیں اُسے کہہ رہی ہوں۔ رحم دینا تم بھی ساری دُنیا کی طرح ہمارا ناحق خون ایسے ہی جانے دے گا۔ وہ گواہی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے لیکن پھر جیسے کسی طرف سے اُسے آواز آتی ہے۔۔۔ رحم دین ۔۔۔تم اکیلے نے ہی ساری دُنیا کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ۔ تم اُن قاتلوں سے ٹکرا کر اپنے لیے کوئی مصیبت مول لو گے۔۔۔سوچ اگر تجھے اس نیکی کے کام کے بدلے کچھ ہو گیا تو تیری جوان گھر والی اور معصوم بچی اس ظالم سماج میں کس طرح زندگی گزار سکیں گی۔ اِسی کشمکش میں اُسے یہ سوچتے ہوئے کئی روز گزر گئے۔ اب پولیس کا آنا جانا بھی قدرے کم ہو گیا تھا۔ لوگ چھپ چھپا کر چہ میگوئیاں کرتے کہ چودھری سخاوت نے بڑا پیسہ لگایا ہوا ہے۔ اُس کے بیٹے کو کچھ بھی نہیں ہونے لگا۔ بات اس طرح آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑتی جارہی تھی جیسے دو انسانوں کا قتل نہیں ایسے ہی کوئی معمولی سی بات ہوئی ہو۔
رحم دین کے اندر کا شور جب زیادہ ہی بڑھ گیا تو اُس نے ظلم کی ہر دیوار سے ٹکرانے کا مصمّم ارادہ کر لیا۔ بالآخر اُس نے تھانے جا کر زبردست بیان دیا کہ یہ قتل چودھری سخاوت کے بیٹے نے کیے ہیں ۔ پولیس والوں نے پہلے تو اُس کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی بلکہ اُسے آنے والے وقت سے ڈرانے کی پوری کوش کی۔ لیکن جب رحم دین نے کہا کہ میں اِس سے آگے بھی جا سکتا ہوں تو مجبوراً پولیس چودھری کے بیٹے کو پکڑ کر تھانے لے آئی۔ رحم دین نے جب آواز اُٹھائی تو آہستہ آہستہ گاؤں کے دوسرے لوگ بھی اُس کے ساتھ چلنے لگ پڑے۔ چودھری نے جب یہ دیکھا کہ لوگ اب کسی طرح بھی میرے رعب و جلال کو نہیں مانیں گے تو اُس نے مختلف بہانوں سے لوگوں سے لڑنا جھگڑنا اور اُن کی بے عزتی کرنا شروع کر دی۔
قدرت کا ایک اُصول ہے کہ کسی کام میں پہل ایک بندہ کرتا ہے پھر اُس کے پیچھے مخلوق کی قطار لگ جاتی ہے۔ بے گناہوں کا خون رنگ لایا تو گاؤں کے رویے نے چودھری کی پگ کے شملے کو نیچے کرنا شروع کر دیا۔ مقدمہ چلا، سارے گاؤں کی گواہی چودھری کے بیٹے کو پھانسی کی سزا کے قریب لے آئی۔ لیکن پھر ایسے ہوا کہ حکومت ٹوٹنے سے جو عارضی حکومت وجود میں آئی۔ اُس میں اُس کے دور کے ایک چاچے کا بیٹا بھائی بھی بڑا وزیر بن گیا۔ اُس کے وزیر بننے کی دیر تھی کہ چودھری کا بیٹا ایک بار پھر جیسے زندہ ہو گیا ہو۔ چند ہی دنوں بعد وہ ضمانت کروا کر ایسے ہی گاؤں میں گھومتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ جیل سے نکلنے کے بعد اُس کی بدمعاشی اور بڑھ گئی تھی۔ لوگ پھر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے۔ پھر ایسے ہوا کہ چودھری کا بیٹا ایک رات شراب کے نشے میں اندھا ہو کر غریب بشیرے کی دیوار پھلانگ کر اُس کے گھر میں جا دھمکا۔ بشیرے کی جوان بیٹیوں اور گھر کے دوسرے افراد کی چیخ و پکار نے ایک دفعہ پھر جیسے سوئے ہوئے گاؤں کو جگا دیا ہو۔۔۔ہر بندہ جس کے ہاتھ میں جو آیا۔ لے کر بشیرے کے گھر کی طرف دوڑتا چلا آیا۔ تنگ آئے لوگوں کا غصہ جب اُترا تو چودھری کے مرے ہوئے بیٹے کی شکل پہچانی نہیں جاتی تھی۔۔۔
ایک دفعہ پھر گاؤں میں پولیس آئی لوگوں کو مارکٹائی سے بچانے کے لیے رحم دین نے یہ قتل اپنے سر لے لیا۔ چودھری کے چاچے کے بیٹے کے اثر و رسوخ سے اُس کے حق میں جانے والی ہر گواہی جھوٹی پڑ گئی اور اُس کو سزائے موت ہو گئی۔
اِن تینوں کی سزائے موت پر عمل درآمد ہونے میں جب چند روز رہ گئے تو ایک دن جیل کا ڈاکٹر اُن کے پاس آیا تو اُس نے سزائے موت کے اِن تینوں قیدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہاری زندگی کا سفر جاری رہے۔ یہ اسی طرح ہی ممکن ہو سکتاہے اگر تم مرتے مرتے اپنی آنکھیں اُن لوگوں کو عطیہ کر جاؤ جنہوں نے دُنیا میں آکر کچھ نہیں دیکھا۔ فیکا اور علیا ڈاکٹر کے سمجھانے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے عطیہ والے فارم پر رضا مندی سے انگوٹھے لگا دئیے۔
جب رحم دین کی باری آئی تو اُس نے بڑے دُکھ سے کہا۔۔۔ڈاکٹر صاحب! میں اپنی آنکھوں کا عطیہ نہیں دینا چاہتا۔۔۔فیکے اور علیے کے ساتھ ڈاکٹر بھی بڑی تعجب سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔بھلیا۔۔۔یہ تو نیکی کا بہت بڑا کام ہے۔ تمہارے انکار کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔ آخر اس کی کوئی وجہ بھی تو ہو گی۔۔۔
رحم دین کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے اور اُس نے گلوگیر کانپتی کانپتی آواز میں کہا۔۔۔ڈاکٹر صاحب! میں اس معاشرے میں قدم قدم پر ہونے والے ظلم اور نا انصافیوں کو دیکھنے کے لیے کسی اور ماں کے بیٹے کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا۔۔۔!!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے