ہڑپہ سے ایک طرف جہانگیر آباد کی کچی پکی بل کھاتی ہوئی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر تیز دوڑتے تانگے نے کچی بستیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دور تک گرد کے بڑے بڑے بادل پھیلا دئیے تھے۔قدیر نے بے بسی سے گردن موڑ کر گرد کے اس بڑے سے بادل کو دیکھا جو ہوا میں تحلیل ہوا جا رہا تھا۔کتنی ساری بچپن کی یادیں اور کیسے پیارے پیارے چہرے بھی اُس کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہونے لگے۔اُسے لگا کہ اب وہ کبھی بھی اپنی اَ مّوکا چہرہ دوبارہ نہ دیکھ سکے گا۔اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔سفید اوڑھنی میں دھان پان سی اَمّو کے سختی سے بھینچے ہوئے ہونٹ اورکناروں تک آنسوؤں سے بھری بڑی بڑی جھیل سی آنکھیں پھر سے اُس کے تخیّل میں در آئیں جنھیں ابھی وہ چند ثانیے قبل پیچھے چھوڑ آیا تھا۔اورکسی نے اُس کا دل مٹھی میں لے کر آہستہ سے دبایا۔اُس نے ڈبڈباتی نظروں سے تیزی سے گھوڑا بھگاتے الٰہی بخش کو دیکھا۔جو اپنی ہی دھن میں مگن گھوڑے کی پشت پر تیز تیز چابک مارتے مختلف آوازیں نکال رہا تھا۔ایسے ہی چابک اسے اپنے دل پر بھی پڑتے محسوس ہوئے۔ اُس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ وہ تیرہ سال کی چھوٹی سی عمر میں اپنی اَمّو کو چھوڑ کر اتنی دور شہر نوکری کرنے جائے گا۔وہ اپنے پانچ سرخ سفیدبہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور سب سے کم صورت تھا۔بس واجبی سے نین نقش اور اُس پہ مستزاد اُس کی سانولی رنگت ‘وہ سب سے علیحدہ ہی دِ کھتا۔ہر وقت اپنی اَمّو کا پلو پکڑے دم کی طرح اُس کے ساتھ ساتھ چپکا رہتا۔جو اُسے دیکھتا حیرت سے پوچھتا کہ وہ آخر کس کے جیسا ہے۔اور گوری چٹی اَمو اُسے گود میں اُٹھا کے چھاتی سے بھینچتی اور اُس کے گال کو زور سے چومتی ہوئی کہتی ،’’ بالکل میرے جیسا ہے۔‘‘ جبکہ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ ہر گز اپنی امّوجیسا خوبصورت اورسفید نہیں۔
بے بے لاکھ ٹوکتی ‘غصہ کرتی کبھی پیار سے سمجھاتی کبھی اونچی اونچی گالیاں دیتی کہ پورے سات سال کا ہو گیا ہے اب تو اَمّو کا پیچھا چھوڑ دے پر اُس کے کان پر تو کبھی جوں بھی نہ رینگی۔اور اَمّو وہ تو سدا کی مہربان۔کبھی اُسے خود سے الگ نہ کرتی۔ اپنے ہاتھ سے نوالے توڑ توڑ کر اُس کے منہ میں ڈالتی۔اُسے خود اپنے ہاتھ سے نہلاتی دھلاتی۔صاف ستھرا رکھتی ۔اُس کا منہ چومتی۔رات کو اُسے گود میں لٹاکے اُس کے بالوں میں پیار سے اپنی اُنگلیوں سے کنگھی کرتی۔اور وہ کیسی میٹھی میٹھی نیند کے بھنوّر میں ہولے ہولے اُترتا چلا جاتا۔
اُس کے باقی بہن بھائی بھی تو تھے پر اُن میں سے کوئی بھی اَمّوکے ساتھ ایسا چپکو نہیں تھا۔یا شاید اُنھوں نے خود ہی ترس کھا کر اُس کے لئے یہ جگہ خالی چھوڑ دی تھی۔انھیں تو کھیل کود کا موقع چاہیے ہوتا ۔ تند اور سخت مزاج ابّا ‘جو خود اپنے گھر کا سب سے بڑا تھا اور جس کے اپنے کاندھے خاندان کی کئی ذمہ داریوں کے سبب جھک گئے تھے اور جو اپنے کام کی ساری تلخیوں کا کتھارسس اَمّو کو ہی طرح طرح سے اذیتیں دے کر کرتا۔جونہی گھر میں داخل ہوتا سب کو سانپ سونگھ جاتا پر جونہی اگلا دن چڑھتا اور ابا گھر سے باہر نکلتا اور وہ بھی اپنی اپنی ہم عمر ٹولیوں میں گھر سے کھیلنے کے لئے باہر نکل بھاگتے۔پر جانے اُسے ایسا کیا نظر آتا تھا اپنی اَمّومیں کہ سارا وقت اُس کے پیچھے پیچھے پھرتارہتا۔۔وہ کھانا پکاتی تو پاس پڑی پیڑھی پہ بیٹھا دیکھتا رہتا۔۔ وہ کپڑے دھوتی تو خود بھی گھنٹوں پانی میں ہاتھ مارتا رہتا اور جب کپڑے سکھاتی تو بھاگ بھاگ کے کپڑے پھیلاتا۔۔بے بے غصے میں اُسے کوستی ’’تجھے تو لڑکی ہونا چاہئے تھا کلموہے۔۔‘‘اور وہ ہنستی ہوئی اَمّوکے پیچھے پھر سے دبک جاتا۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی سر سبز چھاؤں جیسی اَمّوایک بار پھر اُسے بے طرح یاد آنے لگی۔اُس نے ہتھیلی کی پشت سے گال پہ بہتے آنسو صاف کئے اور آستین سے ناک کو زور سے پونچھ ڈالا۔
ابھی تو اُس نے اپنی اَمّوکے ساتھ اور وقت بتانا تھا پہ کیا کرتاغریبوں کے مقدّر میں بھی کبھی سکھ ہوا ہے؟۔ ابا کی بے وقت کی موت نے اُن کے سر سے سائباں چھین لیا۔اَمّو تو جیتے جی مر گئی۔اُس کے ہونٹوں پہ کسی نے خاموشی کا بڑا سا قفل ڈال دیا۔کسی سے کوئی بات نہ کرتی۔چہرہ ہر طرح کے تاثر سے خالی ہو گیا۔بڑی بڑی سمندر جیسی آنکھیں صحرا ہو گئیں۔ہر چیز کا بٹوارہ ہو نے لگا۔گھر کا ۔۔‘زمین کا ۔۔اور بچوں کا بھی۔اَمّوبت بنی سب کچھ دیکھتی رہی۔یوں جیسے اُس کے منہ میں زبان ہی نہ ہو اور اگر زبان ہوتی بھی تو کیا وہ اُس پنچائیت کے آگے بول پاتی جس کے پگڑی برداروں کو صرف فیصلہ سنانے کی عادت تھی۔۔وہ تو کبھی ابّا اور بے بے کے آگے نہ بولی تھی۔۔جانے کس مٹی کی بنی تھی وہ۔۔
دو بڑے بیٹوں کوتو شاکر حسین کی بہنوں نے جھٹ سے بھائی کی نشانی کہہ کر بانٹ لیا جبکہ بیٹیوں کو لینے کوئی آگے نہ بڑھا کہ بیٹیوں کا معاملہ تو بہت نازک ہوتا ہے نا۔۔ اور جب اُس کی تقدیر کا فیصلہ کیا جانے لگا تو وہ اپنی اَمّو سے چمٹ کے اس زور سے رویا کہ بت بنی اَمّو کی بھی ہچکیاں بندھ گئیں ۔اَمّو نے اُسے خود سے کس کے بھینچ لیا اور جب علیحدہ کیا جب تمام تماشبین جا چکے تھے۔اب وہ اپنی دو بیٹیوں اور قدیر کے ہمراہ اپنے اکلوتے بھائی فضل محمد کے ہاں چلی آئی۔
ابھی چند ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ فضل محمد کو بھی بیوہ بہن اور اُسکے تین بچوں کا بوجھ بڑا لگنے لگا۔وہ خود بال بچوں والا تھا۔بھلا ایک چھوٹے سے سبزی کے ٹھیلے سے اپنا خون پسینہ ایک کر کے وہ آخر کتنا کما لیتا۔۔؟؟تبھی اُس نے شہر میں قدیر کونوکری کے لئے اپنے سالے کرم دین کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا جو لاہور جیسے بڑے شہر میں ایک بڑے سیاسی افسر کے بنگلے کا چوکیدار تھا۔قدیر نے کیسا کیسا رونا ڈالا ۔منتیں کیں۔۔پر فضل محمد کے سامنے اُس کی ایک نہ چلی۔یوں آج وہ جس نے اپنی اَمّو کو کبھی اکیلا نہ چھوڑنے کا خود سے ننھا سا وعدہ کیا تھااُسے خاموشی سے روتا چھوڑ کے اتنی دور شہر چلا آیا۔
لاری سے اتر کر کوئی پون گھنٹہ کے رکشہ کے سفر کے بعد یہ طویل سفر ختم ہوا ۔آگے بڑی سڑک پہ کرم دین اس کا پہلے سے ہی منتظر تھا۔ رکشے سے اُتر کرقدیر کو اُس کے حوالے کرتے ہوئے فضل محمد نے ایک بے بس سی نظر قدیر پہ ڈالی اور کرم دین کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔ ’اس کا خوب خیال رکھیو کرم دین۔۔‘ اس کی نظروں میں اپنی بیوہ بہن کا اذیت بھرا چہرہ گھوم گیا۔
’تو فکر ہی نہ کر بھائی فضل محمد۔یہ تو میرے بیٹوں سا ہے۔۔‘کرم دین نے پیار سے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔اور اُس نے ناراضگی سے منہ پھیر لیا۔
اگلے دن کرم دین کی سائیکل سے اُترتے ہوئے اسے اپنی ننھی سی گردن کو کافی پیچھے تک لے جا کر اس اونچے بڑے بنگلے کو دیکھنا پڑا۔ ایک لمحے کے لئے تو وہ حیرت کے مارے اپنی اَمّو کا دکھ بھی بھول گیا۔بڑے آ ہنی گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے دو طرفہ بڑے بڑے لان دیکھ کر اس کا ننھا سا منہ کھلا رہ گیا ۔۔ تبھی کرم دین نے اُس کے سر پہ چپت لگاتے ہوئے کہا ۔ ’صاب بہت بڑے سرکاری افسر ہیں۔ہم غریبوں کے لئے بھی کام کرے ہیں۔آتجھے ملاؤں۔۔‘وہ چپکا چپکا پیچھے چل دیا۔
اور پھرشروع کے کتنے ہی دن اُسے وہاں مشکل سے گزرے۔بس اگر اَمّو کا تصوّر نہ ہوتا تو شاید وہ جی ہی نہ پاتا۔جب کھانے لگتا تو اَمّوکی یاد آتی ۔آنکھیں من من کے آنسوؤں سے بھر جاتیں۔پھر اسے محسوس ہوتا کہ جیسے وہ خود اسے کھانا کھلا رہی ہے۔اداس ہوتا تو وہ ہولے ہولے اس کا سر سہلاتی۔سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا تو وہ گود میں لے کے بیٹھ جاتی اور بالوں میں کنگھی کرتی رہتی یہاں تک کے اُسے نیند آجاتی۔ ۔۔اور یوں ایک ایک کر کے دن بیتنے شروع ہوئے۔
اتنے بہت سارے نوکروں کے باوجود بھی سارا دن بیگم صاحبہ اُسے گھر کے کاموں کے لئے دوڑائے رکھتیں اور وہ ہلکان ہوا ہوا جاتا۔۔ باقی نوکر بھی کام چوری کرتے ہوئے اپنے ذمے کے کئی کام اُس کے سر مُنڈھ دیتے ۔وہ سارا دن بھاگتا دوڑتا رہتا۔کیا مجال جو کوئی اُسے دم بھر کو بیٹھنے دے۔ رات جب بستر پہ لیٹتا تو انگ انگ دُکھتا۔ننھی ناتواں ٹانگیں ٹوٹنے کے قریب ہوتیں۔کبھی کبھی تھکن سے بخاربھی چڑھ جاتا۔اور پھر اگلے ہی دن وہ کرم دین کی دوائی کے سبب پھر بھلا چنگا ہو جاتا۔پر اَمّو کی جدائی ایک ایسا دکھ تھی جو ہمہ وقت اس کی ذات کا احاطہ کئے رکھتی۔ ہر پل اُس کا دل گھٹتا رہتا۔کرم دین جہاندیدہ شخص تھا سب دیکھتا محسوس کرتا۔ ۔پر جب بھی گھر ملانے لے جانے کے لئے چھٹی مانگتا تو صاحب صاف منع کر دیتے کیونکہ صاحب کی پارٹی کے الیکشن قریب تھے اور صاحب کے مشہور سیاسی پارٹی کے اہم سیاسی رکن ہونے کے باعث آئے دن گھر پہ میٹنگز ہوتیں۔کام بہت بڑھ جاتا۔ ایسے میں چھٹی کا بھلا کیا جوازبنتا۔۔۔؟؟اور ویسے بھی یہ سب میٹنگز ‘یہ الیکشن اِنہی غریبوں کی زندگیاں سنوارنے کے لئے ہی تو تھے۔جن کی غربت ایک نسل سے دوسری نسل تک کسی قیمتی وراثت کی شکل میں منتقل ہوجا تی تھی۔۔تعبیر نہ سہی پر ان میٹنگز اور جلسوں کے باعث وہ روز ایک نیا خواب تو دیکھ لیتے تھے ۔۔اور پھر غریب کے خواب بھی تواُس کنجی کی مانند ہوتے ہیں جو خزانے کا قفل تو ضرور کھولتی ہے پر بد نصیبی کہ ہمیشہ خزانے کا حق دار خواب دکھانے والا بن بیٹھتا ہے۔۔بڑے صاحب کے ہاں بھی روزنت نئے سیاستدان آتے۔اپنی اپنی چرب زبانی کا مظاہرہ کرکے خود کو ایک دوسرے سے بر تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔خوب ہنگامہ ہوتا۔بار بار وہی باتیں اور وہی پرانے نعرے ایک نئے تسلسل سے دہرائے جاتے۔جو اب اُسے بھی زبانی رٹنے لگے تھے۔۔غریب کا نعرہ۔۔‘ مزدور کا نعرہ۔۔پانی اور بجلی کا نعرہ۔۔بھوک کا نعرہ اورایسے کئی ملتے جلتے نعرے جو آپس میں گڈ مڈ سے ہو نے لگتے۔۔اور پھر سب سے آخر میں زور دار ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ۔۔۔اُس کا ننھا ذہن سوچنے لگتا کہ ضرور یہ انقلاب کوئی تیز آندھی‘بارش یا طوفان جیسی چیز ہے جو جب آئے گی تو اُن کی غربت اور افلاس سب کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گی۔پھر شاید وہ بھی اپنی اَمّو کے پاس واپس جا سکے گا۔وہ دل ہی دل میں اُس انقلاب کے آنے کی دعا مانگتا۔۔۔ اوراُس دن تو سارا گھر ٹی وی دیکھتا جب بڑے صاحب ٹی وی کی بڑی سی سکرین پہ آتے اور غریبوں کے لئے جوش و خروش سے تقریر کرتے‘چیزیں بانٹتے اور پھر آخر میں زور زور غریبوں کے لئے نعرے لگاتے۔ سب لوگ خوش ہوتے‘تالیاں بجاتے اور بڑے صاحب کے گن گاتے۔
دن مہینوں کے پنکھ لگائے اُڑتے گئے پر نہ تو کرم دین اُسے گھر لے کے گیا اور نہ ہی فضل محمد خود اُسے ملنے آیا۔اور پھر جب ایک لگی بندھی اچھی تنخواہ اس کی جگہ گھر پہنچ رہی تھی تو اُسے ضرورت ہی کیا تھی اُس سے ملنے آنے کی۔۔ پھر ایک دن اُس نے خواب دیکھا کہ اپنی سفید رنگ کی واحد اوڑھنی میں اَمّو کا چہرہ کتنا دبلا ہو گیا ہے۔۔اُس کے گالوں کی ہڈیاں ابھر آئی ہیں‘ہونٹوں پہ پپڑیاں جمی ہیں اور اُس کی جھیل جیسی بڑی بڑی آنکھیں کناروں تک آنسوؤں سے بھری ہیں اور وہ زمین پہ نظریں گڑائے جانے کیا سوچ رہی ہے۔پھر اَمّو نے گردن اُٹھائی اور اپنی دونوں بانہیں پھیلا تے ہوئے بلک بلک کر اُسے اپنی اُور بلا یا۔۔پر جیسے ہی وہ بھاگ کے اُن مہربان بانہوں تک پہنچا اَمّو گرد کے اسی بادل میں تحلیل ہو گئی جسے وہ رستے میں کہیں دور چھوڑ آیا تھا۔۔۔باقی رات وہ اَمّو کو یاد کر کے خوب پھوٹ پھوٹ کے رویا۔۔اگلے دو دن پھر اُسے اس زور کا بخار چڑھا ۔اتناکہ اسے اپنا بھی ہوش نہ رہا۔اب کے تو کرم دین کی دوا نے بھی اثر چھوڑ دیا۔مد ہوشی میں بھی وہ اپنی اَمّو کو ہی پکارتا رہا۔کرم دین نے بڑے صاحب سے پھر بات کرنے کی ٹھانی۔ بڑی مشکل سے بات کرنے کا موقع آیا۔۔بات کرتے ہی صاحب بگڑ گئے۔ ’’افوہ کرم دین تمھیں کتنی بار سمجھایا ہے۔۔پارٹی الیکشن سر پہ ہیں میں بھلا کیسے تم لوگوں کی چھٹی افورڈ کر سکتا ہوں۔۔‘‘وہ اچھی خاصی تلخی سے بولے۔
ُ’’پر صاب اُسے بڑی زور کا بخار ہے۔بے باپ کا بچہ ہے صاب۔۔‘‘وہ منمنایا۔۔
’’تو کیا میں نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے بے باپ کے بچوں کا۔۔‘‘وہ تڑخ کر بولے۔۔’’تم دوا دارو کرو ۔۔ہو جائے گا ٹھیک۔۔ اور دیکھو اب الیکشن تک چھٹی کا سوچنا بھی مت ۔۔‘‘ تحقیر اور حقارت ایک انگلی اُٹھا کر اپنے اور اُس کے درمیان حائل کر تے ہوئے انھوں نے غصّے سے اُسے گھورا۔پھر جانے کیا کیا بولتے ہوئے تیزی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ جا بیٹھے جس کا دروازہ ایک ہاتھ سے ان کا ڈرائیور امیر کھولے کھڑا تھا۔۔ اور وہ چپ چاپ دم سادھے بس زن سے بڑی سی سڑک پہ جاتی گاڑی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔
تیسرے دن بھی دوا کے باوجودبخار اپنی تیزی پہ قائم رہا۔کرم دین اب کے خود بھی گھبرا گیا۔کیا کرے اورکیا نہ کرے۔۔بڑے صاحب سے اب پھر بات کرنے کا اُس میں حوصلہ نہ تھا۔وہ رات اُس نے قدیر کے سرہانے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں اُس کی تپتی پیشانی پہ رکھتے ہوئے کاٹی۔۔ ننھا بچہ بے ہوشی میں بھی اپنی اَمّو کو پکارتا رہا۔۔کرم دین کیسا بے بس تھا۔۔کوئی اُسے اندر ہی اندر کچوکے لگاتا کہ کیا وہ اتنا ہی بے بس ہے۔تبھی اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ قدیر کو اپنی اَمّو سے ضرور ملائے گا۔ اب چاہے نوکری جاتی ہے تو جائے۔ آخر غریب کو سہارا غریب نہ دے گا تو اور کون دے گا۔۔ وہ کیوں فضول ان بڑے صابوں سے اچھے کی اُمید لگائے بیٹھا ہے۔۔وہ رات آنکھوں میں کٹی۔صبح ہوتے ہی اُس نے قدیر کو کاندھے پہ ڈالا اور باہر نکل آیا۔ گیٹ تک پہنچتے پہنچتے قدیر کا بخار سے جھلستا ہوا گرم جسم برف کی طرح سرد ہو چکا تھا۔اُس کے دل میں کسی خدشے نے سر اُٹھایا۔دھڑکتے دل سے اُس نے چھوٹے ناتوں جسم کو گھاس پہ لٹا دیا اور ہتھیلیاں خوب زور سے رگڑیں۔پر اب کے جسم میں نہ تو کوئی حرارت تھی اور نہ ہی کوئی حرکت۔۔وہ زور سے چیخا۔اُس کی چیخ میں بلا کی بے بسی کاکرب تھا۔۔۔ اس کی آواز پہ دوسرے نوکر بھی بھاگے چلے آئے۔کچھ آس پاس کے نوکر اور راہ چلتے بھی رکنے لگے۔ بڑے صاحب کے کانوں تک ماتم پہنچا تو وہ بھی اپنے منجمد احساسات والے سرد کمرے سے باہر نکل آئے۔۔
’’کرم دین۔۔تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ اس کی اتنی حالت خراب ہے۔۔۔‘‘وہ مصنوعی خفگی سے کرم دین سے بولے جو سرخ آنکھوں سے اب یک ٹُک قدیر کو گھورے جا رہا تھا۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اُس کی روح کی تمام اذیت اور بے بسی ان آنکھوں میں اُتر آئی ہو۔۔۔ ’’چچ چچ ۔۔بے چارہ غریب ۔۔ ۔‘‘ننھے ملازم کی موت کا سن کر آس پاس کے کئی اور لوگ بھی تماشا دیکھنے چلے آئے۔۔۔پل بھر میں رش لگ گیا۔۔صاحب نے بڑھتا ہجوم دیکھا تو قدیر کے سر ہانے روہانسے ہوئے جا کھڑے ہوئے۔۔ ’’جاؤکرم دین تم اس کے گھر اطلاع کرو۔۔امیر تم جلدی جلدی اس کے کفن دفن کا انتظام کرو۔۔آہ۔۔ کیسا معصوم سا چہرہ۔۔اور سنو۔۔جو بھی خرچ آئے گا وہ میں خود دوں گا۔۔انھوں نے سبز گھاس پہ گھٹنا ٹکایا اور ایک ہاتھ کی اُنگلیوں سے اُس کے گال کو چھوتے ہوئے دوسرے ہاتھ کی پشت سے نظر نہ آنے والے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا۔۔پھر ایکا ایکی جانے انھیں کیا ہوا انھوں نے جیب سے ایک چیک بک نکالی اور اُس پہ ایک بڑی سی رقم سائن کرکے اسے ہوا میں لہرا تے ہوئے کرم دین کے ہاتھوں میں تھما دیا اورپھرسب کی طرف اشکبار نظروں سے دیکھا اورقدیر پر جھکتے ہوئے بولے۔۔’’ بے چارہ بے باپ کا بچہ تھا۔۔۔تو فکر نہ کرنا بیٹے۔۔یہ نہ سمجھنا ۔۔کہ تیرے بعد تیرے گھر کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔۔آج سے تیرے گھر والوں کی ذمہ داری میں اُٹھاتا ہوں۔۔ ۔وہ بلندکانپتی آواز میں تعزیت کے مصنوعی پھول پھنکتے ہوئے جانے کیا کیا کچھ کہتے رہے۔۔۔ کرم دین نے اپنے اندر کے بلند ہوتے شور کو دباتے ہوئے اپنی ڈبڈباتی نظریں مٹھی میں سختی سے پکڑے ہوئے کاغذ کے اُس چرمراتے ٹکڑے پہ گاڑ دیں۔جو اب اس ننھی سی جان کی موت کی قیمت تھا۔۔بولتے بولتے اچانک ہی بڑے صاحب کا گلا رندھ گیا ۔کرم دین کے کاندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے وہ ہچکیوں سے رونے لگے ۔۔دیکھنے والوں کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔سب لوگوں نے بڑے صاحب کی تعریف کی اور خوب نعرے لگائے۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے