گردن
عالمی ادب بھرا پڑا ہے محبوبہ کی گردن کی توصیف سے۔ آسمانوں میں بیٹھا دوست اگر ساٹھ سالہ شعور کے ساتھ ایک دو جنم اور عطا کرتا تو میں اپنے قاری کے لیے عالمی ادب کے یہ موتی یہاں جمع کرلیتا ۔ مگر اِدھر تو بات ادھوری ہی کرنی پڑے گی۔مست توکلی نے اپنی سمو کو کہیں
آہو گردن کہا، کہیں کونج گردن:
کاٹکیں توخ مانیں ماں کونجیں گڑدنا
(اس کی کونج سی گردن میں گول توخ ہے )
سمو گٹ گوں بِر گڑی آں
مَں گوئرئے کَنڈی آں ہزارانی
اسکے گلے میں بہت قیمتی ہار ہیں
الحان
محبوبہ کی آواز کیسی ہوتی ہے ؟ہم عام اُمّی لوگ کیا جانیں خوش الحانی کیا ہوتی ہے ؟۔ آواز کی مٹھاس کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ۔ تو کیا کیا جائے ؟۔ صوت کے سپیشلسٹ سے رجوع کیا جائے ۔ سمو کے مست کے پاس جایا جائے جو قلندر و سرور کے درباروں میں موسیقار فقیروں کا روم میٹ رہ چکا تھا۔ جسے شعر و موسیقی، آہنگ و ہم آہنگی کا زبردست شعور حاصل تھا۔ وہ خود شعرکی صورت گیت کہتا تھا ، سریندا کی صورت نغمہ بجاتا تھا اور دل چیر کر رکھ ڈالنے والے سوز کے ساتھ گاتا تھا ۔ مست ، محبوبہ اور موسیقی ، تین میموں کی Trinity کے مالک ہیں بلوچ لوگ ۔خود ترنم کا یہ دیوتا مست ،سمو کی آواز کو اس طرح بیان کرتا ہے:
سمو تئی ٹوکاں چو ستار وجاں بانگھواں
سمو تمہاری باتیں ایسی میٹھی جیسے سحر گاہ میں بجتا ستار
چال
محبوبہ کی مستانی چال کو ہر عاشق دیکھتا ہے، توصیف کرتا ہے مگر اُسے بیان تو صرف ابوالکلاموں کا ابوالکلام، مست ہی کر سکتا ہے ۔آہ چال ، یار کی چال ، کبوتر کی چال۔ اس چال پر مست کا وجود قربان،مست کاوطن قربان ۔ آئیے اپنی محبوبہ کی چال (بقول مست میٹھی چال)کی توصیف کے لئے الفاظ،مست کے بینک سے قرض لیتے ہیں:
جی پہ تئی نرمیں جزغو وہشیں کندغاں
جی پہ تئی لوڈان وحد یثان و کندغاں
جی پہ تئی لوڈاں کولواو کاہانہ دیاں
پہ تئی لوڈاں مں کناں قرباں دیذغاں
ترجمہ:
قربان تمہاری نرم خرامی کواور میٹھے قہقہوں پہ
قربان تمہاری چال تمہاری گفتار تمہاری ہنسی پہ
قربان تمہاری چال جس پر کوہلو اور کاہان قربان
تمہاری چال پہ میں کر دوں اپنی آنکھیں قربان
اور سمو کی چال کوکس سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔ کبوتر سے؟ ۔ مگرمست ہم سب سے الٹابیان کرتا ہے :سمو کبوتر چال نہیں، کبو تر سمو چال ہے۔
لوڈ تئی سمو گوناں گوں کہنی کونتراں
(سمو تیری چال کبوتروں نے اپنا لی ہے)
خوشبو
اوپر کے چار مصرعوں کے جادو سے جاگ جایئے تو اگلی بات کروں ۔ ان مصرعوں کو دوبارہ ، سہ بارہ پڑھیے تو دوسرے دائرے میں آپ کو لے جاؤں ،گہری متاثر سانسوں کا دورہ پڑنے والی آپ کی کیفیت دور ہو تو آپ کو خوشبو بھرے اس مصرعے کی طرف لے جاؤں ۔ معطر مصرع جو بلوچستان کے علاوہ روئے زمین پہ کہیں اور نہیں ملے گا ۔ مست کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا ۔ وہ مصرع ہے :
بوئے وہشیں چو گوئڑتغیں نوذانی پذاں
ترجمہ:تمہاری خوشبو اس قدر میٹھی ہے جیسے بارش برسنے کے بعد گل زمین کی خوشبو ہوتی ہے
بلوچستان ۔۔۔۔ کمیاب بارشوں کا بلوچستان، بوند بوند کو ترستا بلوچستان ، اور پھر اس بلوچستان پہ برسے بارش،اور اس کے فوراً بعد شفا ف بلوچستان،اس کی سر سبز دھرتی کے پس منظرمیں ان خوشبو دار جڑی بوٹیوں اوردرختوں کی عطر آمیز خوشبو مٹی کی سوندھی خوشبو سے مل کر جو جادو جگاتی ہے ، اس جادو سے مغلوب کون نہ ہو گا۔ جوکوئی نہ ہو اُسے مست کی ’’نیک‘‘ دعا کے حوالے کرتا ہوں ۔وہی’’نیک‘‘ دعا جو سمو کے حسین ہونے سے اختلاف رکھنے والوں کو سمو کے حسن پہ مر مٹنے والا مست دیا کرتا تھا :’’تمہاری آنکھوں کے صدقے‘‘۔
عاشق کے لئے ، شاعر کے لئے بلکہ عام انسان کے لئے بھی وطن تو حوالہ ہوتا ہے مظاہر کا ۔ فلاں درخت ، فلاں پہاڑ ، باپ دادا کی سرزمین ، آباؤ اجداد کا قبرستان ۔ یعنی وطن کی محبت دیگر مختلف مظاہر سے مل کرہی ایک شکل اختیار کرتی ہے ۔اور تم دس دعوے کرو ، بیس نعرے لگاؤ، مگر سچ یہ ہے کہ سسی کے ہاں بھنبھور دو آنے کا بھی نہیں اگر اس میں پنہوں نہ ہو :
صبا میں بوئے پنہوں جب نہیں ہے
تو پھر بھنبھور کے صبح و مسا کیا
وہ جو فیض زلف لہرانے کو ہی خوشبو کا نام دیتا ہے ، مست ایسا ہی تو کہہ گیا تھا ۔ ہم کلام پہ قادر دانشورقراۃ العین طاہرہ کی مثال بھی لاتے ہیں:
نہ چو زلفِ غالیہ بارِ او، نہ چو چشم فتنہ شعارِاو
شدہ نافعہ ء بہمہ ختن، شدہ کافری بہمہ ختا
ترجمہ:
نہ اس کی معطر ز لف کا سا کوئی نافہ سارے ختن میں ہوا ہے
نہ ہی اس کی فتنہ شعار آنکھوں کا سا کوئی کافر ملکِ ختن میں ہو گزرا ہے
سمو اور خوشبو بھلا کوئی الگ الگ صفات ہیں کیا ؟ ۔آپ خوشبو کہیں سمو بن جائے گی ، آپ سمو کہیں مطلب نکلے گا خوشبو ، بھینی بھینی ، معطر معطر، نرم نرم خوشبو ۔ خوشبو سمو کی صفت ہے اور سمو خوشبو کا عروج ۔ صفت مظہر میں ڈھل جاتی ہے اور مظہر صفت بن جاتاہے ۔ایسا ہے عشاق کا فلسفہ ۔ تشبیہ دیکھیے:
لونگی ٹالی اے رستہ مں ارغونیں گراں
زڑ تغث بوآں، بوئے چو ہمبوئی زراں
ترجمہ:
فلک بوس چٹانوں پہ اگی لونگ کی ٹالی ہے وہ
خوشبوؤں میں پرواز کرتی ہے خوشبوئیں لنڈھاتی ہوئی سمو
خوشبو کے متعلق مست کے ہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی محبوبہ کی صرف زلفیں ہی معطر نہیں، محض جسم ہی معطر نہیں بلکہ:
لال تا خانی بوئے پہ رنداں رتکغاں
اس کی قدموں کے نشانوں سے خوشبو دار جڑی بوٹیوں کی خوشبو آتی ہے
لیکن کیا اتنا کافی ہے ؟۔ کیامحبوبہ کی زلفوں کی یہی تعریف کافی ہے جو ہم پہلے کہیں لکھ چکے ہیں؟ ۔نہیں، بالکل نہیں۔بالخصوص مست جیسے ثناخوانِ سمو کیلئے زلفوں کا بس اتنا سا تذکرہ کیا ہے ، اونٹ کے منہ میں زیرہ !!۔ بھئی پتلی کمر تک لمبا ہونا بھی زلف کی بابت برحق بات ہے ، بل کھاتے متناسب لفظوں سے یار کے زلفوں کو،کوہِ رسترانی کے غاروں میں بل کھاتے سانپوں کے مترادف قرار دینا بھی درست بات ہے ، چلتن و ماران کے کوہساروں پہ چوکڑیاں بھرنے والے آہو کی چستی چابکی بھی زلفوں پہ صادق۔۔۔۔ مگر ایک وصف تو اور بھی ہے جسے، میں اورآپ بے شک بھول جائیں لیکن زلفوں کے تاحیات قیدی توکلیؔ تو نہیں بھولے گا ، بھول جائے تو بھلکڑ پن کی سزا پائے اور بھلکڑ پن کہیں اور ہو سکتا ہے دانشوراور شاعر کے ہاں یہ ایسا ممنوع جیسے ہندو کے معدے میں گائے کا گوشت ۔۔۔اور وہ وصف ہے زلفوں کی خوشبو ، معطر زلفیں ، مشک آلود زلفیں ، لو نگین زلفیں:
درشکاں لیموئے حاکمی باغانی تہا
پن جواننت و شکلیں رنگ گوں دروشماں
چیڑ گوں مسکان و لونگان و عطراں
لوڈ تئی سمو گوناگوں کہنی کونتراں
ترجمہ:
درختوں میں لیموں ہے سمو ، لیموں بھی شاہی باغات کا
خوب ہیں اس کے پتے ،اور شیریں ہے رنگ روپ اس کا
گیسو ہیں بھیگے مشک و لونگ و عطریات کے ساتھ
چال تیری سمو ، فقط کبوتر کے ہے پاس
خوشبو کی یلغار کی بابت بھی سنیے:
زڑتغابوآں، بوئے چوہمبوئی زراں
جان اوں ساڑ بیثہ اشتہ پہناذوسمبغاں
ترجمہ:
مجھے خوشبوؤں نے آن لیا ، سرسبز خوشبوؤں نے
بدن کو ٹھنڈ پڑ گئی نمونیا اور پلو رسی جیسے چبھتے ہوئے درد بھاگ گئے
اور آخر میں مست کی پیاسی بے چین روح سے نکلی دعا!!
جی پہ تئی بوآں اژ منی جانا دیرمہ واں
خوشا تیری خوشبوئیں ، وہ میرے جسم سے دور نہ ہوں شالا
مناظرِ فطرت سے تشبیہ
دنیا کی ساری زبانیں خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی ، محبت کے واحد شعبے میں ہمیشہ deficient ثابت ہوتی ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ انسان کہیں قدرت کے حسن کو محبوبہ سے تشبیہ دینے پہ مجبور ہوتا ہے ،اور کہیں الٹا محبوبہ کو مناظرِ فطرت سے مشابہت دینے کو مجبور۔
دوست منی روژنائیں تہارانی
میری محبوب تاریکیوں میں مشعل ہے
مست کے نزدیک حسن کا اصل نام سمو ہے۔ہم مست کے عام قاری کی حیثیت سے بھی گواہی دیں گے کہ وہ سمو کو ہر مخلوق سے زیادہ حسین ، زیادہ اچھا اور زیادہ متوازن دیکھتا تھا ۔ کوئی ثانی نہیں ، کوئی نظیر نہیں ، کوئی مقابل نہیں۔ ۔۔۔نہ عرش پہ نہ فرش پہ ۔ نہ ہندوستان میں نہ خراسان میں ۔ تو کیا مثال دی جا ئے۔ کیا انتہائی بات کی جائے ۔تنگ دامان انگریزی ، عربی ، اور چینی زبان کی طرح تنگ دامان بلوچی بھی پناہ لیتی ہے فرشتوں میں ، پریوں میں ،پھولوں میں،مناظر میں۔۔۔۔۔۔۔عشق کے آگے سب زبانیں گنگ ، سب بولیاں اپاہج۔ سو ہمارا پیرِ عشق بھی زبان کی اس عمومی تنگ دستی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور مجبوری سے اپنی محبوبہ کے حسن کو مافوق الفطری زبان کے ہاں رہن رکھ دیتا ہے ۔ارے سائیں محبوبہ بزرگی،کرامت سب سے بالاتر ہے ۔ مست مجبور۔چنانچہ سمو بلوچی زبان کی کم مائیگی کا شکار بن جاتی ہے ۔ بہت لوکوالٹی تشبیہ دیتا ہے مست:
آں پری اے کہ پریشتغے عرشی
وہ پری ہے یا کہ فرشتہ ہے عرشی
یہ تو الفاظ کی حدود و قیود کا مسئلہ ہے یا امثال و استعاروں کی کمیابی ہے کہ آپ اپنی محبوبہ کے حسن کو کسی اور چیز سے تشبیہ دینے لگتے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ بلوچی زبان میں حسن کا سرچشمہ فرشتوں کو گردانا جاتا رہا ہے ۔جن کے نہ تو پاؤں ہیں نہ کمر ، نہ رخسار ہیں نہ آنکھیں۔۔۔۔زبان کا میدان کس قدر محدود ہے !!
دنیا کی ہر زبان کے ادب میں محبوبہ انمول رہی ہے ، وہ نایاب نعمتوں ہی سے تشبیہ پاتی رہی ہے ۔ نازک ترین مظہر ہوتا ہے حسن ۔ نرم ، لطیف اور روح کوبھا جانے والا ۔ ع
دوست منی شریں چو سمینانی مچلاں
میری دوست اچھی ہے بادل کی ٹکڑیوں کی طرح
یہ جاننے کے لئے کہ برسنے والے بادلوں کی ٹکڑیاں کس قدر دلکش ہوتی ہیں بلوچستان آیئے،اورساون میں آ ئیے ۔ ہمارا نیلگوں، شفاف آسمان دیکھیے اور اس پر بادل کا سب سے ممتاز ، سب سے سفید ، سب سے جاذبِ نظر ٹکڑا دیکھئے اور اس کے جمال کے سامنے سر جھکایئے کہ یہ ٹکڑی سمو کے علاوہ کون ہو سکتی ہے ۔ شاہ لطیف کے پاس دریا ہے ، پانی ہے اس لیے اس کی محبوبہ کے نقاب الٹنے کے نتیجے میں قمر اور کہکشاں نیلگوں دریا میں غوطہ زن ہو گئے تھے ۔ ان کی اوقات ہی کیا رہ گئی تھی :
جب آدھی رات کو اس نے دکھایا
نقابِ رخ اٹھا کر اپنا چہرہ
قمرنے کہکشاں کو ساتھ لے کر
لگایا نیلگوں دریا میں غوطہ
پر ، ذرا ادھر آیئے ۔ہم آپ کو دنیا کی لطیف ترین فلم دکھاتے ہیں ۔ جسے ڈائریکٹ کیا مست نے ، تحریر کیا توکلی نے اور عکاسی کی سمو بیلی نے :
چاردہی ماہے آسی ژہ کوہہ بارغاں
دوست منی در ینے کوشتی مں شریں کوکراں
کیث پہ آزمانا ہر گر ہ ڈیہہ ایں مائخاں
چیلکاں جنت چو ساونڑیں آبندیں جڑاں
ترجمہ: چودھویں کا چاند ہے ،وہ دمکتی ہوئی جھانکتی ہے کوہ کی باریک تر ین بلندیوں پرسے ،
محبوبہ میری قوسِ قزح ہے ، کھڑی ہو جاتی ہے حسین بادلوں میں
فلک پہ آتی ہے ، توہر طرف ہو جاتی ہے چاندنی
چمکتی ہے بجلی کی لکیر کی مانند ساون کے آب بھر ے بادلوں کی طرح
محبوب میں کیا کمی کمزوری ہو سکتی ہے ، چاند میں خواہ لاکھ داغ ہوں ۔ چاند تو چاند ہے ، پرچاند اور حسن کا کیا تعلق ۔چاند حسن کے آگے ہیچ ۔البتہ حسن اور محبوب کا تعلق دلچسپ ہے ۔ محبوب تو حسن جیسی چھوٹی چیز سے بہت بالا بہت بلند ہوتا ہے ۔ محبت حسن کو جنم دیتی ہے نہ کہ حسن محبت کو ۔ محبت اول حسن ثانی ۔ محبت دائم ، محبت قائم۔
’’ماہ گونغیں (ماہ رنگ)تو گویا تکیہِ کلام رہا شاعری میں ۔ جام سے لے کرآج کے شعراء تک۔
میں آپ ہوتے تو ہماری سمو تو بہت زیادہ محدود اور مجسم ہوتی۔ مگر یہاں سمو مست کی ہے۔دانشور، شاعر اور فلسفی کی سمو۔ چنانچہ وہ ایک مجسم وجود ضرور ہے ، ایک گوشت پوست کی انسان ۔ مگر وہ تو مجسم حسن ہے ۔بھنوروں کی جھرمٹ میں رہنے والا حسن ۔۔۔حسن جو شکلیں بدل بدل کر حملہ کرتا ہے ، ناز بدل بدل کر جادو کرتا جاتا ہے ، بھیس بدل بدل کر گرفت میں لیتا جاتا ہے ۔ حسن میں تنوع ہی کو تو ثبات ہے ۔ یہ ایک روپ میں کب رہتا ہے ۔اورشاعر بھی اسے ہر روپ میں دیکھتا ہے ، ہر روپ میں بیان کرتا ہے :
سمو یہ شیشائے شراوانی
سمو یہ سُرپلّے انارانی
سمو یہ سروانے تلارانی
سمو یہ ڈیوائے تہارانی
یا جُڑی بوٹی اے رغامانی
ترجمہ
شیشی شراب کی ہے سمو
سرخ پھول انار کا ہے سمو
ہرنی چٹان کی ہے سمو
چراغ ظلمتوں کا ہے سمو
یا بادلوں میں سے ہے ایک ممتاز ٹکڑی
ایسا ہے مست۔ جا م درک اجازت دو تو تمہارے اشعار مست پر منطبق کروں؟
میں نے لعل جڑے ہیں
میں نے اشعار کہے ہیں
میں نے موتی پروئے ہیں
مست بلوچ ہے ۔اور بلوچ پیاسا ہے بادلوں کا بارشوں کا ، کہکشاں کا ، چاندنی کا ۔ ماہ اس کے ہاں حسن کا استعارہ ہے ۔اور سجنو! مست تو فلک کا لافانی دوست ہے ۔وہ آسمان والے کیلئے ہے،اور آسمان اُس پہ فریفتہ۔ مست فلک کے ایسے ایسے مناظر دیکھتااور بیان کرتا ہے کہ حیرت طاری کروادیتا ہے ۔ ہم نے پچھلے صفحات پہ آپ کو بلند ترین پہاڑ کی باریک ترین چوٹی پر سے سمو کو طلوع ہوتے دکھایا تھا ۔ ایسا منفرد اظہار آپ کو مست کے کلام میں جگہ جگہ ملے گا ۔ میں نقل کرتا جاؤں گا آپ اپنی روح پر لطیف شبنمی بوندوں کو گرتا ہوا محسوس کرتے جائیے ۔ مگر پہلے ذرا مرشدِ مست ،و مرشدِ من و تو ، شہ مرید کو سلام نہ کریں؟آیئے:
دوشی کج و ماہ چاڑ دہی
ہم کو فغی اوشتا ثغاں
ژہ ماہا کجئے رنگ شر تریں
ماہا غبارے مں دفیں
حانی ژہ شیر ا شر تریں
ترجمہ:
کل رات محبوبہ اور چودھویں کا چاند
ساتھ ساتھ کھڑے ہو گئے
ماہ سے محبوبہ کا رنگ زیادہ خوبصورت نکلا
کیونکہ چاند کے چہرے پر تو غبار چھا یا رہتا ہے
حانی کا رنگ تو دودھ سے بھی خوبصورت ہے
اب جو چہرہ ، خوبصورتی کی علامت ،یعنی چاندسے بھی زیادہ خوبصورت ہو تو اس سے محبت ہی تو کی جا تی ہے ۔ کون حسن کے دربار میں دو زانو نہ ہو جائے؟ ۔خوشحال خٹک نے تو سیدھا فارمولا بنا ڈالا تھا :
جسے خوبصورت چہرے کی محبت کا غم نہ لگا ہو
وہ جیسے دنیا میں سویا ہوا آیا اور سویا ہوا رخصت ہوا
سچی بات یہ ہے کہ حسن پرآتماکا مظہر ہوتا ہے ، خواہ یہ حسن جسمانی ہو ،تخلیقی ہو یا روحانی۔
محبوبہ حسن کا مرکزہ ہوتی ہے ،راحت ہوتی ہے ، لطف ، سکون ، عافیت ۔اورذرا سوچئے محبوبہ سمو ہو ، ثنا خواں مست ہو ، زبان بلوچی ہو، پس منظر بلوچستان ہو، تو پھر تو ورڈز ورتھ اور شکسپیئر مل کرمست بن جائیں:
دروشماں داث چوتانہی نوذاں
کشی جو سرگواثاں سمین ایغاں
صورت ایسی جیسے دور دیس سے آنے والی گھٹا
بخشتی ہے راحت جیسے مشرق سے چلتی ہوئی بادِ نسیم
یہ سمین بلوچی زبان کے دونوں بڑے شاعروں، جام اور مست کا سب سے اہم دوست رہاہے ۔ سب سے من بھاتی تشبیہ۔ موجبِ راحت و سکون :
جی سمیں بے پولا بہشتی ئے
اژ لطیفانی پلو ہ کایئے
جامؔ
ترجمہ
جی ہو تم پہ سحرِتم، بن پوچھے بہشتی ہو
کیونکہ تم حسیناؤں کی طرف سے آرہی ہو
صرف بادل، چاند ، باد نسیم ہی نہیں ، مناظرِ فطرت کے ذاکر ، مست کی سموتو :
دوست منی درینے کوشتی ماں سوزیں کوکراں
میری دوست قوسِ قزح ہے کھڑی ہوتی ہے سفید بادلوں ہیں
یا پھر
دیثہ مں سمو کرّ ہ کنت خاصائیں گذاں
تنگویں بچی رُستہ گوئر آریفیں پثاں
سملئے لوڈ گوناں گوں کہنی کونتراں
رنگے شرنت او داث سمینانی دروشماں
ترجمہ:
میں نے دیکھا سمو کو جو نرم، اجلے سفید لباس پہنتی ہے
والد کے ہاں بیٹے جیسے ناز میں پلی بڑھی
کبوتروں نے سمو کی چال اپنا لی ہے
اس کی رنگت دلکش ہے اور نسیم سحر کی ہم شکل
شہدوشیر
دوست وَٹّی ئے شہذ و شیرانی
محبوب شہد و دودھ کا کٹورا ہے
بس اور کیا لکھوں، کیا کہوں؟
شیئر
دوست ژہ جاندرانڑہ لیمو آں یکے
رُستہ مں ارغونیں گری سایاں
دروشماں دا چو تانہی نوذاں
دَرَوشی چوسرگواثاں سمین ایغاں
ژل انتی شمب چوزا مری چیڑاں
پَنے شرنتی ماں تنگویں دیما
دار ہُمارنت مں بارغیں سرینا
ترند چو آمڑ(1)داثغیں تیغاں
بّریں چوسرواناں گیافیناں
سُہریں چو سُر پلاّں اناریغاں
وہش چو سجی پکغیں ونگاں
ساڑتیں چوکانافاں سہیل ایغاں
جسکی چو پُڑزایاں گروخی آں
واژہ پہ توفیقیں دلے زیراں
پہ جزیدانی جنگہ سامانا
میکائل نوذانی مہا نڑائیں(2)
وث پڑیانی واغے مں دست اَیں
بیئے تُراناں چوسانوڑی سیراں
مہر واں بیث و پتنڑاں گواری
وث مراذوندانی مراذ پجی
بوژوبل واغانہ دریائی آں
ترجمہ:
دوست کوہ جاندران کے لیموؤں کے پیڑوں میں سے ایک ہے
جو دشوار گزار گھاٹیوں کے سائے میں بڑاہوا ہے
وہ دور دراز سے آئے بادلوں جیسی
خوشگوار ہوا کے جھونکوں کی طرح چلتی ہے
اس کی شاخیں زامر کے بیل کی مانند نیچے لہراتی ہیں
اس کے پتے اس کے سنہرے چہرے پر سجتے ہیں
ٹہنیاں(زلفیں) اس کی پتلی کمر پر گری ہوئی
تیز ہیں زہر میں بجھی تلواروں کی طرح
وہ دور دراز کی بدکی ہرنیوں کی طرح ہے
انار کے پھولوں کی طرح سرخ ہے
لذیذہے سجی کئے ہوئے پُٹھ کی طرح
یخ ہے موسمِ سہیل کے فرحت بخش پانی کی طرح
چمکتی ہے بادلوں میں بجلی کی چمک کی طرح
مالک باہمت دل سے اٹھالیں
یزیدوں کے ساتھ سامانِ جنگ کے بطور
میکائیل بادلوں کا کشتی بان ہے
اسی کے ہاتھ میں ہے بوندوں کی مہار
اس شان سے امڈ آئے جیسے ساون کی شادی ہو
مہربان ہو کر پتنوں پہ برستا ہے
مرادیں مانگنے والوں کی مرادیں بر آئیں
دریاؤں کی باگیں کھول دے
حاشیہ
1۔ زہر میں بجھی تلوار 2۔ کشتی بان۔
شیئر
سَوزیں چو طوطی آں لقائی آں
ٹلّی مں گُلّاں بادشاہی آں
دوست منی نوخیں نوخ سراں نوخیں
وزتاں مست ایغاں تل وتوخیں
نوخیں ماں شاھئے چادرہ نیاما
گنداں تئی لوڈاں مں بشان ئیغاں
تڑساں ژہ زورکاراں قہاریغاں
چی اے تئی قہرانی ازل گیراں
چی اے تئی مہرانی پضل گیراں
چی اے تئی مجنائی دلیل داراں
چلہ ای چیار پاسا قواض داراں
دوست مناں پڑدائے نقل داری
شربتاں پاک ئیغاں منہ لوٹاں
ہڑ دور نگانی شیشغاں لالیں
نوشِ اثنت شاھہ جتکغیں بچاں
چم ژہ مہرانی درہ گواری
پیالوئے نوش کاں گوں کاغذیں رکّاں
یکے پہ واسطا یا خدائیا
یکے پہ نیتا گنوخ ئیغا
بیایاں مئیں تُنّی ایں دلا پجاں
لہر ژہ ماندائیں دلا دیر باں
سملئے سالانی زہیر نوخ باں
قنبریں عہدانی حوالداراں
دوستہ پڑدایئے مں فکرداراں
روضوا لال ئیغا سلامیاں
منّہا دوست ئیغا گُمانیاں
ترجمہ:
کرامت بھری طوطیوں کی طرح سبز ہیں
بادشاہ کے گلستان میں سیر کرتی ہے
محبوبہ میری نئی ہے ، نئی سے نئی ہے
مست کی یادوں میں لوٹ پوٹ ہوتی ہے
شاہ کے چادر کے اندر نئی ہے
میں تمہاری مستانی چال دیکھتا ہوں
قہار خدا کی طاقت سے ڈرتا ہوں
کچھ کچھ تو تمہارے(خدا کے) قہر کی زد میں ہوں
کچھ کچھ تمہاری(خدا کے) رحمتوں کا فیض یاب ہوں
کچھ کچھ تمہارے لئے جنون کا دعوے دار ہوں
سرما کے چار پہر عبادت کرتا ہوں
دوست مجھے پردہ دیتا ہے
پاک (خدا )کے شربت مانگتا ہوں
ہر دور نگوں کے شیشے خوشنماہیں
شاہ(علی؟) کے دونوں بیٹے نوش فرماویں
آنکھ محبت کے در سے برستی ہے
کاغذی پتلے ہونٹوں سے پیالہ نوش کرتی ہے
ایک پیالہ خدا کے واسطے
ایک اس دیوانے مست کی نیت سے
تا کہ ہمارے پیاسے دلوں تک پہنچیں
تا کہ یادوں بھرے دل سے موجیں دور ہو جائیں
تا کہ سمل کی برسوں کی یادیں تازہ ہو جائیں
میں اپنے عہد اور قول کا پاسدار ہوں
محبوب کے ناموس کے لئے سوچتا ہوں
لال (شہباز قلندر؟) کے روضے پہ حاضری دے رہا ہوں
دوست کے سائباں(روضہِ رسول؟) کا منتظر ہوں