ہمارے نیم خا نہ بد وش معا شر ے کا دانشو ر اور شا عرشروع سے ہی اپنی عا دتیں ،رجحا نا ت، علم اور بصارت اپنے اردگرد ہی سے لیتارہا ہے۔ اس لیے بلوچی شاعر ی اپنے سما ج کی پید اواری قو تو ں کی مطا بقت لیے ہو تی ہے ۔ اس کی ساری ادبی تخلیق، تجر بات و حوادث کی دَین ہو تی ہے ۔ آمد وغیر ہ کی سا ری تھیو ری عینیت پرستی سے آتی ہے اور وہیں لے جا تی ہے ۔
بلو چ کو فطر ت کی طر ف سے جو جو نعمتیں حاصل ہیں وہ اِن کا شکرگزار رہا ہے۔ وہ اپنے اردگرد موجودتما م مظا ہر و مو جو دات کو با قا عد ہ جا ندار سمجھتا ہے۔ وہ انھیں سو چنے سمجھنے اور بو لنے کی صلا حیت والا مانتا ہے۔بلوچ مظلوم کے خلا ف ظالم کے ڈاکو گر وہ تک جلد سے جلد پہنچا نے کے لیے اپنی گھوڑی کی منتیں کر تا ہے اور گھو ڑی جو اب میں ایسا کر نے کی یقین دہا نی کر تی ہے ۔اسی طرح وہ اپنی تلوار سے برابری کی سطح پر کہتاہے کہ ظالم کے لشکر کی گر دنو ں سے کو ئی ر عا یت نہ برتے ، اور تلو ار اُس سے کہتا ہے کہ چلا نا تمھا را کا م ہے اور پھر غنیم کی گر د ن کو دو ٹکڑے کر نا میر ے ذمے۔
اپنے دشمن شیر سے بھی اُ س کا دو طر فہ۔ طویل مکالمہ موجود ہے ۔وہ با دل سے با تیں کر تا ہے ، وہ اُ سے امڈ کر آنے اور برسنے کا کہتا ہے ۔ اور ہر جگہ برسنے کی مقد ار اور دورانیہ کی تجو یز بھی کرتا ہے ۔قحط ہر انسا نی آبا دی کی طر ح بلوچ کی بھی ہست و نیست کا معا ملہ ہے ۔معا شی معا ملا ت تو سما جی معا ملا ت کا ر حم ما در ہو تی ہیں۔ زندگی کا شا ہر گ با رشیں ہو تی ہیں۔ اُسے سا تھی پہا ڑی ہر نو ں کے بچو ں کی پیا س بہت بے قر ار کر تی ہے، وہ اُن سے باتیں کرتا ہے اورپھر اُن کی یہی باتیں بادلوں سے بیان کرتا ہے۔اسے چر اگا ہ ،لہلہا تی فصلیں اور اُن کے خو شے چُنتی محنت کش عورت بہت اچھی لگتی ہے۔(آبا دی، آزادی کے مترادف ہی تو ہو تی ہے!)۔وہ با رش کی مو سیقی ،اُس کی خو شبو اور نتیجے میں بہتے ند ی نالو ں کو حسین تر ین تو صیفی الفا ظ کا جا مہ پہنا تا ہے۔
اس سلسلے میں دلچسپ با ت یہ ہے کہ انجانے ذرائع اور نامعلوم راہوں سے سا ئنسی ٹھو س در یا فت کا شعور پا کر قدیم تر ین بلو چ اپنی شا عری میں بھی با دلو ں کو مکران کے سمند روں سے پید ا ہو تے دیکھتا ہے۔
بلو چ شا عرکو بہت گنجا ن اور بے ہنگم شہر پسند نہیں ہیں۔اس کی شا عری کا بہت بڑا حصہ ما حو لیا ت دوستی پر مشتمل ہے ۔ وہ دھواں ،شو ر اور گھٹن سے نفرت کرتاہے ۔وہ فطر ت کے حسن پر عا شق ہے۔ (اور فطر ت دوستی تو وطن دوستی ہے نا ں!)۔
بلوچستا ن کی حالیہ نصف ملینیم کی تا ریخ حملہ آوروں کے خلا ف مز اہمت کی تا ریخ ہے ۔سا مر اج خو اہ شما ل کا ر ہا ہویا مغر ب و مشرق کا ، سامراجیت خو اہ علا قہ گیر ی والی رہی ہویا و سا ئل گیری کی ، بلو چ نے اُس کی ہر باریکی کو سمجھ کر اپنا اقدام اٹھایا۔
شاید بلو چ کا سب سے بڑ ا سما جی مسئلہ اس کی آزادی کی گر دن کی طر ف بڑھتا ہو ا ہا تھ رہا ہے۔اس نے اپنے تما م مسا ئل کا حل اپنی جغرافیائی ، معاشی اور سیاسی آزادی کو جا نا ،قحط سے بھی بڑا مسئلہ۔ چنانچہ بلوچ شا عری پر تگیز یو ں ،مغل تر کو ں، انگر یز وں ،پھربعد میں ا مر یکہ اور اس کے اتحا دیو ں کی چا لبا زیو ں مکا ریو ں سے شدید نفر ت کی شا عری ہے۔ایسی مضبوط بنیادوں کی شاعری جس میں دشمن قوم کے اندر موجود لا لچ کی مختلف قسمو ں پر بحث کی گئی۔ ہماری شاعری سامراجی قومو ں کی عا دتو ں ،خصلتو ں اور رویو ں پر بہت با ریک تجز یہ نگا ری ہے ۔
مگر یہاں ایک عیب بھی ہے۔ یہی سامراجی قوتوں سے دشمنی میں ہم مجبور ہوتے ہیں کہ داخلی طور پر ایک متحدہ محاذ بنائے رکھیں ۔ ظاہر ہے سردارہی اس متحدہ محاذ کی قیادت کرے گا۔ اور جب سردارہی موجود ہوگا تو اُس کا نظام بھی موجود ہوگا۔لہٰذا جب تک سامراجی سازشیں جاری رہتی ہیں، بلوچ اس کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرتا رہے گااور سرداری نظام زندہ رہے گا ۔ اور اُس نظام کی داخلی استحصالی صورت کو درگزر کیا جاتا رہے گا۔
قبا ئلی بر ا درکش جنگیں اور اُن سے پید ا شدہ سماجی معا شی مسا ئل اُس کا ایک مستقل مو ضو ع رہے ہیں۔بیورغ رند سے لے کر توکلی مست تک ہمارے شاعر بے مقصد خانہ جنگیوں کے خلاف شاعری کرتے رہے ہیں۔ ایسی شاعری جواب مقبولیت میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
بلوچ کا ایک اور بڑا سما جی مسئلہ اس کا داخلی طبقاتی نظا م رہا ہے۔ وہ حالیہ پا نچ صدیو ں میں اپنے ہاں مروج فیو ڈل نظام کے ویلیو سسٹم میں محبت پر پا بند یوں کے خلا ف خو ب بو لا۔ہماری شا عری کا ایک بڑا حصہ عشقیہ شا عری کا ہے۔مگر اُ سی میں تو اُس نے عو رت کی نجا ت کی با ت کی ۔ وہ لب اورولو ر ،کم سنی کی شا دیو ں ، بیوی کو مارنے پیٹنے اورسیا ہ کا ری ( کا روکا ری) جیسی بہت ہی قبیح رسمو ں سے نہیں چھپاتا ۔بطو ر شاعر بلو چ کوفیوڈل و یلیو سسٹم کا متبا دل بہت پسند ہے ۔ اسی لیے تو شہ مرید،بیورغ اور مست تو کلی بلو چ کے محبو ب تر ین شا عر ہیں۔ اور یہی محبوب شاعرفیو ڈل اخلا قیا ت اور اُس کے ویلیو سسٹم کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے ہیں۔
ایک اشرف مخلو قا ت کے بطو ر بلو چ جھو ٹ و فر یب سے نفر ت کر تا ہے۔سچی اور بے نقاب فطرت سے جڑا رہنے کے سبب اُسے سچائی سے رغبت رہی ہے۔ ’’دروغ اور دروہ ‘‘ خواہ چاکر اعظم ہی کیوں نہ کرے بلوچ اپنی شاعری اُسے معاف نہیں کرتی۔ تہمت و بہتان کے خلاف مہناز نامی خاتون چاکر سردار کے بیٹے تک کے خلاف ایسی بھرپوراورطاقتور شاعری کرتی ہے کہ پانچ صدیاں گزرنے کے باوجود اُس کی مقبولیت کم نہیں آتی۔
بلوچ شاعری نے مہما ن نو ازی میں بخل سے کا م لینے والے کو کبھی پسند نہیں کیا ۔مہمان کی خدمت میں ذرا سی کمی بلوچ شاعر کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے ۔ وہ اس کے خلاف ٹکاکے شاعری کرتا ہے ۔بلو چ شا عری نے بیگا نگی ،تنہا ئی پسند ی اور اند رون بینی کو مستر د کر تے ہو ئے پہل کاری، اکٹھ،اجتما ع اور اشتراک کو او لیت دی۔ اُس کی شا عری ،میلے ،جشن اور کھیلو ں کو بہت پسند کر نے والی شا عری ہے ۔گھمنڈ، بڑے بول بولنے اور نمائشی شخص اور قومیں اس کی شاعری میں ہمیشہ مکروہات کے بطور موجود رہی ہیں۔ بلو چ کی شا عری میں زیا دہ دولت ا کٹھی کر نے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا تا۔جیسے وہ کوئی ناپسندیدہ کام کررہا ہو، شیطان شیطان سا لگتا ہو، میلا میلا کچیلا کچیلا۔ وہ زیا دہ قسمیں کھا نے والو ں کے خلا ف ضر ب الا مثا ل بناتا ہے۔انسا ن کا عز تِ نفس اس کے ہا ں مقد س و مقد م ہے۔
بلوچ آمر یت کو پسند نہیں کر تا۔ وہ اپنے رواج اور قوانین میں، اوپر کے احکا ما ت کی بجا ئے خو د اجتما ع منعقد کر کے تبد یلیا ں لا نے کے حق میں ہے۔
بلوچ ایک خد ا دوست لو گ ہیں ۔اُن کا اپنے سا دہ ،مہر با ن اور ہمہ وقت قر یب موجود خد ا سے ہمیشہ مکا لمہ رہتا ہے ۔مسلسل مہاجر ت اور خا نہ بد وشی میں رہنے کی بد ولت اُسے اپنے خد ا کی مد د کی ہر وقت ضر ورت پڑتی ہے ۔اور وہ اُسے فی البد لیہ پکا رتا ہے ، ڈائریکٹ ، بے ساختہ اور اُسی دم۔وہ اپنے اور اپنے خدا کے درمیا ن کسی تیسر ے کو دخل نہیں دینے دیتا۔لہٰذا اس کی روزمرہ زندگی میں ملاّ کا رول بہت کم ہے۔ اپنی شاعری میں اس نے کبھی بھی ملاّ کی تعریف نہیں کی۔ اسی لیے اس کی شا عری میں فر قہ واریت اورانتہا پسند ی نا پید ہیں۔وہ ہر مذہب کی قدر کرتا ہے۔
بلو چ شا عر کو بابا فرید سے لے کر شاہ عنایت لطیف تک کے سا رے یو ٹو پیا ئی فلا سفر بہت اچھے لگے ہیں۔وہ شاعری میں اُ ن کی تو صیف کر تا ہے۔ پڑوسی کلچر ز سے اچھی اچھی با تیں لینے سے بلوچ نے کبھی گر یز نہ کیا ۔ بلوچ نئے خیالات، نئے رواج اور زندگی کے نئے طور اطوار کو بہت جلد اپناتا ہے۔ اس کی شاعری میں جمہوریت، سوشلزم جیسے جدید ترین تصورات موجود رہے ہیں۔ اُس نے انسان کے چاند پر جانے کا خیر مقدم کیا، مارکس سے ماؤ زے تنگ تک پر شاعری کی، اور ریل گاڑی جیسی ایجادات پر ڈھائی صدی قبل کے توکلی مست نے توصیفی شاعری کی تھی۔
آج کا دانشور بھی اسی چوکھاٹ کے اندر ہی رہ رہا ہے۔ اسی لیے وہ اپنی اس امیر و غنی روایت پہ چلنے پہ مجبور ہے۔چنانچہ موضوعات کے دائرے میں نہ کسی اپیل کی ضرورت ہے نہ کسی تحریک کی۔ ہماری اب تک کی ادبی روایت اگلی کچھ صدیوں تک ہر قلم کو اپنے روشن فکر چوکھاٹ میں رکھنے کی سکت و توانائی رکھتی ہے۔اِس سے پرے، ہر متبادل کو ہمارا معاشرہ حقیر اور نان لوکل سمجھتا ہے !!