یہ بات بہت دنیاوی لگتی ہے کہ وہ سنگت اکیڈمی کا ممبرتھا،اور یہ کہ سنگت اکیڈمی نے ہر وقت اُس کی بہت پذیرائی کی۔ اب ’’ نہ دنیائی‘‘ بنے دانیال سے’’ دنیاوی ‘‘باتیں کرنا اپنے چھوٹے پن کی تشہیر کرنا ہے۔
بس اتنا ہے کہ نہ صرف اُس نے بہت بڑانام و دانشور بننا تھا بلکہ وہ اب بھی ایک بہت بڑا دانشور تھا ۔عرصہ ہوا کہ بلوچستان کی سرحدوں سے پار، اردو اور پشتو سمجھنے والوں نے اِس ’’ نوجوان‘‘ میں پوہ وزانت کے مچلتے پھریرے محسوس کرلیے تھے۔
زندگی اور موت کی سسپنس بھری منطق سے قطع نظر کیے، ہم گلہ مند ضرور ہیں۔ اس لیے کہ مرگِ جوانی سب سے افسوس ناگ مرگ ہوتی ہے۔اورابھی دانیال کی عمر ہی کیا تھی۔ ابھی تک تو وہ ’’ متن و فارم‘‘ کے غوغا سے ہی نہ نکلاتھا۔ کس سبک گامی سے وہ سچ کی تلاش میں محوتھا۔ کس گہرائی سے وہ اپنے مشاہدات بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔کیا موسیقیت تھی اُس کے کلام میں ، کیا معنویت تھی اُس کے مصرعے میں۔ اور کیا معروضی طرز تھا اُس کے آگے بڑھنے کا !!۔ زمانے کو ابھی دانیال نامی شاعر کو خیال و تفکر کی چکی میں مزید پستے اور خالص و سُچا بنتے دیکھنا تھا۔ دانش کی صلاحیت نے ابھی نکھرنا تھا، مادی حقیقتوں کو گرفت میں لینا تھا، گند اور کچرہ چھان کر پھینکنا تھا۔
دانیال طریر تیری شاعری، تیرے اسلوب اور تیرے معانی بھری بات سے متاثر رہ کر لوگوں نے ہمیشہ تمہاری توصیف اس لیے کی کہ تم اُس کے حقدار تھے۔ تیرا احترام کرنے میں ہم نے بخل سے کبھی کام نہ لیا اس لیے کہ تو نے اپنے خیالات عوام میں بانٹنے سے کبھی بخل نہ برتا تھا۔
احترام ،تمہارے لیے دانیال جان!!