انسان بہت ہی عجوبہ اور شاندار جاندار ہے۔ ہر وقت تاریخ کے مطالعے میں خالی جگہوں کو پُر کرتے رہنے میں لگا رہتا ہے۔ تسلسل تسکین دیتا ہے۔ تاریخ کے گام گیژ میں کوئی وقفہ، کوئی ٹوپ ٹپہ اُسے گوارا نہیں ہوتا۔ نامعلوم گوشوں کی جستجو ہی انسانیت ہے۔ زبانی روایتوں کو چھانتے رہنا اور انہیں ثبوت بھری تحریر میں لانا۔۔۔۔۔۔۔
مستیں توکلی کے بھائیوں کی تعدادکے بارے میں باتیں بڑی تحقیق طلب ہیں۔بہت سے لوگ انہیں سات بھائی قرار دیتے ہیں مگر وہ خود اپنے شعر میں’’چھ‘‘ کی تعداد بتاتا ہے ۔(ہرشش ایں براثاں مں شتوایکا سراتکغاں)۔اس لیے انہیں چھ بھائی ہی قرار دینا چاہیے۔
وہ آخر میں تنہا رہ گیا تھا۔ اس کے پانچوں بھائی اُس کی اپنی موت سے قبل یعنی اس کی زندگی میں فوت ہوئے ۔وہ اپنے ’’بنگویں‘‘ بھائیوں کی موت کا غم جھیلنے زندہ رہا تھا۔ اُس کے تین بھائی چمبھڑی جنگ میں مارے گئے،ایک خدائی موت مرا۔ قبائلی فیوڈل زندگانی میں خدائی موت مرنا ایک نعمت ہوتی ہے۔ کسی کے ہاتھوں قتل ہونا پورے خاندان ، پورے قبیلے بلکہ دونوں فریق قبائل کا قتل ہوتا ہے۔ پشتوں تک انتقام کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور دونوں قبائل میں سے ایک ،شکار کی تلاش میں گوریلا بنا رہتا ہے اور دوسرا ،اپنی حفاظت و سلامتی کے لیے خبرداری میں اپنی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ کچھ عرصے بعد یہ دونوں اپنے رول باہم بدل لیتے ہیں مگر مقدر میں لکھا یہی دائرہ ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ خدائی موت ایک نعمت ہوتی ہے۔(تہ خدائی۔ مارضائی)۔
مست نے اپنی شاعری میں اپنے د و بھائیوں کا نام لیا ہے۔ ایک ولنٹر جو کہ دو اور بھائیوں کے ساتھ چمبھڑی جنگ میں مارا گیا تھا ۔ اور دوسرے کا نام پیرک تھا۔۔۔۔
پیرک ایک عظیم موسیقار تھا، گراں ناز کا پیرک ،عاشق پیرک ۔ سچ یہ ہے کہ اگر اُس کے اوپر مست توکلی کے عشق کا گھنا پیڑ نہ ہوتا تو پیرک خود ایک بہت بڑی مہری داستان کا ہیرو ہوتا۔
چار روزہ زندگی میں پیرک ہی وہ بھائی تھا جو مست کی زندگی کا ساتھ دیر تک دیتا رہا۔ وہ دونوں باقی بھائیوں کی بہ نسبت زیادہ عرصے تک زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز رہے ، اور زیادہ وقت تک ساتھ رہے۔ پیرک گرو،(نڑ) دنبیرو اور سریندا بہت اچھی بجاتا تھا۔ شاید اُسی کے زیر اثرمست کو بھی انسٹرومنٹس کا بڑا شوق تھا اور اس نے کئی دھنیں بنائیں بھی۔
پیرک بہت مہربان اور نرم دل کا مالک تھا۔ اور اس قدر آرٹسٹ کہ اپنا سرینداہمیشہ اپنے ساتھ لئے پھرتا تھا اور جہاں کہیں فرصت ملتی تھی کسی پتھر پر کسی گھنے سائے میں، کسی جھیل کنارے بیٹھ کر زندگی کے کنسرٹ کا ساتھ دیتا ۔ اور کوہستان کی ابدی خاموشی کوموسیقی سے ہارمنی عطا کرتا۔ بے آبادی والے علاقے میں سامعین انسان ہوتے ہی نہیں، وہاں تو عناصر و مظاہرِکائنات تالیاں بجاتے ہیں رقص کرتے ہیں۔کبھی خاموشی کی گہرائی میں ڈوب کر تو دیکھیں۔ دل پاک و صاف ہوجائے گا ۔
یہ محبت کرنے والوں کا خاندان تھا۔ اور بقول حضرت شاہ حسین،ان کے جسموں میں عشق کی’’ پھانس کُھب ‘‘گئی تھی۔ مست تو مست تھاہی۔ مگر پیرک بھی اپنے اس خاندانی وصف میں پیچھے نہ رہا۔ پیرک روحوں کا سوداگر تھا،محبت کرتا تھا۔اور بلوچ تاریخ میں یہ دلچسپ ترین بات ہے کہ پیرک وہ پہلا(اور آج کی تاریخ تک آخری)عاشق ہے جس کو خود اپنی منکوحہ بیوی سے پیار تھا۔ٹوٹ کر پیار تھا۔
اُس کی محبوبہ اور بیوی کا نام گراں ناز تھا۔ گراں ناز کون تھی، کس قبیلے سے تھی ، ہم نہیں جانتے ۔ بس یہ کہ پیرک گراں ناز کو چاہتا تھا اور گراں ناز بھی دل و جاں سے اُس پر فریفتہ تھی۔ دونوں کی اولاد تھی نہیں،واحد بھائی مست تھا جو اپنے ہوش اڑادینے والی محبت کی عمیق وادیوں میں غرق،مشاہدہ و دریافت کے صحرا میں بھٹک رہا تھا۔اس لئے یہ میاں بیوی اپنی ہی محبت کی دنیا میں غرق تھے۔۔۔۔ نہ رقیب و قاصد کے مسائل،نہ فراق و وصال کی جھنجھٹ ۔
مگرمہر تو خود غم کا صحرائے گوبی ہے۔ اِس ڈِش میں غم، کسک اور درد کی مرچی پیدائشی طور پر موجودرہتی ہے۔ بقول میرابائی’’اے جوگی،محبت تکلیف کی جڑ ہے‘‘۔گوکہ میاں بیوی عشق کی بے کرانی میں مبتلا تھے اور زندگانی گزرتی جاتی تھی۔مگر غم تاڑ میں ’’بالاچ گورگیژ ‘‘بنا ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
پیرک کا پالتو گرانڈ(دنبہ) دونوں کو پیارا تھا بالخصوص پیرک کو ۔ پالتو جانور اور وہ بھی بے اولاد جوڑے کے لئے تو اکلوتے بیٹے کی طرح ہوتا ہے۔ اور وہ جانور اگر ہو بھی دنبہ!!۔۔۔۔۔دنبہ تو بلوچ کے لئے پیر بھی ہوتا ہے،باعثِ برکت بھی ،نیک شگون بھی ، بلائیں ٹالنے والا بھی ، آبادی بھی آزادی بھی ۔ یسوع مسیح کے بہت بڑے ایجنڈے میں بھیڑ تو محض ایک علامت،استعارہ اور وسیلہ تھی مگر پیرک کا سارا پیار،دولت ،اولاد،محض یہی ایک دنبہ تھا۔لہٰذا تصور کیا جاسکتا ہے کہ پیرک نے اُسے کس ناز اور خیال سے رکھا ہوگا۔ اس کے جسم کے بال تراش کر پشت پہ پھول کی طرح ایک چوٹی(جُوٹی)چھوڑی ہوگی جسے اُس نے ماں بلوچستان میں میسر‘ سب سے خوبصورت رنگ سے رنگ دیا ہوگا۔ ڈھونڈ ا ہوگا سریلی آواز کا ٹلہو ،لٹکائے ہونگے گردن میں بیٹوں والے پازیب اور گھنگرو ۔ گراں ناز سے کس لجاجت اور نرم گفتاری سے ملتجی ہوکر دنبے کے لئے رنگین پھولدار پشمینہ رسی،گلے کے لئے خوبصورت کشیدہ کاری سے کَنڈی بنوائی ہوگی۔۔۔۔ المختصر یہ دنبہ اُس کے لئے ،گراں ناز کے ساتھ اس کے بے پناہ پیار کی علامت بھی تھا،اولاد کی جان لیوا خواہش کا مظہر بھی تھا اور انسان کے فطرت اور کائنات سے اشرف المخلوقاتی تعلق کا اظہار بھی ۔ وہ اپنی رزق روٹی کا آدھا اُسی کو دیتا ہوگا۔ اس کاایک پیارا سا نام رکھا ہوگا۔ اُسے پکارتا ہوگا تو وہ جانور مانوس حرکتوں،شناسا آوازوں کوریسپانس دیتا ہوگا۔ اپنی چوکڑیوں سے پیرک کا دل بہلاتا ہوگا۔ میاں بیوی کے قدح میں پانی پیتا ہوگا۔ ملائمت بھرے ہاتھوں میں نہاتا ہوگا۔۔۔۔
الغرض کل کائنات اور اُس کا پیار،اِسی دنبے کا تھا۔ پیرک جب ایک آدھ دن کے سفر پہ گھر سے باہر ہوتا ہوگا تو اُسے گراں نازکتنی یاد آتی ہوگی،اپنا دنبہ کتنا یا د آتا ہوگا ۔ جسے اس کی غیر حاضری میں گراں ناز اُسی کا پر تو سمجھ کر اُس کے حصے کا پیار بھی دیتی ہوگی۔
ایک ایسا ہی دن ہے،پیرک گھر میں نہیں ہے۔ گران نازاپنا خالی مشکیزہ اٹھاتی ہے،پانی بھر نے ۔ نہ نلکہ نہ گیزر ،نہ ٹینکی نہPurification Plant۔ خود ہی مشک بناؤ،خود ہی حفاظت سے رکھو اور خود ہی بھر کر ،پیٹھ پہ لادے میلوں دور سے گھر لاؤ۔گراں نازنے دنبے کے گلے میں بندھی پشیمنہ پھولدار رسی کا دوسرا سرا آٹا پیسنے والی ہتھ چکی کے دستے سے باندھا کہ دنبہ اس کے پیچھے پیچھے چل کر خود کو ہلکان نہ کرے۔ وہ اپنا خیمہ محافظ فرشتے (مائیکلؔ ) کے حوالے کرکے ننگے پیر پانی کے سرچشمے کو چل دیتی ہے۔ پانی ۔۔۔۔۔ پانی ۔۔۔۔ العتش العتش۔ پانی کی نایابی نے علاقوں،شہروں،وادیوں،آدمیوں ،عورتوں کے نام پانی پہ رکھوا دیے۔ بس چلے تو بلوچستان اپنا نام بھی پانی کی حسرت کی مناسب سے رکھے۔ ۔۔۔ گراں ناز میلوں دور پانی ڈھونے جاتی ہے تو خوردونوش کی چیزیں کتوں،لومڑیوں ،گیدڑوں،چرند پرند کے خوف سے خوب ڈھانپ جاتی ہے،چھ آٹھ گھنٹے بعد جو گھر لوٹنا نصیب ہوتا ہے!۔(گران ناز! کاش تیرے پکے گھر میں میٹھے پانی کے نلکے لگے ہوتے۔۔۔۔۔)۔
گراں ناز جب جلتی سہ پہر کو بھرامشکیزہ سر پہ اٹھائے واپس گھر پہنچتی ہے تو وہاں توقیامت بپا ہوچکی ہوتی ہے۔ اس کی دنیا اندھیر کہ دنبہ چکی کے دستے کے گرد گھوم گھوم کر اپنے گلے کی رسی تنگ کرکرکے دم گھٹ کر کب کا مرا پڑا ہے۔
قیامت ،کہ محبوب کا محبوب دنبہ گراں ناز کے چارج میں مرگیا۔ پیرک کو جب پتہ چلے گا تو ایک لمحہ کو ہی سہی،غمناک تو ہوگا ۔ اور گراں ناز و ہ سیاہ منظر اپنے محبوب،اپنے عاشق کے مقدس چہرے پہ دیکھنے کو زندہ ہی کیوں رہے؟۔ ایسی آنکھیں کیوں رہیں جو یہ منظر دیکھیں؟ ۔ایسا دل کیوں رہے جو اس دکھ بھرے موقع پہ دھڑکے؟۔۔۔۔ وہ ایک لمحہ بھی اسے زیوسؔ کے ہاتھوں پیرومی تھیس والی زندگی بننے کیوں دیتی؟ ۔گراں ناز کے لئے موسمی نظارے،قدرتی مظاہر کیا ہیں،محبوب کی آنکھوں کی چمک،اس کے مسکراتے لبوں کی کنج!!۔۔۔۔ اور اگر محبوب کا وہی کنجِ لب مسکان کی بجائے خفگی میں بدل جائے تو سارے مناظر ،ساری دھرتی ،کل کائنات ضحاک کے اژدھا بن جائیں ۔ چنا نچہ وہ اپنا دوپٹہ لیتی ہے اور اُس کا پھندا بنا کر محبت کا بلیدان بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بلوچستان ایک اور سسی کا مالک بن جاتا ہے۔
شام کو راحت کی تلاش میں تڑپتا پیرک ،سکون کی جنت کو لوٹتا ہے تو اُسے شہید نظر آجاتی ہے ۔ کیارہ گیا اس کا ؟ ۔ماورائی کی گھڑی تھی یہ۔۔۔۔ٹرانسفارمیشن کی تغیر پذیری کی ساعت تھی یہ۔ انت کے بے انت ہوجانے کا لمحہ تھا، متشکل سے معدوم ہوجانے کاامر تھایہ ۔ نقارہ بجا اور مہر کے پیغمبر کے سینے میں اپنی بندوق کی گولی پار ہوچکی۔ غمِ عشق تیرا شکریہ کہ آخری سرحد بھی پار ہوگئی۔
عقل درشرحشں چو خردرگِل بخفت
شرحِ عشق و عاشقی ہم عشق گفت
دو بلوچ، سبز پریوں کی اُس سلطنت میں قبول ہوئے جہاں محبت کے سوا کوئی اور سکہّ نہیں چلتا۔جہاں محبت کی نرم روشنی ابدی تاریکی پہ فاتح رہتی ہے۔ عشق نے اپنے شہیدوں کی فہرست میں دو ہندسوں کا اضافہ کرلیا۔۔۔۔میرا بلوچستان عشق کا ،عشق کے وابستگان کا ،عشق کے شہدا کا بہت ضخیم بہی کھاتہ ہی تو ہے!!۔
عاشور کا دن ہے یہ۔ماں ڑک بند کلوری بن گیا،Muffled drumبجتا ہے۔ عشق کا کیوپڈ کنفیوز ہے،ماتم میں کبھی اپنا پرچم سرنگوں کرتا ہے کبھی پیرک کے سریندا پہ رقص والی دھن بجاتا ہے۔ میرا وطن آج تک جشن و ماتم کی اِسی کیفیت میں مبتلاہے۔ پیرک اور گراں ناز ،گراں ناز اور پیرک ،جشن و ماتم، ماتم و جشن۔۔۔۔ تین سو سالوں سے بلوچستان انہی دو کرداروں والے کاہان کو زندگانی کا محور بنائے ہوئے ہے ۔ جب بھی ماں ڑک بند خود پہ فخر کرتے ہوئے مسکرادیتا ہے تو نور وز ،حمید ،شورش ،پہوال اور غوثی کی ساری جنم بھومی انبساط اور تمکنت کاسمفنی بن جاتی ہے۔ اور جب پیرک و گراں ناز کی قتل گاہ پہ غم کے بادل چھا جاتے ہیں تو پوری بلوچ دھرتی’’مونجھ استان‘‘ بن جاتی ہے۔
ٍ اُس شام فطرت کی ہم آہنگی میں افراتفری مچ گئی ۔ لفظ پریشان تھے کہ ٹالسٹائی کو اتنے بڑے ناول کی تخلیق کی خبر کس طرح کردیں۔شعریت جام کو تلاش کرتی تھی کہ دیوان تخلیق ہوگیا پہاڑوں میں۔ بالشوائی تھیٹر کے ڈائریکٹر کو بلاؤ کہ اتنا بڑا Balletکمپوز ہوچکا ہے نفسک کے دامن میں۔رومیؔ آن کر دیکھو کہ پیرک کی قربان گاہ پہ درویشوں کی دُھن پہ پوری دھرتی جھوم رہی ہے اور عشق سرگردان کہ ڈھونڈے عاشقوں کے قافلے کے انچارج مستؔ کو کہ آؤ کس شان سے تمھاری صفوں میں دو اور سرفروش سج دھج کے ساتھ آن ملے ہیں۔
مگر ٹھہریے ۔یہاں مست محض عشق کا سرپرست اعلیٰ ہی نہیں تھا جس کی امت میں اضافے کی خوشخبری دی جارہی ہے۔ ارے وہ تو بھائی بھی ہے جسے دل کے ٹکڑے پیرک کی موت کی خبر پہنچ رہی ہے۔ اور یہ کسی عام بھائی کی موت ایک عام بھائی کو نہیں دی جارہی ہے۔ یہ دنیا کے بہت بڑے انسانوں میں سے ایک کی موت کی خبراس کے’’بڑے‘‘ بھائی کو دی جارہی ہے(عشق کے شہید سے بڑا آدمی دنیا میں کون ہوگا!) ۔ تو پھر یہ خبر کون دے؟ ۔ یہ خبر جائے گی کس کی طرف سے ؟۔ قیامت برپا ہونے کی اطلاع والی چٹھی میں ’’ منجانب ‘‘ کے نیچے کس کا نام لکھا جائے؟یہ جائے گی قبیلے کے سفید ریش کی طرف سے ،کمیون کے رکھوالے کی جانب سے،گزین خان کی جانب سے ۔ وگرنہ ایسی جانکاہ خبر سنانے والے کو تو ایک ہی دل جلی آہ بھسم کردے!۔
گزین نے مست کو ہواکے دوش پہ چھٹی لکھی ۔ اپنی طرف سے سلام اور پیرک کی موت کی خبر ۔ آپ دلیل ڈھونڈتے رہیں مگر رومان میں ،عشق میں، مائیتھالوجی اور عقیدت میں منطق نہیں چلتی۔اس لئے یا تو دلیل وغیرہ ڈھونڈ کر اپنا موڈ بگاڑلیں یا دو سو سال سے محظوظ ہوتی ہوئی خلقِ خدا کی طرح اس تخلیقی فقرے سے آپ بھی محظوظ ہوجائیں کہ اُسی وقت ،اُسی آن مری علاقہ کے مانڑک بند سے سینکڑوں میل دور بغیر سڑک،بغیر بجلی کے کوہ سلیمان پہ زیتون کے جنگل میں خونی رشتہ کے بھی علاوہ ایک پیر بھائی کو اس کے دوسرے پیر بھائی کی موت کی یہ خبر پہنچ گئی ۔ دل کی جڑیں اکھاڑ دینے والی اِس خبر پر مست کی طرف سے خبر دینے والے کو منحوس نہیں کہا گیا بلکہ کہا گیا:
سر تئی سو کاباث مں سیرو شاذہاں
ترجمہ:
تم سکھی رہو شادیوں میں،جشنوں میں رہو
گزین کی بات مست جانے اور مست کی بات گزین جانے۔ کتنے بڑے سینے چاہیے ہیں اتنے بڑے دلوں کے لئے جن میں اتنی بڑی بات سما سکتی ہے۔ پیرک مست کا آخری زندہ بھائی تھا۔ موسیقار بھائی،آرٹسٹ بھائی،عاشق بھائی۔۔۔۔۔۔ پیارا بھائی۔۔۔۔۔۔ جس کی محض بیماری پہ مست،مختارِ کل کے بیڈروم میں گھس کر جھنجوڑ جھنجوڑ کر گڑگڑایا تھا۔
دراہ کنیں اللہ نیاذی مئیں کٹئے بانزراں
ترجمہ:
صحت مند کردے اسے اللہ،بٹھا دے اسے میری چار پائی پہ میرے ساتھ
آج وہ شخص اس قریب ترین ہستی کی موت کی خبر پہ خبر رساں کو دعائیں دیتا ہوا ماں ڑک بند روانہ ہوا۔ اگر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہونے کی صلاحیت حاصل ہوسکے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مست عصر کے وقت بیہوسے روانہ ہوتا ہے اور اُسی روز مغرب کی ملگجی روشنی میں ماں ڑک بند پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت جب کاندھی (جنازہ اور میت کو دفن کرنے میں شریک لوگ) عشق کے جوگی،پیرک مہاراج کو سپردِ خاک کرکے واپس آرہے ہوتے ہیں۔ قیادت کوئی چھوٹا موٹا شخص نہیں،خود درویش سردار،گزین کررہا ہے۔(آج کا سرداری نظام کس قدر فرسودہ ہوچکا ہے!!)۔
تو کلی مست کمال ضبط سے خود کو قابو میں رکھتا ہے۔ نہ چشم نم ہوتی ہے،نہ خاک برسر ۔ اس لئے کہ آج دو وجہ سے خود کو قابو میں رکھنا لازم تھا۔ ایک تو یہ کہ سارا شہرِ جاناں دیکھ رہا تھا۔دوسرا یہ جتلانا تھا کہ اس کے بھائی نے،اس کی پارٹی کے پولٹ بیورو ممبر کامریڈ نے کوئی ڈھکی چھپی ،چوری دزی کا کام نہ کیا تھا۔ اس نے تو عشق کیا تھا اور پوشیدہ عشق نہیں کیا تھا۔ بلکہ فطرت کی ساری نشریات روک کر تھری ناٹ تھری جیسی مست و رقصاں،وادیوں گھاٹیوں میں بندوق کی گولی جیسا انہونی دھماکہ،کرکے اس کی خبر کردی تھی۔ بتادیا تھا سب کو اس نے کہ محبت خاموشی میں ہو ہی نہیں سکتی اور جو شخص خیر خیریت میں محبت ڈھونڈتا ہے اُس کی تقدیر میں ابدیت نہیں گمنامی ہے۔ آپ مست کے بھاری فریضہ کا اندازہ لگائیں۔ اُس وقت(بلکہ آج تو مزید) بیوی کا ذکر کرنا تک معیوب تھا۔ نام لیناتو بہت ہی بے غیرتی کی بات تھی(او ر اب بھی ایسا ہے)۔اُ س سے اپنے خاوند کے تعلقات معیوب ترین اور خفیہ ترین بات تصور ہوتی تھی(او ر اب بھی ہے)۔ زال(بیوی) سے انڈر سٹینڈنگ کرنے والے شوہر کو ’’زالو‘‘ کہا جاتا ہے۔ بیوی کو تو بس پیٹتے رہنا ہے،گدھوں کی طرح اس سے مشقت کروانا ہے،اُس کی خواہشات کو مسل دینا ہے،اس کے احساسات کو کچل ڈالنا ہے۔
صدیوں سے یہی کچھ جاری تھا۔ اب اگر ایک عام پیرک’’بیوی‘‘ کی محبت کی بھاری صلیب کا ندھے پہ اٹھائے،جبر سے نہیں رضاسے،پہاڑوں،گھاٹیوں میں گھسٹتا پھرے اور حتیٰ کہ خود کو قتل کردے تو کتنی بڑی بغاوت ہے یہ مروج سے،’’سٹیٹس کو‘‘ سے ،سرقبیلوی نظام سے ،اس کے ویلیو سسٹم سے اوررسم و رواج سے ۔
ظاہر ہے کہ اُس کی اِس حرکت سے مری عوام میں اس کی بہت تذلیل بہت تہمت بازی ہوگی۔ اِس عمل کو اور لہٰذا اس عمل کے کرنے والے جوڑے کو نیچ اور پست سمجھا جائے گا،اور نئے نئے ضرب المثل جنم لیں گے،ایک بہت بڑی کامیابی کو بدنامی کے قعرِمزلت میں ڈالا جائے گا۔۔۔۔ اور پوری عالمی عاشق برادری اپنی عظمت کو قبائلی کھوکھلی غیرت میں دفن ہوتا دیکھے گی۔ لہٰذا ، اُس محبت کا دفاع کرنا تھا(کرنا ہے)۔ اور یہ کام مست جتنے بڑے انسان اور عظیم دانشور کے علاوہ کون کرسکتا تھا کہ وہی تو عشاق کی دفاعی افواج کا سپہ سالار تھا(ہے) ۔ اسی نے تو بلھے شاہ کی طرح’’لوک ہسائی‘‘ کا کلمہ پڑھ رکھا تھا۔ وہی اُس وقت وہاں موجود ہم سب کی نمائندگی کررہا تھا۔ اس نے ہی تیرِ الزام کو ارادوں سے بھی پہلے سرد کرنا تھا،سنگِ د شنام کو نشانِ امتیاز بنانا تھا۔ اس لئے کہ وہاں(اور یہاں) دل فگاروں کا دم ساز و ہی تھا(وہی ہے)۔
چنانچہ جب پیرک کا ’’طبعی‘‘ نیز’’روحانی‘‘بھائی مست سامنے آیا تو بہت سارے لوگ تمسخر اور تذلیل میں مونچھوں کے نیچے مسکرادیے۔ تب بپھر گیامست۔۔۔۔تحکم بن گیا مست۔ دھاڑ، چنگھاڑ کر دفاع کرنے لگا۔ وہ دفاع کرتاہے محبت کا ،اونچا قرار دیتا ہے پیرک کو ،گراں ناز کو۔۔۔’’گندنہ واں کندیں‘‘(دیکھو، ہر گز نہ ہنسو) کہہ کر ’’نہی عن المنکر‘‘ بن جاتاہے’’دوزوان‘‘(منافقو) کہہ کر طبقاتی سماج میں’’ کرو کچھ کہو کچھ‘‘ کے رواج کو ننگا کردیتا ہے اور ’’براہندغ‘‘(ساتھی) کے نام سے انہیں مخاطب کرکے ان کے اندر رہ کر ان سے جدوجہد کرنے کا عزم کرتا ہے۔ اپنی ملامت بھری حرکات نہ کرو،تعظیم کرو،سرجھکاؤ اپنے کہ روزمرہ والا کام نہیں ہوا ،انہونی ہوگئی ہے۔وہ بہت خوبصورتی سے’’ لوگ تو عام موت مرتے ہیں‘‘ کا فقرہ استعمال کرتا ہے۔ لوگوں کے اس عام ،بے نام ،بے معنی موت کے پس منظر کے بعد ہی وہ پیرک کے مقتل میں جانے کی شان بیان کرسکتاتھا۔۔۔۔۔۔ تم عام موت مرتے ہو،قضا تمھیں مارتی ہے،کھانسی نزلہ،بے نام ملیریا تمھیں مارتا ہے،ٹی بی یرقان کی حقیر موت تمھیں مارتی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ پیرک کی موت دیکھو، شاندار موت۔۔۔۔۔۔اُسے گراں ناز کا غم مارڈالتا ہے۔۔۔۔۔۔
ذات پات سے ماورا ،اورنام ایڈریس سے بے تعلق عشق آج پیرک و گراں ناز میں مجسم ہوگیا تھا کہ انہوں نے عشق میں سر دھڑ کی بازی لگادی تھی۔ جیت ہار والا ریفری اس کھیل میں ہوتا کہاں ہے؟۔ اس میں تو کود پڑنا ہی میڈل وصول کرنا ہے۔ میڈل بھی کیسا؟،ٹرافی بھی کونسی؟۔ جب حاضرین و تماشبین غیرت زدہ رجعتی قبائلی ہوں،وصول کرنے والا گُرّو پیرک ہو، اور عطا کرنے والا مہارشی توکلی ہو تو پھر عام ،اوردنیاوی انعام بانٹنے کا فوٹو سیشن بے معنی ہوگیا۔کوئی انٹلکچوئل کام ،کوئی آرٹ فُل کام کرنا ضروری ہوگیا تھا۔……اور مست نے ویسا ہی کیا ۔اس نے ایک اور منفرد ،اور لائقِ تقلید عمل کے تحت پیرک کی بندوق پھینک دی اور اس کا موسیقی کا آلہ،سریند ا اٹھالیا۔یوں کرکے اس نے بلند کردیا ساز کو ،سُر کو ،تال کو،فن کو،فنونِ لطیفہ کو۔۔۔ ہاں بلند کردیا، یہ کہہ کر سربلند کیا کہ’’ اب یہ سریندا عام شادیوں میلوں ٹھیلوں میں مراثیوں کے ہاتھوں میں نہ بجے گا‘‘ بلکہ اب یہ عشق کا سٹڈی سرکل بنے گا، لٹریچر بنے گا،گواہی بنے گا۔
چنانچہ گراں ناز کے پیرک کو عشق ،قربانی ،کمٹ منٹ ،اورشہادت کا میڈل یوں عطا کیا جاتا ہے،کہ رہتی دنیا تک بیوی سے محبت کرنے والا،اُس کی عزت کرنے والا اور اُسے بلند مرتبہ دینے والا’’پیرکی‘‘ پیغام جاری و ساری رہے۔ تب اے شہیدِ عشق،اے پیرک! میں تمہارے سریندا کو اٹھا کر بلند ترین پہاڑ’’کڑمی‘‘ کی چوٹی پر رکھ آؤ ں گا کہ اس ناقابلِ رسائی چوٹی پہ وہ بھی نظر نہ آئے تم بھی نظر نہ آؤ ،مگر تمہارا پیغام ،تمہارا فلسفہ اور عشق کا نغمہ رہتی دنیا تک بجتا رہے۔اُسے فرشتے یعنی پاک لوگ ہی بجاتے رہیں گے،اور فرشتے یعنی پاک لوگ ہی سنتے رہیں گے۔۔۔۔۔اور عشق کے مریدو! مری عوام میں دو سو برس گزرنے کے بعد آج بھی یقین رکھا جاتا ہے کہ’’اہل اور شایانِ شان‘ کان‘‘کڑمی کی چوٹیوں سے آتی ہوئی سریندا کی دلکش لَے سن لیتے ہیں۔۔۔۔۔ ہر جمعہ کی شب۔
مں ژہ سندھڑی دیر پاندیں مژ و جھنگاں گڑ تغاں
جاہے گوں پاذاں جاہے گوں مرگی بانزراں
پاذ شفا ذیا پہ دلئے دوریں اندھاں(اندوھ)
یک شفے بیہو تربتا بھّما بیثغاں
کاغذے آتکہ گوں ہزاریں لکھ پڑھاں
پیرکہ موث و گوننتی گزینہ سلام
(سردار)سرتئی سو باں باث مں سیر و شاذھاں
یا الٰہی تہ دے مناں مرگی بانزراں
بانزرابیڑاں شِکرہ ای شیمو شاں دیاں
روشے پیشنا کوہے بیہو آ سمبراں
دیغرے زڑدیں مانڑکی دامانا گزاں
سرنماشاما کانہلو شہرا آتکغاں
گوخ ڈِھکّنت کڑسواں روڑانہ دیاں
چندنیں ہینزاں گوانکھ ایناں کوہیں جنتراں
میشہ بانرنت وہیڑدغاں لوڑھو پروشتغاں
پلوے ماخو پلوے کاندھی آتکغاں
زواریناں گزیں گاریناں پیرک پیاذغاں
مں دلا گوئشتہ کا نہلوآ بھوگے کناں
واہ و شاواشیں پلّثہ دلدارا مناں
پیروپیغامبر اے دنائی آ کل رواں
در کانڑیں آنی ملامو ایں کاراَثاں
گند نواں کندیں دوزوانیں براھندغاں
کسے پہ سَوباں پیرک پہ گراں نازہ غماں
قادری خواجہ گار مخّناتئی آمانتاں
تئی دستہ وہژگوانکا تاں ڈیہی ڈومبے آ دیاں
ڈومبے وجّینا مں کئی سیرو شاذھاں
تئی دستہ نوذگوارا تاں دریا آ ڈھل دیاں
من براں کڑمی گورغیں درنگا ایر کناں
کس مہ غندیث و باجے ژہ بوریں کر گزاں
ملخ و جیناں کر گزے دِلگوشا کناں
موثہ روش بی چو بیارنت او پیداراں مناں
پیر سوالکھیں مئیں تواراں آمیں کناں
جنتا پُجیناں بہشتا روزی کناں
(پیرک) نَیں ترا بچے مں ہمانہیا لیوکناں
نَیں تئی بانسکہ دستاں تئی بذلاّں پیداشہ کناں
ڈو بر ئے داراں ثی دلئے سِکاّں ایر کناں
یا الٰہی مں چے عذابے آ کپتغاں
چمبھڑی روشا گڑتغاں باری اے کناں
سئی نہ یثاں شئے وزت و جھوری آں کفاں
ہر ششیں براثاں مں شتو ایکا سراتکغاں
ترجمہ:
میں سندھڑی(سندھ) کی دھند اور جنگلات کی وسعتوں سے واپس لوٹا
کہیں کہیں پیدل اور کہیں پرندے کی پرواز(رفتار) سے
دل کے اندوھناک درد کے باعث ننگے پیر
میں نے ایک رات کو ہ بیہو (کوہ سلیمان) پہ واقع مزار پہ قیام کیا
(یہاں) مجھے ایک مکتوب ملا جس میں بہت باتیں لکھی تھیں
پیرک کے انتقال کی خبر تھی اور سردار گزیں کے سلام لکھے تھے
(سردار) تم ہمیشہ فتح مند اور شادماں رہو
یا الٰہی مجھے پرندوں کی سی پرواز عطا کر
پنکھ چلاتا ہوا عقاب کی طرح جھپٹتا جاؤں
میں ظہر کے وقت کوہ بیہو سے روزانہ ہوا
سورج غروب ہونے کو تھا کہ ماں ڑک کے دامان سے گزرا
غروب آفتاب پہ کاہان شہر پہنچا
گائیاں آوازیں نکالتی بچھڑوں کو دودھ پلاتی ہیں
لسی بنانے کی آوازیں آرہی ہیں اور چکی پیسنے کی صدائیں آراہی ہیں
دنبیاں آوازیں نکالتی ہیں اور لیلے کود کود کر باڑھ گرادیتے ہیں
ایک طرف سے میں اور دوسری طرف سے لوگ میت دفن کرکے آرہے تھے
سردار گزیں گھوڑے پہ سوار ہیں،مگر پیادوں میں پیرک موجود نہیں ہے
میں نے سوچا کاہان شہر کو بددعا سے تباہ و برباد کرڈالوں
احسان مند ہوں دلدار کا جس نے مجھے(ایسا کرنے سے)روکا
(کہ)مرشد اور پیغمبر تک اس دنیا سے چلے جاتے ہیں
میرے قبیلے کے لوگ جو کہ ملامت انگیز حرکتیں کرتے ہیں
خبردار‘اے میرے منافق بھائیو‘مذا ق نہ اڑانا
لوگ عام موت مرتے ہیں(جبکہ)پیرک تو گراناز کے غموں سے مرا
(اے پیرک) قادری خواجہ تمہاری امانتوں کی حفاظت کرے
تیرے ہاتھ کے خوش الہان (سارنگی) کو کس میراثی کے حوالے کروں
اور وہ پھر کس کی شادی میں اسے بجائے گا؟
تمہارے ہاتھ کے میٹھی بارش برسانے والے آلے کو کس دریا میں پھینکوں
میں اسے لے جاکر کڑمی کے زردچٹان پہ رکھوں گا
(اس بلندی پہ) اسے کوئی نہیں دیکھے گا سوائے بلند پرواز بھورے کرگسوں کے
اسے فرشتے بجائیں گے اور بلند پرواز کرگس ہی سنیں گے
میری موت کے دن لاکر مجھے دکھلائیں گے
سوا لاکھ پیر(پیغمبر) میری باتوں پہ آمین کہیں
تجھے جنت پہنچاکروہیں تیرا بسیرا بنائیں
(پیرک) نہ تمھارا کوئی بیٹا ہے کہ جس سے میں کھیل سکوں
نہ تمھارا بدل پیدا کرسکوں گا
کہ جسے اپنے سینے سے لگائے تمھاری یادیں بجھا سکوں
یا الٰہی یہ میں کس عذاب میں پڑ گیا ہوں
جنگِ چمبھڑی کے دن لوٹا کہ سُکھ کی زندگی جیوں گا
نہ جانتا تھا کہ تم بھائیوں کے غموں کا شکار بنوں گا
ہر چھ بھائیوں میں سے اکیلا رہ گیا ہوں