بیر سٹر ی کا امتحا ن پا س کر کے اصغر جب واپس وطن لو ٹا تو بیٹے کے آنے کی خو شی میں با پ نے نہا یت ہی شا ند ار دعوت کا اہتما م کر ڈالا اور اس دعوت میں شہر کے بڑے بڑے سرمایہ داروں ،افسروں کے سا تھ علا قے کے دبنگ وڈیر وں ،جا گیر داروں کو بھی مدعوکر ڈالا۔ اس طر ح سے یہ خا ص دعوت اصغر کے حق میں نتیجہ خیز ثا بت ہو ئی او ر دیکھتے ہی دیکھتے اصغرکی وکا لت دن دوگنی رات چو گنی محا ورے کی ما نند آگے بڑھتی تر قی کے زینے چڑھتی فاصلو ں کو طے کر نے لگی۔ جب کہ عام طو ر پر لو گو ں کو یہ فا صلے طے کر تے عمر یں بیت جا یا کر تی ہیں مگر اصغر اپنے سا تھ جو قسمت لا یا تھا اس نے بہت قلیل عر صے میں اس کو شہر کا نامی گرا می ولیل بناڈالا تھا۔عملی زندگی کے اس نئے سفر میں اصغر نے جب مڑکر گذرے ہو ئے کل کی طر ف دیکھا تو اسے خا ک در خا ک کے سو ا اور کچھ نہ دکھا ئی دیا۔ تب ایک نئی بے چینی اسے تڑپا نے لگی اور وہ اپنے آپ کو اس شخص جیسا محسوس کرنے لگا جس کا سارا وجو د جا ن لیوامکھیوں کے کا ٹنے سے کھر چتے ہو ئے تڑپتا رہتا ہے۔ کیو نکہ شر وع شروع میں اصغر کہیں اور کبھی بھی کسی کے سا تھ سما جی برائی ہو تے دیکھتا تو دل ہی دل میں تڑپنے لگتا پر اب یہ سب اسے معمو ل کی زند گی لگنے لگا تھا۔ وہ پہلے اس قد ر حسا س دل تھا کہ کسی موڑ پہ اگرکسی جا نو رکو کبھی کسی گا ڑی کی زد میں �آکے مر تے دیکھتا تو اس کا دودو دن تک دل کھانے سے اچا ٹ رہتا پر اب اسپتالو ں اور مر دہ خا نو ں وارڈ میں کلہا ڑیو ں کے وار سے لہو لہا ں ، چچر ے ہو ئے انسا نی لا شے دیکھ کر اصغر کے دل سے کو ئی آہ نہ نکلا کر تی تھی ۔ پہلے والی سوچو ں میں اصغر کو ہر انسا ن کا وجو د محبت کے جذبو ں سے سر شا ر سرپہ سفید گلا بو ں کا تا ج پہنے نظر آتا رہتا جن کے گر د لٹکتے جھومتے جھمکے یو ں رقص کر تے نظر آتے جسے خو د اس کی آنکھوں کی معصو میت کے جگنو ں رقص کر تے دکھا ئی دیا کر تے تھے مگر اب پھا نسی کے تختے پہ لٹکے ہو ئے بے قصور حسین جو اں کو دیکھ کر بھی اصغر کو کو ئی جھٹکا محسوس نہ ہو تا اور اس طر ح کے دیکھے ہو ئے خو ابو ں پہ خو د کومطمئن پا تا۔ یہ نئی تبد یلی اصغر کے جا ننے والو ں کے لیے حیر ت کا با عث بنی تھی جبکہ اصغر کو اس حیر ت زدہ حالت میں دیکھ کر بیو ی سمجھ جا یا کر تی کہ آج پھر شو ہر کو قتل کا کو ئی نیا مقد مہ ملا ہے اور وہ خو دکو ملنے والی نئی ساڑھی کے انتظا ر میں اصغر کے سامنے ایسے اچھلتی کو دتی رہتی جیسے مو سم بہا ر میں مینا اور فاختہ اچھلتے اٹک مٹک کر تے وقت گز اراکر تی ہیں ۔
انگلینڈ سے اصغر کا دوست فلپ اصغر کے پا س گھومنے کے لیے آیا تو اس کے سا تھ وقت گز ارتے اسے پھر سے وہ بیتے ہو ئے دن یا د آنے لگے تھے جب وہ انگلینڈ میں تھا تو وہ فلپ کے سا تھ سا ری ساری رات کلبو ں کے اند ر لیٹن امریکی دھنو ں پہ محو رقص ہو تے گزاردیا کر تا تھاپر اب اصغر کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ فلپ کو اپنے شہر میں کو ن سی چیز دکھا ئے اور کس جگہ لے جائے ۔ پھر ہوا یو ں کہ ایک قتل کے مقد مے کے غرض سے اصغر کو بد ین جا نا پڑا تو اس نے فلپ کو بھی ساتھ لے لیا تا کہ بد ین شہر کے سیر کر اسکے۔ کو رٹ سے لے کر شہر کی با زاروں تک جیب میں خا مو ش بیٹھا فلپ ہر چیز کا گہر ا مشا ہد ہ کر تا رہا مگر اصغر اس کی خا موشی دیکھ کر پر یشان سا رہا یہا ں تک کہ واپسی کے سفر میں بھی یہ خا مو شی سا تھ ساتھ چلنے لگی تب اصغر کے من میں یہ خیال بے چینی کی صدا بن کر گو نج اٹھا کہ فلپ شا ید خو ش نہیں اور اطمینان کی خا طر خا مو شی کی دیو ار گر اتے وہ بے چینی کے سا تھ آخر فلپ سے پو چھ بیٹھا
’’کیا با ت ہے فلپ ؟ ،اس قد ر خا موش کیو ں ہو؟ ‘‘کچھ دیر تک فلپ اصغر کو تکنے لگا اور پھر سوچتے جو اب دیا ۔
’’با ت کو ئی نہیں پر میر ی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا ہے اس وجہ سے چپ ہوں ‘‘۔اصغر زیر لب اپنے آپ پہ ہنستے سوچنے لگا ۔
’’بیچا رہ با ت تو ٹھیک کہہ رہا ہے بھلا یہ ہما رے ما حو ل اور وکالت کے دھند ے کو کیا سمجھ پا ئے گا‘‘۔فلپ سے رہا نہ گیااور اصغر سے دریا فت کر نے لگا ’’میر ے جو اب کے بد لے تم زیرِ لب مسکر ائے ۔ کو ئی خا ص وجہ ‘‘؟
’’کچھ نہیں دوست ‘‘ اصغر معاملے کو سنبھا لتے ہو ئے ایسے دلیل دینے لفا جیسے وہ مخا لف وکیل کو ما ت دینے کے لیے عدالت میں دیا کر تا تھا۔’’ دراصل تم اس وقت ہر معاملے کو اپنے ملک کے قاعد ے قانو ن کی نظر سے دیکھ رہے ہو شاید اس لیے تمہا ری سمجھ کچھ نہیں آیا اور ہا ں تمہا رے ملک میں وکالت کر نا سب سے مشکل کا م مانا جا تا ہے مگر یہا ں یہ سب سے مہنگا کا م ہے‘‘۔
’’اصغر ! یہ مشکل اور مہنگے کاملا پ کسی نئے فلسفے کی طر ح نہیں ہے ‘‘ فلپ نے بھی طنزیہ لہجے میں کہہ ڈالا ۔
’’ ہا ں ہا ں میں سمجھ گیا تھا کہ تم کو ئی ایساہی سوال کر بیٹھو گے ۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارے ملک میں گنا ہ کی قیمت سزا سے چکا نی پڑتی ہے اور حقیقت میں ہما رے یہا ں اسے دولت اور انصا ف کے ترازومیں تولا ہے ‘‘۔
اصغر کی بات سن کر فلپ کے گو رے چہر ے پہ وحشت چھا نے لگی تھی پر اصغر اپنی دھن میں بو لے جا رہا تھا ۔’’میر ے پیا رے تم یہ سب تب ہی جا ن پا ؤ گے ۔۔۔۔‘‘
ایک دم زور کی بریک لگا تے اصغر کی با ت ادھو ری رہ جا تی ہے ۔ گا ڑی کے عین سامنے بیچ سٹر ک پہ بیٹھے دیکھ کر غصے کی حالت میں ایک گا لی زبا ن تک آتے آتے اصغر حلق میں اٹک کر رہ گئی اور بے اختیا ر منہ سے نکل گیا۔
’’اوئے بو ڑھے خو دکشی کا ارادہ ہے کیا۔۔۔؟‘‘ گا ڑی کو دیکھ کر بو کھلا اٹھا اور جسم کا سارا زولگا سڑک کے کنا رے ہو تے ہو نے لگا جس کے سفید داڑھی والے چہر ے پہ مٹی کی تہیں جمی ہو ئی تھیں ۔
’’جی ۔جی سا ئیں ! ‘‘ بو ڑھے کے الفا ظ کا ن پڑتے ہی اصغر بر ہمی حا لت میں ہو نے کے با وجو د کھل کھلا کر ہنس دیا مگر فلپ اپنی نظر یں بو ڑھے کے وجو د پہ یک ٹک جما ئے اسے گھو رے جا رہا تھا۔ جس کے وجو د پہ عجیب قسم کی ما یو سی چھا ئی ہو ئی تھی اور وقت کی جھر یو ں سے بھر ا ہو ا چہر ہ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ بوڑھے کی تما م عمر جیسے پتھر کو ٹتے گذری ہو ۔ تن پہ سفید قمیص جس پہ کالے اور سفید رنگوں سے کیا ہو ا مردانہ کڑھائی کا کام اور اس سے ملتی کا لی شلوار نے بوڑھے کے وجو د کو غیر معمو لی بنا رکھا تھا۔ سر پہ سفید رنگ کی بھا ری پگڑی جس کے میلے پن میں اس کے سا تھ ہو نے والے نے کتنے فر یب کے عیب چھپے ہو ئے تھے۔ اصغر کے من میں جا نے کیا سوجھی تھی کہ وہ نہ چا ہتے ہو ئے بھی اس بوڑھے سے پو چھ بیٹھا۔
’’کہا ں جا رہے ہو ؟‘‘
’’سا ئیں حید رآبا د !!! بو ڑھے اپنے ٹھیٹ روایتی لہجے میں جو اب دیا ۔
اچھا ؟ اصغر بو ڑھے کا مذاق اڑاتے پھر پو چھنے لگا تو پھر کب پہنچو گے؟
’’سا ئیں بس آج کے سو رج میں ہی ‘‘۔ بو ڑھے کا یہ عجیب و غر یب جو اب پا کر اصغر پھر کھل کھلا کر زور زور سے قہقہے ما رتے جیپ آگے بڑھا نے لگا تو فلپ سے رہا نہ گیا ‘‘۔ اب کیا با ت ہو ئی ہے تمہا ری ہنسی رکنے کا نا م ہی نہیں لے رہی ؟!!!‘‘
’’ارے یا ر ! میں نے بو ڑھے سے پو چھا کیا تو اپنی زند گی سے بیزا رہے تو کہنے لگا‘‘ ہا ں ۔۔۔‘‘ پھر پل بھر کے لیے اصغر کا ہنستا ہو ا چہر ہ سنجید ہ ہو گیا اور اسی سنجید گی کے عالم میں پھر اپنی با ت کو پو را کر نے لگا ۔’’ یہاں کے لو گ بہت عجیب ہو تے ہیں جن کو اپنے اپنے جیون میں مو ت اور زندگی میں کو ئی فر ق محسوس نہیں ہو تا‘‘۔
’’ہا ں تو ٹھیک ہے نا ۔۔۔ پھر اس میں ہنسنے والی با ت کو ن سی ہے ‘‘
یہا ں آتے ہی فلپ تو مجھے فلسفی سمجھنے لگا ہے خو د کو زند گی سے محبت کر نے والا شخص یہ کہہ رہا ہے کہ مزاح والی با ت کون سی ہے ؟! کس قد احمق ہے۔ فلپ پہ دل ہی دل میں غصہ کر تے ہو ئے اصغر اب پھر فلپ کو سوالیہ نظر وں سے تکنے لگتا ہے جسے یو ں دیکھتے ہو ئے فلپ نے ایک اور سوال دوبارہ کر ڈالا۔
اور کیا پوچھا تم نے اس بو ڑھے سے ۔۔۔؟
کچھ خا ص نہیں ۔۔ بس یہی کہ کہا ں جا رہے ہو ۔۔؟ تو کہنے لگا حید رآبا د ۔۔اب تم ہی فیصلہ کر وکے یہا ں سے پید ل چلتے ایک ہی دن میں کیسے ممکن ہے کہ وہ حید رآبا د پہنچ جا ئے ۔ یہ سو چ کر تو مجھے ہنسی آرہی تھی ‘‘۔
’’اگر ایسا تھا تو ہنسنے سے بہتر ہو تا تم اسے سا تھ لا نے کی پیشکش دیتےُ ‘‘۔
’’ فلپ میر ے بھا ئی ! میر ے ملک کا نظا م تمہا رے ما حو ل سے جدا گا نہ ہے ۔یہا ں اگر کسی کو سا تھ لینے کی پیشکش کریں تو پھر پو ر ا سال اپنی گا ڑی میں سا تھ اٹھا ئے پھر تے رہیں گے ‘‘ یہ کہتے ہو ئے اصغر ایسی عجب نگا ہ سے فلپ کو گھو رے جا رہا تھا جس میں غصہ ،نفرت اور افسوس کے ملے جلے تا ثر بھر ے ہو ئے تھے ۔
اگلے دن فلپ کو حید رآبا د کی عد التیں دکھانے کے لیے اصغر اپنے سا تھ کچہر ی لے آیا ۔ وہ گا ڑی پا رک کر نے کے لیے جیسے موڑ کا ٹنے لگا تو اچا نک سے کسی کو گا ڑی کے عین سامنے آتا دیکھ کر زور کی بر یک لگا دی ۔ ابھی اصغر غصے سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اسی اثنا میں اس کا منشی دوڑتا ہو ا آن پہنچا اور کسی کو کو لہوں سے پکڑ کر سڑک کنا رے ایک طر ف گھسٹیتے چلا تے کہنے لگا۔
’’اوئے بد خت بو ڑھے ! زند گی سے اس قد ر بیز ار ہو تو کسی ریلو ے پٹڑی پہ جا کر مرو ۔یہا ں سٹر ک پہ کیو ں دوسروں کے لیے مصیبت بنتے ہو ‘‘۔
بو ڑھا گہر ی نیند سے ایک جھٹکے کے سا تھ یو ں بید ار ہو کر اٹھ کھڑا ہو ا جسے کو ئی نیند میں ڈراؤ نا خو اب دیکھ کر جا گ بیٹھتا ہے اور بو کھلا کر اصغر کو تکنے لگا ۔ یہ وہ ہی بو ڑھا تھا جو کل بد ین سے لو ٹتے اصغر کی گاڑی سے ٹکرایا تھا اور آج صبح صبح پھر اس طر ح سے ہو تا دیکھ کر اصغر کا بلڈ پر یشر چڑھنے لگا او ر نہ جا نے یہ خیال کیوں اس کے دل میں گھر کر بیٹھا گیا کہ شہر کے سارے بو ڑھے مل کر اصغر کے ہا تھو ں کو ئی بڑا حا دثہ کر انے کی سا زش میں لگے ہو ئے ہیں ۔ بہت جلد خو د کو عدالت کے اند ر کٹہرے میں کھٹر ا دیکھنے لگا ۔ غصے سے اب اصغر کا وجو د کا نپنے لگا اور پیٹ میں عجیب مر وڑ پڑنے لگے وہ ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ منشی نے کھڑے کھڑ ے بو ڑھے کو تڑیا ں سنا تے وہا ں سے چلتا کر دیا او ر اصغر کے سامنے وہ اپنے مخصوص خو شامد ی لہجے میں آکر کہنے لگا۔
جا نے دیں سرکا ر ۔۔۔ وہ کو ئی پگلا لگتا ہے ۔۔۔کہتا ہے کہ با پ دادا کی زمین کسی نے طاقت کے زور پہ ہتھیا لی ہے ۔عدالت نے اس کی عر ضی منظور کر ڈالی ہے مگر وہ ۔۔۔وہ یہ کہ اس کا کو ئی وکیل نہیں اور اب خو د اپنی وکا لت کے لیے آیا ہے ۔‘‘
منشی نے زیر لب مسکراتے سا را ما جر ااصغر کو اس اند از سے سنا ڈالا جیسے کو ئی مخبر ی راز داری سے راز بتا دیا کر تا ہے ۔ سا تھ ہی منشی خو ش بھی دکھا ئی دے رہا تھا کیوں کہ جو خبر اس نے اپنے صا حب کو سنا ئی تھی وہ بالکل نئی اور کچہر ی کے ماحول میں سنسنی خیز اہمیت کی حامل تھی جس سے منشی اپنی خو د کی اہمیت اصغر کی نظر میں بڑھا رہا تھا ۔ اصغر اب عدالتی اونچ نیچ کے ما حول سے پو ری طرح واقف تھا سو اس نے پا نچ کا نو ٹ مسکر اتے ہو ئے منشی کہ ہا تھ میں تھما یا اور من میں جا نے کیا سوجھی کہ اسے کہنے لگا ’’ جا اسے کہہ دے جا کر کہ مجھے اپنا وکیل مقر ر کر لے میں ایک پا ئی تک وصو ل نہیں کر وں گا‘‘۔
وہ اپو را دن اصغر فلپ کو ساتھ گھما تا عدالتی کا روائیا ں دکھا تا رہا اور کو ئی پانچ بجے کے قر یب اسے چیمبر میں لے آیا جہا ں قتل کے مقد مے والے مد عی پہلے اس کے چیمبر انتظا ر میں تھے جن کے ایک بند ے کا خو ن ہوچکا تھا اور اب لا ش اسپتال کے مردہ خا نے میں تھی وہ لاش کا معائنہ کر انے کے لیے اب اصغر کو اپنے سا تھ لے جا نے کے لیے آئے ہو ئے تھے۔ اصغر نے یہا ں بھی فلپ کو ساتھ لیااور اسپتا ل پہنچ کر اصغر نے مر دہ خا نے کے اندر جیسے پا ؤں رکھا ٹھو کر کھا ئی تو مردہ خا نے کے انچا رج نے بڑ ی ہو شیا ری والی تیزی سے اسے سنبھالتے منہ بنا کر کہنے لگا:
’’سا ئیں جو بے مو ت مر کر یہاں آتے ہیں در حقیقت ان ہی کی وجہ سے زند ہ ٹھو کر یں کھا تے رہتے ہیں ‘‘۔ اصغر کو ئی جو اب دئیے بغیر لا ش کے قر یب آیا تو فلپ بھی اس کے پیچھے پیچھے آکر غو ر سے لا ش کو تکنے لگا تھا۔
مٹی میں لدا ہو ا کھر نچیوں سے بھر ا ہو ا داڑھی والا چہر ہ جس کے چھا تی سے لیکر سر تک سفید بال اب بو سید ہ روئی جیسے نظر �آ رہے تھے ۔ کا لی پگڑی سینے پہ پڑی تھی اور کا لی شلوار پہ خو ن کے جگہ جگہ داغ اب سر مئی رنگ اختیا ر کر چکے تھے اور وہ ایسے سید ھا پڑا ہو ا تھا جیسے گہری نیند میں ہو۔ لا ش دیکھ کر اصغر کو زور کا جھٹکا سا لگا جس پہ نظر یں گھمائے پگڑی پہ رک گئیں تھیں بو ڑھے کی پگڑی کے ایک کو نے میں چھو ٹی سی گر ہ بند ھی ہو ئی تھی جس کے اند ر شا ید کو ایسی چیز تھی جس وجہ سے بو ڑھے نے اس گر ہ کو مضبو طی کے سا تھ مٹھی میں یوں دبا ئے رکھا تھا کہ اب تک اس کی ہتھیلی کی رگیں سکڑی نظر آرہی تھیں ۔اس سے پہلے کہ اصغر کچھ کہتا فلپ نے اصغر سے دریا فت کر نے کی کو شش کی مگر اصغر ٹھو کر کھا نے کے با عث اب تک چڑا ہو ا تھا اپنے غصے کا اظہا ر کر تے ہو ئے اس نے فلپ کو انگریز ی کے بجائے اپنی روایتی زبا ن میں ہی جو اب دے ڈالا تھا ۔ ’’ چنے ‘‘ یہ سنتے ہی فلپ ہکا بکا ہو کر اصغر کی آنکھوں میں گھورنے لگا تب اک پر دیسی شخص کی دلچسپی کو بھا نتپے ہو ئے مر دہ خانے کے انچا رج نے آگے بڑ ھ کر بو ڑھے کی بند مٹھی کو زورلگا کر جیسے ہی کھولا تو تا ز ہ مٹی اس کی آنکھوں کے سامنے پھسلتے ہو ئے زمین پہ بکھر گئی۔
واپس لو ٹتے فلپ اور اصغر کے درمیا ں اس بات پر زور کی بحث سنگین صورت اختیا ر کر گئی کہ مر نے والا بو ڑھا ایک ہی تھا جو پہلے بد ین سے لو ٹتے ان کی جیپ کی زد میں آتے آتے بچا ،پھر کو رٹ میں گا ڑی گھما تے سڑک کنا رے سوتے ہو ئے بچا اور اب مر دہ خا نے میں آپہنچا تھا ۔مگر فلپ کے اس خیال سے اصغر متفق نہ تھا اور تینو ں واقعا ت میں نظر آنے والے بو ڑھوں کو جد اجدا سمجھ رہا تھا۔ با ت طول دیتی کپڑے کے تھا ن کی مانند کھلتی پھیلتی گئی اور گرما گرم بحث سخت صورتحا ل میں بد لتی رہی ۔ فلپ یہ سب اپنے لیے تکلیف کاباعث سمجھ کر اپنی جگہ ڈٹا رہا تو اصغر بھی اپنے موقف پہ جما رہا ۔دونو ں کے بیچ میں یہ فا صلہ ڈھلتے سو رج کے سا ئے کی طر ح سے آگے بڑھتا رہا ۔ دو نو ں خا مو ش ایک دوسرے سے بے خبر بنے ایک ہی جیپ پہ بیٹھے رہے۔ ایک دم سے اصغر کو اپنے میزبا ن اور فلپ کے مہما ن ہو نے کا خیال ایک دھچکے کے سا تھ آلگا جو اسے اپنے حال میں لے آیا اور وہ زیر لب مسکراتے فلپ کے سا تھ دوستا نہ ما حول میں لو ٹ آیا تھا اور اپنی دوستی کا یقین دلا تے سو نے کی تیا ری کر نے لگا تو جواب میں فلپ نے بھی ویسا ہی کر تے اصغر کو شب بہ خیر کہہ ڈالا۔