یہ بات اپنے شاعر دوستوں سے اپیل کرنے کی نہیں ہے کہ وہ غیر بلوچی اصناف کے ساتھ ساتھ بلوچی کی اپنی اصناف میں بھی شاعری کریں۔ نہ تو غزل سے کسی کو کوئی دشمنی ہے ۔اور نہ ہی نظم کسی کو بری لگتی ہے۔ قطعہ، رباعی،ہائیکوسب کچھ قبول ہے۔مگر’’ شاک‘‘ اُس وقت پہنچتاہے جب یونیورسٹی کے کسی نوجوان شاعر سے پوچھا جائے کہ ’’آپ بلوچی کی اپنی اصناف میں بھی شاعری کرتے ہیں ؟‘‘ اوروہ جواب میں نہ صرف ’’ نہیں‘‘ کہے بلکہ کرید نے پریہ تک نہیں جانے کہ بلوچی کی اپنی اصناف ہیں کون سی ؟۔
شاعری پڑھنے کی چیز بھی ہے مگر بلوچستان میں تو یہ سنانے کی چیز رہی ہے ۔ ایک نے سنایا، اچھا لگا تو دوسروں نے اُسے زبانی یاد کیا اور پھر نڑسر، دمبرو و سریندا ، بین و دونلی ، اورچنگ و رباب پر اسے گانا شروع کردیا۔ ہماری شعری اصناف اور ہماری موسیقی دونوں اِسی طرح سینکڑوں برسوں سے بقا پاتی رہی ہیں۔
ہماری اپنی اصناف ہمارے باپ دادا کے دلوں، ارواح، انگلیوں،اور گلے کی خوبصورت میراث ہے ۔ہماری اصناف موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہیں۔ شہری( یا خواندہ ؟) لوگ جو بلوچستان میں دس سے بیس فیصد ہی ہیں ،غزل و نظم و ہائیکو اِسی دس بیس فیصد کی خدمت میں لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ باقی90,80 فیصد بلوچ تو اُن کی شاعری کو جانتے ہی نہیں۔نہ صرف اس لیے کہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتے بلکہ اس لیے بھی کہ یہ شہری 20,10 فیصد لوگ جن نان بلوچ اصناف میں شاعری کرتے ہیں وہ مقبول تو کیا بلوچ سماج میں معمولی جگہ تک نہیں بنا سکی ہیں ۔
ایک قبیلہ کیا، پورے بلوچ کی تاریخ ، نسب و شجرہ اور کلچر کو ہماری شاعری نے محفوظ کررکھا ہے۔ چونکہ یہ ہماری تاریخ کا منبع و سرچشمہ ہے اسی لیے بلوچ خود کو اپنی شاعری کے ساتھ ہی جوڑے رکھتے ہیں۔ہماری اصناف محض شاعری نہیں ہیں، ہمارے ماضی ،ہمارے ویلیو سسٹم اور مستقبل کا بہی کھاتہ ہیں۔
ماں اپنے بچے کو جھُلاتے ہوئے پیار بھری آوازسے جو’’ لولی ‘‘گاتی ہے وہ بچے کے مستقبل کیلئے دعاؤں اور اچھے اوصاف پیدا ہونے کی خواہش سے بھری ہوتی ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ آج تک کسی اخبار، کسی رسالے یا کتاب میں پچھلے پچاس برس میں کہی ہوئی کوئی لولی نہیں چھپی۔ کیا بلوچ ماں نے لولیاں جننا بند کردیں؟ کیا لولی کے بغیر ایک ہم آہنگ معاشرہ ممکن ہے؟ کیا پنگھوڑے میں پڑے بچے کو دعاؤں، نیک تمناؤں، لولاکی موسیقی، نیند ،شانت ، اور سکون سکھانے کی کوئی ضرورت نہیں؟۔ کیا مستقبل کا بلوچ معاشرہ بن ممتا کے چلے گا ؟ کیا آج کی بلوچ ما ں نے یہ ارمان کرنا چھوڑ دیا کہ اس کا بیٹا لڑائیوں میں بڑے بڑے ظالم سورماؤں کا مقابلہ کرنے میدان میں اترے؟ ۔ وہ نیک ہو،بات کا پکا ہو۔محنتی اور ملنسار ہو، محبت کرے اور انسانی معاشرے کا ایک رول ماڈل بنے؟
اسی طرح سوئے ہوئے بچے کو جگانے کی موسیقی بھری شاعری ’’نازینک‘‘ہوتی ہے۔بلوچ بچے کے مزے تو دیکھو، سلاؤ بھی گاگا کر اور جگاؤ بھی گا گا کر۔ مگراب نصف صدی سے قلم اور کاغذپر شاعری کرنے والے کسی فرد نے کوئی ایک نازینک بھی نہیں لکھا ہے۔
ڈیھی جدائی کی تانگ ، انتظار کی مہلک کیفیات، اورہجر کے جلا ڈالنے والے جذبات کے اظہار کی بے مثل صورت ہے۔ یہ محفلوں کی زینت بھی ہے اور بیت بازی کی طرح کے مقابلوں میں بھی موجوں کی صورت اپنی آمد کرتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔مشاہدے میں آیا ہے کہ ڈیہی پر تو ،بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر خود ڈیہی کسی نے نہ لکھی ۔ نہ مغربی بلوچی میں، نہ رخشانی بلوچی میں ، اور نہ شاید سلیمانی میں ۔ کیا مر کھپ جانے کا ارادہ ہے؟
لیلڑی میں لفظ لیلڑی بہت تکرار سے استعمال ہوتا ہے۔ بلوچ کس قدر خوبصورت انسان ہوتا ہے۔ وہ ’’سندھ ‘‘جیسی خوبصورت سرزمین کو پیار سے ’’سندھڑی ‘‘کہہ ڈالتا ہے اور لفظ لیلیٰ کی نزاکت و کشش میں لطیف اضافہ کرنے کو اسے ’’لیلڑی‘‘ میں بدلتا ہے۔ چلو فرض بھی کرلیتے ہیں کہ سو فی صد بلوچ اور ان کی محبوبائیں شہری اور ماڈرن ہو چکی ہیں۔ تب بھی وہ کیا ایک دوسرے کی توصیف،وصال و ملن ، لطف و لطافت اور محبت کے گداز پہ شاعری نہیں کریں گے؟ ۔۔۔۔۔۔ لیلڑی لکھے کہے بغیر ایک بلوچ ،خود کو کس ڈھٹائی سے شاعرکہتا ہوگا؟
ہالو ‘ یا ‘ہلو ،طربیہ گیت ہے جو شادی و شادمانی کے مواقع پر گایا جاتا ہے ۔ ہالو میں دلہا دلہن کی آئندہ کی زندگی کے لئے اچھی خواہشات اور دعائیں ہوتی ہیں۔ یہ رقص کے ردھم کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔اگر اپنی شادی بیاہ میں ہلو ہالو نہیں کہو گے تو دوسری زبانوں کے اس صنف کی مترادف صنف تمہیں کھاجائے گی۔ اور کلچرل موت ،معاشی سیاسی موت سے زیادہ وہشتناک ہوتی ہے ۔
ہالو کی طرح لئی لاڑو بھی عموماً شادی و جشن کے موقعوں پر گائی جاتی ہے۔اب تو لگتا ہے ہم بہت ’’ماڈرن ‘‘ہوچکے ہیں ۔اب لئی لاڑو نہیں لکھنا۔ ہمارے جدید سائنسی معاشرے کی تسکین ہائیکو کرے گی کیا؟ سادگی کی بھی حد ہوتی ہے۔!!
ایک اور بہت ہی مقبول صنف ’’سوت‘‘ہے جو کہ شادی بیاہ جشن ومیلہ میں گایا جاتا ہے۔اے شاعر و ! سوت نہیں لکھو گے تو پورا معاشرہ سوت اورسوتیوں سے محروم ہوجائے گا اور تمہاری اولاد قرض کی اصناف میں مصنوعی زندگی کے حوالے ہوجائے گی۔
گہرے جذبات کے اظہار کے لیے ’’زہیروک ‘‘سے زیادہ موثر صنف شاید ہی کوئی اور ہو۔گھر کی یاد، محبوب ،والدین اور خاندان سے جدائی اس کا موضوع ہوتی ہیں۔ایک کیفیت جو یاد اور جدائی کی انتہائی کسک پاکر اَن مٹ بے قراری بن جاتی ہے ۔ کبھی ساز اور کبھی بغیر ساز کے خوش الحان گلے اِسے چھیڑتے ہیں۔گلف میں مزدوری کرنے والے بلوچ، یورپ میں سیاسی پناہ لیے بلوچ اور خود بلوچستان میں محبوبہ سے بہت دور چراگاہوں میں پڑے لاکھوں گڈریے زہیر کے قہر میں قطعہ گائیں گے کیا؟۔
خوبصورت استعاروں اور تشبیہوں سے مزین ایک اورصنف ’’لیکو‘‘ ہے۔ یہ بلوچستان کی اکثریت آبادی یعنی چرواہوں، کسانوں اور شتر بانوں میں بہت مقبول ہے۔ اس میں سفر کی مشکلات و مشاہدات بھی موجود ہیں،بھیڑ بکریوں کی باتیں بھی ہیں، پہاڑوں ریگزاروں کے تذکرے ہیں، اور ہجر و فراق کی دل اکھاڑ ساعتوں کے مرثیے ہیں۔ اب اُن شاعر دوستوں سے کیا اپیل کی جائے جن کے پیر اپنی سرزمین پر ہیں ہی نہیں۔ وہ میر تقی میر تو یقیناً بنیں گے جو انسال بننامگر، اُن کی قسمت میں نہ ہوگا۔
محنت کشوں کے اجتماعی کام میں قوتیں ملا کر زور لگانے کا گیت ’’ایمبا‘‘ہے۔ بالخصوص ماہی گیر محنت کشوں کا۔حیرت ہے کہ آج ماہی گیروں کے بچے بھی اس صنف میں نہیں لکھتے، غزل لکھ مارتے ہیں۔بلوچ سمندر تمہاری روح کے ساتھ تمہاری غزل و رباعی کو حقارت سے اپنے پیروں میں کچل ڈالے گا۔
دستانغ رومان و رزم و مناظرِ فطرت پر مشتمل بلوچوں کی شاعری کی واحد صنف ہے جو ہزار دوہزار اشعار تک (خود کو دوہرائے بغیر)طویل ہو تی ہے ۔ایک ایسی صنف جو رومانوی حکایات ، فطرت کے مناظر،اور رزمیہ کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔اس میں دین ،اخلاقیات،ادب،عشق،بزم رزم، اور توصیف سب آتے ہیں۔ یہ ہنگامہ خیز واقعات کی ہنگامہ خیز واقعہ نگاری ہوتی ہے۔ اگر آج بلوچ کی تاریخ مرتب ہوسکی ہے تو اس میں دستانغ اور شَیر کا بہت بڑا حصہ ہے۔مگر کیا کیا جائے آج ایک انسان بھی ایسا نہیں ملے گا جو دستانغ کی صنف میں شاعری کرتا ہو۔ ایسی نعمتو ں سے خود محروم رکھنے والی اقوام اپنی بقا اور وجود کو داؤ پر لگائے رکھتی ہیں۔
موتک حتمی طور پر بچھڑنے والے کے لئے ماتمی شاعری ہوتی ہے ۔ انسان کی ساخت میں یہ بات شامل ہے کہ اس نے موتک بہر حال سننے بھی ہیں اور پھر ایک بارخود اپنی موت پہ موتک کہلوانے بھی ہیں۔ ایک بظاہر دائمی صنف ، یعنی موتک سے بشر کو آزادی نہیں۔چاہتا تو ہر کوئی ہے کہ موتک عالمی ادب سے حتمی انداز میں خارج ہو،مگر یہ منزل پتہ نہیں انسان کو کب میسر ہوگا۔ لیکن ہمارے شاعروں نے تواس صنف میں ہا تھ ڈالا ہی نہیں۔ ایک قاضی مبارک ہی اس آگ میں کودا ہے۔باقی بلوچ شعرا کے گاؤں دیہات اور وطن نے گویا آبِ حیات پی رکھا ہے!
ہم خبردار کرتے ہیں کہ بھیڑ پال بلوچ کے بہت بڑے ریوڑ کی بھیڑیں ہی بلوچ کے کام آئیں گی۔ ہماری بھیڑ ہی ہمارے پہاڑوں ندی نالوں سے واقف ہے۔ ہم انسانوں کی طرح ہماری ’’اپنی ‘‘بھیڑ ہی ’’ہمارے ‘‘ماحول میں زندہ رہ سکتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں برسوں سے موجود ہماری اپنی اصناف ہی ہمیں قومی دوام و بقا اور انفرادی شہرت عطا کرسکتی ہیں۔ پرائی محبوبہ پرائی ہی رہتی ہے۔ہماری ساری اصناف کو گم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ محبت و انسانیت کی اِن اصناف کو زندہ رکھ کر ہی بلوچ کا نرم رخ دنیا کے سامنے رہے گا۔
اپنی زبان سے اس پیمانے کی بیگانگی اپیل کا معاملہ نہیں ہوتا،ایک تحریک کا متقاضی ہوتا ہے ۔ ہماری فوک اصناف کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہو چلاہے۔ آج کی ساری اخباری ، رسالوی اور ریڈیو ٹی وی والی شاعری ہماری اپنی اصناف میں نہیں ہورہی۔ سب لوگ درآمد شدہ غزل و نظم و قطعہ کی جگالی کرتے پھرتے ہیں۔ بڑے پیمانے کی ایک تحریک چاہیے بلوچی کی اپنی اصناف میں شاعری کروانے کے لیے۔