عبد اللہ حسین (اصل نا م محمد خان) 14 اگست 1931 کو راولپنڈی میں پید ا ہو ا ۔یہا ں اس کا والد ملا زمت کے سلسلے میں قیام پذیر تھا ۔ اس نے 1954ء میں بی ایس سی کا امتحا ن پاس کیا اور جہلم کی سیمنٹ فیکڑی میں ملا زمت اختیا ر کی ۔
بعد ازاں وہ داؤد خیل سیمنٹ فیکڑی میں بطور کیمسٹ کا م کر تے تھے ۔ اس نے تنہا ئی اور بو ریت سے بچنے کے لئے ادبی کتب کے مطالعہ کو اپنی عا دت بنا یا ۔
انھوں نے ٹینسی و لیم، ٹرومین کپو ٹی، منٹو ،غلا م عبا س ،عصمت چغتا ئی ،قر تہ العین حید ر اور انتظا ر حسین کی تصانیف کو پڑھا۔اور مختلف زا و یو ں سے زند گی کو دیکھا ۔ ان کو پڑھنے اور غو ر و فکر کر نے کے بعد اس کے اندر لکھنے کی تحر یک پید ا ہو ئی ۔ انھو ں نے ’’اُداس نسلیں‘‘ لکھنے کا آغا ز کیا ۔
عبد اللہ حسین اس ضمن میں بیا ن کر تے ہیں ۔
’’ میر ی ادبی زند گی کا آغا ز اُداس نسلیں سے ہوا۔ اور یہ نا ول میں نے 1956ء میں لکھنا شر وع کیا ۔ ان دنو ں میا نو الی کے مقا م پر ایک فیکڑی میں کیمسٹ تھا۔ وہ ایک ویر ان ،بنجر اور بے حد اداس کر دینے والی جگہ تھی ۔ فیکٹری سے واپس آنے کے بعد میں کیا کر تا؟ یہ روز کا مسئلہ تھا۔ یہ انتہا درجے کی بو ریت ، تنہا ئی اور عا جز کر دینے والا بے معنو یت کا احسا س تھا جس نے مجھے لکھنے کی طر ف دھکیل دیا ۔‘‘ (1)
چھ فٹ اور چا ر انچ طویل قا مت اس لکھا ری نے اپنا پہلا نا ول 32سا ل کی عمر میں لکھا ۔ ان کو یہ نا و ل لکھنے میں پا نچ بر س لگے ۔
عبد اللہ حسین رقم طر از ہیں کہ
’’میں لکھتا رہا اور پا نچ سا ل بیت گئے ۔تب کہیں نا ول کامسو دہ مکمل ہو ا ۔ اس کے لیے میں نے بہت سی تحقیق کی ، مطالعہ اورمشاہد ہ بھی کیا ۔ تب جا کر اس سے مطمئن ہو ا ۔ اور نا شر کی تلا ش میں نکلا ۔‘‘(2)
ناول لکھنے سے پہلے چو ں کہ اُن کو بطو ر ادیب کو ئی نہیں جا نتا تھا۔ اس لئے ’’نیا ادارہ ‘‘ والوں نے اُن کو اپنی کو ئی تحر یر کسی ادبی ما ہناو میں چھپوانے کا مشورہ دیا ۔
چنا ں چہ انھو ں نے رسالہ ’’سو یر ا ‘‘ میں مختصر کہا نی ’’ند ی ‘ ‘ کے عنو ان سے لکھی ۔ اور بطور ایک ادیب متعا رف ہو ئے ۔
پہلا نا ول ’’اُداس نسلیں ‘‘ 1963ء کو شائع ہو ا ۔ اس دور کے معر وف مصنف کر نل محمد خا ن کے نا م کی مما ثلت سے بچنے کے لئے انھوں نے اپنے سیمنٹ فیکڑی کے سا تھی عبد اللہ حسین کا نام بطور نا ول نگا ر لکھا ۔ اسی نا ول پر اُن کو آدم جی ادبی ایوارڈ ملا ۔ اس نا ول نے اُن کو شہر ت کی بلند یو ں پر پہنچا دیا ۔
ما بعد وہ بر طانیہ چلے گئے ۔1981ء میں پا نچ کہا نیو ں اور دو ناولٹ پر مشتمل مجمو عہ ’’نشیب ‘‘ شا ئع ہو ا۔
اُن کے نا ول با گھ ، نا دار لوگ ، قید اور ناولٹ رات کو اردو ادب میں شہکا ر تصنیفا ت کی حیثیت حا صل ہے۔
یو نیسکو نے 1994ء میں ’’اُداس نسلیں‘‘ کا اُ ن سے انگریز ی زبا ن میں تر جمہ’’Weary Generation ‘‘ کے نام سے کر وایا ۔ یہ نا ول انگریز ی میں پیر س ،لند ن اور دہلی سے شائع ہو ا۔
انگر یز ی میں دو سرا (2) نا ول ’’Emlger Jounery‘‘ (مہا جر وں کے سفر) کے نا م سے 2000ء میں شائع ہو ا۔ تیسرا Afghan Girl شائع ہو ا۔ جو افغا نستا ن کے حوا لہ سے لکھا گیا تھا۔ 2004ء میں بر طا نیہ نے اُن کو رائل سو سا ئٹی آف لڑیچر کا ممبر منتخب کیا۔ ان کی کہا نی ’’واپسی ‘‘ پر ہا لی وڈ میں ایک فلم بھی بنی ۔جس میں بھا رتی اداکا ر اوم پوری نے بھی کا م کیا ۔(3)
اگر ان کی نگا رشا ت کے حو الے سے با ت کی جا ئے تو ان کے نا ولوں ،نا ولٹو ں اور افسانو ں کی مشتر کہ میراث’’ہجر ت‘‘ ہے ۔ مہا جر ت کا دُکھ مشتر کہ مو ضوع ہے۔ اداس نسلیں کا ہیر و ’’نعیم ‘‘ با گھ کا ’’اسد‘‘ اور نشیب کی کہا نیوں کے تقریباً تما م مر کز ی کر دار اس دُکھ میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
عبد ا للہ حسین اسی با رے میں کہتے ہیں ۔
’’ اصل با ت یہ ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ۔ میر ے دل میں یہ بات ہے کہ انسا ن ایک مستقل جلا و طنی کا عذاب سہ رہا ہے۔ اس جلا و طنی کا جسما نی ہو نا ضر ورنہیں ۔ اپنے وطن میں بھی لو گ بے وطن ہو جا تے ہیں‘‘۔(4)
اردو ادب کا یہ بنجا رہ 4جولائی 2015ء کو بروز ہفتہ صبح دس بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ مگر تصنیفات کی بدولت ہمیشہ زند ہ رہے گا۔
بقول مستنصرحسین تا رڑ
’’اس بنجار ے کا طو یل عذاب اب ختم ہوُ ا ۔
حو الہ جا ت
1۔ قا ضی جاوید : مضمو ن ،عبد اللہ حسین سے سومنٹ، دستا ویز ،لا ہو ر ، ص168
2ْ۔ ایضاً ص168
3۔عبد الرؤف : کالم روز نا مہ جنگ ’’عبد اللہ حسین کی یا دیں ‘‘ بتا ریخ 5 جولائی 2015ء
4۔ قا ضی جا وید : مضمو ن ، عبد اللہ حسین سے سومنٹ ، ص