تری تلا ش میں جب ہم کبھی نکلتے ہیں
اک اجنبی کی طرح راستے بدلتے ہیں
جب ادب لکھا ، اور سناجارہا تھا ،تب حر ف کی حر مت اورطاقت تھی اور اسی کے طفیل دستار کی عزت تھی با مروت اور با وقاروں سے واقفیت تھی ،سچ بولنے کی عادت تھی احترام آدمیت کی روایت تھی ،ملنے ملا نے میں رغبت تھی رشتوں میں عا فیت تھی ،جھو ٹ سے نفر ت ایک حقیقت تھی مگر جب ادب کو دھتکارا گیا ادیب کو مختلف حیلے بہانوں سے مارا گیا جہالت کو علم کے دنگل میں اتاراگیا تب سے امن کاہم سے نعرہ گیا۔ جن معا شروں سے کتاب کہانی کا حق چھن جائے ،عقل و دانش سے منہ موڑا جائے گولی اور گالی سے بازو مر وڑا جائے تب بے اعتباری کو فروغ پانا ہے اخلا قیات اور سائنس پر زوال آناہے گمراہوں نے سر اٹھا نا ہے ۔پھر تو پر وفیسر قتل ہو نگے ،ڈاکٹروں سے بھتہ وصول کیاجا ئے گا تاجر اغواء ہو نگے ،طالب علم اور بے روزگار خود کشی کر ینگے ،جہا لت فروغ پا ئے گی ،بستے خو دکش جیکٹوں میں تبدیل ہو نگے ،دونمبری کے لئے ایک نمبر ی ہو گی ایک نمبر ی کیلئے دو نمبر ی کا سہا را لیاجائے گا، بے راہ روی اور بد اخلا قی پر مبنی مواد کتا بچوں کی صو رت میں دستیاب ہونگے ۔نیٹ فیس بک وغیرہ پر وقت گزاری اوربدکاری ہو گی ،تعلیمی ادارے بموں کی زد میں ہونگے لوگ ایک دوسرے سے بدظن ہونگے پھر یقناً جسمانی اور ذہنی تندرستی کا سوال پیدا ہو گا ۔جب تک ادب اور ادیب کا اعتبار تھا ،عشق پر اختیار تھا سا نسوں میں خو شبو ،ہر نو الہ ذائقہ دارتھا ضمیر ہر کام میں حصہ دار تھا تب گلوکوئی مزدور تھا گلو بٹ نہیں بنا تھا ۔اس وقت سلا م ایک ٹیچر تھا سلا م راکٹی کے نام سے نہیں پکاراجاتا تھا۔ ہم رحمان کا نام ایک فنکار کے طور پر سنتے تھے وہ رحمان ڈکیت میں تبدیل نہیں ہو اتھا ۔ہم نر گس اور میڈیم نور جہاں کو کھیت کھلیانو ں میں گانا گا تے دیکھ رہے تھے ان کھیتوں میں ابھی لا لو کھیت کا اضافہ نہیں ہواتھا ۔انہی دنو ں میں ہم نے فیض کے امن کے گیت سنے حبیب جالب کی پکار سنی ،عطا شاد کو نر می سے شعر کہتے سنا ۔یہ وہ زمانہ تھاجب عوامی بیداری پر مبنی فلمیں،ڈرامے ،افسا نے ،ناول اور شا عر ی تخلیق ہو رہی تھی ریلو ے سٹیشنوں پر کتاب گھر ہوا کرتے تھے شہر کے ہر نکڑ پر تازہ ادبی شما رے ،فلمی رسائل اور ڈائجسٹ آویزاں تھے۔ ہوٹلوں میں ادبی نشستوں کا چر چا تھا یا فلمی گانوں کی فر ما ئش کا رواج تھا۔ یو نیورسیٹوں ،کالجو ں اور سکو لو ں میں بزم ادب کا کلچر زوروں پر تھاپر وگرام پرو ڈیوسروں اور ایڈ یٹر وں کے نام سینکڑ وں خطوط آتے تھے ۔
سلگتی یاد ، دہکتا خیال ، تپتا بدن !
کہاں یہ چھوڑ گیا کارواں بہاروں کا
عا قبت نا اند یشوں نے علم کا مزاج بدل ڈالا ،ڈگری کی اہمیت وحیثیت بدل ڈالی ۔پیسہ پیک اور ڈگری ویک نے استاد شاگرد کے رشتے کو مشکوک بنایا ۔ادیب ،ادب اور قاری کے درمیان دوریاں پیدا کیں عالمی نظر یات کی بجا ئے تعصب ،حسد ،جھوٹ ،مکا ری کو طا قت اور شہرت ملی۔ بے مقصد ،خو شنما اور انفرادی خو شحالی پر سیا سی بھنگڑے ڈالے گئے جبھی تو جاگیردار با اعتبار ہوا ،ہاری اور لکھا ری بے اعتبار کہلا ئے ،بدعنوانوں نے ایسی تا بعداری دکھا ئی کہ شرفاء غدار کہلا ئے ،چورلٹیرے ،سرمایہ دار ،دلدار،نیکو کا ر اور با قی سب بے کار ہو ئے۔ بکر ی کی کھال کے بدلے انسانی کھال لینے کی دھمکیاں ملنی شروع ہو ئیں ووٹ اور نوٹ کا با زار گرم ہواعوام کو غیرفطری عوامل میں الجھا یا گیا ۔ہم سب ڈی ٹریک ہوئے ۔محبت نما ئشی شئے بن گئی بدامنی میں ویلنٹا ئن ڈے ایسا ہے جیسے پا گل کتے کو السیشن کتا سمجھ کر سدھا رنے کی کو شش کی جائے ۔20 کروڑ کی آبادی سے ادیب کا رشتہ توڑا گیا گلستان سے تپتی صحراکی جانب محبت کے کاروان کا رخ موڑاگیااس کے بعد ادب ،محض قطر ،دوہا ،لندن اورامر یکہ میں خو شحال اور وطن سے دور ہم زبانوں کیلئے تفر یح طبع کا باعث بنا ۔
سو چوں تو سلو ٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھوں تواک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
فیض ،فراز ،گل خان نصیر اور منیر نیازی کا ادب تجاوزات کی طرح بلڈوز ہوا ،فکری مبا حث پر دفعہ 144کا نفاذہوا،اسکے بعد ہر مسئلہ کے حل کیلئے بھوک ہڑ تالی کیمپوں ،شٹرڈاؤن اور پہیہ جا م کی روایت پڑ گئی ،خو ف وہراس نے بچوں کو گھروں کے چھتوں اور بندگلیوں میں فٹ بال ،کر کٹ کھیلنے پر مجبور کر دیا ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ کر بچے کارٹون دیکھتے ہیں انہیں آس پاس چلتے پھر تے کا رٹو نوں کی ہوا لگنے نہیں دیا جا رہا۔ ہر گھر کے باہر گارڈزپہرے دار بنے،دوسری جانب ہمارے بعد آزادی حا صل کرنے والا ملک چین پچاس فیصد اندھو ں کی بینائی واپس لا نے کیلئے مصنو عی قر ینہ ایجاد کرنے میں کا میاب ہوا اورہم بینا ئی کے با وجو د اندھے پن کا شکارہو رہے ہیں ۔ جاپان نے جا ئے نماز ،تسبیح اور وظیفہ کلاک بنا کر ہماری عبادات اور کاروبار میں آسا نیاں پیدا کیں مز یدوہ ہماری آپس کی دشمنیاں دیکھ کر ہمارے لئے نو الہ منہ میں ڈالنے سے پہلے اسے اسکین سے گزارنے والی مشین ایجا د کر رہاہے ۔ہمارا ٹیچر جو ہمار اماسٹر ہوا کرتا تھا اب اسکی جگہ ہر تبا ہی کے پیچھے چھپے ما سٹر ما ئنڈنے لے لی ہے ۔باقی کسر ما سٹر فوم ،ما سٹر بر یانی ،ماسٹر آرٹ والے پوراکر رہے ہیں۔کتا
ب ذوق سیلم میں بقول ڈاکٹر سیلم اختر’’ اندھو ں ،گونگوں اور بہروں کیلئے بے حس معا شرہ میں صرف ادیب ہی تو ہے جو اپنے حواس خمسہ کو بیدار رکھتا ہے جب پتھر کے بتوں پرمشتمل معا شرہ میں انسا نی روابط عنقا ہو جا تے ہیں تو صرف ادیب ہی خون جگر سے ان بتوں میں زندگی پیدا کر تا ہے۔ ‘‘ادب محبت ہے،طا قت ہے تو قیر،تعبیر ،تعمیر ،تاثیر اور قوموں کی تقدیر ہے ۔ادب وہ واحد شعبہ ہے جو دیگر علوم میں دلچسپی اور آگے بڑ ھنے کا چسکا پیدا کر تا ہے۔ اسی کے ذریعے انسانی نفسیات ،سماجیات تک رسائی ملتی ہے انسا نیت کے بہار میں محبت کی تتلیوں کی با رش اسی کی مر ہون منت ہے ادب ہی کسی دردکی تہہ تک پہنچ کر اُسے سمجھنے کا وسیلہ فراہم کر تی ہے یہ رشتوں کی تقدس کا پرچارک ہے انسان کو مشین بننے سے روکتا ہے احساسات اور جذبات کو زندہ رکھنے کا پیمانہ ہے۔ ادب سنجیدہ عالمو ں کی میراث ہے تہذیب کی جان ہے جہاں یہ نہ ہو وہاں دولت کی ہو س بڑ ھتی ہے سچ بے بس ہو تا ہے عشق بے رس ہو تا ہے ۔حسد،منا فقت اور تعصب میں گر فتار رہنما ئی کے دعویدارپیدا ہو تے ہیں ۔ادب کے تسلسل میں دراڑ آنے سے نئی نسل کا پرانی نسلو ں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے جیسے ہمارے ہاں با رش اور بر ف باری سے فوراًایک شہر کا دوسرے شہر سے رابطہ کٹ جا تا ہے۔ سیا سی پیچیدگیوں کی وجہ سے علا قا ئی تعلق اورقومی شنا خت سوالیہ نشان بن چکاہے، ادیبوں کے اقوال زریں اور شعراء کے سبق آموز مثا لی شعروں کی بجائے ٹی وی پر اشتہارات کی بھر مار سے نفسیا تی مسا ئل پیداہو رہے ہیں۔ مصنو عی ناقص اشیا ء کے اشتہارات بچوں کی فرما ئشوں میں اضافے کا با عث بنی ہو ئی ہیں جس کی وجہ سے لو گ بدعنوانی کی راہ اپنا نے میں عار محسو س نہیں کر رہے۔ جہاں بمشکل کبھی کبھا ر قتل کی خبر یں ملتی تھیں وہاں درجنوں افراد چند ساعتوں میں بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں لوگ دھماکو ں کی نذر ہو رہے ہیں۔ بعض پسما ندہ ممالک ادب اور ادیب کے دانش سے استعفادہ کرتے ہو ئے تھنک ٹینک بناچکے اوراب وہ تر قی یا فتہ ممالک کی فہرست میں جگہ بنا چکے ہیں۔ہم اس کے بر عکس گولوں اور ٹینکوں کو تر قی کا ذریعہ خیال کر تے رہے ۔امن حافظہ بڑھاتا ہے، بدامنی حافظوں پر وار کرتی ہے، امن انصاف کی پیروی کرتا ہے، بدامنی ناانصافی کو بڑھاوا دیتی ہے، امن کے منہ سے دودھ کی مہک آتی ہے، بدامنی کے منہ کو خون لگتاہے۔ امن خوشبو ہے، بدامنی ہسپتال کا مردہ خانہ ہے۔ امن فاختہ ہے، بدامنی گدھ ہے، امن بلبل کی آواز ہے، بدامنی ایمبولینسوں کی ہوٹر ہے، امن مسکراہٹ ہے، بدامنی جھنجلاہٹ ہے، امن ترقی ہے، بدامنی زوال ہے۔ ان دونوں کا فرق ادب کے بطن سے نکلتا ہے۔ امام عسکری کا یہ قول دہراتا ہوں۔ خداشناسی سے خودشناسی دشوار ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ زخمو ں پر پھاہارکھنے کا ذریعہ ہیں۔ مجال ہے جو زخم ہمیشہ کیلئے ہرے ہوں۔ ادب اور فنون لطیفہ کی ضرورت سے انکار کے با عث ہمارے ہاں زخم بھر نے کا نام نہیں لے رہے جہاں ایسی نوبت آتی ہے وہاں زندہ انسانو ں کی نہیں مردوں کی مردم شماری شروع ہو جا تی ہے ۔قبرستانو ں میں اضا فہ کا مطلب اپنے مقاصد حاصل کرنا ہے۔ غا لباً اسی لئے انسانوں کی بلی چڑ ھا ئی جا رہی ہے ۔یہ مظالم ادب کی ضد ہیں۔ ادب ، ادیب اور علم ودانش کو ما ر کربھلا عقل کے خلاف اٹھنے والے طوفانوں کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ حق اور انصاف کے دورس نتائج کیسے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ جرا ئم پر مبنی گینز بک کے سوالات اب یہ ہو نگے وہ کونسا ملک ہے جہاں ماس خو ر گدھوں کا گو شت کھاتے اور کھلا تے ہیں جہاں جعلی ڈگر یوں کا کاروبا رہو تا ہے جہاں طاقتوربا عزت، کمزور بے عزت ہو تا ہے۔ جہاں سیا سی محاذ آرائی پر بینک لو ٹے جاتے ہیں ،گا ڑیوں اور پیٹر ول پمپ نظر آتش کئے جاتے ہیں۔ جہاں سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند ہو تے ہیں اور کاروبار ہفتوں بند رہتا ہے ۔جہاں جرائم پیشہ افراد کی جیل یا ترا کے بعد آو بھگت اور عزت میں اضا فہ ہوتا ہے جہاں قبائلی ،لسانی ،فر قہ پر ستی ،علا قا ئی ،کاروباری ،سیاسی کش و بگیر عروج پر ہے جہاں علم و دانش ہو کیا وہاں اس قسم کے سوالا ت جنم لے سکتے ہیں وہاں بداخلا قی کو سر حدی مداخلت کہا جا سکتا ہے میرے خیال میں نہیں ۔دراصل ہمارے ہاں ادب کو حبس بیجا کا مسئلہ اور ادیب کو عوامی رشتہ چھن جا نے کا المیہ درپیش ہو نے کے سوا اور کو ئی معا ملہ نہیں اور آخر میں ،میں یہ کہتا چلوں ۔
’’جہاں انسانوں کے لئے جینا مشکل ہو وہاں بارود کی بو میں امن کی فاختہ کیسے زندہ رہ سکتی ہیں ‘‘