اینٹوں والے آنگن کی اک مختصر سی کیاری میں یہ کھلتے پھول اُداسی پھیلانے کا باعث بن رہے تھے۔عجیب سی رُکی ہو ئی یکسانیت بھری زندگی ،ملنے،جُلنے والے لوگ اس کی کیاری میں کھلے ان ڈھیروں پُھولوں کو بے حد پسند کرتے اور اس کے باغبانی کے شوق کو سراہتے بھی تھے۔مگر وہ جو کہتے ہیں ناں،کہ موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے،اگر انسان خوش تو جیٹھ،ہاڑ کا موسم بھی بھیگے بھیگے خوش گوار ساون،بھادوں جیسا لگے۔
مگر اسے تو خوشی اور خوشی سے وابستہ چیزیں،باتیں،احساسات سب بے معنی لگتی تھیں۔دن رات اس فکر میں گُھلتی جا رہی تھی کہ جوانی کی بیوگی ایک عذاب سے کم نہیں اور اُس پر دو بچیوں کا ساتھ یہ احساس اُسے روز کمزور سے کمزور تر کر رہا تھا۔شوہر کی ناگہانی موت نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا،نہ میکہ نہ سُسرال،نہ سیدھے مُنہ والا کوئی رشتہ دار،کہاں جائے کس سے سوال کرے؟کون جواب دے،؟؟؟
یہاں تو سب کو اپنی آپا دھاپی پڑی ہوئی تھی،
اس کی سہیلی نے ایک روز اسے بتایا کہ علاقے میں این۔جی۔اوز کے لوگ آئے ہیں وہ نہ صرف حقوق کی آگاہی دیتے ہیں ،بلکہ بیوہ،بے سہارا خواتین کو اچھے روزگار کے لئے معقول معاوضہ او ر قرضہ دیتے ہیں۔تم بھی چلو،شاید تمہارا بھی کچھ فائدہ ہوجائے۔اسے سہیلی کی بات سے اُمید کی کرن نظر آئی۔بچیوں کی تعلیم،مستقبل کی بچت،گھر چلانا، دال روٹی کا بندوبست سب کچھ ممکن ہے۔
جاڑوں کی لگاتاررم جھم بارش کی بنا پر باورچی خانہ اور اک کمرے کی چھت بھی ٹپکنے لگ گئی تھی،اس کا بندوبست تو سب سے پہلے کروں گی۔مگر مانگوں کیا؟ کیا کاروبار کروں؟وہ عجیب سی اُلجھن کا شکار ہونے لگی ۔سہیلی سے مشورے کرنے لگی
۔سہیلی نے کہا کہ تمہارے گھر میں دو کمرے ہیں،ایک کمرے کو کاروبار کے حوالے سے رکھ لو،تم سلائی مشین مانگ لو اور کچھ رقم بھی، اپنے کمرے میں لیس،بٹن،دھاگے،موتی،گلے کا شیلف بنا لو جو بھی محلے کی خواتین کپڑے سلوانے آئیں وہ تمھارے پاس سے ہی
میچینگ کی لیس،گلے،ربن خرید لیں گی۔یوں دو دو کام چلتے رہیں گے۔
سہیلی کے مشورے میں وزن تھا۔سارا مستقبل شفاف آئینے کی طرح چمک دار اور واضح نظر آنے لگا۔شوہر کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ کے ہمراہ وہ اگلی صبح اُس ہال میں جا پہنچی۔این۔جی۔اوز کی خواتین پرفیوم میں نہائی ہوئی یہاں وہاں گلے میں دوپٹہ ڈالے ہنستی بولتی آجا رہی تھیں۔
ترتیب سے لگی کرسیوں پر خواتین جو حُلیے سے نچلے اور متوسط طبقے کی لگتی تھیں،بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔کچھ خواتین ان این۔جی ۔اوز والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بنائے،دُنیا جہاں کی بُرائیاں ان کی چال ڈھال،بے باک انداز پر مختص کر رہی تھیں۔کئی خواتین جو متوسط طبقے سے تھیں وہ ایک دوسرے سے آنکھیں چُرا رہی تھیں،اور یہ ظاہر کر رہی تھیں کہ وہ ویسے ہی پروگرام دیکھنے آئی ہوں یا میں تو فلاں سہیلی کے کہنے پر ساتھ چلی آئی۔حقیقت میں کسی کو آگاہی کی ضرورت نہیں۔ان کی بلا سے بھاڑ میں جائے ایسی آگاہی جس سے شعور ملے،شعور سے سوچ بدلے ،سوچ عمل مانگے اور آگے وہی گُھپ اندھیرا۔سب خواتین بس اسی اُمید پر آئی تھیں کہ کچھ رقم مل جائے۔اگر تھوڑی سی رقم کی لالچ نہ ہوتی تو اس پروگرام میں کرسیاں خالی رہ جاتیں۔آج پروگرام کا دوسرا دن تھا،چار روزہ پروگرام تھا۔آج بھی حقوق کی آگاہی اور تقاریر چلتی رہیں آخر میں اعلان ہوا کہ مستحق خواتین اپنا نام لکھوا کر جائیں اور کل آکر قرعہ اندازی میں شامل ہوں،اس نے بھی نام لکھوایا،پروگرام کا بس یہی حصّہ اسے دوسری خواتین کی طرح کام کا لگا۔
اگلے دن خواتین کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ تھی،کیونکہ اُن خواتین کے نام بھی عورتوں نے لکھوا دیے جو آئی ہی نہ تھیں۔قرعہ اندازی میں صرف بیس خواتین کا نام نکلا۔رات بھر کی مانگی گئی دُعائیں(جس میں دونوں بچیاں بھی شامل تھیں) رنگ لائیں۔اس کا نام بھی نکل آیا۔
نئی خوشی اور پچھلے غموں کے ملے جُلے جذبات میں آنکھوں میں بار بار آنسو آجاتے۔وہ بار بار ان لوگوں کو دُعا دے رہی تھی،دفتری کاروائی شروع ہوئی،صرف چند ایک خواتین کی طرح اس کی بھی طلب خطیر رقم کی تھی،سو اسے بڑے افسر نے اپنے دفتر طلب کیا۔بالکل جوان،معصوم اور خوش شکل اُوپر سے بیوگی مگر اس کے حُسن و شادابی کی رعنائیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
بڑے افسر نے اندر تک جھانکنے والی آنکھوں سے اس کا بغور جائزہ لیا ،اور لمبی سی ’ ہوں ‘ کر کے کرسی سے سر ٹکا کر نظریں اس پر گاڑھتے ہوئے پوچھا،تم واقعی بیوہ ہو؟۔ شادی شُدہ تک نہیں لگتی،اُس نے اپنی گود میں رکھے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملتے ہوئے قدرے سر جھُکا کر دُکھ سے کہا،جی صاحب ! یہ غم میری قسمت میں لکھا تھا،کیا کروں؟ دو بچیوں کا ساتھ بھی ہے ۔
صاحب نے اس کے دُکھ پر دل چسپی کا اظہار کرتے ہوئے،ایک دم میز پر جھُکتے ہوئے کہا کہ دو بچیاں کوئی مسئلہ نہیں۔تم کہو تو ان کو ہاسٹل میں داخل کرادوں؟این۔جی۔او ان کا خرچہ برداشت کرے گی۔تم سمارٹ،خوب صورت،متاثر کن شکل و صورت والی ہو۔ہم عنقریب اپنے کپڑوں کی نمائش کر رہے ہیں،تم بھی ان خواتین کی طرح ہمارے کپڑے پہن کر ریمپ پر چلو،اس ماڈلنگ کے تمہیں ایک لاکھ تک ملیں گے۔یوں آئے دن کی ماڈلنگ تم کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گی۔صرف کپڑے پہننے ہیں اور وہ بھی لمبی چوڑی قمیض شلوار ہے کوئی بے پردگی نہیں۔تم سوچ لو۔راستے بھر سوچتے سوچتے گھر لوٹ آئی۔بڑے افسر کی پُر اثر آواز دُور تک ساتھ چلتی گھر،دالان،باورچی خانے سے جب رات وہ بستر پر لیٹی تو آواز اس کے کمرے میں بھی گونجتی رہی،اگلی صبح سہیلی سے مشورہ کیا تو اُس کو بھی بات بُری نہ لگی،سو اس نے جا کر ہاں کر دی۔افسر نے اُسی وقت اپنی ساتھی خاتون سے کہا کہ اس کو ماڈلنگ ڈریس پہنا کر لاؤ میں دیکھوں کہ یہ کیسے ماڈلنگ کرے گی۔دو گھنٹے بعد نہا دھو کر بالوں کو قیمتی شیمپو سے دھو کر،تھریڈنگ،فیشیل،میک اپ،ہیل والی جُوتی اور زیور لباس نے اس کی شکل ہی بدل ڈالی۔وہ بار بار چوری چوری خود کو آئینے میں دیکھتی اور حیران ہوتی جارہی تھی کہ اس قدر حُسن تو شادی پر دُلہن بن کر اس پر نہیں آیا تھا۔واقعی صاحب نے میرا انتخاب غلط نہیں کیا۔میں واقعی خوب صورت ہوں۔این۔جی۔او کی خواتین اس کے حُسن سے اپنے اندر چنگاریاں سی سُلگتی ہوئی محسوس کر رہی تھیں،جن کے چہروں کو دبیز میک اپ نے کھُردرا بنا دیا تھا۔اتنی معصومیت تھی اس کے چہرے پر کہ کیا بتائیں۔۔۔۔۔۔
صاحب کے سامنے وہ جاتے ہوئے جھجھک رہی تھی۔دفتر میں داخل ہوئی تو افسر اپنی کرُسی سے اُٹھ کھڑا ہوا،اور اس کے قریب آکر کانوں کے پاس سرگوشی کا سا انداز لے کر بولا،بہت پیاری لگ رہی ہو تم۔اس نے چونک کر صاحب کو دیکھا جو اپنی آنکھوں کو مخمور بنائے نشے کی سی کیفیت میں بولتا جا رہا تھا،وہ گھبرا کر پاس سے ہٹ گئی۔اور جلدی سے آکر کپڑے تبدیل کیے اپنے پُرانے کپڑے پہنے چادر اوڑھے وہ دوبارہ صاحب سے اجازت لینے آپہنچی۔میک اپ سے بھرا چہرہ اس کے پُرانے کپڑوں کی طرف دھیان ہی نہیں بٹا رہے تھے۔صاحب اُسی نشے کی سی حالت میں کھڑا تھا،وہ پاس آکر بولی۔
صاحب! اب میں جاؤں؟ وہ ہڑبڑا کر بولا ارے! !! یہ کیا ؟زرا دیر وہ کپڑے تو پہنے رکھتی،میں تو دوسری دُنیا میں ہی جا پہنچا تھا۔تم کس قدر حسین ہو،اور تمھاری دل فریب مُسکراہٹ۔۔۔۔اُف!!۱!!!! یہ تو آگ لگاتی ہے آگ،تم بھی جواں ہو،خوب صورت ہو۔ایسے قُرب کی تمہیں بھی طلب ہوگی،تو کیوں نہ ہم یہ دُوری مٹا کر اک دوسرے کا سکون بن جائیں،تسکین کا باعث بنیں،میں اس کے بدلے شہرت کی بلندیوں تک لے جاؤں گا۔
اور وہ ساکت کھڑی اس کی باتیں سنتی رہی،وہ باتیں کرتے کرتے اس قدر قریب آکھڑا ہوا کہ اس کی تیز تیز چلتی سانسوں کی بے ترتیب آمدورفت نے اک پھنکار کی سی شکل اختیار کرلی،وہ قدرے سمٹ کر دیوار سے جا لگی ۔افسر کو ہمت ہوئی کیونکہ وہ بھی مزاحمت نہیں کر رہی تھی،وہ اس کی چادر کو اپنی اُنگلی پر لپیٹ کر قدرے اُتارنے کے انداز میں گھیسٹ رہا تھا کہ یک لخت یہ ہوا کہ اس نے اپنی چادر خود ہی اُتار دی اس کے شیمپو سے دھلے بال جن میں ابھی تک نمی عیاں تھی،ایک جھٹکے سے کُھل کر اس کی کمر تک لہرا گئے وہ مُسکرا اُٹھا،اُس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی،اسی دوران اک عجیب بات ہوئی اس عورت نے اپنی اُتری ہوئی چادر زور سے اس کے منہ پر دے ماری اور قدرے بلند آواز سے کہنے لگی کہ:
مجبوراََاپنی چادر آپ کو دے جا رہی ہوں،کہ اسے اوڑھ لو۔کہیں کسی کو آپ کی شرافت،حقوقِ انسانی کی علمبردای کے دعوے،خواتین کے حقوق کی جانب داری میں چھُپا آپ کا یہ ننگا پن عیاں نہ ہو۔چادر کی آپ کو سخت ضرورت ہے۔
اس کی بلند ہوتی آواز ملحقہ کمرے میں موجود سٹاف نے سُن لی،سب دم بخود تھے۔اور وہ چادر کے ہمراہ جو جارجٹ کا دوپٹہ سر پر اوڑھے ہوئے تھی۔اسی سے خود کو لپیٹ کر دفتر سے باہر نکل گئی