بچھڑ گیا جو وہ چہرہ گلاب جیسا تھا
سراپا اُس کا غزل کی کتاب جیساتھا
دھنک کے رنگ تھے سب رنگ اُس کی آنکھوں کے
او راس کا بولنا بجنے رباب جیسا تھا
غم جہاں کے اندھیرے سمٹنے لگتے تھے
سیاہ شب میں وہ اک آفتاب جیسا تھا
یہ کس نے ماردیا دل کی جھیل میں کنکر
جواس میں عکس تھا وہ ماہتاب جیسا تھا
وہ ماہ وسال کی پریاں کِدھرگئیں اُڑ کر
گذشتہ عمر کا وقفہ حباب جیسا تھا
بچھڑنا اُس کا قیامت سے کم نہ تھا یارو
جھڑی لگی تھی برسنا سَحاب جیسا تھا
عمرؔ وہ ماہ وش کس دیس بس گیا جاکر
بغیر اُس کے یہ جینا عذاب جیسا تھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے