میں نے ایک ایسے علاقے میں آنکھ کھولی، جس کی حدود کے اختتام پر بڑے شہر کی حدود کا آغاز ہوتا تھا۔
علاقہ، جہاں کے موسم پختہ اور مکان کچے تھے۔ اور جسے بڑے شہر والے پس ماندہ بستی تصور کرتے تھے۔
میرا باپ حلوائی تھا۔ اور اِس معاملے میں وہ قصوروار نہیں۔ اپنے باپ دادا کا دھندا سنبھالنا اُس کی ذمے داری تھی۔ اور اُس نے ایسا ہی کیا۔
میں نے قصبے کے اکلوتے سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جہاں سب مجھے اﷲ دتا حلوائی کا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ شروع شروع میں تو مجھے بہت غصہ آتا تھا، اور میں مٹھیاں بھینچ لیتا۔ لیکن پھر میں نے جانا، وہ بھی مجھ جیسے ہی ہیں۔ یہاں کوئی اشرف قصائی کا، کوئی ریحان موچی کا اور کوئی ملک بڑھئی کا لونڈا ہے۔
میں اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں جلدی بالغ ہوگیا، تاہم اِس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا۔ میرا بالغ پن تو اُس ریڈیو کی دَین تھا، جو ابا چند سال قبل شہر سے لایا تھا۔ اِسی ریڈیو کے ذریعے میں نے جانا کہ ہم ایک ایسے سیارے کے باسی ہیں، جو خلا میں لڑھک رہا ہے، اور جانا کہ ہمارا سیارہ سورج کے گرد گردش کرتا ہے، اور سورج بھی محو سفر ہے، اور ….
میں نے ایسا بہت کچھ جان لیا، جسے جاننے کی قصبے میں مُمانعت تھی، لیکن یہ میری غلطی نہیں تھی۔ یہ سب تو ریڈیو کا کیا دھرا تھا۔
میٹرک میں میرے نمبر قصبے میں سب سے زیادہ تھے، جس پر ماسٹر رفیق اﷲ بہت ناراض ہوئے۔
اُن کے نزدیک یہ استھان اُن کے بیٹے کا حق تھا۔ شیخوں کے گھر بھی صف ماتم بچھ گئی، اور ارسلان شیخ کی تاج پوشی کی تیاریوں پر پانی پھر گیا۔ یہی معاملہ چوہدریوں کا تھا۔ بے چارا چوہدری عمران پیچھے رہ گیا تھا۔
اور بھلا چوہدریوں، شیخوں اور ماسٹروں کی اولاد کو پچھاڑا کس نے؟
اﷲ دتا حلوائی کے بیٹے نے!
میرے لیے قصبے میں ناپسندیدگی بڑھتی گئی۔ ماں نے میرے بازو پر تعویذ باندھ کر مجھے شہر کی جانب دھکیل دیا، تاکہ میں ناپسندیدگی سے محفوظ رہوں۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ میری خوش بختی قصبے کی حدود پھلانگتے ہی ختم ہوجائے گی، اور میٹرک میں میری کام یابی حلوائیوں کی تاریخ کی آخری کام یابی بن جائے گی۔
میں نے جس کالج میں داخلہ لیا، وہ طلبا سیاست کی وجہ سے بدنام تھا، تاہم مجھے اِس بات کا قطعی علم نہیں تھا۔ (ریڈیو کے معلومات عامہ کے پروگرامز اِس بابت خاموش تھے)
میری دل چسپیوں کو میڈیم کی تبدیلی لے ڈوبی۔ کافروں کی زبان نے گھاتک حملے کیے۔ لیکن جب محنت مجھے میدان واپس لائی، تو کالج سیاسی سرگرمیوں کا اکھاڑا بن گیا۔
میدان تباہ ہوئے….
بڑے شہر میں میرا دوسرا سال تھا، جب مجھے گرفتار کیا گیا۔ دراصل کالج میں دو گروہوں میں تصادم ہوگیا تھا۔ لاٹھیاں چل گئیں۔
غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ اُس پورے عمل کو آنکھیں پھاڑے دیکھتا رہا۔ اور پولیس کے آنے پر، یہ سوچ کا کہ اس میں بھی تفریح کا کوئی پہلو ہوگا، بھاگا نہیں۔ وہیں کھڑا رہا۔ پر یہ میری خطا نہیں تھی۔ قصبے سے بڑے شہر آنے والوں کو اِن معاملات کا بھلا کیا تجربہ!
خیر، میں تنہا گرفتار نہیں ہوا تھا، میرے ساتھ کالج کے چند اور لڑکے بھی تھے۔ اور یہ میری بدقسمتی کا آغاز تھا۔
تھانے میں تھانے دار اور ایک لڑکے میں تلخ کلامی ہوگئی۔ تھانے میں شعلے لپکے، اور نوجوان نے چائے کا کپ تھانے دار کے سر پر انڈیل دیا۔ اور تب میری ہنسی نکل گئی۔
اب یہ کوئی گناہ تو نہیں۔ قصبے میں تو ایسے موقعوں پر ہنسا ہی جاتا تھا، اور مٹھائی بھی بانٹی جاتی تھی، لیکن شاید تھانے دار کے قصبے میں ایسا رواج نہیں تھا، سو میں ایک ہفتے لاک اپ میں رہا۔
باہر آنے کے بعد میں نے قسم کھائی کہ آیندہ اگر کوئی کسی پر چائے انڈیل رہا ہوگا، تو میں لاتعلق، بت بنا کھڑا رہوں گا، ہنسوں گا بالکل بھی نہیں۔
انٹر کے بعد میں نے بڑے شہر کی بڑی یونیورسٹی کے ایک غیرمعروف ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا کہ میرے امتحانی نتائج فقط قابل قبول تھے۔ اُن ہی دنوں ابا کی چٹھی آئی کہ اب وہ مزید میرا خرچا نہیں اٹھا سکتے، مجھے اپنے ہاتھ پیروں کو حرکت دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
ابا کا خط، جس سے پسینہ ٹپک رہا تھا، غیرمتوقع نہیں تھا، قصبے سے بڑے شہر آنے والوں کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ماضی میں بھی اِس قسم کے واقعات پیش آچکے ہیں۔
میں ملازمت کی تلاش میں جٹ گیا، لیکن نتیجہ اطمینان بخش نہیں تھا۔ مجبوراً مجھے ایک پرچون کی دکان پر کام کرنا پڑا، جہاں چمگادڑوں کا بسیرا تھا۔
تو اب معمولات یہ تھے کہ میں صبح بڑے شہر کی بڑی یونیورسٹی جاتا، جہاں شہری لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے۔ شاید وہ جانتے تھے کہ میں اﷲ دتا حلوائی کا بیٹا ہوں۔
دوپہر اپنے گھونسلے نما کمرے میں آنے کے بعد بغیر آرام کیے پرچون کی دکان پر پہنچ جاتا۔ یوں وقت گزرتا رہا، اور سمٹتا۔ اور پھر ایم اے کا رزلٹ آگیا۔
میں نے شہر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ ایک طویل عرصے بعد خوش خبری سے واسطہ پڑا۔ خیال آیا کہ ابا کو مطلع کردوں۔ گھر فون کیا تو پتا چلا کہ ایک سانحہ رونما ہو چکا ہے۔
ابا کا خاموشی اور سہولت سے انتقال ہوگیا تھا۔
میں بھاگا بھاگا قصبے پہنچا۔ تیجے کے بعد پتا چلا کہ ہم پر بہت سا قرض ہے۔ دکان گروی رکھنی پڑی۔ باپ کی گدی چھوٹے بیٹے نے سنبھال لی، لیکن میں جانتا تھا کہ یہ کوشش بارآور ثابت نہیں ہوگی کہ قصبے والے اُسے اﷲ دتا حلوائی کے بیٹے کی حیثیت سے نہیں جانتے۔ وہ تو مجھے اِس عہدے پر دیکھنا چاہتے تھے۔
میں واپس شہر پلٹا۔ یہ سوچ کر کہ اب معاشی استحکام کے لیے کوئی بڑا اقدام کرنا ہوگا۔ ملازمتوں کی تلاش شروع کی، لیکن بڑے شہر کے لوگوں کو میری ڈگری پسند نہیں آئی۔ انھیں کچھ اور پسند تھا۔
مجبوراً میں پرچون کی دکان ہی پر کام کرتا رہا۔ اور پھر ایک روز… میری نظر سے ایک افسانہ نویس انٹرویو گزرا۔
میرے خدا، یہ تو وہی نوجوان تھا، جس نے تھانے دار کے سر پر چائے انڈیلی تھی۔
میں نے وہ انٹرویو پڑھا۔ ایک بار، دو بار، تین بار…
میں لگاتار اُسے پڑھتا رہا۔ یوں لگا، جیسے میں وقت سے ماوراء ہوگیا ہوں۔ اور اخبار کو گولا بنا کر نگل لیا۔ جب شب، صبح میں تبدیل ہونے کو تھی، اچانک ایک خیال ذہن میں کوندا۔ ’’افسانہ نگاری ہی میرا مستقبل ہے!‘‘
راہ زیست کا تعین ہو چکا تھا۔ اب میں معروف ناول اور افسانہ نگاروں کی کُتب کے سستے ایڈیشنز کا مطالعہ کرنے لگا۔ پھر لکھنا شروع کیا، پھر ادبی اور نیم ادبی میگزینز کے دفاتر کے چکر لگانے لگا۔ لیکن مجھے منہ کی کھانی پڑی۔ کوئی میرے افسانوں کو افسانے ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ انھیں رپورٹ کہا کرتے تھے۔
وہ کیفیت نیستی سے پُر تھی۔ وقت گزرتا جارہا تھا۔ اور بے زاری بڑھتی جارہی تھی۔ ایسے میں میری ملاقات آمنہ سے ہوئی۔
آمنہ، جو مسکراتی، تو اس کے دانت دکھائی دیتے،اور روشنی ہوجاتی، میری کلاس فیلو تھی۔ اور اب ایک معروف روزنامے کے میگزین سیکشن سے منسلک تھی۔
ایک دن جب میں اپنی کہانی مسترد کروانے کے بعد، منہ لٹکائے، کاندھے جھکائے، اخبار کے دفتر سے باہر آرہا تھا، وہ اندر داخل ہوئی۔ یوں ہمارا سامنا ہوا۔ اور یوں میں نے ’’مستردشدہ افسانہ نگار‘‘ ڈکلیئر کیے جانے کے باوجود اُس دفتر میں چند منٹ مزید گزارے۔ اور نہ جانے کیوں حلوائی کے بیٹے نے اپنا دل، جس میں سوراخ تھا، اُس خوب رو لڑکی کے سامنے کھول دیا۔
وہ چند ساعتیں، جب مجھے سامع میسر تھا، زیست کے خوش گوار ترین پل تھے۔
میری بپتا سننے کے بعد آمنہ چند ساعت خاموش رہی۔ اور مجھے اچھی لگی۔ پھر اس نے تعزیتی لہجے میں میرے حالات زندگی پر، جو موت سے مماثل تھے، اظہار خیال کیا۔ اور پھر وہ کہا، جس نے میری زندگی ہی بدل ڈالی۔
اُس نے مجھے والٹیئر کا لازوال ناول ’’کاندید‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اور کاندید کا فلسفہ ’’ہمیں بلاچون و چرا کام میں مصروف رہنا چاہیے، یہی حالات کو قابل برداشت بنانے کا واحد طریقہ ہے!‘‘ ایک کاغذ پر لکھ کر دیا۔ پھر حوصلہ افزائی کی کہ مجھے لکھتے رہنا چاہیے۔ مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے وہ افسانہ (جو مسترد کیا جاچکا تھا) مجھ سے لے لیا۔
جب میں دفتر سے باہر نکلا، میرے ہاتھ میں کاغذ کا وہ پرزہ پھڑپھڑا رہا تھا، جس پر بلاچون و چرا کام کرنے کا مشورہ درج تھا۔ بادل بے وجہ مسکرانے لگے۔
میں بادلوں سے بغل گیر ہوا۔ اور فیصلہ کیا کہ حلوائی کا بیٹا اب حالات کو قابل برداشت بنانے کے لیے کام میں مصروف رہے گا۔ میں نے ایک نئے عزم کے ساتھ قلم اٹھایا۔ اور جانا کہ کاندید کا فلسفہ ترقی پسندوں اور رجعت پسندوں؛ ہر دو کے لیے مفید ہے۔ تب میں نے اِس فلسفے پر افسانہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اِس خیال سے قطع نظر کہ یہ کبھی شایع ہو سکے گا یا نہیں۔
میں واقعی وقت سے ماوراء ہوگیا تھا!
آخری سطر پڑھنے کے بعد احمد علی نے گہرا سانس سینے میں اتارا، اور سامنے بیٹھے ایڈیٹر کو دیکھا، جس کے چہرے پر تحیر تھا۔
اسے اطمینان محسوس ہوا۔ ایڈیٹر کی آنکھوں سے جھلکتی حیرت، قبولیت کی عکاس معلوم ہوئی۔ وہ خوش تھا کہ اُس کا افسانہ نہ صرف سنا گیا، بلکہ قبول بھی کر لیا گیا۔ لیکن اُسی پل ایڈیٹر پھٹ پڑا۔ ’’یہ کیا بکواس ہے۔‘‘
’’سر یہ بکواس نہیں۔‘‘ احمد نے حوصلہ مجتمع کرتے ہوئے کہا۔ ’’میری تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین اظہار ہے۔‘‘
’’بہترین اظہار؟ نکل جاؤ یہاں سے۔‘‘ وہ چیخا۔ ’’یہ میری ہی غلطی تھی کہ تمھارا تھرڈ کلاس افسانہ سنا۔‘‘
احمد خاموش رہا۔ اور پھر اچانک اطمینان کی روشنی اُس کے چہرے پہ پھیل گئی۔ اُس نے کاغذات اٹھائے۔ دروازے سے باہر نکلتے سمے بلند آہنگ میں کہا۔ ’’اﷲ دتا حلوائی کے بیٹے کو بلاچون و چرا کام میں مصروف رہنا چاہیے۔ یہی حالات کو قابل برداشت بنانے کا واحد طریقہ ہے۔‘‘
ایڈیٹر دہاڑا۔ ’’نکل جاؤ۔ پتا نہیں کہاں سے آجاتے ہیں فلسفے بگھارنے… الو کے پٹھے۔‘‘