سال خوردہ موسموں کی زخم خوردہ ساعتیں
سوگ میں ڈوبی ہوائیں
خاک برسر چاہتیں
راستوں کے سب نشاں
خاموشیوں کے ہم زباں
زردپتوں کے کفن میں منہ چھپائے محو خواب
اُجڑی یادوں کی کہانی، سسکیوں کے درمیاں
ساری دیواروں پر لکھی لڑکھڑاتی داستاں
ٹوٹتی اینٹوں کی دُھن پر ٹوٹتی سانسوں کا کھیل
زندگی کی شعبدہ بازی کے عنواں ہیں بہت
بزم میں تاریکیاں، تنہائیوں میں کہکشاں
جشن میں کھٹکا بہت ، غم میں بہت خوش وقتیاں
زندگی کی سخت جانی، آدمی کی برتری
موت کی آہٹ نئی آبادیوں کی رازداں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے