مست ماوند میں عام بلوچوں کی طرح مال مویشی چراتا تھا۔وہاں اُس کی بہار خان کے ساتھ زبردست دوستی تھی۔اٹھنا بیٹھنا، آنا جانا۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔
ایک خوش نصیب صبح وہ دونوں قریب میں مناظر بھرے’’ رسترانی ‘‘کے علاقے میں سفر پہ گئے۔مجھے اپنی جستجوکے دوران اُن محققوں ،مورخوں اورمولفوں کے اِس بیان میں کوئی سچائی نظر نہ آئی جن کے مطابق وہ کسی جنگی مہم پر جارہے تھے۔اُن دونوں کی کبھی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہ رہی ۔ وہ تو عام سَچے، ستھرے اور سُچے لوگوں کی طرح تھے۔۔۔۔۔۔ شکار، سیروتفریح، چھوٹا موٹا کام ۔
حسن و قدرتی مناظر سے مزین رسترانی ،ماوند سے ایک پہر کے فاصلے پر ہے۔ گرمیو ں کا موسم تھا۔گرمی جو کہ مون سو ن کی ساتھی ہوتی ہے۔ بلوچستان کا مون سون اگر ایک طرف اپنے روٹھے پن میں جلا وطن رہنے کے لیے بدنام ہے تو یہ ، وطن واپسی پر اپنے روکھے پن، تباہ کاری اور وحشت میں یکتا بھی ہے ۔جب برسنے کا پروگرام ہو تو ہمارا آوارہ بشام ( ساون)بہت شارٹ نوٹس پر ہنگامی سیلابی حالت کا اعلان کرواتا ہے۔ پہاڑی ندی نالے اچانک والی اپنی تیزی تندی میں دوسری ہر حرکت پر سبقت لے جاتے ہیں۔یک دم بقیہ زندگی کچھ گھنٹوں کے لیے جامد ہوجاتی ہے۔ بس پانی، بس جل تھل، بس بچاؤ اور دفاعی صورتحال!۔
مست اور بہار خان کو ساون کے انہی بادلوں نے گھیر لیا۔ ڈھلتی شام کا وقت تھا۔شمال مشرق سے بادل کا ایک پنبہ نما ٹکرا نمودار ہوا، آن کی آن میں وسعت پا گیا۔ کوئی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ گرج چمک شروع ہوئی۔ موٹے موٹے قطروں کی آمد تیز و کثیر بارش کے آثار بن گئی ۔
انہی آثار نے ان دونوں دوستوں کو اوٹ اور پناہ گاہ کی تلاش پہ مجبور کیا۔ یہ کوئی شہر نہیں تھا کہ رکشہ ٹیکسی لے کر کسی ہوٹل میں کمرہ بک کیا جاتا۔یہ تو سنسان ، بے آبادی والا علاقہ تھا جو سیلابی ندی نالوں سے بپھرنے والا تھا۔ لہٰذا کوئی خیمہ ،کوئی ’’کڑی‘‘، کوئی گھر ملے جہا ں ناقابلِ عبور دریاؤں کی مسلط کردہ مجبوری میں اُس وقت تک کے لیے پناہ لیا جاسکے جب تک اِن ندی نالوں کا پاگل پن شانت ہوجائے۔ اُس وقت تک بس ایک وقت کا کھانامل سکے اور چٹائی رضائی والی شب بسری مہیا ہو۔تاکہ سیلاب اتر آنے پہ گھر واپسی کا راستہ بنے۔
انہیں ایک ہلک(خیمہ والا گھر) نظر آیا۔ دونوں مہمان( پناہ گزین)بننے وہیں جاپہنچے۔نا آشنا انسانوں کی یہ مہمانی اور میزبانی بھیڑ پال بلوچ ویلیو سسٹم کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ایک طرح کا استحقاق۔
وہاں اُس وقت کوئی مرد موجود نہ تھا۔دن کو گھر کون بیٹھے گا؟ ۔چرواہی معیشت میں روٹی روزگار اور محنت مشقت کوئی سنڈے کوئی ہالی ڈے کرنے نہیں دیتیں۔ یہاں کے مرد بھی آس پاس کی چراگاہوں سے اپنے مویشیوں کو بارش و سیلاب کے ممکنہ خطرہ سے بچا کر گھر لانے کی جنگی کیفیت میں تھے۔
خاتونِ خانہ نے انہیں بلوچی رسم کے مطابق تڈا (مہمان نوازی کی چٹائی) لا کردی ۔گویا مسافروں کو ٹھکانہ مہیا کردیا۔اور خود گھر کے کاموں میں جُت گئی۔
چلتے جھکڑوں اوربارش کے شدید امکانات میں ایک خیمہ بدوش عورت کیا کرے گی؟۔ وہ اپنی ساری ہمت اور طاقت مجتمع کرکے بارش سے بچاؤ کے لیے جنگی کارروائی کرے گی۔ سمو نامی اِس خاتونِ خانہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔غصیلے بادل غرّارہے تھے، اُن کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔تیز ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ خیمہ کے ستون اکھڑ اکھڑ جاتے تھے اور خیمہ باربارڈگمگانے لگتا۔
بارش آلود ہوا میں گھر کی مالکن اپنے خیمے کو گرنے سے بچا نے کی جدوجہد بھی کر رہی تھی اور سامان بھیگنے سے بچاؤ کی تگ و دو بھی۔ہلکی بارش اور ہواؤں کے تھپیڑوں سے دلہن کا چہرہ گلنار ہورہا تھا اور اُس کے کپڑے بھیگ بھیگ رہے تھے۔
شام کا دھندلکا تھا،معطر جڑی بوٹیوں کی بھیگی خوشبوئیں تھیں،پُرکیف ہوا کے باغی جھونکے تھے۔ پھوار پڑرہی تھی۔۔۔۔۔۔ اچانک تیز ہوائیں سر سے پاک دوپٹہ اڑالے گئیں اور حسن و جوانی کی ملکہ کی زلفیں ہوا میں لہرانے لگیں( اُسی دن اس نے بال کھول رکھے تھے)۔لہراتے سیاہ بالوں پہ بارش کے ننھے قطرے تھے اور اوپر سے بجلی چمکی تھی۔ قطرے قوس قزح بن گئے تھے۔۔۔۔۔۔اور توکلی پہ انجماد طاری ہوچکا تھا۔آنکھیں ،جھپکنے کا اپنا ازلی ابدی کام بھول گئیں۔منہ نے بند ہونے سے انکار کردیا، دل نے برق کی رفتار سے دھڑکنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔توکلی ہپناٹائز ہوچکا تھا۔
باد برزلفِ تو آمد
شد جہاں برمن سیاہ
(ہوا، تمہاری زلفوں پہ آئی
جہاں، مجھ پہ سیاہ ہوگیا)
سیاہ بال بھی کیا نعمت ہوتے ہیں۔ ایشیاء تجھ میں فطرت نے کتنی نعمتیں رکھ دی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ محبت کا بگ بینگ توکلی پہ بج چکا تھا۔
سوچتا ہوں کہ توکلی کو زندگی بھر کا روگی بنانے میں سمو کا حسن تنہاتو ذمہ دار نہ تھا۔ہاں ہاں، ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ حسن کا پورا لاؤ لشکر ،ایک ساتھ واردہوتا ہے ۔اُس گھڑی پرندوں کی چہکار ،شاخوں کی سرسراہٹ، بارش کی جھنکار،اور سیلابی پانی کی چٹانی ڈھلوانوں سے گزرنے کی آبشاری آوازوں نے مل کر مست کے کانوں میں جلترنگ بھر دیئے تھے۔ پوری کائنات ایک حسین پینٹنگ بن چکی تھی۔صرف آنکھ اور کان کائناتی منظر نامے کا شکار نہ تھے، بارش کی اپنی بھینی خوشبو ، جڑی بوٹیوں کی بھیگی خوشبوؤں سے مل کر ناک کے لیے حشر سامانیاں کررہی تھی۔ الغرض،حُسن آج رسترانی کے ٹیلوں کے درمیان،’’ ساتیں والی‘‘ کی کھیتوں کے درمیان، اور خانہ بدوشوں کے خیموں کے بیچ سعادت کا سرچشمہ بن چکا تھا۔ جمال سے محبت کرنے والا جمیل آج سراپا حسن بن چکا تھا ۔ اور پورے علاقے میں حسن کے لیے سب سے موزوں روح کو کٹھ پتلی بناچکا تھا ۔۔۔۔۔۔جمال اور جمیلہ کا نام آج سمو تھا۔ جو بے رحمی سے اپنے شکار پہ جھپٹ پڑی تھی۔ اور آن کی آن میں مست کو مفتوح و مغلوب و مجبور و معذور بنا چکی تھی۔بجلی کی وہ ایک چمک جو ’’آسمان پہ افق تا افق دکھائی دی‘‘توکلی نامی ایک فرد کیلئے شعلہ بن گئی،شعلہ رسترانی کے پہاڑ پہ الاؤ بنا،الاؤ جہنم بن گیا اور اس کی پرکیف گہرائیوں میں مست بھسم ہوچکا تھا۔ اُسے اب زندگی بھر جلنا تھا۔ ایک قافلے کی تشکیل کرنی تھی۔۔۔۔۔ ’’عشق کی آگ میں جلنے والوں کا قافلہ‘‘۔’’عشاق کا قافلہ‘‘۔ہمارا تمہارا قافلہ۔
چنانچہ، دیکھنے والا پگھل چکا تھا۔کپوپڈ کا تیر کمان بے کار ہو چلا تھا اور وہ نہتی سائیکی کی حسین ترین نگاہوں کا تیر دل میں گہرا پیوست کراچکا تھا۔ توکلی کو سر کا ڈانگ لگ چکا تھا۔محبت کا دیوتا مہربان ہوگیا تھا۔ آنند کے تاربجے ،مست پہ آیاتِ حسن نازل کی گئیں ۔بلوچستان نے بلوچستان کو بلوچستان بنا ڈالا تھا۔
اس بے قصور انسان کی دنیابدل گئی،اس کی ترجیحات اور مقصدِ حیات،سب کچھ بدل گیا۔ محبت آدمی کو انسان بنا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور سمو نے تو کلی کومحض انسان نہیں، ’’ مست توکلی‘‘ بنا ڈالا۔ اور وہ بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں۔(وقت بہت قیمتی ہوتا ہے مگر بے شمار دیگر مظاہر کو Synchronize کرکے ہی ۔اس لیے کہ ٹائم سپیس بنا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔اور آج وقت، دنیا بھر کی ترقی یافتہ ماڈرن سائنسی لیبارٹریوں کی بجائے بے آباد پہاڑوں میں گراں بہا بن چکا تھا)۔ اب نہ سمو عام عورت تھی، نہ تو کلی عام چرواہا رہا۔لمحہ پہلے یہ دونوں گمنام شخصیتیں تھیں ، مگر ایک ہی پل کے ہزارویں حصے میںیہ دونوں برگزیدہ بن چکے ، دو پاک روحیں بلوچ آسمان پہ عقیدت و محبت کی ولی ہوگئیں۔ بلوچستان میں محبت کا عالمگیر چاند آناً فاناً چودھویں کاہوگیا۔
ہاں ایک خاتون نے توکلی کو فرش سے عرش پہ پہنچایا۔ تو گویا،وہ خاتون ایک عام خاتون نہ تھی۔ مگرکیاایک عام توکلی تھا؟ نہیں ناں۔ وہ بھی تو کچھ تھا۔ توکلی بھی توکچھ تھا۔ محبت گو کہ بہت قوت رکھتی ہے اور یہ صلاحیتوں کو پروان بھی چڑھاتی ہے،مگر یہ بنیادی صلاحیتوں کی جگہ تو نہیں لے سکتی۔ ’’محبت کی چمک اور حرارت اُسی شخص کے اندر داخل کی جا سکتی ہے جس کو فطرت نے یہ صلاحیت عطا کررکھی ہو‘‘۔(1)سو، انسان سازی اور انسان ساز صلاحیتوں کا قالب پہلے ہی سے موجود تھے۔ بس، معروض کی مطابقت چاہیے تھی۔وہ آج عطا ہوگئی۔
شام کو جب گھروالے لوٹ آئے تو مسافروں کے لئے کھانا لائے ۔مگرگم گشتہ روح اس قدر سیر شکم ہوچکی تھی کہ شکم تک کی بھوک مٹ گئی ۔سارے جذبے جبلتیں یک سُو ہوکر محبت کے جذبے میں جذب ہوچکی تھیں۔ مست نے کچھ نہ کھایا۔
بہار خان نے پوچھا’’ تمہیں کیا ہوگیا؟‘‘۔ کہا’’ کچھ نہیں‘‘۔ ’’اچھا ،توکلی تم مجھے پوڑ(چلم) بنا کر پلادو‘‘۔ توکلی نے گارے کا چلم بنا کر تمباکو اس میں ڈالا مگر اس میں دھواں کھینچنے کیلئے سوراخ یا نالی نہیں بنائی۔ پوچھا’’تم نے ایسا کیوں کیاؔ ؟‘‘۔ کہا’’ مجھے کوئی ہوش نہیں ،کوئی سدھ نہیں ہے‘‘۔(2)
میزبان بستر اور سرہانے لائے مگر مست تو لیٹا ہی نہیں، بیٹھا رہا( محبت جان چکی تھی کہ نیند ہی نے تو سسی کی دنیا اجاڑی دی تھی !۔اب اور سسی نہیں!!)۔
چنانچہ مست سویا نہیں، لیٹا نہیں بلکہ ساری رات بیٹھا رہا،آنکھیں وہیں ویٹیکن پہ ٹکی رہیں۔ صبح اُس کے یوحناؔ ،بہار خان نے پوچھا’’ کیا تمہیں کسی سانپ وغیرہ نے ڈس لیا؟،یا کوئی اور بیماری ہے؟‘‘ ۔ اس نے کہا ’’زالا دھلینتہ،مں نی ژہ کار ا شتغاں‘‘(3) (دل لے گئی وہ عورت ، میں اب کسی کام کا نہیں رہا)۔ کیا اس سے بڑھ کر نورانی الفاظ ممکن ہیں؟۔مجھے مست کا یہ فقرہ بہت اچھا لگا۔ ایسا فی البدیہہ اور پر معنی فقرہ جس میں کوئی توقعات، کوئی دنیاوی عزائم نہ تھے۔ دوسری پارٹی کا کوئی تذکرہ نہیں۔ بس اپنی کیفیت اگل دی۔۔۔۔۔۔ میں نے پھر کہیں ایسا فقرہ انہی معنوں میں کبھی نہیں سنا ، کبھی نہیں پڑھا۔
جب ایک نکتے پر ساری توجہ کا ارتکاز ہوجائے ، جب ساری قوتیں ساری توانائیاں ایک جگہ جمع ہوجائیں، جب سارے دوسرے مظاہر ماسوائے اُس مرکزی نکتے کی مددگار ی کے ، بے جواز ہوجائیں، تو اُس گھڑی آپ کیا بن جاتے ہیں؟۔ مست وہی کچھ بن چکا تھا۔
مگر،اس پوری انرجی کو سنبھالنے اور اس کی انتظام کاری کے لیے میں آپ موزوں نہیں۔ اُس کے لیے تو مست جیسا بڑا دل دماغ چاہیے، ہر عام و خاص سے یہ برداشت و کنٹرول نہیں ہوسکتی۔
مست پر آفاقی محبت کی بجلی گرنے کا واقعہ تقریباً1858 میں ہوا۔ اچھا،جب مست کی اپنی شاعری میں اس واقعے کا ذکر بہت خوبصورتی کے ساتھ موجود ہے تو ہم کیا وضاحت کر پائیں گے؟ ۔ اِس ہیروشیما کو مست کی اپنی زبانی سنیے:
جی کریم سازیں مالکیں ستار
اژوثی ڈاتانی درا مہر بیار
کوڑ وئے اسراریں(1) ہمے سہدار
پاک اثنت ربئے سچوئیں دیذار
تنگویں تاج وبے گوریں ڈاتار
نشتع انت سرمئیں کا نھلو گنجیں
گنگلوغوغائی(2) لوائی آں
دور و باری آں عمراہی آں
گوئروثی میراں سیر طمائیناں(3)
چّرکاں ماوندہ دِہے دیثیں
تدڑی سیر گنجیں موادانی
منجھرا سرسیم ایں سوادھانی
گوئر بلوچانا دعائیں ملخانی
آسر و اومیثے گریوانی
سرجمیں شاذی ہاں کلاتانی
تامناں باثیل بور بناتانی
ھَیر گوئر بہار خانئے لڑیں تیغاں
سُورہا بر جاہ بی ہمو گیغاں
سنگتی گوں گیژاں بہار خانا
بیثغاں ربئے کار سّوبانی
جینہراں گوئڑتہ کوہے دربھّانی
زڑتغہ گرندان و نوذ شلپاناں
نوذ شلپاناں مانہ جّکاناں
مادہ پہ اولوئے نہ چپّاناں
بولکے سہرابی ہواں بانا
بروں سموذا کہ ہیمہ اے ہیری
ہتھیار ہوندی (4) بنت منی میری
کوکراں گاٹ و گھمرہ سیِری
واچڑاں کُلّہ بانزرے سستہ
دوست کڑی ئے ژہ بانزرا رپتہ
دست گوں پیژدارہ (5) بُنا گپتئی
شار(6)بڑتہ گواث ترمپاں شلوخیناں
ڈوبرئے گُل کہ روح بروخیناں
دیثہ مئیں دیر گنداں کھلوخیناں
نلگساں (7) پہم گپتہ رلوخیناں
دیم چوڈی او آں بلوخیناں
سغر چوشش پڑتیں دو سیاہ مارا
زلفاں چو سیاہ ماراں تلوخیناں
بِریں چو آہواں ترہوخیناں
زِوریں چوکُنڈہی آں بہو خیناں
لانٹہ کنت چماں پرخماریناں
عاشقاں شوشی بے قرار یناں
وہشیں چولیمو آں بہشت ایغاں
چارثہ شکرایاں شتاویناں
میل کثہ چوکی آں چیاریناں
پکغہ باغ پہ طالح و بختاں
بادشاہ معلوم بیثہ ژہ تختاں
بیثغاں مجنامں ہماری روشی
بَر و بیزاراں مست و مد ہوشی
چلہ ای شف پہ نندغ و آزار
گوں حیالاں مں روش کثہ یکار
یاعلی و مں دیذ غاں دوست دار
گپتغاں گواث چنڈاں گنوخیناں
چلمو و شاھی آں جنو خیناں
مں وتی سرینئے جابہاں بوژاں
بندان اِش سرلانباں کلیریغاں
بانگہا دوست و دژمنے گنداں
دوست پرے مونجھائیں دلے گنداں
دژمں پہ تیر دھورے جناں سنگاں
مں دہ تکائی گڑتغاں ہنداں
میگڑے رنگولی رواں داثیں
کاڑچ پہ ھیراتا نہ ہوشیں تَیں
کُل مں درگاہا قبول باثاں
مارا ماں دیمی مزّلاں پُجاں
حاشیہ:
1۔ابدی چیز 2۔مستی 3۔آسودگی 4۔محفوظ 5۔ خیمے کاا گلا ستون 6۔دوپٹہ
7 ۔ آنکھیں
ترجمہ:
جی خدا کو کہ کریم ہے مالک ہے ستار ہے
اپنی سخاوت کے در سے محبت میں آؤ
یہ جاندار،دنیا کے رازوں میں سے ہے
رب کے سچے دیدار پاک تھے
(ان کا) تاج طلائی ہے اور سخاوت بے انت
میرے سردار ،امیر کاہان میں رہتے ہیں
مستی اور خوشحالی میں
زمانوں سے چلی آئی امارت میں
اپنے سیر شکم سربراہوں کے پاس
گھومتے پھرتے میں نے ماوند کا علاقہ دیکھا
تڈی کا پہاڑ معدنیات سے مالا مال ہے
منجھرا حسین مناظر کی انتہا ہے
بلوچان کوفرشتوں کی دعائیں حاصل ہیں
وہ غریبوں کا آسرا،اُن کی امید ہے
فصیلوں،قلعوں کا مالک شاذیھان مستحکم ہے
کہاں ہے باثیل گھڑسوار
بہار خان کی چلتی تلوار کے سائے میں امن ہے
وہ ہر طریقے سے محفوظ و محکم ہے
بہار خان کو وہاں سے ساتھ لیا
تب خدا کا کرنا یوں ہوا
کوہِ دربھانی پہ بارش ہوئی
بادل گرجنے لگے اور بارش برسنے لگی
بارش برستی رہی ہم بھی چلتے رہے
ہم بھی تیز بارش میں چلنے سے گریزاں نہ ہوئے
پہاڑ کے دامن میں ایک گھر دکھائی دیا
چلو وہاں،جہاں کسی حور کاخیمہ ہے
(تاکہ) میرے امیری ہتھیار(بھیگنے سے)محفوظ رہیں
بادل گرجے جیسے شادی پہ رقصان و مستاں ہوں
طوفانی بارش نے خیمہ کی ایک طناب توڑ ڈالی
محبوبہ خیمہ کے پہلو سے نکلی
ہاتھ سے خیمے کی لکڑی کو مضبوطی سے تھاما
بارش آلود تیز ہوائیں اس کی چادر لے اڑیں
روح چھیننے والے اس کے سینے کے پھول
میری دور رس نگاہوں نے دیکھ لئے
محبت آشنا نگاہیں چار ہوئیں
اس کا چہرہ جیسے چراغوں کا چراغاں
سر(بال)جیسے چھ بار،بل کھائی ہوئی دو ناگنیں
زلفیں جیسے لہراتے ہوئے سانپ ہوں
صحرائی ہواؤں کی طرح رمیدہ خو
تیز جیسے تیغِ بّراں
پرخمارآنکھیں شعاعیں برساتی ہیں
بے قرار عشاق کو جلا ڈالتی ہے
وہ ایسی پر ذائقہ ہے جیسے جنت کے لیموں
میری عقاب جیسی تیز نگاہوں نے ادراک کرلیا
چاروں مورچے یکجا ہوئے
میری خوش قسمتی کہ باغ پک گیا
تخت پہ بیٹھا بادشاہ باخبر ہوا
میں اسی دن مجنون ہوگیا
میں دنیا سے بیگانہ اور مست و مد ہوش ہوگیا
زمستاں کی تکلیف دہ رات آنکھوں میں کٹ گئی
تفکر میں پوری رات جاگ کر گزاری
حضرت علی کو آنکھوں سے لگا کر رکھا
مجھے وحشی،ہلاڈالنے والی ہواؤں نے گھیر لیا
چابک مارنے والے احساسات نے
میں کمرمیں بندھے اپنے کمر بند کھولتا ہوں
انہیں کلیر درخت کی اونچی شاخوں پہ باندھ لیتا ہوں
(تاکہ) کل صبح دوست دشمن ا نہیں دیکھ سکیں
دوست ملول دلوں سے دیکھ لیں
دشمن دُور سے سنگ باری کریں
میں وہاں سے جلد ہی گھر لوٹ آیا
میں نے رنگی ہوئی بھیڑوں کا ایک ریوڑرواں کردیا
خیرات اتنی کردی کہ چھرا سوکھنے نہ دیا
(شالا) سارے درگاہ میں قبول ہوجائیں
اگلی منزلوں میں ہمارے کام آئیں
ایک بات اورہے۔ اور وہ ہے بھی نہایت ضروری بات۔ بات یہ ہے کہ حسن جب بھرپور توازن میں آجاتی ہے،تب وہ عاشق کو مطیع محض بنا کر Cretin(بونا)بنا لیتی ہے جو یسوع کی طرح نہ گنا ہ سوچ سکتا ہے ، نہ گناہ کرسکتا ہے۔( گناہ خود ایک خود ایک مطلق نہیں بلکہ اضافی تصور ہے ۔ اس کے معانی ہر جگہ اور ہر دور میں ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ یہ ہمہ وقت اپنا وجود ، اپنے معانی، اپنی تجسیم ،اور اپنا جون بدلتی جاتی ہے)۔ حسن کے توازن کی بشارت اپنے ساتھ ساری فطرت کو متوازن کر جاتی ہے۔ ہر پہاڑ نغمہ سراہوتا ہے،کائنات کی ہر حرکتRhythmicبن جاتی ہے۔ ہر مظہرلطیف بن جاتا ہے، ہچکولے کھاتا ہوا، رقصاں ۔۔۔خراماں۔
ہمیں معلوم ہے کہ مست کو ‘ گھائل کر ڈالنے والی پہلی نظر کے بعد ،پھر بہت کم بار سمو کی عاشق کُش آنکھوں کا شکار ہونا نصیب ہوا ۔ پھر شاید ہی اُسے اُس کے چہرے پر وہ مخصوص نرم روشنی دیکھنا نصیب ہوئی ہوگی جو اس کے بدن کی رنگت سے مل کر قہر بن جاتی ۔ حسن کی کرشمہ کاری ہمیشہ تو نظر نہیں آتی۔موت آگیں سکوت اوربرباد کر ڈالنے والے سکتے کا لمحہ ایک بار طاری کرکے حسن اپنی تمام فریکوئنسیوں کو بہت مدت بعد ہی دوبارہ یکجا کر پاتی ہے۔ بہت عرصہ بعد جاکر وہ معجزہ دوبارہ رونما ہوتا ہے جب عاشق مکمل طور پر تحلیل ہوکر ریت ،ہوا ،پانی ،درخت جیسے فطرت کے مظاہر میں ڈھل جاتا ہے۔ اور یہی لمحہ سچائی بھی ہوتا ہے،اوروابستگی،پاکیزگی اور لامکانی عمیق محبت بھی۔ باقی ماہ و سال تو اِسی ایک لمحے کے چاکر ہوتے ہیں۔
مگر اس ایک لمحے کے نزول کیلئے اپنی اپنی سمو کا چہرہ ہی چاہیے ہوتا ہے۔ہر گوشت کا لوتھڑا یہ تجلی خارج نہیں کرسکتا۔ اور پھر اس تجلی کی ویولنگتھ ماپنے ،جذب کرنے کیلئے ہرآنکھ نہیں،مخصوص بصارت چاہئے ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ہر آنکھ مست توکلی کی آنکھ نہیں ہوسکتی۔ ہر سمو کی تجلی کے لئے اُسی absorbance والا مست ہی ضروری ہوتا ہے۔۔۔۔ اور ہر مست کو اسی تجلی کا پیالہ پوری زندگی میں دوچار بار ہی پینا نصیب ہوتا ہے۔ بعض تو پہلی جھلک ہی کو ذخیرہ بنا کر اپنی پوری زندگی انا الحق انا الحق جپتے جاتے ہیں۔
بھنگاں پہ ہنر پاریزیں
بھنگ پئے کوہ سراں نا یا تاں
ترجمہ:
بھنگ کمال احتیاط سے ذخیرہ کرلو
بھنگ ہمارے ان کو ہساروں میں نایاب ہیں
یہ جو زندگی بھر مست اپنی سمو کی تعریفیں گاتا رہا ہے ، وہ اسی رسترانی والے بعث بعد الموت کے اولین واقعہ کی ثنا خوانی تھی ۔ بعد میں تو وہ ’’مین ٹے ننس ڈوز ‘‘کے حصول کی خاطر اس روح القدس سے باریابی کا شرف لیتا رہا۔
حوالہ جات و تشریحات
1 ۔گوئٹے؍ریاض الحسن نوجوان ورتھر کی داستانِ غم۔ جولائی2000۔ الحمرا پبلشنگ۔
-2 مست پوڑ (پائپ) پیتا تھا اور یہ پائپ کوئی دو چار ہزار روپے والا نہیں ہوتا تھا۔بلکہ اُسی وقت ڈسپوزیبل پائپ بنایا جاتا تھا اور ایک ہی دفعہ پی کر وہیں پھینک دیا جاتا تھا۔ آج بھی بلوچ یہی کرتے ہیں ۔ یہ ہینڈ میڈ پائپ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک تو اس طرح بنتا ہے کہ آپ چٹائی بُننے والے پیش کا پتہ اُس کے پودے سے اکھیڑ لیں ۔ پھر اسے چاقو سے معمولی عمودی چھید لگادیں اور لمبائی میں باریکی سے اس موٹے پتے کی دو تہیں الگ الگ کرکے ،ایک پھینک دیں اور پتے کے دوسرے بہت باریک اور پتلا ہوچکے حصے کو پیار سے مگر کستے ہوئے اسکے اپنے اوپر اس طرح بل دیتے جائیں کہ یہ اردو کاحرف’’و‘‘ بن جائے۔ اس طرح اُس کے درمیان میں خودبخود ایک نالی بن جاتی ہے ۔ پتلا حصہ ہونٹوں سے لگائیں اور موٹے حصے پر دو تین چھوٹے کنکر ڈال کراوپر تمباکو سے بھردیں۔ کنکر اس لئے کہ کہیں کش لگاتے ہوئے تمباکو آپ کے منہ میں نہ جائے۔ پی لیں،نشہ پورا کریں اور پھینک کر چل پڑیں(ضرورت ایجاد کا باپ ہے!!)۔
پائپ کی دوسری قسم گارے یعنی گیلی مٹی سے بنائی جاتی ہے۔ مُٹھی بھر مٹی لیں،اس پہ چلو جتنا پانی ڈالیں،پھر اسے دو تین تھپڑ ماریں تاکہ اس کی شکل گاجر کی سی بن جائے۔اُس کے پتلے سرے پہ کوئی تنکا ڈالیں آخر تک، اور وہاں اوپر کی طرف تمباکو بھرنے جتنا سوراخ ڈالیں۔ دونوں سوراخوں کو ملانے والا چینل جب بن جائے تو دو تین کنکر ڈال دیں تاکہ تمباکو کش کے ذریعے منہ میں نہ جائے۔ پھر تمباکو بھر کر آژگیژ(چاقماق) اور پتھر کو دو تین بار رگڑیں،نتیجے میں نکلنے والی چنگاریوں سے شورہ لگے پیش کے فائبر کو جلالیں اور تمباکو پررکھ دیں۔ پی لیں اور مزے لیں۔
واضح رہے کہ ہمہ وقت سفر میں رہنے والا مست جب بھی تھک جاتا،تو کہتا’’ بیائیں، پوڑے چکّوں‘‘۔ (آؤ ذرا چلم پی لیں)۔
3۔بختیار خان ،وڈیرہ ،انٹرویو