ایک روز بعد از ظہر پیرک مجھے ملا اوراس نے بتایا کہ رات کو اُس کے بھائی کے حجرے میں غزل خوانی ہوگی۔ اُس نے مجھے عشاء کے بعد وہاں آنے کا کہا۔
میں نے کہا ’’ ٹھیک ہے آج شبِ تعطیل ہے اور مجھے ملا عبدالسلام کے حجر ے میں پلاؤ پکانا ہے۔ جونہی کام ختم کرلوں گا، پہنچ جاؤ ں گا‘‘۔
میں حسب وعدہ رات دس بجے مخدوم ’’ بیل ‘‘ کے حجرے پہنچا۔ اس کا حجرہ پیرک کے حجرے سے تین گناہ بڑا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی دیواروں میں گہرے خانے تھے جہاں لکڑی، کوئلہ اور دوسری چیزیں سٹور کی جاسکتی تھیں۔ حجر ے کے درمیان میں ملا حامد صوتی، زین الدین خواجہ اور پیرک بیٹھے تھے لیکن ’’ بیل ‘‘وہاں نہیں تھا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو پیر ک اپنی جگہ سے اٹھا اور مجھے اپنی جگہ پر بٹھا کر خود کو نے میں بیٹھ گیا ۔
چائے کا دور چلنے کے بعد غزل خوانی شروع ہوگئی ۔ ملا حامد کی آواز نرم اور گہری تھی ۔ زین الدین خواجہ کی آواز بھی بہت اچھی تھی مگر وہ لمبی بحر نہیں گا سکتا تھا۔ گانے کے بعد انہوں نے ایک ہاتھ میں پراتھ اٹھائے اور دوسر ے ہاتھ سے اُسے بجانے لگے۔ وہ ’’ اوفہ ر‘‘ کی دھن بجانے لگے اور پیرک رقص کررہا تھا۔ اس نے اس رقص سے کئی گنا ہ زیادہ بہتر اور استادانہ رقص پیش کیا جو رقص اس نے اپنے حجرے میں کیا تھا۔ ملا حامد اُسے ہدایات دے رہا تھا اور اس کی ادائیگی کو حسین تر بنوارہا تھا۔
چائے کے وقفہ میں میں نے پیرک سے ’’ بیل‘‘ کی عدم موجودگی کا سبب پوچھا۔ اُس نے بتایا کہ ’’ اس کا بھائی ، اسد جان مخدوم کا دوست ہے جو کہ بڑے قاضی کے بھائی کا داماد ہے۔ اور وہ آج اس کے ساتھ شہر میں میر دوستم کے علاقے میں کسی کے ہاں مہمان ہیں۔ چونکہ رات کو اکیلا گھومنا پھرنا اچھا نہیں ہے اور چوروں، غنڈوں کا خطر ہ ہوتا ہے اس لیے وہ میرے بھائی کو ساتھ لے گیا۔ اُس نے وعدہ تو کیا تھا کہ جلد واپس آئے گا۔ پتہ نہیں ابھی تک کیوں نہیں آیا۔
پیرک نے ملا حامد کے پیالے میں چائے ڈالی اور تبسم کے ساتھ اپنی بات جاری رکھی:
’’ میرا بھائی بیل کی طرح طاقتور ہے ۔ اس لیے تو اسے ’’ مخدوم گو‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جب کبھی اس کے ہاتھ میں کوئی چور یا بدمعاش آ جائے تو جب تک وہ اپنے کرتوتوں سے توبہ نہیں کرے، اُس وقت تک اُس کے ہاتھ سے چھوٹ نہیں پایا۔ اس لیے مخدوم اسدجان ، رات کو خوفناک راستوں پر میرے بھائی کے بغیر نہیں جاتا‘‘۔
ملا حامد گفتگو میں شامل ہوا :
’’ ہم غجدوان والے بزم دوست بھی ہوتے ہیں اور رز م دوست بھی۔ اسی لیے ’’ مخدوم گو‘‘ کو، جو کہ مرد میدانِ رز م ہے عزیز رکھتا ہوں اور جس وقت فرصت ملے اس کے پاس آکر غزلخوانی کرکے اسے خوش کرتا ہوں۔ افسوس کہ وہ ابھی تک نہیں آیا‘‘۔
انہوں نے کچھ اور غزلیں گائیں اور کئی دھن بجائے ، پیرک نے خوب رقص کیا۔ رات نیم شب سے بھی آگے بڑھی مگر ابھی تک مخدوم بیل کا کوئی درک نہ تھا۔ ملا حامد نے اپنی گھڑی دیکھی اور پیرک سے کہا : ’’ ہمارے پیٹ بھی ڈھول کی طرح خالی ہیں۔ آگ جلاؤ، پلاؤ پکاؤ تاکہ کھائیں اور سوجائیں‘‘۔
پیرک نے پلاؤ تیار کی۔ اور جب وہ کھانا کھا چکے تب مخدوم بیل آگیا ۔ اُس کی آنکھیں آگ کی طرح سرخ تھیں اور اپنی دائمی تبسم کی بجائے وہ قہقہے لگانے لگا۔ مجھے شک ہوا کہ پاگل ہوگیا ہے اور میں دل میں اس کی اس حالت پر افسوس کررہا تھا۔
لیکن وہ دیوانہ وار قہقہوں کے باوجود ہوشمندی سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے اپنے دیر آنے پہ مہمانوں سے معافی مانگی اور اپنے دیر آنے کا گناہ صاحبِ خانہ اور اس کے مہمانو ں پر ڈالتے ہوئے کہنے لگا۔
’’ ان مخدوموں نے کئی بار مجھے شراب پلا پلا کر آزمائش میں ڈالا ۔ مگر میں ہمیشہ بہ ہوش و حواس رہا۔۔۔۔۔۔ آج رات پھر انہوں نے مجھے اسی امتحان میں ڈالا ۔ انہوں نے جتنا بھی پلایا میں نہ بہکا اور نہ ہی عقل سے بیگانہ ہوا۔ بعد ازاں انہوں نے مجھے بھنگ پلا دی۔ میں نے اس سے پہلے بھنگ کبھی نہیں پی۔ اس کے باوجود ’’ مردے از دست نہ رود‘‘ کہہ کر دو جام بھنگ کے چڑھالیے ۔ دوسرے حالانکہ مجھ سے کم پی چکے تھے ۔ اور بھنگ بھی ایک ایک گھونٹ پی چکے تھے، پھر بھی مکمل طور پر مست و مدہوش ہوچکے تھے۔ اسد جان مخدوم تو بھنگ پینے سے پہلے ہی دھت ہوچکا تھا۔ میں مست تو نہ ہوا لیکن سرمیں شدید درد ہونے لگی۔ میں نے صاحب خانہ کے خدمتگار سے دو ا پوچھی ۔ اس نے اس کی دوا ’’ قروت‘‘ ( ایک طرح کی پنیر) بنائی۔ مگر وہ قروت تلاش نہ کرسکا۔ میں ’’ او کہ جانکم قو روت یافتہ میدھد‘‘ گنگناتا ہوا حجرہ کی سمت روانہ ہوا۔
مخدوم بیل نے یہ ساری باتیں قہقہوں کے ساتھ کہیں۔ جس وقت اس نے آخری فقرہ کہا تو آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ اپنے بھائی کو گلے لگایا اور گریہ کرتے ہوئے اس نے کہا۔
’’ تم تو میری جان ہو۔ میری ساری امیدیں تم سے ہیں۔ ماں کے مرنے کے بعد میں اور تم دنیا میں تنہا رہ گئے ہیں۔ اگر تم قروت ڈھونڈ کر میرے سردرد کی دوانہ کرو گے تو ماں تم سے ناراض ہوجائے گی‘‘۔پیرک نے اسے گھڑی دکھائی اور رات کے دو بجے قروت ملنے کو نا ممکن ہونے کی جس قدر دلیل اور نرم گفتاری سے اسے سمجھانے کی کوشش کی وہ نہ مانا ، اور اپنا مطالبہ اور گریہ بلند آواز میں دھراتا رہا ۔
آخر کار پیرک نے کہا :
’’ ٹھہر جاؤ ، ہمارے اپنے حجرے میں قروت موجود ہے اور مجھے یاد نہ رہا ۔ ابھی دیتا ہوں‘‘۔
’’ شاباش ۔ تمہاری اسی بات سے بغیر قروت کھائے میرا سر درد ٹھیک ہوگیا ‘‘ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ اس نے سر کو خم کردیا، اپنے پیٹ کو دونوں ہاتھ سے مضبوطی سے پکڑ لیا اور قہقہے لگاتا رہا۔ ملا حامد اور زین الدین خواجہ بھی اس کے ساتھ ساتھ ہنستے ہنساتے رہے۔ حجرہ قہقہوں سے گونجتا رہا۔
پیرک نے دیوار سے سیڑھی لگائی۔ اور اس پر چڑھ کر ایک اونچی سوراخ میں ہاتھ ڈال کر چیزیں ٹٹولنے لگا۔ پھر ایک برتن لیے نیچے اترا۔ برتن میں دس بارہ چھوٹے چھوٹے پیاز پڑے تھے جن کے چھلکے اترے ہوئے تھے۔ اس لیے وہ بالکل قروت لگ رہے تھے۔ اس نے پیاز والی تھالی بھائی کے سامنے رکھ دی ۔ وہ قہقہے لگاتا ہوا پیاز خوری میں جت گیا۔ وہ پیاز کھانے کے ساتھ ساتھ چائے کی چسکیاں بھی لیتا رہا۔ وہ قہقہہ لگا تے ہوئے بھائی سے مخاطب ہوا۔
’’ تمہارا یہ قروت تو بہت نرم اور رس بھرا ہے ۔ عموماً تو قروت پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے جس کا چبانا کسی صورت ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مگر یہ قروت نرم ہے ۔ گو کہ تھوڑ ا ترش ہے مگر اس کی یہی ترشی میرے سردرد کو جلد ٹھیک کردے گی‘‘۔
’’ قروت خوری‘‘ کے دران وہ قہقہے لگتا ہوا اپنے احباب والی کہانی سناتا رہا۔
’’ آج میرے ہم صحبت سارے کے سارے بخارا کے نامی گرامی مخدومان تھے۔ یہ مخدوم بڑے احمق ہوتے ہیں۔ عربوں نے ’’ ولد النجیب لا ینجب ، وان نجب ، فعجب‘‘ ( اشرافیہ یعنی بڑے آدمی کا بیٹا ، پاکیزہ آدمی نہیں ہوتا اور اگر بڑے آدمی سے بڑا آدمی پیدا ہوجائے تو اس معجزہ پر تعجب کرو) کہا تو بالکل درست کہا ۔ ان کی مسرت یہی ہے کہ نشہ میں مست الست ہو کر سو جائیں۔ اور اپنے جال میں پھنسے ایک بے چارے کو بھی سردرد دے دیں!۔ میں بھی احمق ہوں کہ ان مادرزاداحمقوں کے ساتھ آشنائی رکھتا ہوں‘‘۔
مخدوم گو پھر گر یہ کرنے لگا۔ سارے پیاز کھا کر ختم کرنے کے بعد پھر قہقہے برسانے لگا ۔ اس نے شکایت کی کہ اس کا سردرد پہلے سے بھی شدید ہوگیا ہے ۔ ملا حامد نے مشورہ دیا کہ مدرسہ کے غسل خانہ میں جا کر سر پر ٹھنڈے پانی کے چند کٹورے ڈالو ۔ اسی وقت سردرد ٹھیک ہوجائے گا۔
مخدوم بیل نے بالٹی پانی سے بھری اور غسل خانہ چلا گیا۔ ہم بھی منتشر ہوگئے۔
میں اگربے وقت بھی سو جاتا تب بھی منہ اندھیرے ہی جاگ پڑتا تھا۔ اس لیے کہ بازار سے چیزیں خرید لانی پڑتیں اور چائے تیار کر نی پڑتی ۔ جس وقت میں بازار جارہا تھا تو مدرسہ کے احاطے میں مخدوم بیل سے آمنا سامنا ہوا ۔ وہ اپنی عادت کے مطابق صرف ایک قمیص پہنے ہاتھ میں چینک تھامے چائے خانے سے آرہا تھا۔ سلام دعا کے بعد مجھ سے کہنے لگا:
’’ تمہارے دوست، پیرک بدبخت نے قروت کہہ کر مجھے پیاز کھلائے ۔ میں اُسی وقت سمجھ گیا تھا۔ مگر اس کا دل رکھنے کے لیے ’’ ہائے ہائے ‘‘ کہتا ہوا کھاتا رہا۔ پیاز نے میرے سرد رد کو مزید بڑھادیا ۔ ملا حامد کی دوائی بہت کار آمد ثابت ہوئی۔ سرد پانی سر پہ گرانے سے درد کو آرام آیا۔ میں آسودہ نیندسویا اور پیرک سے پہلے جاگ گیا‘‘۔
*********
ایک شام کو میں اور پیرک مدرسہ کے احاطے کی طرف جارہے تھے۔ بارش ہورہی تھی ۔ پیرک نے تجویز دی کہ احاطہ کے پچھلے حصے میں کسی دوکان کے برآمدے میں چھت کے نیچے بیٹھ کر شام گزاردیں۔ ہم مدرسے کا احاطہ پار کر چکے تو دیکھا چائے فروش شراف دلال کی دکان کے برآمدے میں مخدوم بیل، ملاحامد اور زین الدین خواجہ بیٹھے تھے اور ملا حامد کے پاس جمال جان نامی نوجوان بیٹھا تھا جو زرگر کا کام کرتا تھا۔ اس کا گھر ہمارے مدرسے ہی کی گلی پہ تھا۔ ملا حامد آہستہ آہستہ ترنم سے غزل خوانی کررہا تھا۔ ہم بھی ان کی قطار میں جا گزین ہوئے۔
اسی وقت زرگروں کے محلے سے جو کہ مدرسہ میر عرب کے مشرق میں واقع تھا دو آدمی نمودار ہوئے۔ ان میں سے ایک بلند قامت، تنو مند اور سفید چہرہ والا شخص تھا جس کی ہیبت ناک مونچھیں تھیں۔ وہ تیس برس کا لگتا تھا۔ اس کے ساتھ 25 سالہ سیاہ چہرے والا نوجوان تھا۔
جس وقت یہ دونوں ہمارے سامنے آئے تو بلند قامت آدمی نے زرگر سے مخاطب ہوکر کہا :
’’ جمال جان ۔ تم نے ذرا مضبوط حامی ڈھونڈ رکھے ہیں ، لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خواہ سو آدمی بھی ساتھ رکھو تب بھی بھتہ دینے سے نہیں چھوٹ سکو گے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ اس بلند قامت شخص کی بات ملا حامد کو بہت بری لگی اور اس نے چاہا کہ اس کے پیچھے جائے اور کسی گلی میں اس سے لڑے مگر مخدوم بیل نے منع کیا اور کہا :
’’ اس آدمی کو ‘‘ روزی ءِ بد بروت ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بد معاش ہے ۔ اسے اپنی طاقت پر بہت گھمنڈ ہے۔ اس کے ساتھ تمہارا دست و گریبان ہونا مناسب نہیں ۔ یہ کام مجھ پر چھوڑدو ۔ مناسب وقت پر میں اسے خود سبق سکھاؤ ں گا‘‘۔
پھر مخدوم بیل نے جمال جان سے پوچھا:’’ اس کا تم سے کیا جھگڑا ہے ؟‘‘۔
جمال جان نے کہا :’’ یہ شخص ایک دن جو لاہو ں کی گلی میں مجھے ملا۔ اس نے میرا چوغہ میرے جسم سے اتارا اور کہا :
ٍ ’’ تمہارے اس چوغے سے میری تسلی نہیں ہوگی۔ اگر سلامتی اور عزت چاہتے ہو تو ہمیشہ مجھے بھتہ دیا کرو ‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔ ایک ہفتہ بعد اسی نوجوان کے ساتھ میری دکان پر آیا۔ میں چاندی کی تار باریک کررہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا :
’’ تمہاری مصروفیت تو زیادہ ہے ‘‘ ۔اس نے یک دم اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ‘‘ ہم دونوں کو ایک ایک انگوٹھی دے دو‘‘۔
میں نے دو چاندی کی انگوٹھیاں دے دیں۔ اس نے قبول نہ کیں۔ ’’ سونا چاہیے‘‘ کہا۔ نا چاراُسے ایک انگوٹھی سونے کی دیدی اور اس کے ساتھی کو چاندی کی دینی پڑی۔ یہ تیسری بار ہے کہ اس سے آمنا سامنا ہوا ۔کل وہ آئے گا اور کسی چیز کا مطالبہ کرے گا۔جمال جان کی آنکھیں نم ہوگئیں اور اس نے رندھی ہوئی آواز میں اپنی بات جاری رکھی:
’’ اب یا تو میں اپنی کمائی آہہستہ آہستہ اُسے دیتا رہوں ، یا پھر دکا ن بند کرکے گھر بیٹھ جاؤں‘‘۔
’’ تم پریشان مت ہو ‘‘ ۔مخدوم بیل نے جمال جان سے کہا اور اس کے ساتھ یہ گفتگو ختم ہوئی اور ملا آہستہ آہستہ گانے لگا۔
********
شراف دلال کی دکان کے واقعہ کے چند روز بعد میں عصر کے وقت احاطہ میں آگیا ۔ طالب دو دو ، چار چار کی ٹولیوں میں احاطہ میں ادھر ادھر بیٹھے گپیں لڑارہے تھے۔ ان میں پیرک موجود نہ تھا۔ میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ کس گروہ میں جا بیٹھوں کہ اسی وقت پیرک اپنے حجرے سے نکلا اور کسی بھی گروہ کی طرف دیکھے بغیر وہ احاطہ کے شمالی زینہ کی طرف تیزی سے روانہ ہوا۔ میں نے آواز دی اور پوچھا کہ اس سرعت سے کس طرف جارہے ہو تو اس نے مجھے اپنے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی راہ چلتا رہا۔
میں دو چوکڑیوں میں سیڑھیوں کے قریب اُس تک پہنچ گیااور ہم دونوں پہلو بہ پہلو زینے اترنے لگے ۔ وہ بڑی سڑک سے مغرب کی طرف روانہ ہوا، اور میں بھی اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
جب ہم گنجان آبادی سے ہوتے ہوئے کم آبادی والی گلی میں پہنچے تو میں نے اس سے پوچھا۔
’’ اس تیزی سے کہاں جارہے ہو اور مجھے کہاں لے جانا چاہتے ہو ؟‘‘۔
اس نے قدم نرم کردیے اور کہنے لگا :
’’ روزی ءِ بد بروت اور جمال جان کا واقعہ یاد ہے ؟‘‘۔
’’ ہاں‘‘۔
’’ کل میرا بھائی روزی ءِ بد بروت کی دعوت کرکے اسے اپنے حجرے لایا تھا۔ میں نے پلاؤ پکایا ۔ کھانے کے بعد بھائی نے اس سے کہا ’’ روزی بائی ۔ تم پہلوان آدمی ہو ، تمہارے لیے عیب کی بات ہے کہ بد معاش بنے پھرو۔ تم اتنے زور مند ہو کہ جس کام اور کسب کو ہاتھ لگاؤ تو بادشاہی جتنا کمالو گے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ا ن بدکاریوں کو ترک کرکے مردانہ وار زندگانی گزارو‘‘۔
روزی سر جھکائے ، آنکھیں نیچی کیے ہاتھ کی دو انگلیوں سے حجرہ کی دری کے پشم سے کھیلتے ہوئے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ جس وقت بھائی نے اپنی بات ختم کردی تو اس نے آہستگی اور فکر مندی سے کہا ’’ امیر بخارا کے پاس پھانسی بھی ہے اور جیل بھی ، وہ مجھے اپنی راہ سے نہ ہٹا سکا ۔ اب آپ چاہتے ہیں کہ بڑھیا ؤں جیسی نصیحتوں کے ذریعے مجھے اپنی راہ سے ہٹائیں گے۔ لیکن میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ بھی اپنے دل سے یہ بات نکال دیں‘‘۔ روزیِ بد بروت نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، پانچ تنگہ نکالے اور انہیں ’’ یہ پیسہ آپ کے پلاؤ کا ہے ‘‘ کہہ کر دری پہ رکھا۔ میرے بھائی کی طرف دیکھے بغیر اپنی جگہ سے اٹھا۔ بھائی نے اس سے کہا ’’ میرا حجرہ ہوٹل نہیں ہے، اپنا پیسہ اٹھا کر لے جائیے۔ میں آپ کی گلی میں آکر مردانہ نصیحت کر جاؤں گا‘‘۔ بھائی نے یہ باتیں نہایت آرام اور مہربان اور تبسم سے کہیں۔ روزی نے جوتے پہن لیے۔ ’’ یہ پیسہ بھی وہیں مجھے دے دیں۔ میں ہر روز عصر کے وقت آپ کے ’’ قدم رنجہ فرمانے‘‘ کا منتظر رہوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ حجرہ سے باہر چلا گیا۔ آج عصر کے وقت بھائی نے بہانے سے مجھے گھر بھیج دیا۔ میں گھر سے جلد واپس آیا تو دیکھا وہ حجرے میں نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ روزی ءِ بد بروت کی گلی گیا ہو۔ مجھے گھر اس لیے بھیج دیا تاکہ میں اس ’’میدانِ جنگ‘‘ میں اس کی ہمراہی نہ کرو ں تاکہ دشمن یہ نہ کہہ سکے کہ ’’ بیل ‘‘ اپنی مدد کے لیے بچھڑا ساتھ لایا ۔ لیکن میرا جانا لازمی ہے۔ مبادا اس پہ بری افتاد پڑے ، میں اس کی حالت سے با خبر تورہوں‘‘۔
ہم قصابوں کے محلے سے، لوہار گلی اور وہاں سے گزرتے ہوتے تیر گران گیٹ تک پہنچے اور وہاں سے شمال کی طرف مڑ کر صابن فروشی محلّہ سے ہو کر مغرب کی جانب مڑے اور وہاں سے خربوز وانگور فروشی کی دکانوں سے گزر کر’’ استاروحی‘‘ پہنچے جہاں روزی ءِ بد بروت کا گھر تھا۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو مخدوم بیل کچھ بوڑھوں سے گفتگو کررہا تھا۔
’’ ابھی تک کام مکمل نہیں ہوا۔ ہم وقت پر آپہنچے‘‘ ۔پیرک نے کہا اور بھائی سے دور کھڑا ہونے کو مناسب جانا۔ ہم دائیں طرف ایک کونے پر کھڑے ہوگئے۔
اسی وقت روزی ءِ بد بروت اپنے شاگرد کے ساتھ مسجد کے پیچھے والی ایک گلی سے نمودار ہوا ۔ شاگرد کو وہیں چھوڑا اور خود مسجد کے سامنے جاکر سفید ریشوں سے پوچھا۔
’’ کیا خدمت؟‘‘۔
’’ ہم تم سے کیا خدمت کہیں گے ؟‘‘۔ ان میں سے ایک بوڑھا بولا ’’ ہمارا تمہیں مشورہ یہ ہے کہ مخدوم کی نصیحتوں پہ کان دھرو اور اپنی راہ سے تائب ہوجاؤ‘‘۔
’’ پھر وہی بڑھیا ؤں والی نصیحتیں؟ ‘‘ ۔بد بروت نے کہا ۔
’’ اگر چاہتے ہو تو مردانہ نصیحتیں بھی سنو گے ‘‘۔ مخدوم نے کہا۔
روزی ءِ بد بروت نے اپنا چوغہ اتارا اور ہوا میں اچھا ل دیا۔ اور گلی کے درمیان آن کھڑا ہوا۔
’’ یہ میدان ہی بتا سکے گا کہ مرد کون ہے‘‘۔
روزی نے ایک بیلٹ باندھ رکھا تھا جس کے بائیں طرف ایک بڑی سی خنجر لٹک رہی تھی۔
بیل وزنی انداز میں اپنی جگہ سے اٹھا، مسکراتا ہوا روزی کی طرف گیا اور اپنے دونوں ہاتھ دونوں پہلوؤں سے اس کی بیلٹ پہ مارے۔ اور اس کے دائیں ہاتھ میں روزی کے بیلٹ اور خنجر تھے۔
روزی جو کہ مخدوم سے قد میں لمبا تھا، نے دونوں پنجے سخت ضرب کے ساتھ اس کے کندھوں پہ مارے اور امبور کی طرح محکم رکھتے ہوئے پوری قوت سے انہیں ہلانے لگا۔ مگر مخدوم ایسے ستون کی مانند ہلے بغیر کھڑا رہا جو کہ آدھے حصے تک زمین میں گڑا ہو۔
جب زور کرنے کی باری مخدوم کی آئی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے سر تک بلند کیا۔ روزی دیر تک مخدوم کے سر کے اوپر اس کے دونوں ہاتھوں میں معلق سکڑتا مرڑتا رہا۔
روزی کا شاگرد اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑا۔ جونہی وہ نزدیک پہنچا۔ مخدوم ایک پاؤ ں پر کھڑا رہا اور دوسرا پاؤں اس کی زیر ناف پہ اس سختی سے مارا کہ وہ پتھر کھائے کتے کی طرح چیختا چلاتا پیچھے جا کھڑا ہوا۔
مخدوم نے روزی کو اپنے ہاتھوں میں معلق رکھا تھا۔ وہ تیز رقاص کی طرح تیزی سے گھومنے لگا۔ روزی ہوا میں ہاتھ پاؤں مارنے لگا مگر نہ ہاتھ مخدوم تک پہنچ سکے نہ پاؤں۔ آخر کار مخدوم نے اس کے بے سدھ جسم کو زمین پہ دے مارا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور اس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اور انہی سے روزی کا گلا دبانے لگا۔ اس نے کئی منٹ تک اسے اسی حالت میں رکھا۔
گلی تماش بینوں سے بھر گئی۔ ظاہر تھا کہ وہ سب روزی کی بدمعاشی سے تنگ آگئے تھے اور کوئی بھی اُسے بیل سے چھڑانے آگے نہ بڑھا ۔ حتیٰ کہ جب روزی کے شاگرد کی سانسیں درست ہوئیں اور وہ دوبارہ مخدوم پر حملہ کرنے بڑھا تو تماش بینوں نے اسے یہ کہہ کر پیچھے دھکیلا کہ ’’ لڑائی شیطان کا پیشہ ہے‘‘۔
جب مخدوم نے روزی کے گلے کو ذرا سا ڈھیلا کیا، تو اس نے صدا لگائی:
’’ میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ شہر چھوڑ دوں گا‘‘۔
یہ قسم بخارا کے چاقو بازاور بدمعاش لوگوں کا سب سے بڑا قول اور قسم تصور ہوتی تھی ۔ ان بد معاشوں میں سے جو کوئی بھی اس قسم سے پھر جاتا تو اسے قتل کردینا گویارواہوجاتا۔
مخدوم بیل نے روزی ءِ بد بروت کا گلا چھوڑ دیا، اس کے سینے سے اٹھا اور اسے بازؤں سے پکڑ کر اُسے اٹھنے میں مدد دی۔
جس وقت روزی کھڑا ہوگیا اور اس کے رو برو ہاتھ باندھ رکھے تھے ، مخدوم نے اپنی جیب سے پانچ تنگے نکالے اوراس کی طرف بڑھائے۔
’’ اب تم نے توبہ کردی؟‘‘ ۔اس نے پوچھا۔
’’ میں نے تو بہ کر لی‘‘ ۔کہتے ہوئے اس نے مخدوم کے ہاتھ سے تنگے لے لیے۔
ہم ’’ فاتحانہ ‘‘ مدرسہ واپس آگئے۔