ناشتہ فندق بوستان کے ساتویں فلور کی چھت پر ہوتا۔ کوئی چھ مرلے کے رقبے پر محیط ایریا کھڑے اور بیٹھے راڈوں پر پڑی ترپال کے نیچے کُرسیوں میزوں سے سجا کچھ ایسا گھٹیا تاثر بھی پیش نہیں کرتا تھا۔ کھرڑ کھرڑ کرتی لفٹ سے جب ہم اوپر پہنچتے تو نئے نئے چہرے نظر پڑتے۔ متعارف ہونے کا ہم تینوں کو حد درجہ شوق تھا۔ دُنیا کے وجودی نقشے پر بکھرے نقطوں انڈونیشیا کے قریب بحر ہند کے پانیوں میں جزیرہ کرسمس اور ینگیپ بحرالکاہل کے انتہائے شمال میں امریکہ کے زیرِقبضہ جیسی جگہوں کے لوگ جنہیں ہم اکثر حیرت سے دیکھتے اور اُن علاقوں کے بارے میں دریافت کرتے اور جانتے۔
ہفت منزل عمارت کی بیرونی دیوار کے پاس کھڑے ہونا بھی ہمارے لیے ناشتے ہی کی طرح ضروری تھا۔ چمکدار دھوپ میں قاہرہ کی عمارتوں کے بالائی حصے اپنی خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کے ساتھ نظر آتے۔ دور قاہرہ کی پستہ قامت پہاڑیاں بھی جلوہ دکھاتیں۔
صرف دودنوں کو چھوڑ کر بقیہ دنوں میں آسمان شفاف اور نیلا کچور تھا۔ دھوپ میں چمک تھی اور ہواؤں میں تیزی۔
ابی دوس کا اٹھارہ سالہ احمد نصر جو اپنی جینز کی عقبی جیب میں ہمہ وقت اپنی منگیتر لیلیٰ بحجت کی تصویر رکھے پھرتا ہے۔ جو اس کی بھونرا سی آنکھوں اور سیاہ بالوں پر عاشق ہے اور جس نے ہم لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شادی کے بعد بحجت کے ساتھ پاکستان آئے گا۔ناشتے کی میز سجا کر ہمیں آنے کے لیے اشارہ دیتا ہے۔ یہ ناشتہ ایک اُبلا ہوا انڈہ چار سلائس مکھن اور جیم کی چھوٹی ڈبیوں بہترین چائے کے کپ پر مشتمل ہوتا۔
مسکراتے ہوئے احمد نصر سکندریہ کے بارے میں ہمارے تاثرات پوچھتا ہے۔
’’اتنے دن‘‘ وہ ہمارے تین دن رہنے پر حیرت زدہ سا تھا۔ لوگ تو صُبح جاتے ہیں اور شام کو واپسی کر لیتے ہیں۔
’’لو یہ تو ابھی بھی آنے پر آمادہ نہیں تھی۔‘‘ مہر النساء کو کوئی اپنا ہمنوا ملا تھا۔
’’احمد نصر نہ تو یہ تم جانو گے اور نہ یہ ہماری مہرالنساء سمجھے گی کہ سکندریہ کیا ہے؟‘‘
پتہ نہیں کیسے مہرالنساء نے میری یہ بات پی لی۔
رات کوئی ساڑھے سات بجے قاہرہ اسٹیشن پہنچے تھے۔ رش کا طوفان تھا ۔ اسٹیشن سکوائر کے پُلوں کے نیچے اور اوپر سے ٹریفک کا دھواں دھار ریلا دل دہلا تا تھا۔ یہیں گلابی گرینائٹ کا رعمیس دوم کا مجسمہ کھڑا تھا۔ ٹیکسی والا کوئی قریب نہیں پھٹک رہا تھا۔
ایسی بوکھلانے والی صورت میں ثنا نے کہا۔
’’چلو غزہ چلتے ہیں۔ لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو بھی دیکھ لیں گے ۔ غزہ کے لیے ٹیکسی بھی آسانی سے مل جائے گی۔ ‘‘
’’حواسوں میں تو ہو نا ثنا۔‘‘ میرا میٹر گھوم گیا۔
’’ان پٹاروں کے ساتھ جنہیں تم اور مہرالنساء کلیجے سے لگا کر لائی ہو۔ کوئی چیز ٹوٹ گئی یا تمہارا کوئی شاپر اِدھر اُدھر ہو گیا تو نتھنوں سے نکلتی ہر سانس کے ساتھ تاسف میں لپٹی آہ بھی باہر آئے گی جو تمہارے اِس مزے کو کِرکِرا کر کے رکھ دے گی۔ اور یوں بھی ہوٹل چل کر سٹور سے سامان نکلوانا ہے۔ کمرہ بھی دیکھیں اب کیسا ملتا ہے۔‘‘
سارے مرحلے تھکا دینے والے اور کوفت سے لبا لب بھرے تھے۔ کوئی گیارہ بجے بستروں پر لیٹے تھے۔
چائے خوب گرم اور مزے کی تھی۔ گلف والوں سے ٹکٹ کی کنفرمیشن کے بعد دوپہر کا کھانا آفتاب لوگوں کے ساتھ کھانا تھا۔ شام اولڈ قاہرہ کے گلی کوچوں میں آوارہ گردی کی نذر کرنی تھی کہ وہاں سے غزہ تو نزدیک تھا اور رات کو شو دیکھنا تھا۔ اور کل دو بجے کی فلائٹ سے بُدھو گھروں کو لوٹ رہے تھے۔
آفتاب اور نوید دونوں نے ہمیں گیارہ بجے گلف والوں کے دفتر سے پک کیا۔ دونوں قاہرہ جدید میں رہتے تھے۔ بہترین شاپنگ پلازے خوبصورت فلیٹ۔ شاندار سڑکیں۔
آفتاب بتاتا تھا ۔ مصری کا جب تک گھر نہ ہو وہ شادی نہیں کرتا۔باپ دادا کے بعض اوقات وسیع وعریض مکان بٹتے بٹتے ٹکڑیوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
کھانا لذیذتھا۔ میزبان اگر پاکستانیوں کے لیے ترسے ہوئے تھے تو ہم اچھے کھانوں کو۔ لہٰذا دونوں نے حق ادا کیا۔ دونوں نے اپنی اپنی پیاس بُجھائی۔ تین بجے آفتاب لوگوں نے ہمیں التحریر سکوائر چھوڑا جہاں سے گڑ گڑ دڑ دڑ کرتی ٹرام ہمیں اولڈ کوپٹک لے آئی۔ یہاں سے اہرام کا علاقہ خاصا نزدیک تھا۔
شام کا حُسن صحرا پر ٹوٹ کر برس رہا تھا۔ اہرام کو صبح کی روشنی میں دیکھا تھا پر شام میں تو حُسن و رنگ کا طوفان آیا ہوا تھا۔ میں نے وارفتگی میں ڈوبی نگاہیں اپنے گردوپیش پر ڈالیں ۔سونے کے رنگ میں ڈوبی تپش سے عاری کرنیں سنہرے ماحول کی ہر شے کو جیسے رعنائیوں کے پیرہن پہنا رہی تھیں۔ کہیں اونٹوں کی گردنوں کے شوخ رنگ دھاگوں کے ہار ان کی گھنٹیاں گورے گوریوں کا کلکاریاں مارتے ہوئے اُن پر چڑھنا اُترنا اور نرم دم ہواؤں کا دھیرے دھیرے آہستگی سے سبک خرام پانیوں کی طرح بہنا کس قدر مسرور کن تھا۔
شام کا حُسن بے مثل تھا اور آنکھوں کے راستے دل میں اُترتا جا تا تھا۔ ابوالہول کے مجسمے کی طرف بڑھتے ہوئے میں کہیں صحرا کی وسعتوں میں گُم تھی۔ فطری حُسن کے سب لازموں سے محروم ہریالی کے نام پر ایک جھاڑی بھی نہیں ۔ کوئی چشمہ کوئی آبشار کچھ بھی نہیں ۔پر ایک انوکھے اور ہیبت بھرے حُسن سے مالا مال۔
سیاحوں کے گروہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے باتیں کرتے قہقہے لگاتے ابوالہول کے مجسمے کی طرف رواں دواں تھے۔
اپنے دامن میں عظمت سمیٹے سمے کی بھی کیا شان تھی۔ کیا آن تھی۔ ہم بھی اسی ہجوم کا حصہ بنے آگے بڑھتے جاتے تھے۔ وقت اپنے حُسن کو دھیرے دھیرے گہن لگا تا جا رہا تھا۔ برقی روشنیاں جل اُٹھی تھیں۔ اوپن ائیر تھیٹر میں رنگین کرسیوں پر بیٹھنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔ اندھیرا گہرا ہونے کے ساتھ ماحول کی پُر اسراریت بڑھ گئی تھی۔ کھُلی چھت کے نیچے تیز روشنیوں میں تیز رفتاری سے نشستیں پُر ہورہی تھیں۔
یک دم تھیٹر ہال کی ساری روشنیاں گُل ہو گئیں۔ پورا ماحول گہرے اندھیرے میں ڈوب گیا۔ پھر روشنیوں کے عکس جھلملائے مگر یہ جھلملاہٹ ابوالہول کے چہرے کے ارد گرد تھی۔ ایک خوفناک گونج دار تیز اور اونچی آواز جس نے سناٹے کو قینچی کی طرح کُترا تھا۔ ابوالہول بول رہا تھا۔ کیا بول رہا تھاسمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ پر جیسے اُس آواز نے اُس ماحول کو پل بھر میں اپنی گرفت میں جکڑ لیا تھا۔ اس وقت ہوا میں تیرتی یہ بھاری بھرکم آواز ہی جیسے سمے کی وہ سچائی تھی جو ہمیں اُٹھا کر کہیں ماضی کی گھور وادیوں میں لے گئی تھی۔
ایک کہانی شروع تھی۔ فراعنہ دور کے مختلف کردار بیتے وقت کو دہرا رہے تھے۔ ایک کے بعد ایک عہد زندہ ہو کر سامنے رقصاں تھا۔ پس منظر کی موسیقی روشنی کے بدلتے زاویوں میں اہرام کے مختلف حصو ں کی جھلک ستاروں بھرا آسمان اور سامنے بکھرا صحرا سب مسحور کن تھا۔
کہانی پھیلتی گئی ۔ پھر اس تاثر کے ساتھ سمٹتی چلی گئی کہ ابوالہول لافانی ہے وقت سے ہر چیز ڈرتی ہے پر وقت اہرام مصر سے ڈرتا ہے۔
سچ تو یہ تھا کہ سمجھ نہ آنے کے باوجود یہ اس قدر ڈرامائی تاثر کی حامل تھی کہ اکثر ہمیں یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے سانس کہیں رُک گیا ہے اور آنکھیں جھپکنے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہیں۔
اور جب روشنیاں جلیں تو ہم لوگوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ بلا شبہ یہ ایک عمدہ پیشکش تھی جسے ماحول اور اس کی ہیبت نے چار چاند لگا دئیے تھے۔
اُٹھے تو محسوس ہوا جیسے کسی الف لیلوی داستان کا حصّہ تھے۔ یہ پروگرام قطعی مِس کرنے کے قابل نہیں تھا۔ چلو اﷲ کا شکر ہے کہ ہم نے دیکھا اور محظوظ ہوئے ۔ ہنستے کھِل کھِل کرتے کوئی ساڑھے بارہ بجے ہوٹل آئے۔ قاہرہ قابل تعریف ہے کہ یہاں کوئی ڈر ڈکر اور خوف سِرے سے موجود نہیں۔ سیاح محفوظ۔ جوان عورت محفوظ۔ ڈالر محفوظ۔ مصری پاؤنڈ محفوظ۔ سامان اور چیزیں محفوظ تھیں۔
میں تو فی الفور سو گئی۔ وہ دونوں پیکنگ کے جھمیلوں میں اُلجھی پتہ نہیں کب تک جاگیں۔ صبح کوئی گیارہ بجے پاکستان ایمبیسی سے سفیر صاحب کا فون تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہم لوگ بارہ بجے ایمبیسی آ جائیں تو ملاقات ہو جائے ۔ ہمارے بارے میں آفتاب نے اُن سے بات کی تھی۔ کل دوپہر کے کھانے پر وہ بھی آفتاب کے ہاں مدعو تھے۔ انہیں آنا بھی تھا پر پھر کسی مصروفیت کی بنا پر وہ نہ آن سکے۔
ارے میاں گھنٹہ بعد تو ہم ہوائی اڈے جانے والے ہیں۔ آپ کے پاس کس وقت آئیں۔ فون بند کرتے وقت میں نے خود سے کہا تھا۔
نیل میں میں نے سکّے نہیں مصری پاؤنڈ پھینکا ہے۔ تاکہ اپنی روایت کو سچ ثابت کرتے
ہوئے وہ مجھے دوبارہ بلائے۔
الوداع قاہرہ ۔ الوداع مصر۔ تمہیں نہ دیکھنا بہت بڑی محرومی تھی۔ بہت پسند آئے ہو۔
شاد رہو ۔ آباد رہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے