وہ پہاڑی بستی تھی۔ مگر عجب تنگ سی بستی۔’’ ہوا تو گزر جاتی ، مگر وقت وہاں اٹکا ہی رہ جاتا‘‘۔ یہ بات اُ س بستی کے ایک عقلمند بوڑھے نے کہی تھی ۔ اور پھر شہر کے ایک سمجھدار جوان نے اُس بستی میں جاکر دیکھا تو عجب دیکھا:وقت وہاں کھڑا ہے، جانے کتنے وقتوں سے، تاریخ کبھی گزری نہیں۔ وہ بستی کہ سمتیں اُسکی چار نہیں صرف تین تھیں۔ اُونچے اُونچے پہاڑوں کی تیکھی تیکھی چوٹیاں، بس ایک راستہ ۔ ذرا سا آگے جاکر چھوٹی سی پہاڑی پر چڑھ کر نیچے اُتر جاتا اور تھوڑے سے فاصلے پر زندگی کا چشمہ، شفاف میٹھا ٹھنڈا پانی ہلکے سروں میں گاتا ہوا دھارا نیچے اُترتا۔ بس وہیں سے مشک بھری جاتی ۔ وہیں پہ ہاتھوں کا چُلو بنا کر پانی پینے کے بعددو چھپاکے منہ پر بھی ڈال لیا جاتا۔ اُس جگہ کسی بستی کے ہونے کا سبب شاید وہی چشمہ تھا، سال کے نو دس مہینے چلتا رہتا۔ جب برف گرتی تو جم جاتا اور تب اُس گمنام بستی کے کاریگر لوگ چٹی سفید برف جمع کرکے برتن میں بھر لاتے اور آگ پہ پگھلا کر پانی بنا لیتے۔
بستی میں آباد ی کتنی تھی۔ بس کچھ جھُگیاں کچھ خیمے، کچھ عورتیں کچھ بچے چند بوڑھے اور بھیڑ بکریاں اور دُنبے چکی والے۔۔۔۔۔ مرد لوگ تو کم ہی دکھائی دیتے باہر ۔ اور کہیں جاکر مزدوری کرتے۔ کسی طرح کچھ اناج گھرلے آتے ۔لکڑیاں چُن لانے کا زیادہ کام بچوں کا تھا اور باقی سب کچھ عورتیں کرتیں۔ دراصل یہ زندگی زیادہ تر عورتوں کے سر پہ چلتی تھی۔ لیکن عورتوں کے دم سے سانس لینے والی زندگی میں عورتیں اپنے لئے بس اُتنا ہی کرسکتی تھیں جتنا کہ بھیڑیں کرسکتی ہیں۔
لیکن اُنہیں خیموں میں جہاں زندگی عورتوں کے پاؤں پہ چلتی اور صرف عورتوں کی چوڑیوں میں کھنکتی ہے، ایک خیمہ ایسا بھی تھا ، جہاں زندگی ہلتی ڈولتی نہیں تھی، بس چُپ چاپ پڑی رہتی ۔ وہ عورت اندھی اُدھوری تو تھی ہی بہت اکیلی بھی تھی۔ گل جان جسے گلی کہہ کر پکارا جاتا ،کسی کی ذمہ داری نہیں تھی۔ وہ پیدائشی اندھی تھی، لیکن جوانی کے قریب آکر اُسکا مول کچھ بڑھ بھی گیا تھا۔ دو بھیڑوں کے برابر۔ اُسکے بدلے میں باپ کو صرف دو ہی بھیڑیں ملیں۔ اور مراد جو اسے بیاہ کر لایا۔ اُسکے پاس بھی صرف دو ہی بھیڑیں تھیں۔ دو بھیڑیں ہوں یا ایک عورت آدمی اُتنا غریب بھی نہیں ہوتا۔ لیکن آج دس بارہ سال کے بعد تو وہ بہت غریب تھا، کہ اُسکی عورت بیکار تھی۔ لکڑی نہ پانی، پھر،شاید اُسکی کوکھ بھی اندھی تھی۔ دس سال میں پانچ چار لڑکیاں جن لیتی تو کتنا بڑا مستقبل ہوجاتا ۔۔۔۔ ویسے یہ بد نصیبی آگے پیچھے تک پھیلی ہوتی تھی۔ گلی کے باپ کی بد نصیبی کہ اسکی ایک ہی لڑکی ہوئی وہ بھی اندھی صرف دو بھیڑیں ولور۔ ادھر مراد کے ماں باپ کے ساتھ بھی یہ ہوا کہ لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے لڑکی کوئی نہ ہوئی۔ اتنے لڑکوں کے لئے لڑکیاں خریدنا!۔ اب اسی وجہ سے دونوں گھروں کی مائیں جو جلدی مر گئیں۔ انہیں بیٹوں کی مدد کے بغیر زندگی کا سارا بوجھ ڈھونا پڑا اور وقت سے پہلے کمزور ہوکر مر گئیں۔
ساس مر گئی تو گلی خیمے میں بالکل اکیلی رہ گئی۔ اب اکیلی اندھی کیا کرے ؟ پانی بھر کے لائے؟ چکّی ، ہاں وہ چکی پیس لیتی تھی۔ آٹا گوندھنے اور روٹیاں پکانے کا کام دوسرے خیمے کی عورت بھاڑے پر کردیتی ۔ یعنی وہ چار روٹیاں پکاتی تو ایک مانی خود رکھ لیتی۔ مُراد پانی کی مشک بھرنے جاتا تو اُسے بُرا لگتا۔ کیونکہ یہ کام صرف عورتیں کرتی ہیں۔ وہاں کوئی اور مرد یہ کام کرتا ہوا دکھائی نہ دیتا۔ بس عورتیں وہ بھی ایک ساتھ نکلتیں اپنے چوغے اور چادریں سنبھالتی ہوئی باتیں کرتی ہوئی آتیں ، لیکن جب میری مشک سنبھال کر چلنا ہوتا تو چُپ چاپ اور سنبھل کر بس چلتی رہتیں۔ مراد جو ان سب کے بعد اپنی مشک بھرتا تھا صرف اُنکے پاؤں ہی دیکھتا یا آوازیں سنتا ۔ اُسکا کتنا دل چاہتا تھا کہ اُن عورتوں میں سے ایک عورت اُسکی بھی ہوتی۔جوان ڈھلانوں سے اُتر کر پانی بھر لائے۔ ایندھن جمع کرکے روٹیاں پکائے۔اِس زندگی کو بدلنے کے لیے ایک عورت ہی چاہیے تھی۔ آنکھوں والی جوان تندرست عورت جوہر وقت مصروف رہے۔ کبھی کبھی بولے، اُسے آنکھوں سے پُکارے اور پھر ایک سال چھوڑ کر ایک بچہ۔۔۔ کئی لڑکیاں، خوشی اور خوشحالی عورت اور بھیڑ کے دم سے۔۔۔ کیا خواب تھا!
کب ہوگی تعبیر ؟عمر تو بیتتی جارہی تھی ، بڑھاپا تو بُرا خواب ہوگا ، ایک اندھی عورت ایک بوڑھا آدمی!
اب اگر وہ کوشش کرے تو ۔۔۔ نئی عورت جوان نہیں ہوگی خوبصورت بھی نہیں۔ غریب اور ادھیڑ عمر کا مرد، جوان عورت کامول بھرنا۔۔۔ ہاں چھوٹی لڑکیاں سستی ہوتی ہیں ، مگر انکی قیمت اور سن بلوغت تک روٹی کپڑا دینا اور جب دلہن کو گھر لائے تو عمروں اور جسموں سے اتنا فرق کہ دادا پوتی یا نانا نواسی لگیں۔
مراد کی الجھن اب بے چینی کی اس حالت کو پہنچ رہی تھی، جسے انگریزی میں ڈسپریٹ ہونا کہتے ہیں ۔ کوئی راستہ، کوئی طریقہ،کوئی رقم،کسی بھی طرح سے! ایک جوان عورت کی قیمت،بھلے وہ حُسن پری نہ ہو،مگر لڑکیاں جنے اور پانی بھرلائے۔۔۔
انسان کا ذہن ایک بڑا جنگل ہے جانے کیا کچھ چھُپا رہتا ہے ۔ایک دن مراد بھی اُس جنگل میں اپنی سنجوٹی ڈھونڈنے کو نکلا۔۔۔ ایک ترکیب تھی روپیہ حاصل کرنے کی ۔ نہیں بھائی وہ چوری ڈاکے کی بات بالکل نہ تھی۔ اِن خیموں میں چرانے کو کیا رکھا ہے۔ڈاکہ تو شہر جاکر ہی ڈالا جاسکتا ہے مگر اسکے پاس اتنی مہارت کہاں تھی۔ اس کی سات پشتوں میں کسی نے ایسے کام نہ کئے تھے۔ اور پھر کسی ایسے کام سے اسکا مقصد پورا ہو۔ اسکے لئے ایک شہر بھی تو چاہئے پورا شہر جہاں سونا چاندی ہوتا ہے ۔ گو پولیس تھانہ بھی تو ہوتا ہے۔ مگر خیر ذہن کا جنگل بھی اتنی جلدی ختم نہ ہو جاتا ۔ مراد نے تلاش جاری رکھی۔ ایک دن وہ اندھیرے گھُپ علاقے میں جا نکلا۔۔۔ خوف ،موُذی آوازیں وہ ذرا جھجکا مگر ترکیب مل گئی۔ کچھ زیادہ مشکل بھی نہ تھی وہ ترکیب۔ بس تھوڑی سی کالی اور گھناؤنی تھی۔۔۔ چند روز کے لئے اسے کہیں باہر جانا تھا۔ قبیلے کے کئی لوگوں نے اسے کندھے پر چادر ڈالے شہر جانے کے لئے ڈھلان سے اترتے بھی دیکھا۔۔۔ سلام دُعا۔۔۔ یہ ضرور ی تھی اور پھر چند روز بعد ۔۔۔ ایک رات کے پہلے پہر ہی وہ خون آلودہ ہتھیار ہاتھ میں لئے قبیلے کے معتبر لوگوں کے سامنے حاضر تھا وہ قبول کررہا تھا کہ اس نے اپنی عورت کو قتل کردیا تھا۔
وہ ایک واجب قتل تھا۔۔۔ شوہر نے اپنی عورت کو غیر مرد کے ساتھ دیکھا اور مارے غیرت کے قتل کردیا۔ اتنا ہی نہیں ہے لیکن ایسے میں دو قتل واجب ہوتے ہیں دوسرا سیاہ کار؟ وہ اندھیرے میں بھاگ نکلا۔۔۔ مگر پہچان رہ گئی ہے۔ کب تک بچے گا ، کہاں تک جائے گا۔ اُسکا قتل واجب ہوچکا ، ہاں مگر تاوان۔۔۔ بچنا چاہے توتاوان۔۔۔۔۔۔
سورج نے سلیٹی پہاڑ کی نوک دار چوٹی سے نکل کر اُس چھوٹی سی خیمہ بستی کو دیکھا تو اُسے عجب لگا، اندھی کے خیمے کے پاس کئی لوگ ۔ مرد عورتیں۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ہوگا؟ سورج کا تجسّس آگے بڑھا۔اور اُس نے دیکھا۔ سبھی نے دیکھا وہ عورت قتل ہوئی پڑی تھی جو اندھی اور ایک اکیلی تھی۔ گلّی کے بہت میلے کپڑوں پہ تازہ سرخ خون تھا اور چہرہ کھلی آنکھوں کے ساتھ بالکل بے تاثر۔ اُسے مرغی کی طرح ذبح کردیا گیا تھا۔۔۔ وہ عورت جس نے دنیا کو دیکھا ہی نہ تھا اور جسکی آواز کبھی اُونچی آتی ہی نہ تھی۔ اب مُردہ پڑی تھی کسی نے اسے ہاتھ نہ لگایا۔۔۔ پہلے ہی وہ گندی رہتی تھی ۔ اسکے کپڑوں میں بُو تھی ۔ اب تو وہ گناہگار بھی تھی۔
سارے مجمع میں ایک بوڑھی عورت تھی۔ جس نے اپنی چادر اُتار کر لاش کو ڈھک دیا۔ اور پھر حکم لگایا کھڑے کس لئے ہوجاؤ اپنی اپنی مشکیں بھر لاؤ آخری غُسل تو دینا ہے۔
بے چاری گلی کا پہلا غسل تو اُسکی پیدائش کے دن ہوا تھا۔ ساری زندگی وہ کتنا چاہتی تھی کہ اپنے آپ کو صاف کرے، مگر پانی کون دیتا اُسے ؟رفع حاجت کے لئے بھی نہیں۔ سبھی عورتیں باہر جاتی تھیں۔اندھی بھی ۔ مگر خیمے سے زیادہ دور تک نہیں ، اس ڈر سے کہ وہ چلتی چلتی ڈھلان تک نہ چلی جائے۔ایک انتظام کیا گیا تھا۔ اُسکے خیمے کی عناب سے ایک رسہ باندھ دیا اور گُلی کو سمجھا دیا کہ جب باہر جائے تو رسّے کو پکڑ لے اور بس وہاں تک ہی قدم اٹھائے جہاں تک رسّے کی لمبائی تھی۔ برس ہا برس وہی چار گز کا فاصلہ خیمے کے باہر اندر بدبو بھر گئی تھی ۔ کئی بار گُلی کا جی چاہتا وہ رسے کا سرا چھوڑ دے اور آگے آگے چلتی جائے۔۔۔ گُلی کا جی تو یہ بھی چاہتا تھا کہ اُسکے ساتھ کوئی باتیں کرنے والا ہو۔ وہ آوازیں سننے کو بھی ترستی تھی۔ دن میں صرف ایک آواز پہاڑی کوے کی بھاری سی کاں کاں وہ سُنتی یا اپنے معدے کی پکار جب بہت بھُوک لگتی۔ دل تو اُسکا گونگا تھا۔ گونگی خواہشوں کے بچے بھی بن بولے ہی مرجاتے، مگر آج تو بہت سے لو گ وہاں جمع تھے۔ مگر زیادہ دیر اُس منظر کا وہاں رہنا بھی ضروری نہ تھا۔ بس قبیلے کے مرد وزن دیکھ لیں ، گناہ گار کا گناہ رجسٹر ہوجائے تو پتھروں کی ڈھیری جیسی قبر بن جائے گی۔ یاد رکھنے کے لئے آخ تُھو !گناہ گار عورت!
لوگ چل دئیے باقی پوچھ گچھ سردار کے ڈیرے پر جاری رہی۔ سارا فیصلہ وہیں پر ہونا تھا۔ گناہ کا مرتکب دوسرا فریق بچ نکلا تھا۔ مگر کب تک اور کہاں تک۔۔۔ جب نام لے لیا جائے اور قتل واجب ہوجائے تو ساری فطرت ذمہ داری اُٹھاتی ہے کہ گناہگار مار دیا جائے۔
اب کیا ہوگا؟ قتل کے علاوہ بھی ایک راستہ تھا۔ مُجرم بچنا چاہتا ہے تو بھاری تاوان دے کر اپنا خون معاف کروالے اور پھر مراد بخش نکل کھڑا ہوا ۔غیرت کا قتل اُس پر واجب تھا مگر دو سال گزر گئے ۔ نہ وہ پلٹ کے آیا نہ کوئی خبر آئی یہاں آکر کہانی ادھوری رہ جاتی ہے ، مگر اُسکا سرا ڈھو نڈا تو جاسکتا ہے ۔ پھر کسی کو پتہ چل گیا کہ وہ دونوں ہی زندہ ہیں اور ایک دوسرے کے سامنے بھی ہیں۔ یعنی مراد کو پتہ ہے کہ اسکا شکار کہاں ہے ۔ مگر وہ نا مرد ۔۔۔ بے غیرت۔۔۔!
لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
کہانی کا آخری ٹکڑا جس پُرزے پر لکھا گیا تھا وہ کہیں اڑ گیا۔ بات نکلی تو صرف اتنی کہ مُراد بخش نے اپنی اندھی اور بانجھ بیوی کے بدلے ایک آنکھوں والی اور ہری بھری بیوی حاصل کرنا چاہی تھی ۔ مگر قبائلی
سماج میں غریب کی شادی آسان نہیں ہوتی۔ پہلی نہ دوسری۔ اگر کوئی عام آدمی ہو تو۔ ہاں سردار کی بات دوسری ہے۔ اسکے پاس بھیڑوں کے ریوڑ ہوتے ہیں اونٹوں کے کارواں اور پیسوں کی تھیلیاں بھری رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔
مُراد نے اپنی اندھی عورت اور بے باک ذہانت کا استعمال کیا تھا۔ صرف بیس بھیڑیں اور چوتھائی تھیلی چاندی کے سکّے۔اُس سے جسکا نام لگ گیا تھا۔ وہ کاروکاری کا مرتکب نہیں ہوا تھا۔ صرف نام زد ہوا تھا۔ اُس کا قتل واجب ہوگیا تھا۔جان بخشی کے لئے جرما نہ اُس نے چُپ چاپ بھر دیا۔
بیس بھیڑوں میں سے صرف آٹھ کے عوض بڑی خوبصورت تندرست اور جوانی کے قریب دُلہن مِل سکتی تھی۔ اور یہی ہوا بھی سودا طے ہوگیا ۔ صرف ایک سال کا انتظار تھا۔ دُلہن کو تیرھواں سال لگ جائے تو ۔ باقی بھیڑوں کے ساتھ اُس نے اپنی زندگی کو خوشحال بنایا۔ نیا خیمہ۔ دُلہن کے زیور کپڑے اور نیا غالیچہ بھی۔