عذاب لمحوں کے غمکدے میں
نہ جانے کب سے
مرا مسافر،
مرا یہ دل ہے
کہ جیسے صدیوں
بھٹک رہا ہے
تڑپ رہا ہے
مچل رہا ہے
تری نظر کی
بس ایک تیرِ غلط کی خاطر
جو منتظر ہے ۔۔۔۔۔۔ نا جانے کب سے
میری جان آنکھوں میں رُک گئی ہے
جو سانس روکے
گزرتے لمحوں کی دھڑکنوں کو
جو سُن رہی ہے
عذاب لمحوں کی کھوکھ سے کب
نا جانے کب
تیری نظر کی مہیب نشتر
اُتر پڑے گی،
مرے بدن کے یہ نمکدے میں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے