انیسویں صدی کے سارے قبائلیوں کی طرح توکلی بھی ‘خانہ بدوش خیمہ زن گھرانے کا فرزند تھا۔ اس کے والد کا نام ’’ لعلہان‘‘تھا۔ بلوچ ’’ لعل‘‘ کو ’’ لال ‘‘ کہتا ہے۔ عؔ کی عربی گیری صرف ملاّ کے ہاں ہوگی۔اوروہ بھی ،یوں ادا کرنے کے بعد شرما جاتاہے۔ اب زمانے نے ’’ سرخ‘‘ کے رنگ دینے والے ہمارے ہیرے موتی ’’ لعل‘‘کے عین کو پیچھے کردیا اور الف لگا کر ’’ لال‘‘ کردیا ہے۔ لہٰذاہم جتنا بھی تلفظ ’’ لال‘‘ والا ادا کریں،اصل میں بلوچ موتی والا ’’لعل‘‘ ہی بول رہا ہوتا ہے ۔
ہم (بالخصوص ہمارے مغربی بلوچستان کے بلوچ )حتی الوسع ’’خ‘‘ کا بھی بیڑہ غرق کرتے ہیں اور اُس کی جگہ ’’ہ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہ ہم ’’خدا ‘‘ کو ’’ھدا‘‘ شادی خان کو شاذیہاں ، ہرات کو ہریو کہتے ہیں ۔ ہبر، ہیمہ، ہر۔۔۔ سب میں ’’خ‘‘ کو ملک بدر کرکے’’ہ‘‘ سے بدل دیا گیا ہے۔چنانچہ ’’خان‘‘، ’’ہان‘‘ہوگیا۔ یوں لعل خان، لال ہان بن گیا۔
توکلی، بلوچ قوم میں مری تھا،مری میں لوہارانڑیں تھا،لوہارانڑیں میں شیرانڑیں،شیرانڑیوں میں درکانڑیں اور درکانڑیں میں بیڑازئی ( 2)۔
لالہان کیا کام کرتا تھا،وہ کیسا شخص تھا اور اس کے کتنے بہن بھائی تھے،تاریخ کو کچھ معلوم نہیں۔تاریخ ویسے بھی بہت جاہل شعبہ ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کرتا شعبہ ۔ طاقتور کے علاوہ کسی کی تفصیل اس کے پاس موجود نہیں۔
چونکہ کاہان کے مضافات کا یہ علاقہ بارانی کھیتی باڑی کا تھا۔ اس لئے ممکن ہے کہ لالہان کاشت کاری سے بھی وابستہ رہا ہو۔ مگرمست کی اپنی شاعری میں کاشتکاری سے وابستگی کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔ہاں مویشی بانی تو پکی بات ہے۔ گوکہ اس کی اپنی شاعری یادوسری بلوچ روایت یا شاعری میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ مویشی اُس کے اپنے تھے یا وہ کسی کا چرواہا تھا۔۔۔۔۔ مگریہ بات حتمی ہے کہ وہ لائیوسٹاک سے متعلق تھا ۔ ہمارے ہاں یادداشت کا یہ عالم ہے کہ جب میں نے شیرانڑیوں ہی سے مست کے والد کا نام پوچھا تو لالہان کا نام تک معلوم کرنے میں بہت عرصہ لگا۔ شاید اس شخص کا نام لال خان ہی نہ ہو پاندھی ہو؟۔ مگر پاندھی والی روایت بہت کمزور ہے۔
توکلی کے سنِ ولادت کا تو بس اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ موسم بہار والی بات کے بھی شواہد شاید ملتے ہوں مگر جناب انعام الحق کوثر کے اس دعوے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ شام کے وقت پیدا ہوا تھا(3) ۔
جب ہمیں لالہان کی سوانح حیات،اس کے پیشے اور تاریخ وفات کا علم نہیں توتوکلی کی والدہ محترمہ کے بارے میں بھی ظاہر ہے کوئی کچھ نہیں بتاسکتا۔ ویسے بھی ایک مردانہ سماج میں عورت کیا،اس کا نام کیا اور اس کی سوانح حیات کیا؟ ۔مست کے اپنے کلام میں بھی اس کی والدہ ماجدہ کے بارے میں کوئی شعر،کوئی مصرع اور کوئی حوالہ نہ مل سکا۔ البتہ مری کے کچھ بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس کی مہربان ماں اس کی کم سنی ہی میں فوت ہوگئی تھی۔ لالہان کی موت کو البتہ مست کی 14سا لہ بلوغت والی عمر میں بتایا جاتا ہے۔(شعری ثبوت اُس کا بھی موجود نہیں ہے)۔
کسی بھی سماج کے مست توکلی‘ اُس سماج کے نئے جنم کا سبب بن کر پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں پرانی اچھی اقدار کے تو ترجمان ہوتے ہی ہیں،مگر بہ یک وقت بے شمار نئی راہیں بھی بناتے ہیں لوگوں کے لیے ۔ نئے خواب، نئی آدرشیں اورنئی حکمت لے کر آتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دور کی فرسودہ اقدار اور مقتدروں سے زبردست بغاوت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نئے انسان وضع کرکے نیا سماج تعمیر کرنے کا کام کرتے ہیں۔
مست کی ولادت اور وفات کے سال تو محققین نے تقریباََ تقریباََ طے کر دیے ہیں ۔ لیکن اپنے قبائلی معاشرے کو بات سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے ۔وہ اعتبار بہت کم کرتے ہیں ۔ بلوچ تفصیلات بہت طلب کرتا ہے ۔ شک بھرے سوالات کرتا ہے۔ کرید کرید کر، کھرچ کھرچ کر ، بے شمار موڑ کاٹ کر حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس پہ غضب یہ کہ ہر قبائلی معاشرے کی طرح بلوچ کے ہاں بھی سال کو ہندسوں میں لکھنے کا رواج نہیں ہے۔وہاں قحط کے برس ،سیلاب کے برس ،زلزلے کے برس ، انگریز جنگ کے برس یا فلاں قبائلی لڑائی کے برس،زمان کے بہت مقبول سنگ ہائے میل ہوتے ہیں۔ یا پھر کسی سردار اور وڈیرہ کے عہد سے دیگر حالات و واقعات کا تعین کیا جاتا ہے ۔ میں خود مست کے عہد کا تعین کرنے میں کس طرح چکر کاٹ کر پہنچا، اس کا خاکہ آپ بھی دیکھیے۔ میں نے اپنے قبیلے کے بزرگوں سے کرید کرید کرمست کا عہد معلوم کیا تو مجھے اپنے، اورسردار کے خاندان سے ہو تے ہو ئے مست تک پہنچنا نصیب ہوا ۔ آپ کو بھی سمجھاتا ہوں۔
میرے اپنے زمانے میں مری کا سردار ،خیر بخش دوئم تھا جس کی تاریخ پیدا ئش 28فروری1929 تھی ۔ میرے والد حاجی محمد مراد کے زمانے میں مری کا سردار خیر بخش دوئم کا والد مہراللہ خان دوم تھا جس کی وفا ت 1933 میں ہے ۔ میرے دادا،وزیر دوئم کے زمانے میں ہماراسردار،خیربخش اول تھا۔میرے پر دادا شاذیھان دوئم کے زمانے جب سردار مہر اللہ اول تھا ، تو اُس وقت مست توکلی موجود تھا ۔ شاد یہان دوئم کے والد وزیر اول کے زمانے میں سردار تھا دوداخان ، اور مست توکلی موجودتھا۔ وزیراول کے والد شادیھان اول کے زمانے میں سردار تھا گز ین سوئم (وفات 1876)۔ اس وقت بھی مست موجود تھا ۔
یوں میرمٹھا خان مری کے حساب کتاب سے اتفاق کرتے ہوئے ہم مست توکلی کی پیدائش کو 1825 کابرس تسلیم کرتے ہیں(1)۔ اس کی پیدائش موجودہ کاہان سے شمال مغرب کی طرف دوتین میل کے فاصلے پر’’ ماں ڑِک بند ‘‘نامی علاقے میں ہوئی۔ یہ بات درست نہیں کہ مانڑک بند کسی گاؤں کا نام تھا۔ وہاں تو آج،یعنی مست کی ولادت سے دو سو برس بعد بھی کوئی گاؤں نہ بن سکا۔ یہ توبس اُس علاقے کا نام ہے۔ ماں ڑِک ایک شخص کا نام تھا۔ اُسی کی نسبت سے اس علاقے کا نام پڑ گیا مانڑک بند ۔یہ علاقہ بقیہ بلوچستان ہی طرح بارشوں کے بعد بھیڑ بکریوں کیلئے زبردست چراگاہ بن جاتا ہے۔
مست کا نام تو کلی(Taukali)تھا۔ یہ ایک عام اور مقبول بلوچی نام ہے جس کے معنی ہیں:توکل کرنے والا،ایڈونچر کرنے والا،پہل کرنے والا ،چست۔۔۔۔۔۔۔۔ توکلی کے نام کے صحیح تلفظ اور پس منظر پہ دوستوں کو متوجہ کرنا بہت ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارا مخاطب ہر قاری ہے ۔ خواہ وہ دانشور ہو ، سرکاری و غیر سرکاری ادبی اداروں سے منسلک ہو، بلوچ ہو ، غیر بلو چ ہو،یا ’’مستالوجی ‘‘ کا طالب علم ہو ۔2005 میں حکومت پاکستان کے سب سے بڑے ادارے ’’اکیڈمی آف لیٹرز‘‘ نے مست توکلی کے نام سے ادبی ایوارڈ کا اعلان کیا تو باقاعدہ آفیشل طور پراُسے ’’مست توکلّی ‘‘(MAST TAWAKKALI) پکار پکار کر یہ ایوارڈ دیا گیا ۔ جب دوستوں سے بحث کی تو چیئر مین افتخار عارف نے بتایا کہ‘‘ یہ سرکاری نام ہے جو کہ ہمیں بلوچ دانشوروں اورادیبوں ہی کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ ‘‘
اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ماسوائے مشرقی بلوچستان کے بقیہ سارے بلوچ عربی ، فارسی اور اردو ہی کی طرح لفظ ’’توکل ‘‘ کو ’’توَکّل ‘‘ ہی تلفظ کرتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں کوہِ سلیمان میں توکّل کو توکل (TAOKAL) بولا پڑھا اور لکھا جاتا ہے ۔ اب آپ خود غور فرمائیے ، چینیوں کے’’ عوامی جمہوریہ چین ‘‘اوربورژوا پریس کے نام والے ’’چین ‘‘ میں کتنا بڑا فرق ہے ۔ کمیونسٹوں کے’’ سوویت یونین ‘‘اور نوائے وقت کے’’ روس ‘‘میں کتنا بڑا فرق ہے ۔ اصطلاحات میں زبر زیر سے بہت بڑی چالاکی کی جاتی ہے ۔ توَکلی بلوچ پس منظر رکھتا ہے ، عام آدمی والا ، سیدھے سادھے سماج والا ، نیک پرامن خطے والا ۔ اسے توکّل بنا کر ہم ’’ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر ‘‘ کے فلسفے والوں کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں کہ اسے مزید بگاڑ کر ’’طوق علی‘‘ بنا ڈالنا تو بہت آسان ہو جاتا ہے ۔ ( ایسا کیا تھا ضیاء الحقی مائنڈ سیٹ والوں نے)۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے ۔ لسانی طور پر توکل اور توکّل کے تلفظ میں بہت فرق ہے ۔ صوتی آھنگ دونوں کا جدا ، موسیقیت الگ ۔ یہ لفظ بلوچی شاعری میں استعمال ہوا ہے ،اور بار بار استعمال ہوا ہے ۔یہ مست کی شاعری میں تو بالخصوص استعمال ہوا ہے۔ اورمست کی شاعری جو موسیقیت کی شاعری ہے ، جام کی شاعری موسیقیت کی شاعری ہے ، بلوچی شاعری موسیقیت کی شاعری ہے ۔ اس گائے جانے والی شاعری میں توکل کو عربی اردو فارسی کی تحریری زبان والے توکّل میں بدل دیا جائے تو پوری موسیقیت تتر بتر ہو جائے گی ، پورا سُر زخمی زخمی ہو جائے گا ، پوری لَے کرچی کرچی ہو جائے گی ۔ اور پورا آہنگ مچھلی منڈی ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ شعر کے وزن کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے مست توکلی کو بے سُرا مت کیجئے ،زندگی کا حسن بے سرا ہو جائے گا۔ آپ کی شخصی زندگی کا بھی اور جمعی سماجی زندگی کا بھی ۔
لفظ ’’مست ‘‘لقب ہے۔یہ اُس کے نام کاحصہ نہ تھا ،بعد میں نام کے ساتھ شامل ہوا۔ یہ ،لفظ’’مستی‘‘ کی وجہ سے نہیں پڑا بلکہ ’’مستالائی‘‘ کی وجہ سے پڑا جو کہ نیم دیوانگی،لاابالی،بے پرواہی،لاتعلقی،درویشی، اور لو لگانے کی کیفیت کا اظہار ہے۔ انگریزی میں اس مستالائی کا ممکنہ موزوں نعم البدل لفظ Lunaticہے۔ مست اپنی اس کیفیت کو خود بھی بیان کرتا ہے:
پلوے ماخ و پلوے گُدّا
ہر دوں مڑد جوانیا نہ اوں سدّھا
ترجمہ:
ایک طرف سے میں آرہا ہوں اور دوسری طرف سے گدّا
ہم دونوں کی ذہنی حالت کچھ اچھی نہیں ہے
اِس طرح ہوتے ہوتے ’’مست ‘‘کا لفظ اس کے اصل نام کے ساتھ کچھ اس طرح جڑتا گیا کہ یہ بالآخر اس کی محترم شخصیت کا مکرم حصہ بنا۔ حصہ کیا ہوا،کبھی کبھی تویہ توکلی کو ہی replaceکر گیا۔اُسے صرف توکلی کہنا بے حرمتی میں شمار ہونے لگا۔ حضرت ، جناب اور صاحب وغیرہ بلوچوں میں ہیں نہیں۔ لہذا لفظ’’مستیں‘‘ کاسابقہ ہی اس کی توقیر بن گیا اور وہ ’’مستیں توکلی‘‘ بن گیا۔۔۔۔۔۔ اور خواہ میں اور میرا قاری رہیں ،نہ رہیں ’’مستیں توکلی‘‘ کا نام رہتی دنیا تک رہے گا۔
’’مستیں‘‘ کا لفظ ایک اور طرح سے بھی امتیازی پہچان بن گیا۔وہ یوں کہ بلوچوں میں تو’’توکلی ‘‘ نام کے اور بھی بہت لوگ ہیں۔ تو فرق کس طرح کیا جائے؟۔مستیں توکلی،دراژیں تو کلی،کنگرانڑیں توکلی۔۔۔۔۔
البتہ شاعری کی مجبوریوں سے یا اس کا تذکرہ روانی سے کرتے کرتے کبھی کبھی’’مستیں‘‘ کی بجائے’’ مست‘‘ کا مقلوب شدہ رنگ بھی اپنایا جاتا رہا۔ بات چیت اور تحریر میں علیحدہ’’مستیں‘‘ کا لفظ مکمل معانی نہیں دیتا جبکہ صرف ’’مست‘‘ استعمال کرنے سے ’’مستیں توکلی‘‘ ہی کا تصور بنتا ہے۔ علاوہ ازیں محنت نہ کرنے والے دانشوروں،ٹی وی پروڈیوسروں اور غیر بلوچ لوگوں کیلئے مست ہی موزوں لفظ ہے اس لئے کہ وہ تو جام دُرَّک جیسے سر شاعر کو ’’دَرَک‘‘ کہہ ڈالتے ہیں۔ تو اسی طرح ’’توکلی‘‘(Toukali)کو’’ توکلّی‘‘ اور اس کی جائے پیدائش ’’ ماں ڑک بند‘‘ کو ’’مان ٹرک بند‘‘ کہتے ہیں۔ میرے محترم سردار خان بلوچ(4)کی طرح کچھ لوگ(5) وہ زیادتی کرتے ہیں جس کا تذکرہ میں پہلے کرچکا ہوں۔ یعنی وہ درویش اور فلاسفر مست کو دوبارہ مسلمان بنانے کے جنون میں اُسے ’’توکلی ‘‘ سے ’’ طوق علی‘‘ بنا ڈالتے ہیں۔
میں پیہرسن کے اس مطالعے سے سوفیصد متفق ہوں کہ مست و سمو دونوں کی زندگی کی کہانی میں ایک بھی ایسا پہلو نہیں ہے جو انہیں مذہبی صورت دے سکے۔ ان دونوں سے متعلق مشہور روایتوں،معجزوں کی ساری طاقت صرف محبت سے بندھی ہے۔ وہ جو مبارک قاضی کا مصرع ہے : مہرئے دیمازندگی پابند بیت۔ یہ مست کا مثالی مہر تھا جو اُس کی درویشانہ شہرت کا سبب بنا۔ہمارے ضیائی دانشوروں کے بس میں ہوتا تو وہ اُسے کسی مسجد کا پیش امام بناڈالتے ،یا جہادی گروپوں کو منظم کرنے والے کسی مدرسے کا مہتمم ۔ ارے بابا، وہ نہ ’’ طوق علی‘‘تھا اور نہ ہی ’’توکلّی‘‘ تھا ۔وہ سیدھا سادہ ’’توکلی‘‘ تھا(پتہ نہیں بلوچی زبان کو اردواتے اردواتے ہم اس کی کتنی ٹانگیں اور کتنے کان کاٹ ڈالیں گے)۔
واضح رہے کہ فارسی والے ’’طوق‘‘ کو بلوچی میں طوق نہیں کہتے’’ توخ‘‘ کہتے ہیں ۔ اور بلوچی شاعری میں تو بالخصوص ’’ق‘‘ کی بہ نسبت ’’خ‘‘ بہت مطلوب و مقبول حرف ہوتا ہے۔اس طرح شاعری میں ’’ توخ علی‘‘ آسانی سے استعمال ہوسکتا تھا۔مگر ایسااُس کے پورے کلام میں نہیں ہے۔وہ تو ’’تَوکلی‘‘ ہے ’’و‘‘ پر کوئی زبر نہیں،’’ک‘‘ پر کوئی شَد نہیں ہے اور ’’ لی‘‘ کے ساتھ کوئی ’’ ع‘‘ نہیں ہے۔
اگلی بات یہ ہے کہ ماضی بعید کی بلوچ تاریخ سے لے کر عرب کے وقت تک اور اس وقت سے لے کر آج کے ’’ ڈسکو‘‘ زمانے تک مردوں نے کبھی توخ نہیں پہنا۔ یار لوگوں نے مارشل لا والا مائنڈ سیٹ اپناتے اپناتے اپنی تاریخ و کلچر کاہی بلیدان کرڈالا !!۔
مست توکلی کوسمو سے ٹوٹ کر محبت کرنے کے حوالے سے ’’ سموبیلی ‘‘ بھی کہا جاتاہے ۔بیلی،ساتھی کو کہتے ہیں اور وہ بھی ناخن اور گوشت جیسی قربت والے ،جُڑواں رہنے والے ساتھی کو ۔ مست نے خود بھی اپنے لئے بہت بار ’’سمو بیلی‘‘ کا نام استعمال کیا اور دوسروں سے بھی اپنے اس نام کو رائج کروادیا ۔ یقیناًاسے ’’ سمو بیلی‘‘ کا نام سب سے زیادہ پسند تھا۔ جب سمو ہی دعا ہو،دعا گو ہو ،پیر ہو مرشد ہو،ساتھی ہو،چاندنی چکور ہو،میٹھا ٹھنڈا پانی ہو،شاعری ہو،لے ہو،درد ہو دوا ہو،مہرہو ،دانا ہو۔۔۔۔۔ اورمست سمیت پوری کائنات جب سمو میں سمٹ آئے تو ’’ ہیرنہ آکھو کوئی،رانجھا بولو‘‘ ،کہ اسی میں ہیر کی پہچان ہے۔ یہ بلوچی لفظ’’بیل‘‘ نہیں ہے جب گھوڑے کا سوار اپنے پیچھے ایک اور سواری بٹھائے تو اس دوسری یا پچھلی سواری کو ’’بیل‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ دراصل،بلوچی؍سرائیکی؍سندھی زبانوں کا ہے،جیسے’’سنگت بیلی‘‘۔ مگر بلوچی میں اور بالخصوص مست کے استعمال میں آکر یہ لفظ بہت زور دار بن جاتا ہے۔’’ سمو بیلی‘‘ یعنی سمو کا اٹوٹ ،جڑا ہوا ،ہمہ وقت کا ساتھی۔ یہ بیلی بلوچی میں پھرکبھی اور کہیں نہیں استعمال ہوا۔ یہی اس کا اولین اور آخری، حتمی،متبرک،اوراونچا مقام تھا۔
شہری علاقوں میں تو ’’ لفظ‘‘کا تقدس ویسے ہی اپنی قدر کھوٹا کر چکا ہے۔ اگر آپ نے ’’ بیلی‘‘ لفظ کی حرمت دیکھنی ہو تو کسی دیہی اور کو ہی بلوچ سے ’’ سمو بیلی‘‘ سن لیں، آپ کو اُس کی آنکھوں کی تعظیم بھری چمک اور اس لفظ کی ادائیگی میں اس کے پورے وجود کی شمولیت نظر آئے گی۔
لہٰذا ، مست ، سمو بیلی، توکلی مست ، اورمستیں توکلی والے مذکورہ بالا سارے نام تو کلی مست سے محبت،احترام،عقیدت اور تکریم کے نام تھے۔ جنہیں عام مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کی اپنی شاعری میں بھی یہ لفظ استعمال ہونے لگے۔ حتیٰ کہ ’’ گنوخ‘‘ اور’’دیوانغ‘‘(پاگل) کے لفظ بھی:
نَیں گنوخ گڑدی نَیں کہ سہرابی چرغاں
یا
نِیں گنوخ کائیے مں سرا قربانہ کناں
یا
اِشتہ مں تڈا گوں گنوخ شلی عقلاں
یا
اے گنوخیناں ، گوئشتناں میغاں نہ نہ گیڑ
یا
بیا، نواں پوہ بئے، تہ گنوخانی اٹکلاں
یا
پاذا، او دیوانغ ترادرمانے کناں
ایک بہت ہی مقبول رائے یہ بھی ہے کہ مست توکلی کا نام بچپن میں سہراب خان رکھا گیا تھا۔ اور،اُسی زمانے میں مری قبیلہ کے سردار گھرانے میں بھی سہراب خان نامی ایک شخص گزرا تھا۔ بلوچوں میں یہ عقیدہ راسخ انداز میں موجود ہے کہ اگر کسی بڑے شخص کا نام کوئی دوسرا شخص اپنے بیٹے پہ رکھ دے تو وہ بچہ یا تو جلد مر جائے گا،یا پاگل ہوجائے گا اور یا پھر زندگی بھر بیمار رہے گا ۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی،سلیم بگٹی اور میر ہمایوں مری اپنے اصلی نام سے منسوب نہیں ہیں۔ان سب کے والدین نے بعد میں اُن کے نام بدل دیے تاکہ اس کا نام مرحوم بزرگ کی بچے پر ناراضگی کا باعث نہ بنے ۔ اسی وجہ سے سہراب خان کا نام بدل کر بچے پر’’ تو کلی‘‘ نام رکھا گیا۔
مگر دلچسپ حقیقت یہ دیکھئے کہ جس بچے نے سہراب خان کی بڑائی کے ڈر سے خود کو توکلی کروادیا تھا وہ خودسہراب خان سے بدرجہا بڑا بن گیا۔ اور سہراب خان کا تذکرہ آج ہم تو کلی ہی کے حوالے سے کررہے ہیں۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ اب لوگ اِسی توکلی کی بڑائی اور کرامت کے خوف سے اپنے بچوں کا نام توکلی نہیں رکھتے۔
توکلی کا لڑکپن جوانی تک ماوند میں گزرا تھا ۔مگر جب وہ نوجوان ہوگیا تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ زمان و مکان سے اونچا ہوگیا ۔ پھروہ لولاک بھرکا شہری ہوتے ہوئے بھی کہیں کا نہ رہا۔ اُس کی جوانی کی آماجگاہ تو پھر ہر جگہ تھی اور کہیں بھی نہ تھی۔
لڑکپن میں وہ ماوند میں گائیں چراتا تھا۔ یوں ماوند کے سو مرانڑیوں سے اُس کی وہ ساری دوستیاں اور رشتے وجود میں آگئے جن کا ذکراُس کی اپنی شاعری میں موجود ہے۔ وہاں بلوچاں نامی ایک غریب پرور انسان تھا،اس نے ہی مست کی پرورش کی۔اُس زمانے میں اُس گاؤں اور قبیلے کا سربراہ شاذی ہان تھا۔ بہار خان ایک اور کیریکٹر تھا اُس کی شاعری میں، جو اُس کا دوست تھا، اُس کے رازوں کا امین تھا۔ مست ماوند کے اپنے اِن محسنوں کو یوں طرح یاد کرتا ہے:
گوئر بلوچانا دعائیں ملخانی
آسر و او میثے گریوانی
سرجمیں شاذیہاں کلاتانی
تامیناں باثیل بور بناتاتی
ترجمہ:
بلوچان کو فرشتوں کی دعائیں حاصل ہیں
وہ غریبوں کے لئے آسرا،اور امید ہے
(وہیں) قلعہ اور فصیل کا مالک شادیھان ہے
جواں مرد باثیل بھی وہیں ہے
یا
ہَیر گوئر بہارخانئے لڑیں تیغاں
سُورِہا برجاہ بی ہموگیغاں
یا
شاذیھاں شاروءَ لوغہ دھیمغ اثش مں گورا
مٹے پہ دیما ہژل اث گوں ہذائی قدرتا
ترجمہ:
شاذیھان کا گھرانہ جنگی سربراہوں والا گھرانہ ہے۔ ان ہی پہ ذمہ داری ہے
دشمن ان کے سامنے بحکم خدا گر ا ہوا ہے
اُس وقت بلوچوں میں لڑکپن، آج کے لڑکپن سے بہت مختلف ہوا کرتا تھا ۔ مست کا لڑکپن آج کے بلوچ کے لڑکپن سے بہت مختلف ہوتا تھا۔کپڑا، ابھی ہمارے وقت میں بھی بہت کم یاب تھا، مست کے زمانے میں تو بالکل نا پید تھا، راشن پہ ملتا تھا۔ اس لیے بلوچ لڑکے بڑی عمر تک ،شلوار نہیں پہنتے تھے۔بیس بائیس برس کی عمرتک ایک لمبی چوغہ نما قمیص اور ایک پگڑی ہمارا لباس ہوا کرتے تھے۔ اِس میں دلچسپ بات یہ تھی کہ ہر بلوچ اُس وقت تک پورا آدمی شمار نہیں ہوتا تھا جب تک کہ وہ شلوار پہننا شروع نہ کرتا، ’’ شلوار پاذی‘‘ نہ ہوتا ۔ اُس پہ لٹھائی ( مارپیٹ) اور کوش ( قتل) کا انتقام معیوب ہوتا تھا۔اس لیے کہ اُسے کمسن سمجھا جاتا تھا۔اورکمسن ، بوڑھے یا خاتون کی طرح وہ لڑکا بھی انتقام وغیرہ سے مستثنا ہوتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔تو ہمیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ مست کا ’’لڑکپن ‘‘ کافی طویل رہا ہوگا۔
مست کا قد کاٹھ کیا تھا۔ اس کی رنگت اور خدوخال کیا تھے، کچھ بوڑھوں نے پچیس تیس سال قبل ہمیں بتایا تھا۔ ’’ تھا‘‘اس لیے استعمال کررہا ہوں کہ اب وہ لوگ خود اِس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔زندگی موت کی امانت جو ٹھہری !!۔راوی خود کسی راوی کے حوالے بن جاتے ہیں!!۔
نواب اکبربگٹی اپنے جبر و قہر و بادشا ہی و سرداری اور پھر بالآخر ، اپنی شاندارشہادت کے حوالے سے خواہ جتنا نیک یا بد نام ہو مگر اُس نے پرانے بادشاہوں کی طرح اپنے کلچر کی بڑی حفاظت کی تھی۔ جو انسال اُسی کی دریافت تھا، مرید بلیدی کو بھی اُسی نے روشناس کرایا۔ اسی طرح آثار قدیمہ ،بلوچی کشیدہ کاری، بلوچ شاعری اور بلوچ موسیقی کی حفاظت اور بہبود میں اُس کا اچھا خاصا کردار ہے ۔
اُس شام اُس نے بڑی چاہ اور تکریم سے اپنے مہمانوں کو مست شناس بنانے کیلئے اپنے خداد اد ملازموں کوکہا تھا: ’’جاؤ، میرے کپڑوں والی الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں ایک پوش میں لپٹی ہوئی ایک پوشاک رکھی ہے، عزت سے اٹھالاؤ‘‘۔ اور جب وہ بگٹی ملازم اُس باعزت پوشاک کو لایا تھا تو دونوں ہاتھوں پہ اس تقدس سے تھامے ہوئے،جیسے کوئی مقدس کتاب ہو۔ نواب بگٹی باقاعدہ پوش میں سے حضرت توکلی مست کی قمیص نکال کر ہمیں دکھاتا ہے۔ یہ سفید رنگ کی قمیص ہے۔ باوقار ،شائستہ اور مہذب ۔ کالروالی نہیں،بلکہ ’’ کڑتی ‘‘ جو بلوچوں کی خاص قمیص ہوا کرتی تھی۔ اس کے بٹن ،دھاگہ کو خود پہ لپیٹ لپیٹ کر بنائے گئے تھے۔ جیسے کرکٹ کے وکٹوں کے اوپر والی چھوٹی لکڑیاں ہوں۔ انگریزوں کے اوور کوٹوں پہ بھی چمڑے یا لکڑی کے ایسے بٹن میں نے دیکھے ہیں۔قمیص درزی کی مشین سے نہیں بلکہ ہاتھ سے سلی ہوئی تھی ۔( اُس وقت درزی کہاں ہوں گے !!) ۔ ڈک بہت چھوٹے چھوٹے ۔ سفید قمیص کی سلائی بھی سفید دھاگے سے کی گئی تھی۔ اس قمیص میں خاص بات یہ ہے کہ یہ لمبی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مست بہت زیادہ لمبے قد کا آدمی نہ تھا۔
اکبر بگٹی کے پاس مست توکلی سے منسوب ایک چھڑی بھی موجود تھی۔ یہ تقریباً ایک گز لمبی اور دو انچ قطر کی سیاہ رنگ کی چھڑی تھی۔ چھڑی اپنی لمبائی اور موٹائی کے برعکس وزن میں بہت ہی ہلکی پھلکی تھی۔ اکبر خان نے ہم حاضرین سے اس چھڑی کے درخت کی بابت پوچھا ۔ مگر ہم اور بگٹی وڈیرے اتنے ہلکے وزن والی چھڑی کے درخت کے بارے میں نہ بتاسکے۔ میں نے ’’ وازی‘‘ کہا مگر ہمارا اتفاق نہ ہوسکا۔ یوں، یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کس درخت کی لکڑی ہے۔( اب تو نہ اکبر خان رہا، نہ اُس کی وہ مقدس الماری رہی اورنہ وہ گھر۔ سب کچھ بے دلیل زور آوری کی خاکسترگری کی نذر ہوگیا۔ مست کا یہ’’ مِنی میوزیم ‘‘اپنے Curator کے ساتھ بلوچستانِ کبیر کی کوکھ میں!!)۔
مست کی ایک تصویر کے بارے میں بتایا جاتارہا کہ وزیر ہان شہر میں وزیرہان شیرانڑیں کے خانوادے کے پاس موجود ہے جس میں وہ ایک سفید ریش بوڑھا دکھائی دیتا ہے۔ مگر بہت جستجو اور محنت کے بعد جب اُس گاؤں کا میرا ایک دوست و ہ تصویر مجھے دکھانے لایا تو وہ تصویرمست تو کیا عام مری، یا بلوچی لباس والی بھی نہ تھی۔ بلکہ یہ تو ملتان کے درویشوں میں سے کسی کی پینٹنگ تھی۔
اُس معزز خاندان نے اُسے مست کا سمجھ کر برسوں تک حفاظت و تکریم سے رکھا ہوا تھا۔ممتاز محقق اور بلوچستان کا علمی محسن ڈاکٹرانعام الحق کوثر کوئی حوالہ اور ریفرنس مہیا کیے بغیر مست کی صورت یوں بیان کرتا ہے:’’چھریرا بدن‘ گھنگھریالے بال،بیضوی چہرہ،گورارنگ،سرخ آنکھیں،ستواں ناک اور بڑے گھنے ابرو۔ وہ سفید کپڑے پہنتے تھے‘‘(6)۔
اِن ساری مذکورہ باتوں میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر صاحب کی سفید لباس کی بات ہی حتمی سچی بات ہے۔ کہ اُس زمانے میں سفید لباس ہی میسر تھا ۔ اور مست کی قمیص تو میں نے خود دیکھی جو سفید رنگ کی تھی۔ باقی سب قیاس ہے۔
حوالہ جات
1۔میر مٹھا خان’’سمو بیلی‘‘۔1991۔ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ:صفحہ نمبر10
2۔شیرانڑیں سہراب خان۔ انٹرویو
3۔کوثر،انعام الحق۔ ’’تذکر�ۂ صوفیا ء بلوچستان‘‘1976 ۔ مرکزی اردو بورڈ لاہور۔ صفحہ275
4۔ذکیہ سردار’’ سرمستِ بلوچستان‘‘ ۔بلوچی اکیڈمی کوئٹہ۔1965
5۔ بلوچ،سردار خان’’ اے لٹریری ہسٹری آف دی بلوچ‘‘ جلد نمبر2بلوچی اکیڈمی کوئٹہ۔
1984۔
6۔ کوثر ،انعام الحق ۔ صفحہ275