اسی سال 24 جولائی کو لاڑکانہ میں ایک 90 سالہ خاتون کا انتقال ہوا اور خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے اداروں اور رہنماؤں کے بلند بانگ دعوؤں کے اس دور میں چند ایک لوگوں کے سوا کسی کو علم ہی نہیں ہوا کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کتنی بڑی عورت اب ان کے درمیان نہیں رہی۔
یہ خاتون زیب النسا شانتا بخاری تھیں جنھوں نے کراچی کو غالباً پاکستان کا واحد اور پہلا شہر بنا دیا جس میں گھریلو خادماؤں، خاکروب خواتین، چوڑی ساز اور سوت کاتنے والی خواتین کی یونینیں قائم ہوئیں۔کامریڈ شانتا بخاری کے نام سے جانی جانے والی اس خاتون نے صرف یہی نہیں ’ناری مل یونین،‘ ’کراچی میونسپل صفائی خدمت یونین‘ اور دائیوں کا کام کرنے والی خواتین کی یونینیں بھی بنوائیں۔
وہ 1924 میں راجھستان کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد درزی کا کام کرتے تھے اور والدہ بیٹی کو جنم دیتے ہوئے انتقال کر گئیں تو پرورش کی ذمہ داری ان کی نانی اور خالہ نے ادا کیں جو خود بھی ٹریڈ یونین کارکن تھیں۔12 برس کی عمر میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شانتا نے اپنی خالہ کے ساتھ ٹیکسٹائل مل میں کام کرنا شروع کیا، اسی دوران وہ ہفتے میں ایک دن احمدآباد کی گلیوں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اخبار اور جرائد فروخت کرتی تھیں۔مارچ 1943 میں احمدآباد گجرات میں منعقدہ ایک مزدور کانفرنس کے دوران وہ سندھ سے آنے والے 43 سالہ کامریڈ جمال الدین بخاری کی پرجوش تقریر سے اتنی متاثر ہوئیں کہ ان سے شادی کر لی اور زیب النسا کا نام اختیار کر کے کراچی منتقل ہو گئیں۔
شادی کے وقت ان کی عمر 19 سال تھی۔ کراچی میں اس نو بیاہتا جوڑے کی پہلی دعوت جی ایم سید نے اور دوسری ہاشم گزدر نے کی۔
جمال بخاری اپنے دوسرے کامریڈ ساتھیوں کی طرح انقلاب کے جنون میں انتہائی غیر منظم رومانی زندگی گذار رہے تھے اور تب کے بندر روڈ اور اب ایم اے جناح روڈ پر لائٹ ہاؤس سنیما کے قریب کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں رہتے تھے۔شانتا کے آنے سے ان کی سیاسی سرگرمیوں میں یہ تبدیلی آئی کہ ایک تو انھیں شانتا کے ہاتھ کا پکا کھانا ملنے لگا اور پھر مزدور و متوسط طبقے کی دوسری خواتین ارکان بھی پارٹی کے دفتر آنے لگیں۔شاید اسی میل ملاپ سے کامریڈ شانتا نے خواتین کی یونینیں بنانے کی ابتدا کی۔ وہ ان یونینوں کی عہدیدار کے طور پر بھی کام کرتی رہیں۔
جولائی 1948 میں جب حکومت پاکستان نے سیفٹی ایکٹ کے تحت کامریڈ جمال بخاری، کامریڈ سوبھوگیان چندانی، اے کے ہنگل اور کیرت بابانی سمیت کمیونسٹ رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا تو نہ صرف دو بیٹوں کی دیکھ بھال بلکہ پارٹی کے کاموں اور دفتر کے انتظامی امور کی ذمہ داری بھی کامریڈ شانتا کے کاندھوں پر آ پڑی۔
گرفتاریوں کے ساتھ جب پارٹی کا دفتر سیل کیا گیا تو کامریڈ شانتا کے پاس پارٹی فنڈ کے 28 ہزار روپے نقد، پارٹی پریس اور برنس روڈ پر واقع پارٹی کیایک فلیٹ کی چابیاں تھیں، جو انھوں نے پارٹی کی قیادت کو لوٹا دیں اور خود برنس روڈ پر واقع قاضی مینشن کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئیں۔
کامریڈ شانتا نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے ایسی تحریک چلائی کہ اْس وقت کے وزیر اعلیٰ پیر الٰہی بخش، چیف سیکریٹری این اے فاروقی اور سکریٹری داخلہ ہاشم رضا کا ناطقہ بند کر دیا۔
ان کا کہنا تھا تھا کہ شوہر کی گرفتاری کے بعد ان کی اور بچوں کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے یا تو انھیں اور ان کے بچوں کو بھی جیل میں ڈالا جائے یا حکومت ان کے روز مرہ کے اخراجات کی ادائیگی کرے۔کامریڈ بخاری اور ان کے ساتھیوں کی نظر بندی میں ہر تین ماہ بعد تین ماہ کی توسیع کر دی جاتی تھی اور کامریڈ شانتا کو مہینے میں صرف ایک بار شوہر سے ملاقات کی اجازت دی جاتی تھی۔
تقریباً ڈھائی سال بعد اے کے ہنگل اور کیرت بابانی سمیت کئی کمیونسٹوں کی بھارت نقل مکانی پر رضامندی کے بعد اگرچہ مارچ 1951 میں کامریڈ جمال بخاری کو جیل سے تو رہا کردیا گیا لیکن ساتھ ہی کراچی بدر کر دیا گیا۔اس پابندی کے باعث کامریڈ شانتا بخاری اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ لاڑکانہ منتقل ہوگئیں جہاں ان کی سرگرمیاں بتدریج سماجی بالخصوص خواتین کی ترقی کے کاموں تک محدود ہو گئیں۔
کامریڈ شانتا بخاری کے بارے میں معروف دانش ور اور سماجی کارکن اسلم خواجہ حال ہی میں منعقد ہونے والی دوروزہ کراچی عالمی کانفرنس میں ایک تفصیلی تحقیق پیش کی تھی۔ زیرِ نظر تحریر میں شامل معلومات اور تصاویر اسی تحقیق سے حاصل کی گئی ہیں۔