ہم تو مرتے رہے
اور وہ اور جیتے رہے
پھولتے اور پھلتے رہے
سب حساب اور سارے نصاب
اُلٹے پڑتے رہے
ہاتھ ملتے رہے
ہر نیا دن ہی اُن کے لےے اِک نئے
اور مضبوط تر اِتفاق اور مشیت کی
اُن پر سنہری عنایت کی مانند اُبھرتا رہا
جیسے شاہِ مِقدر کی جانب سے صدیوں کی نسلوں کا آبِ حیات
اُن ہی کے واسطے نوشِ جاں کی ودیعت ہو
اِیسا کبھی گر ہوا بھی
کوئی اُن میں بھی آدمی کے لےے زِندگی ہی کا جو یا بنا
سارے اِنسانوں کی زِندگی میں محبت، نِمو چاہتا تھا
تو فوراً وہ یوں اُس پہ جھپٹے
فضا میں وہ کلماتِ ظلمات پھونکے
کہ مِل جل کے ، اُس کو مِلا کے
وہ سب پھر پچھل پائیوں سے ہوئے
اُن کے ہاتھوں سے پیروں سے ، دانتوں سے،
سارے بدن سے
وہ اَوزار ، وہ کیل نکلے
جو زندوں کا خوں پیتے، مُردوں کے تن نوچتے، کھاتے تھے
اور ہم نے یہ دیکھا کہ فورا ہی بستی کی مخلوق
پھر خود کو ، بھیڑوں ، قطاروں میں
اُن کے ، لےے نوشِ جاں کی طرح سونپتی تھی
تو ہم سوچتے ہیں
یہ بستی، یہ مخلوق، کیا تا ابدیو نہی مرتی، نچڑتی رہے گی
بجائے حیات اپنے خون میں رواں موت جیتی رہے گی
تو کیا تا ابد ہی یہ مخلوق اپنی
کُھلی جنگ لڑنے سے منکر رہے گی
سبھی زندگی، اِس کی ، ساری تگ و دَو
بس اِن ٹوٹے پھوٹے سے سانسوں کے رِشتوں
کو ہی پورا کرنے کی خاطر رہے گی
کوئی خواب ، کوئی جنوں، کوئی رِفعت، کوئی آگ
اس میں کبھی ہم نہ دیکھیں گے
کوئی رَمقِ
وقت کو، دھرتی کو ، اُلٹا سیدھا پٹخنے کی
اِس خلقتِ بے تپش میں کبھی ہم نہ دیکھیں گے؟
کہاں جائیں سر پھوڑنے ہم
کہاں جا کے چیخیں
کہاں جا کے کِس کو پکاریں،
پکاریں کہ آﺅ، جہاں بھر کی روحو،
آئو، دیکھو
یہاں ایک مخلوق ہے خوف اور بے کسی کی بنائی ہوئی
خوف کھاتی ہوئی، خوف پِیتی ہوئی
یہاں ایک بستی ہے اپنے ہی جسموں کے پانی میں ڈوبی ہوئی
یہاں جنگ ہے ایک، صدیوں سے ٹھہری ہوئی
یہاں موت ہے ایک ، سو رُوپ جیتی ہوئی