توما سو کمپنیلا، فرانسس بیکن کا ہم عصر تھا۔ وہ بیکن سے صرف سات برس چھوٹا تھا۔نوجوان نسل کو یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ بیکن نے اپنے فلسفے میں تجرباتی سائنس کے ذریعے یہ نتیجہ نکالا کہ انسان اشیاءپر حاوی ہے” اس لئے کہ فطرت پر حکمرانی صرف فطرت کی فرمانبرداری کرکے کی جاتی ہے“۔ بیکن کی تصوراتی مثالی دنیا میں سائنس کو تہذیب ساز بنا دیا گیا ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتی ہے ، اور خدا کی محبت کی طرف اس کی راہنما ہے۔(غضب خدا کا ، مجھے اتنے بڑے شخص کو متعارف کرانے کے لےے ایک دوسرے شخص کا سہارا لینا پڑرہا ہے)۔
تاریخ میں ہمیںلفظ” رے نے ساں“ بہت ملتا ہے۔ یہ اصل میں فلسفہ میں تیز ترین ترقی کا عہد تھا۔ اس دور میںماضی کے گہرے سایوں کے اندر سے جدید دور کے نظریات کے بیج پھوٹے تھے۔یہ نظریات کا دور تھا، سائنسی ترقی کا دور تھا۔ فرسودگی سے بغاوت کا دور تھا، اور اس کے نتیجے میں بھیانک سزاﺅں کا دور تھا۔
اس دور میں عظیم انسانوں کی ایک پوری کہکشاں پھوٹی تھی۔ اپنے اپنے شعبوں بہت بڑے لوگ ۔ میں گستاخی کرکے کہتا ہوں کہ یہاں فکر کے عظیم ترین نمائندے نیکولس، ٹیلیسیو ، برونو اور کمپنیلا تھے۔ اہم ترین تو خیر برونو ہے۔
ان سب مفکروں کی سوچ میں فطرت کی اہمیت سب سے زیادہ تھی۔ اُن لوگوں نے بالکل ہی ایک نیا نقطہِ نظر یہ پیش کیا کہ فطرت کا ہی مطالعہ کرنا چاہیے۔ کتابوں سے نہیں بلکہ فطرت کے اپنے اعمال سے علم حاصل کرنا چاہیے۔فطرت، جس پر تجربہ کیا جاسکتا ہے اور جس کے متعلق دلیل بازی کی جاسکتی ہے ۔
اُس دور میں جادوگر ی موجود ہے، اس میں الکیمی ہے جس کا مطلب ایسا فلسفیانہ پتھر دریافت کرنا ہے جو ہر چیز کو سونے میںبدل سکتا ہو، طب کی تلاش ہے۔
سوائے برونو کے ، رے نے ساں کے باقی فلاسفر وحدت الوجودینہیں ہیں۔فلکیات کی نیم سائنس میں مگن۔
کمپنیلا بھی رے نے ساں کا فلاسفرہے ۔وہ رے نے ساں کے آخر والے زمانے کے اہم فلاسفروں میں سے ایک تھا۔ وہ ازمنہ وسطیٰ سے تو کبھی نہیں نکل پایا مگر اس نے انسان اور فطرت کا مطالعہ کیا۔اور یہ خود بہت بڑی بات تھی۔ یعنی کہ انسان اور فطرت کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔مطلب یہ نکلا کہ زندگی کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کمپنیلا چرچ سے بھی وفادار رہا۔ وہ دینیات دان تھا، وہ ستاروں کا علم جانتا تھااور شاعر بھی تھا۔
لفظ کمپنیلا کا مطلب ہے: ” نقارہ“ ۔ہمارا یہ ”نقارہ“ سائنس کے کاز میں اپنی عظیم لگن کی خاطر دہشتناک مصیبتیں جھیلنے کے لئے 5 ستمبر 1568 میں ایک غریب اور ان پڑھ موچی کے گھر میں پیدا ہوا۔وہ حد سے زیادہ ذہین بچہ تھا۔کمپنیلا کے ساتھ اس نے ” تو ماسو“کا سابقہ اُس وقت شامل کیا جب 1583 میں وہ لڑکپن ہی میں ڈومینکین فرقےمیں شامل ہوا ۔
چونکہ وہ غریب تھا اس لئے سکول میںداخل نہ ہو سکا ( اور کمال ہے کہ پانچ سو برس بعد آپ جیسا علم کا متلاشی اُس بے سکول انسان کے بارے میں دلچسپی سے پڑھ رہا ہے )۔ وہ کلاس روم سے باہر کھڑا ہو کر علم حاصل کرتا رہا۔
چودہ برس کی عمر میں وہ ایک خانقاہ میں داخل ہو گیا جو کہ اُس زمانے میں غریب لڑکوں کے پڑھنے کا واحد راستہ تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں مدرسوں خانقاہوں میں لاکھوں غریب بچے پڑھتے ہیں۔یہاں اُس نے زبردست تیز رفتاری اور گہرائی میں تعلیم کے مراحل طے کرنے شروع کر دیئے ۔ بالخصوص دینیات اور فلسفہ میں۔
مگر‘ جیسا کہ بڑے ذہنوں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے‘ یہیں خانقاہ ہی میں اس کے دل میں مذہب کے بارے میں شکوک پیدا ہونے لگے۔ اور ہوتے ہوتے وہ پادریوں سے فکری تصادم تک جا پہنچا۔
یہاں سے وہ ایک فلاسفر کے ہاں پہنچا، ٹیلسیو کے پاس‘ جس کا کہنا تھا:” سچ کی خصوصیت تجربہ ہے “۔ اور ” اصل اتھارٹی فطرت ہے نہ کہ عقیدہ“۔ اُس نے اس فلاسفر کے حق میں1592 میں ایک کتاب لکھی:” حسیات پر مبنی فلاسفر “۔ مگر بڑے راہب نے اُسے اپنی کتاب چھپوانے کے لئے نیپلز جانے نہ دیا ۔ کمپنیلا نے خانقاہ ہی چھوڑ دی۔۔۔۔ اور نیپلز پہنچ گیا ۔
وہیں نیپلز میں اس کی خوش قسمتی تھامس مور کی کتاب ” یوٹوپیا“ کی صورت اس پر مہربان ہوئی۔ اس نے یہ کتاب گھول گھول کر پڑھی۔ بلا شبہ اِس کتاب نے اُس پر زبردست اثر ڈالا ۔( پڑھنے کی کتاب ہے، ہوسکے تو آپ بھی ضرور پڑھ لیں)۔
یہیں نیپلز میں وہ علم الفلکیات میں بھی دلچسپی لینے لگا۔
کمپنیلا نے یہاں اپنی کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب نے تو چرچ کو غصے اور طیش میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔چنانچہ اُسے گرفتار کر کے چرچ کے حکام کے حوالے کر دیا ۔اور چرچ نے اُسے ایک پورے سال تک تاریک تہہ خانوں میں حیوانی زندگی کی قید میں رکھا۔ ( بھئی یہ چرچ تو ہمارے سرداروں فیوڈلوں سے بھی ظالم رہا اپنی تاریخ میں)۔اگراُس کے بااثر دوست نہ بچاتے تو وہ وہیں مر کھپ جاتا ۔مگر ایک دلچسپ وقوعہ ہوا یہاں۔اس قید میں اُس سے وہ فقرہ نکلا جو عالمگیر شہرت حاصل کر گیا ۔ جب پادریوں نے اس سے پوچھا کہ جب کہ ہم نے تمہیں یہ ساری باتیں نہیںبتائیں توتم نے یہ ساری باتیں کہاں سے سیکھیں ،تو اس نے جواب دیا تھا :
” میں نے مطالعہ کے لئے جتنا تیل جلایا ہے وہ تمہاری زندگی کی پی ہوئی شراب سے زیادہ ہے“ ۔( ارے بابا ! آپ ایسا فقرہ ہر گز استعمال نہ کریں۔ یہ کمپنیلا کو ہی زیب دیتا ہے ۔ آپ کریں گے تو یہ سراسر غرور ہوگا، تکبر ہوگا۔ اور تکبر اور علم تو ایک دوسر ے کے دشمن ہوتے ہیں ناں؟۔ اِن دونوں میں سے ایک ہی ایک انسان کے ساتھ رہ سکتا ہے ، دونوں نہیں)۔
اب کے اُسے نیپلز سے بھی شہربدر کر دیا گیا۔ دوسرے شہر گیا تو وہاں کے بڑے پادریوں نے اس سے دوستی گانٹھ لی اور اس کی ذہانت و علم کی تعریفیں کرنے لگے۔ کمپنیلا شریف آدمی تھا، اُس پر اِن ” دوستانہ “ ملاقاتوں کا راز اُس وقت کھلا جب اُسے معلوم ہوا کہ اُس کے سارے مسودے انہی پادریوں نے چرا لئے ۔
کیا کرتا ؟ اُن زوراوروں سے ٹکر لینا کوئی آسان بات نہ تھی۔ وہ پاڈوآ نامی علم و فضیلت کے مرکزی شہر چلا گیا اور اپنی یاد داشت سے چوری شدہ مسودے دوبارہ لکھے۔ کتاب چھپی ‘نام تھا:” ٹیلسیو کے دفاع میں “۔
پادری پھر بپھر گئے۔ اُن کے تو شاہ رگ پہ وہ ہاتھ ڈال چکا تھا۔ہمارا دوست پھر گرفتار ہوا ۔اب تو سزا سخت ہونی تھی ۔ اُس کے دوست پھر اکٹھے ہوئے، انہوں نے بہت غوروخوض سے ایک منصوبہ بنایا اور اُس کو چھڑوالیا ۔ ابھی آزادی چند قدم کے فاصلے پر تھی کہ رات کو گشت کرنے والے بدبخت سپاہی آن پہنچے۔ قیدی جہاں تھا وہیں دوبارہ پٹخ دیا گیا۔
مسیحی ملاّ¶ں نے انہیں ہتھکڑیوں میں جکڑ ا اور جنوری1594 کو اُسے بڑے ملاّ کی عدالت میں روم روانہ کیا گیا۔ ظاہر ہے وہاں اس خطرناک قیدی کو ریسٹ ہا¶س میں تو نہیں رکھا گیا۔ وہ تاریک تہہ خانے میں تنہائی کے عذاب جھیلتا رہا۔ چوبیس گھنٹوں میں ایک بار اُسے کھانا کھلایا جاتا۔
مگر ایسے ہی برے حالات میں لوگوں نے ” پھانسی کے سائے تلے“ لکھا”دستِ صبا “لکھی ،”گنبدِ بے در “لکھا، ”پُرنگ اور گرند “لکھے ۔ کمپنیلابھی اُسی قبیل کے مہان انسانوں میں سے تھا ۔ اس نے ” سورج کا شہر“ کے لئے انہی غیر انسانی قید خانوںمیں مواد سوچنا شروع کیا۔
مقدمہ پیش ہوا تو کمپنیلا کو اندازہ ہوا کہ اس کے خلاف شہادتوں اور ثبوتوں کے ڈھیر موجود ہیں۔ مگر اس نے ججوںکو اپنی کتابوں میں لکھے خیالات کے برعکس آیتیں سنائیں اور خود کو چرچ کے وفادار پیروکار کی حیثیت سے پیش کیا۔ منصف پریشان اور تحقیقات مکمل طور پر معطل ہورکر رہ گئیں۔ نہ تشدد نے کام کیا نہ لالچ و رشوت نے۔ حکام نے1595میں اُسے سانتا سبینا کی خانقا ہ میں منتقل کیا جہاں وہ مزید اٹھارہ ماہ قید رہا۔
ٹریبونل نے دسمبر1596 میں اپنا فیصلہ سنایا۔ چیتھڑوں میں ملبوس کمپنیلا کو ایک سرد صبح سانتا ماریا ڈیلا کے چرچ لے جایا گیا۔ اُسے رکوع کروایا گیا۔ اور روایتی فارمولا کے تحت کفر پر اپنی شرمساری کے کاغذ پر دستخط کروائے گئے۔ ظلم، روح کو نہیں دستخط کو مانتا ہے۔ کمپنیلاکورہا کردےا گیا۔
مگر دو ماہ بعد پادریوں کی کرخت انگلیاں پھر اُس کے گریبان پہ تھیں۔ بہانہ یہ تھا کہ ایک قیدی نے پھانسی پانے سے قبل کمپنیلا کے خیالات کو کافرانہ قرار دینے کی گواہی دی۔ الزامات ، تحقیقات اور عدالت کی میز پہ ملزم کے بکھرے مسودے اس الزام کے سچ ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ پادری ثابت تو کچھ نہ کرسکے مگردس ماہ تک کمپنیلا کال کوٹھڑی میں یرغمالی رہا۔ رہائی پر پادریوںکی مرضی کے خلاف وہ اپنے آبائی علاقے نہ گیا بلکہ ملک کے جنوبی حصوں کو نکل گیا جہاں سپین نے قبضہ کر رکھا تھا۔ سپین کی سامراجیت اپنے ساتھ جاگیرداری ، رجعت ، حاکموں والے مظالم، غربت اور استحصال لائی تھی۔ کمپنیلا نے یہ سب کچھ اس دورے میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ چنانچہ اب اس نے سپین کے خلاف لڑنے کا پکا فیصلہ کرلیا۔ظاہر ہے سازش کا مرکز وہ خانقاہ تھی جہاں کمپنیلا رہتا تھا۔ مگر جاسوسی ہوئی اور سپین کے نو آبادکاروںکو خبر ہوگئی۔ سارے باغی گرفتار۔ کمپنیلا نے پکڑائی نہ دی اور روپوش ہوکر دور پہاڑوںمیں بھاگ گیا۔ مگر مالک مکان نے اسے ہسپانویوں کے حوالے کردیا۔ اس کا والد اور بھائی گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ اور اس بار لمبی جیل مقدر میں تھی ۔ سارے لوگوں نے تشدد کے سامنے ہتھیار ڈال کر سازش کا اعتراف کرلیا ۔ مگر کمپنیلا نے ہر الزام سے انکار کردیا۔ اُن کی لاٹھی اُس کی پیٹھ ۔ مگر اڑارہا۔
بچت کی ایک راہ نظر آئی۔ گورکی کے کامو کی طرح کمپنیلا نے خود کو پاگل بنادیا۔ ماہر سے ماہر ڈاکٹر بھی سازش کے لیڈر کی مہارت نہ جان سکے۔ اور جان نکال دینے والے تشدد کے بعد اُسے پاگل ہی قرار دیا گیا۔ خطرناک کمپنیلا نے سزائے موت سے بچ کر عمر قید کی سزا پائی۔
ادھ موا کمپنیلا اپنے ذہن میں ” سورج کا شہر“ نامی کتاب کا مواد کب سے لےے پھررہا تھا۔ اب اس نے سوچا کہ اپنی کتاب ڈکٹیٹ کروائے۔ اُس نے حکام سے مطالبہ کیاکہ اس کے ساتھیوں کو اس کے سیل منتقل کیا جائے تاکہ اُسے پانی تو پلواسکیں۔ قسمت کا مذاق دیکھوکہ حکام نے اس کے باپ اور بھائی کو اُس کے سیل منتقل کردیا جو کہ اس کی خدمت تو خوب کرتے تھے مگر اُس سے ڈکٹیشن نہیں لے سکتے تھے۔ اَن پڑھ جوتھے۔
چنانچہ وہ خود لکھنے میں جُت گیا۔باپ حیران تھا کہ درد کے ہاتھوں مر جانے کی حد تک پڑا کمپنیلا کیا ضروری چیز لکھنے کی مشقت کررہا ہے۔
” سورج کا شہر“ کمپنیلا کی سب سے اہم تصنیف ہے۔ اس کتاب میں وہ ایک تصوراتی( یوٹوپیائی )کمیونسٹ ریاست کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس ریاست میں ایک فطری مذہب ہوتا ہے جس کو فطری قوانین چلاتے ہیں۔ وہ اس ریاست کے سربراہ کو ” سورج بادشاہ“ کہتا ہے۔ تین وزیر سورج بادشاہ کی مدد کرتے ہیں: ایک کا نام قوت ہے ، دوسرے کا دانائی اور تیسرے کا محبت ۔ اس رپبلک میں ساری جائیداد‘ نجی گھر‘ اور خاندان کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ ”سورج کا شہر “ جنیوا کے ایک جہاز راں (جو امریکہ تک سمندری سفر میں کولمبس کے ساتھ رہا تھا) اور ایک نواب ہاسٹپلر کے درمیان ایک شاعرانہ ڈائےلاگ کی صورت میں ہے۔ اس کتاب کا لب لباب ایک مثالی سماج کو بیان کرنا تھا جو اصل دنیا کے تشدد، بد نظمی اور غیر عقلی پن کے برعکس فطرت سے ہم آہنگ تھا، جسے خدا کے اندرونی ” آرٹ“ اور دانائی کے اظہار کے بطور سمجھا جائے۔ کمپنیلا مکمل طور پر قائل تھا کہ آج کا معاشرہ ناانصافی اور ناخوشی کی بھول بھلیاں ہے۔ اس لئے کہ وہ اِس فطری ماڈل سے روگردانی کرگیا تھا۔ ایک شہرمیں جتنی زیادہ ہیئتِ سیاسی ہوگی، وہ اتنا زیادہ مسرور ہوگا ، اس کے انفرادی حصے اس طرح مربوط و منسلک ہوں کہ وہ ایک متحد جسم بنے اور اس کے مختلف بازو، کام کے لحاظ سے متنوع ، مگرسماجی بہبود کی خاطر مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں۔
”سورج کے شہر“ میں کوئی پیشہ حقیریا کم اہمیت والا نہیں ہے، بلکہ سب کے سب پیشے مساوی اور باوقار ہیں۔ اصل میں دستکار اور راج مستری جیسے ورکرز ،جن کو زیادہ محنت خرچ کرنی پڑتی ہے ، کو زیادہ تعریف ملتی ہے۔ یہاںہر شخص کے لئے کام کے سارے شعبوں سے واقفیت لازمی ہے، پھر ہر شخص کو اُس کام میں جت جانا ہے جس کی طرف اُس کا رجحان سب سے زیادہ ہو۔
ان لوگوں کے پاس کوئی نوکر نہیں ہیں ۔ اور کوئی سروس بے کار نہیں سمجھی جاتی۔ جس بات کو یہ لوگ سب سے زیادہ قابلِ نفرت سمجھتے ہیں وہ بے کار بیٹھنا ہے۔ یوں ساری آبادی کام کی عظمت کی قائل ہے اور بے عملی اورپھکڑ پن سے وابستہ، اشرافیہ والی بے ہودگی کے تصور کو مستردکرتی ہے ۔ محنت کی مساوی تقسیم کی برکت سے ہر فرد کے لئے روزانہ چار گھنٹے کام کرنا کافی ہوتا ہے ۔ مگر یہ ضروری ہے کہ وہ سب کام کریں اس لئے کہ ایک کے بیکار بیٹھنے سے دوسروں کی کاوشوں پر اثر پڑتا ہے۔ شہری کے پاس کچھ نہیں ہوتا، اس کے برعکس وہ خورا ک سے لے کر گھر تک، حصولِ علم سے لے کر سرگرمیوں تک، اعزازات سے لے کرتفریح تک ہر نعمت سے مالا مال ہیں۔
کمپنیلا کے یوٹوپیائی شہر،” سورج کا شہر“ کی دیواریں نقش و نگار والی ہیں۔ یہ تو شہر کی فصیل ہی نہیںیہ غیر معمولی تھیٹر کے پردے ، اور علم کے مفصل انسائیکلو پیڈیا کے صفحے بھی ہیں۔ محلات کی دیواریں بھی آرٹ اور سائنس کی تصاویر سے پینٹ کی ہوئی ہیں۔ اس کتاب میں مندر کے ستونوں والی دیوار سے لے کر اور رفتہ رفتہ بڑے دائروں میں اتر کر ، جس طرح کہ مرکری سے لے کر زحل سیارہ ہوتا ہے، آسمانوں اور ستاروں کی تصاویر سے ہمارا سامنا ہوتا ہے، ریاضی کے ہندسوں سے، روئے زمین پہ موجود ہر شہر سے، اور معدن، سبزی اور جانوروں کی دنیائوں کے رازوں سے سامنا ہوتا ہے جب تک کہ ہم انسانوں تک پہنچتے ہیں۔ باہر کی دیوار پر قوانین کو ظاہر کیا گیا ۔ علم لائبریریوں کی طرح الگ کتابوںمیں بند نہیں ہے بلکہ کھلے عام ہر آنکھ کو نظر آتا ہے۔ اس منظر سے سیکھنے کا عمل تیز اور آسان ہے۔
اس کتاب کے آنے سے پادریوں کے نظریات کاتو لباس اتر چکا تھا۔ اب تو وہ آپے سے باہر ہوگئے۔پاگل پر کون مقدمہ چلاتا ہے مگر ملاّ انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن کہاں مانتے ہیں خواہ زمانہ کمپنیلا کا ہو یا ڈاکٹر نجیب کا۔
جنوری1603 میں کمپنیلا کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ اسی دوران اسے گیلیلو کے انجام کے بارے میں معلوم ہوا ۔ اس نے اُس ماہر فلکیات کو بہت سراہا۔ اور بائبل سے حوالے دے دے کر بتایا کہ گیلیلو کی تعلیمات انجیل مقدس سے متصادم نہیں۔اس نے ” گیلیلو کا دفاع“ لکھا جس میں اس نے کوپرنیکس کے نظام کا دفاع کیا اور فطرت کو الہامی کتابوں سے جدا کر دیا۔ وہ گیلیلو کا دلدادہ تھا اور کئی سالوں تک اس سے خط و کتابت میں رہا تھا۔
کمپنیلاجیل میں سڑتا رہا ۔ اب اس کی کتابیں پروٹسٹنٹ جرمنی میںچھپنا شروع ہوگئیں۔1600 میں” سپین کی بادشاہت“ ،1601 میں ” سیاسی اقوال زریں“،1607-1605میں ”کفر پہ فتح“، 1606میں”قید خانے کی یاد داشت“، 1623-1609 میں ” ما بعد الطبیعات “،1624-1613 میں ” تھیالوجیا“…….. اور پھر اُس کی سب سے مشہور تصنیف ” سورج کا شہر“۔
27 سال جیل کاٹنے کے بعد 23مئی 1926 کو اس بڑے انسان کو رہائی نصیب ہوئی۔ وہ بھی اس لئے کہ ہسپانوی وائسرائے کا پوپ کے مقامی نمائندے سے جھگڑا ہوگیا۔ وائسرائے نے خار میںآکر تماسوکمپنیلا کو رہا کردیا۔
مگر ایک ماہ رہائی کے بعد پوپ کے لوگوں نے اُسے اغواءکرلیا اور وائسرائے کی حدود سے باہر ایک بار پھر چرچ کے جیل میں ڈال دیا۔
ایک دن تقدیر اس پر اچانک راضی ہوگئی۔ پوپ اور سپین کے بادشاہ میں سخت جھگڑا ہوا اور پوپ کی جان کو خطرہ ہوا ۔ کمپنیلا نے یہاں وہ کھیل کھیلا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس نے مشہورکردیا کہ وہ تقدیر کو بدلنے کا علم جانتا ہے۔ یہ خبر بزدل پوپ تک پہنچی تو اس نے اپنے عقیدے اورمذہب کے خلاف اس بات پر یقین کرلیا۔ جو پوپ کل تک ایسی بات کرنے والے کو کافر قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا، آج اُس نے اپنی جان بچانے کی خاطرخدا کی بنائی ہوئی تقدیرکو بدلنے کے دعوے دار کمپنیلا کو رہا کردیا۔۔۔۔ باعزت رہائی۔ جی ہاں، چرچ نے خدا کے سب سے بڑے دشمن کو 50 قید خانوں میں33سال جیل دے کر رہا کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ کمپنیلا خدا کے سب سے بڑے ٹھیکیدار ” پوپ “ کو نچواتا رہا۔کبھی دیکھو تو وہ آتش دان کو سجدہ کررہا تھا، کبھی بے خدائی بھجن گارہا تھا،اورکبھی بت پرستی اور آتش پرستی کررہا تھا جنہیں ایک وقت وہ کافر کہہ کر جلایا کرتا تھا۔
فادروں،اور سسٹروں کا سردار ” خدا کی رضا“ کو تبدیل کرنے میںلگا ہوا تھا، ” جنت “ کی طرف اپنی روانگی کوملتوی کروا رہا تھا او راِس ” بری“ دنیا میں اپنے قیام کو طویل کررہا تھا۔۔۔۔
اس دوران کمپنیلا نہ صرف پوپ کا باعزت مہمان اور مشیر تھا بلکہ اُسے اپنے ضبط شدہ مسودے بھی مل گئے۔
مگر،ایک بار پھر کمپنیلا نے وطن کی آزادی کے لےے خفیہ سازش تیار کی اور ایک بار پھر یہ سازش اپنوں کی جاسوسی کا شکار ہوگئی۔ ہسپانویوں نے سارے ساتھی گرفتار کرلےے۔ اور اب کمپنیلا کے لئے جائے پناہ صرف ایک تھی، سپین کا دشمن فرانس۔ وہ فرانس کے سفیر کے نوکر کی وردی میں فرانس فرار ہوا۔
وہاں لوئی سیزدھم کے دربار میں اس کی خوب آئو بھگت ہوئی ۔شاہِ فرانس نے اس کی باقاعدہ پنشن مقرر کر دی ۔ یوں وہ اپنی زندگی کے آخر تک وہاں”شہرت و خیرات“ میں رہتے ہوئے مطالعہ اور تدریس میں مصروف رہا ۔ کمپنیلااکہتر سال کی عمر میں21مئی1639 کو پیرس میں انتقال کرگیا۔